شعبہ اردو نیتیشور کالج،مظفرپور
اردو ڈائرکٹوریٹ محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار کی ہدایت کے مطابق مختلف اضلاع میں قائم اردو سیل کی طرف سے ہر سال فروغِ اردو سمینار و مشاعرہ، ورک شاپ اور طلبا کے لیے تقریری مسابقہ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان تمام سرگرمیوں میں چونکہ ہر ضلع کا کلکٹریٹ آفس براہ راست طور پر شامل ہوتا ہے ، اس وجہ سے فروغِ اردو سمینار و مشاعرہ ہو، ورک شاپ یا پھر تقریری مسابقہ کا پروگرام ، شائقین اردو کی بھرپور شرکت ہوتی ہے۔ اردو زبان سیل کی مختلف ضلع اکائیوں کی طرف سے ہر سال ایک مجلہ کی بھی اشاعت ہوتی ہے۔ جس میں علمی و ادبی مضامین اور تخلیقات کے علاوہ متعلقہ ضلع سے وابستہ اہم معلومات پیش کی جاتی ہیں۔ ایسا ہی ایک خوب صورت اور دستاویزی مجلہ ’’ایوانِ اردو‘‘ کے نام سے ضلع اردو زبان سیل مظفرپور نے شائع کیا ہے۔ مجلہ کا نام ایک مشہور رسالہ کے نام پر رکھنے کی وجہ کا علم تو مجھے نہیں ہے البتہ مجلہ کے مطالعہ کے بعد مجھے یہ کہنے کا حق ہے کہ ضلع اردو زبان سیل مظفرپور کا ضلع اردو نامہ 2020-21 دوسرے اضلاع کے مجلوں سے زیادہ معیاری، خوب صورت اور دیدہ زیب ہے۔ اس کے لیے پوری ادارتی ٹیم اور ضلع اردو زبان سیل کے تمام ذمہ داران انتہائی مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اس مجلہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں 40صفحات پر مشتمل ہندی کا حصہ بھی ہے۔یقینی طور پر ہندی کے قارئین کو اردو سے قریب کرنے کی یہ ایک عمدہ کاوش ہے جس کی ستائش کی جانی چاہیے۔
مجلہ کے آغاز میں ضلع مجسٹریٹ مظفرپور پرنو کمار کا پیغام ہےجس سے ان کی اردو دوستی کا پتہ چلتا ہے۔ موصوف اردو زبان کے شیدائی ہیں اس کا اظہار مختلف مواقع پر ان کی گفتگو سے بھی ہوتا ہے۔اپنے پیغام میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:
اردو اور ہندی دونوں زبانیں بہنوں کی طرح ہیں۔ اردو کے بغیر خوب صورت ہندی اور ہندی کے بغیر خوب صورت اردو لکھنا بولنا مشکل ہے۔”
مجلہ میں ڈاکٹر مطیع الرحمن عزیز کی ادارتی تحریر سے قبل اردو ڈائرکٹوریٹ کے ڈائرکٹر احمد محمود، مظفرپور کے ایڈشنل کلکٹر راجیش کمار ،ضلع اردو زبان سیل مظفر پور کے انچارج محمود عالم اور ضلع تعلیمی افسر مظفرپور عبدالسلام انصاری کے پیغامات شامل ہیں۔ اس حصے کا سب سے مؤثر پیغام عبدالسلام انصاری (ضلع تعلیمی افسر مظفرپور ) کاہے۔ موصوف نے سرکاری سطح سے خاص طور پر مظفرپور کے اسکولوں میں اردو تدریس کے نظام کو مؤثر بنانے کے لیےجو اقدامات کیے ہیں اس کی مثال نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ افسوس کہ اردو دنیا میں ان کے کاموں کی پذیرائی جس طرح ہونی چاہیے، اب تک نہیں ہو سکی ہے۔ اپنے پیغام کے آخری حصہ میں وہ لکھتے ہیں:
"اول میر امقصد اردو کا فروغ اور آخر بھی اردو کا فروغ ہی میرا مقصد ہے تاکہ مسلم معاشرہ اس کے ذریعہ بہتر روزگار حاصل کر سکے۔ اس موقع سے صرف میری کوشش ہی کافی نہیں ہے بلکہ ملت کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اردو کے فروغ کے لیے خود کو تیار کرے۔”
حرف آغاز کے عنوان سے ادارتی تحریر میں ڈاکٹر مطیع الرحمن عزیز "ایوان اردو” کا تعارف پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"ضلع اردو نامہ مظفرپور”ایوانِ اردو” شائع ہو کر آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس میں کو شش کی گئی ہے کہ مظفرپور کے تاریخی ، تہذیبی، ثقافتی و علمی پہلوئوں کو اُجاگر کیا جائے۔”
مجلہ میں شامل مضامین کے مطالعہ کے بعد یہ بات اطمینان کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ "ایوانِ اردو” کی ادارتی ٹیم اپنی کوشش میں پوری طرح کامیاب ہے۔ "شہر مظفرپور” کے عنوان سے مجلہ میں شامل پہلا مضمون پروفیسر سید ابوذر کمال الدین سابق وائس چیئرمین بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل، پٹنہ کا ہے۔ اپنے اِس مضمون میں سید ابوذر کمال الدین نے مظفرپور شہر کا جائزہ علمی، ادبی، تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی حوالوں سے لیا ہے۔
