نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
سید اکبر رضا نقوی (ولادت 5؍ جولائی 1944ء) قلمی نام اکبر رضا جمشید بن سید علی جواد وسکینہ خاتون بی اے، بی ایل، سبکدوش ڈسٹرکٹ جج ساکن افضل پور، پچھم گلی نزد مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ ، پٹنہ کا شمار بہار کے انگلیوں پر گنے جانے والے محبتیں اردو میں ہوتا ہے ، وہ بغیر کسی تنظیم اور فرد کے تعاون کے اردو کی خدمت کرنے والے کو ہر سال ’’اکبر رضا جمشید ایوارڈ ‘‘سے نوازتے ہیں، اردو کے نام پر تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں، اور سارا صرفہ اپنی جیب خاص سے کرتے ہیں، اب تک 2013ء سے وہ ترسٹھ (63)لوگوں کو ایوارڈ دے چکے ہیں، جن میں بقول ثوبان فاروقی بابائے اردو ویشالی انوار الحسن وسطوی ان کے صاحب زادہ عارف حسن وسطوی اور دوسرے نامور شعراء ادباء شامل ہیں، ان میں علیم اللہ حالی ، شوکت حیات، عطا عابدی ، اشرف استھانوی مرحوم، کامران غنی صبا ، انوار الہدیٰ ، ڈاکٹر ظفر انصاری ظفر ، حسن نواب حسن کے اسماء گرامی شامل ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ اردو کی اصل خدمت مدارس کے علماء کرتے ہیں، اور اردو اصلاً وہیں زندہ ہے، اکبر رضا جمشید کے انصاف کی عدالت میں کوئی مولوی اب تک ایوارڈ کا مستحق نہیں قرار پایا یا تو جج صاحب نے اس حقیقت سے اپنی آنکھیں موند لی ہیں، یا ان کے مشیر انہیں اپنے ہی گرد الجھائے رکھنا چاہتے ہیں، حقیقت جو بھی ہو دیو مالائی روایت میں انصاف کی دیوی کی آنکھیں کالی پٹی سے بندھی ہوتی ہیں، بغیر دیکھے بھی مولانا ابو الکلام قاسمی شمسی کو ایک پلڑا میں ڈال دیا جائے تو دوسری طرف کے پلڑے میں رکھے کئی’’ بٹکھرے‘‘ پر وہ تنہا بھاری پڑیں گے ، رونا صرف اسی کا نہیں ہے، اس کا بھی ہے کہ اردو کے حقیقی خادموں کی ہر سطح پر ان دیکھی ہو رہی ہے، کیا سرکاری اور کیا غیر سرکاری ۔
زیر مطالعہ کتاب انہیں اکبر رضا جمشیدسے انٹر ویو اور مصاحبہ پر مشتمل ہے، جسے ڈاکٹر عطاء اللہ خان، عرفی نام علوی اور ادبی نام ڈاکٹر اے کے علوی (ولادت 23؍ ستمبر 1955ئ) صدر جمہوریہ ایوارڈ یافتہ ابن ڈاکٹر اٰل حسن خان مرحوم نے مرتب کرکے ادارہ فکر ونظر ، صمد منزل ، کرن سرائے، سہسرام کے زیر اہتمام ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی سے شائع کرایا ہے ، ایک سو چار صفحہ کی قیمت دوسو روپے جج صاحب کی آمدنی کے اعتبار سے تو زائد نہیں ہے، لیکن یہ قیمت اردو کے عام قاری کے لیے خرید تے وقت بوجھ ثابت ہوگا، آپ کہہ سکتے ہیں کہ خرید تاکون ہے، اب تو اہل علم تک پہونچانا بھی مصنف ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے، جس کا تذکرہ خود اکبر رضا جمشید نے ایک سوال کے جواب میں کیاہے ، جو اسی کتاب میں مذکور ہے، اگر ایساہے تو جتنی قیمت چاہیے رکھ دیجیے، فرق کیا پڑتا ہے، لیکن کتاب ملنے کے جو چار پتے درج ہیں ان میں بک امپوریم سبزی باغ ، پٹنہ، شاید مفت دینے کو تیار نہ ہو بقیہ تین پتے جن کا تعلق موضوع کتاب اورمصنف سے ہے ، شاید وہاں سے حصول مطلب حسب منشاء ہو سکے، کتاب کا انتساب جناب اکبر رضا جمشید کی اہلیہ محترمہ ارشاد بیگم اور ان کے دونوں صاحب زادگان کے نام ہے، اس کے بعد اکبر رضا جمشید کے سوانحی کوائف کا اندراج کیا گیا ہے،جس کا نصف کم سے کم مکررہے، کیوں کہ ٹائٹل کے آخری پیج پر بھی وہ تفصیلات درج ہیں، بلکہ سوانحی کوائف میں تصنیفات کی تعداد دس اور ٹائٹل پر تصانیف کا ذکر ہے، جن میں چار کم ازکم ڈرامے ہیں، اور ایک کتاب اردو شعراء کی حب الوطنی پرزیر طبع ہے، سوانحی کوائف میں اکبر رضا جمشید کے فن اور شخصیت پر ایک اور کتاب کا علم ہوتا ہے ، جسے پرویز عالم نے مرتب کیا ہے ، ایک درجن میں دو کم، ایوارڈ اور اعزازات بھی جج صاحب کو دیے گیے ، اس کا بھی ہمیں سوانحی کوائف سے پتہ چلتا ہے ، پھر اکبر صاحب کے ذریعہ مختلف سالوں میں ایوارڈ یافتگان کا ذکر بھی اس کتاب میں ملتا ہے۔
اے کے علوی صاحب کے قلم سے ہی اس کتاب کا پیش لفظ تحریر ہوا ہے، یہ بیانیہ اور داستانی انداز میں ہے ، جس میں اے کے علوی صاحب نے جمشید اکبر صاحب کا حلیہ، اردو کے قارئین کے ذریعہ کتابوں کی ناقد ری اور ان کے والد صاحب کی خدمات کا بھی قدرے تفصیل سے ذکر کیاہے، لیکن اتنا بھی نہیں کہ اسے اطناب سے تعبیر کیا جائے ، تین صفحہ کے پیش لفظ کو ایجاز ہی کہناچاہیے، اس کے بعد اکبر رضا جمشید وکثیر الجہت شخصیت کے عنوان سے وہ انٹر ویو ہے، جو اس کتاب کا اصل موضوع ہے ، اے کے علوی صاحب نے سوالات ایسے مرتب کیے تھے کہا کبر صاحب کی پرت در پرت ، شخصیت کھل کر سامنے آجاتی ہے ، اکبر رضا صاحب نے بھی سوالات کے جوابات میں اپنی شخصیت ، خدمات تصنیفات اپنے مقدس سفر ایوارڈ کے دائرہ کا زایوارڈ میں دی جانے والی چیزوں کا تذکرہ کیا ہے ، البتہ دی جانے والی رقم کو صیغۂ راز میں رکھا ہے ، کچھ تو خفا میں رہے تاکہ قاری کا تجسس بڑھتا رہے، یہ انٹر ویو چودہ سے باون صفحات پر جا کر ختم ہوتا ہے، اس کے بعد تاثرات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جن میں بیش تر ایوارڈ کی تقریبات اکبر رضا صاحب کی کسی کتاب کے اجراء پر اظہار خیال سے ماخوذ ہے، جن لوگوں کے تاثرات کو اس کتاب میں جگہ دی گئی ہے ان میں سابق صدر جمہوریہ اور اس وقت کے وزیر خوراک حکومت ہند فخر الدین علی احمد قاضی عبد الودود ، مولانا سید کلب عابد، پروفیسر اجتبیٰ حسین رضوی، شکیلہ اختر، عابد رضا بیدار ، سرور علی ، شوکت حیات، شفیع قریشی ، ہارون رشید ، مولانا ظفر عباس ، مولانا اسد رضا ، میجر بلبیر سنگھ، نذرا حسن ، منیر حسین، پروفیسر علیم اللہ حالی، سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی،پروفیسر شمشاد حسین ، ڈاکٹر قمر الحسن ، انیل سلبھ، اعجاز علی ارشد ،ریحان غنی، محفوظ عالم، نتیش کمار، فخر الدین عارفی، ریاض عظیم آبادی، محمد نعمت اللہ ، اشرف استھانوی، مولانا محمد محسن ، ہیمنت شریواتسو، پروفیسر منظر اعجاز، ڈاکٹر ارمان نجمی، سیدشہباز عالم ، سید ارشاد علی آزاد، پروفیسر کلیم الرحمن ، امتاز احمد کریمی ، معین کوثر، پروفیسر قیام منیر، اسماعیل حسین نقوی، انوار الحسن وسطوی، آفتاب احمد اور سلطان آزاد کے تاثرات شامل ہیں، جو سب کے سب ان کی تقریروں سے ماخوذ ہیں، اس فہرست کو آپ دیکھیں، اس میں مسلم بھی ہیں، غیر مسلم بھی ، سیاسی حضرات بھی ہیں اور صحافی بھی ، شیعہ بھی ہیں اور سنی بھی، ادیب بھی ہیں اور شاعر بھی، ان میں کئی وہ بھی ہیں، جو اکبر رضا جمشید ایوارڈ پا چکے ہیں، اتنے حضرات کی گواہی جب اکبر رضا جمشید کی شخصیت اور خدمات کے حوالہ سے سامنے آگئی ہیں تو ان کی شخصیت کے کثیر الجہات ہونے اور ان کی خدمت کی وقعت اور عظمت کس کے دل میں جاںگزیں نہیں ہوگی، اور کون ان کے اخلاق وکردار کا اسیر نہیں ہوگا، اسلام میں دوہی کی گواہی ثبوت کے لیے کافی ہوتی ہے، یہ اتنے بڑے بڑے اساطین علم کی شہادت اور اتنی بڑی تعداد میں اکبر رضا جمشید کی محبوبیت ومقبولیت کی بین دلیل ہے، خدا انہیں سلامت رکھے اور خوب کام لے۔
اس کتاب کو میرے پاس لے کر اکبر رضا جمشید خود تشریف لائے تھے، میری ان سے پہلی ملاقات تھی، تپاک سے ملے، محبت سے پیش آئے ، اعترف کیا کہ میں آپ تک نہیں پہونچ سکا تھا،ا لبتہ آپ کی تحریریں دیکھتا رہا ہوں۔ کتاب کے مصنف نے انتہائی کی تھی، اے کے علوی بھی محبت کرتے ہیں، اس کتاب کی ترتیب میں جو سلیقہ انہوں نے برتا ہے وہا ں کی سلیقہ مندی کا حسین مظہر ہے۔