پروفیسر خورشید سمیع نے اپنے مضمون "عوامی سطح پر اردو زبان کے فروغ میں درپیش مسائل اور ان کا حل” میں اختصار کے ساتھ اردو کے اہم اور بنیادی سطح کے مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ نیز ان کے حل کے لیے مفید مشورے بھی دئیے ہیں۔ اردو کے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے اکثر افراد اتنے جذباتی ہو جاتے ہیں کہ وہ اردو کے نام پر ہونے والے سمینار، مشاعرے اور ادبی محفلوں کو ہی ختم کرنے کی بات کرنے لگ جاتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ سمینار مشاعروں میں خرچ ہونے والے پیسے بنیادی سطح پر اردو کی ترویج و اشاعت میں خرچ ہوں۔ پروفیسر خورشید سمیع باشعور استاد ہیں۔ سائنس ان کا موضوع ہے چنانچہ وہ اپنی بات بہت ہی معروضیت کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔انہوں نے اپنے مضمون میں اِس بات پر زور دیا ہے کہ اردو کی ترویج و اشاعت ہر محاذ پر ہونی چاہیے۔ اس کے لیے جہاں ایک طرف علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ عام فہم زبان کو فروغ دیں وہیں اخبارات و رسائل،سمینار ، مشاعرے اور ادبی محفلیں بھی اردو کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یقناً یہی درست اور متوازن مؤقف ہے۔
مفتی ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ نے اپنے مضمون "بہار میں اردو تحریک” میں تاریخی حوالوں سے بہار کی اردو تحریک کا جائزہ لیا ہے۔ اردو تحریک کی کامیابیوں کا ذکر کرنے کے باوجود وہ یہ لکھتے ہیں:
"۔۔۔۔ لیکن یہاں پر ہمیں اس تلخ حقیقت کو بیان کرنے دیجئے کہ سرکاری سطح پر اتنی ساری کامیابی کے باوجود ہم یہ لڑائی اپنوں میں ہار گئے ہیں، گائوں اور دیہاتوں میں اردو زبان کے فروغ کے لیے کچھ نہیں کیا جا سکا ہے، آزادی کے بعد ہمارے بچے اردو زبان و ادب سے دور اور بہت دور ہو گئے ہیں۔”(صفحہ 23)
"مظفرپور میں اردو تحریک ایک جائزہ” عنوان کے تحت پروفیسر فاروق احمد صدیقی نے بطور خاص ڈاکٹر مغفور احمد اعجازی اور پروفیسر قمر اعظم ہاشمی کی تحریکی خدمات پر روشنی ڈالی ہے۔ بلاشبہ ان دونوں شخصیات نے اردو زبان و ادب کے فروغ میں جو کردار ادا کیا ہے، اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ مضمون کا عنوان اس بات کا متقاضی تھا کہ مظفر پور شہر میں اردو تحریک کی موجودہ صورت حال پر نظر ڈالی جاتی۔
پروفیسر حامد علی خاں(سابق صدر شعبۂ اردو بہار یونیورسٹی) کا "شہرنامہ مظفرپور” ایک دستاویزی مقالہ ہے۔ شہروں کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ مقالہ بہت ہی معلوماتی ہے۔ پروفیسر توقیر عالم (سابق پرووائس چانسلر مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی) نے اپنےمضمون”اردو ہندو مسلم اتحاد کی زبان ہے "میں ماضی قریب و بعید کے کئی غیر مسلم ادبا و شعرا کا حوالہ دیتے ہوئے اردو تہذیب کی مذہبی رواداری کو موضوع بنایا ہے۔
ہندوستان کی تحریک آزادی میں بے شمار مسلم مجاہدین آزادی نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ ان مجاہدین آزادی میں شاہ علی حسین اور عبدالمجید بھی شامل ہیں۔ ان دونوں کا تعلق مظفرپور سے تھا۔ محمد کلیم اللہ نے اپنے مضمون میں ان دونوں مجاہدین آزادی کے کارناموں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
پروفیسر حسن رضا(صدر شعبۂ اردو آر ڈی ایس کالج) نے اپنے مضمون "مظفرپور سے جاری ہونے والے رسائل پر ایک نظر”میں مظفرپور کے اردو رسالوں کا جائزہ لیا ہے۔ عظیم مجاہدین آزادی کھدی رام بوس اور پرپھل چند چاکی کا وہ واقعہ ہم مں سے اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں جس میں یہ دونوں مجاہدین آزادی کنگس فورڈ کو ختم کرنے کے ارادے سے بنگال سے مظفرپور آتے ہیں لیکن اپنے مشن میں ناکام ہوتے ہیں ۔ پرپھل چند چاکی پولیس انسپکٹر سے لڑتے ہوئے جاں بحق ہوتے ہیں اور کھودی رام بوس کو تختہ دار پر چڑھا دیا جاتا ہے. ان دونوں کی جدوجہد میں مظفرپور شہر بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے. ڈاکٹر مطیع الرحمن عزیز نے اپنے مضمون میں ان دونوں عظیم مجاہدین آزادی کی خدمات اور مظفرپور سے وابستہ ان کی تاریخ کو یاد دلایا ہے.
"اردو کی ابتدائی تعلیم میں درپیش مسائل اور ان کا حل” عنوان کے تحت ڈاکٹر منصور معصوم نے اعداد و شمار اور حقائق کی روشنی میں مسائل کی نشاندہی کی ہے. وہیں پروفیسر ابوالبرکات صدر شعبہ اردو ایس پی سنہا سائنس کالج نے "اردو زبان کے فروغ میں انتظامیہ کی ذمہ داری” عنوان سے سرکاری اور انتظامی سطح پر اردو کے فروغ کے امکانات پر روشنی ڈالی ہے.
اردو کے تعلق سے ایک عمدہ تحریر محمد رفیع کی بھی اس مجلہ میں شامل ہے. محمد رفیع قومی اساتذہ تنظیم کے کنوینر ہیں. سرکاری اسکولوں میں اردو کے نفاذ کے لیے ان کی کاوشیں قابل قدر ہیں. محمد رفیع کی خاص بات یہ ہے کہ وہ صرف مسائل کا نوحہ نہیں پڑھتے ہیں بلکہ عملی پیش قدمی پر یقین رکھتے ہیں. ان کا مضمون اردو کے لیے کام کرنے والوں کے لیے بہت کارآمد ہے.
مظفرپور شہر کا ذکر ہو اور لیچی کا تذکرہ نہ ہو ایسا ممکن ہی نہیں ہے. ڈاکٹر محمد سلیم اللہ نے لیچی کی مختلف اقسام پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.
حافظ محمد نورالحق شمسی مرزا پوری نے اپنے مضمون "مظفرپور کے کچھ اہم ترین مسلم مجاہدین آزادی” عنوان کے تحت تحریک آزادی میں مظفرپور کے علماء اور مجاہدین آزادی کی خدمات کا بھرپور جائزہ پیش کیا ہے. وہیں روزنامہ انقلاب سے وابستہ صحافی ایس ایم باقر نے اپنے مضمون میں مدارس اسلامیہ اور اردو کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ملک کی تعمیر و ترقی میں ان کے کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
زیر نظر مجلہ میں ڈاکٹر یاسمین خاتون، طیبہ معصوم، عبدالستار، بلال احمد کریمی، محمد آفتاب عالم انصاری، بلقیس بیگم، ارشاد الباری آزاد اور شاہدہ پروین کی تحریریں بھی شامل ہیں. نثری ادب میں صرف ایک کہانی شامل ہے. محمود عالم نے فارسی کہانی کا ترجمہ "خودکشی” کے عنوان سے کیا ہے. نثری ادب کے حصہ میں چند افسانے شامل کیے جا سکتے تھے.
پروفیسر نجم الہدی، ڈاکٹر فاروق احمد صدیقی، ڈاکٹر قیصر جمال، ڈاکٹر جلال اصغر فریدی، پروفیسر محمد اشرف امام، اسد رضوی، محفوظ عارف، راقم کامران غنی صبا، ڈاکٹر محمد صبغۃ اللہ حمیدی، ایم آر چشتی، جمیل اختر شفیق، اشرف مولانگری، ڈاکٹر طاہر الدین طاہر، محمد طالب حسین آزاد، محمد منصور عالم منصور، رومان رضوی، تعظیم احمد گوہر، نسیم احمد آرزو اور میم مظفرپوری کی غزلیں مجلہ کی زینت میں اضافہ کر رہی ہیں تاہم بعض شعرا کے کچھ اشعار مجلہ کے معیار پر حرف لا سکتے ہیں. بعض اشعار کی قرات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کتابت کا سہو نہیں ہے.
مجلہ میں ساگر کمل کی ایک نظم "کاش کہ ہم سب بچے ہوتے” بھی شامل ہے.
مجموعی اعتبار سے ضلع اردو زبان سیل مظفرپور کا مجلہ "ایوان اردو” لائق مطالعہ ہے. سرورق اور طباعت عمدہ ہے. کاغذ بھی معیاری ہے. بہار کے تمام اضلاع میں اردو زبان سیل کا ضلعی دفتر قائم ہے. تقریباً ہر ضلع سے اردو کا مجلہ بھی نکلتا ہے لیکن میری نظر سے اب تک جتنے بھی اضلاع کے مجلے گزرے ہیں اس میں ضلع اردو زبان سیل کا مجلہ” ایوان اردو” نسبتاً زیادہ معیاری اور خوبصورت ہے. اس کے لیے مجلس ادارت کی پوری ٹیم بطور خاص ڈاکٹر مطیع الرحمن عزیز مبارکباد کے مستحق ہیں۔