Home ستاروں کےدرمیاں ایسی چلی ہوائے شام سارے چراغ لے گئی ـ مفتی اشرف عباس قاسمی 

ایسی چلی ہوائے شام سارے چراغ لے گئی ـ مفتی اشرف عباس قاسمی 

by قندیل

 

استاذ دارالعلوم دیوبند 

آج 21مئی 2021 نماز جمعہ کے معا بعد اس خبر صاعقہ اثر نے انتہائی مضمحل کردیا کہ ہمارے ایک اور بزرگ استاذ،دارالعلوم دیوبند کے معاون مہتمم امیر الہندحضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری رح بھی طویل علالت کے بعد رفیق اعلیٰ سے جاملے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ان للہ مااخذ ولہ ما أعطی۔

وبا کے ان ایام میں جب کہ دار العلوم دیوبند اپنے کئی قابل قدر اساتذہ کی خدمات سے محروم ہوچکا ہے، اس حادثہ فاجعہ سے اس کو اور پوری ملت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ان پے درپے حادثات کی وجہ سے دار العلوم کے طلبہ اور وابستگان جس کربناک کیفیت سے گزر رہے ہیں،اس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت قاری صاحب اسلامیان ہند کا قیمتی سرمایہ اور کاروان ملت اسلامیہ کے قافلہ سالاروں میں تھے۔جمعیۃ علماء ہند کے صدر عالی قدر اور دارالعلوم دیوبند کے کئی شعبوں کے روحِ رواں تھے۔وہ خانوادہ نبوت سے تعلق رکھنے والے ایک خوش اخلاق ،اعلی اقدار کے حامل باکردار انسان تھے۔ ان کے ایک ایک عمل،ظاہری رکھ رکھاؤ اور چہرے بشرے سے شرافت ونجابت عیاں تھی۔ وہ ایک اصول پسند مہتمم،طلبہ سے بے انتہا محبت کرنے والے اور ان کی بہتری وراحت کے لیے اپنے آرام کو تج دینے والے مشفق استاذ،ماتحتوں کا خوب خیال رکھنے والے منتظم ،ملت کی زبوں حالی اور معاشرے کے بگاڑ پر تڑپنے اور اس کی بہبود کے لیے ہمہ وقت منصوبہ بندی کرنے والے مدبرومفکراور بالغ نظر وبابصیرت عالم دین تھے،آپ کی رحلت سے دارالعلوم دیوبند اور اس کے مختلف شعبوں کا جتنا بڑا نقصان ہوا ہے،شاید ہی کسی اور شخصیت کے جانے سے اتنا زیادہ نقصان ہوا ہو۔ حضرت قاری صاحب سے1999ء میں ہمیں موطا امام مالک پڑھنے کا موقع ملا،اس وقت آپ استاذ حدیث ہونے کے ساتھ دار العلوم کے نائب مہتمم بھی تھے، ہمارےرفقاء درس میں آپ کے فرزند گرامی جناب مفتی عفان صاحب بھی تھے۔

طلبہ کے لیے آپ کی شفقت مثالی تھی۔معمولی طالب علم بھی اپنا دکھڑا لے کر حاضر ہوتا تو اس کی بات بھی بڑی توجہ سے سنتے جس سے اس کا دل بڑا ہوجاتا تھا۔طلبہ کی تقریری وتحریری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے،چنانچہ طلبہ دار العلوم کی دو مرکزی انجمنوں النادی العربی اور مدنی دارالمطالعہ کے تا دمِ آخر نگراں وسرپرست رہے،اور آپ کے یہاں اعزازی یا رسمی نگرانی یا کسی مقالے اور کتاب پر سرسری نظر ثانی کا کوئی خانہ نہیں تھا،بلکہ نظر ثانی اور نگرانی کا حق ادا کردیا کرتے تھے، انجمنوں کے پروگراموں کی جزئیات تک پر آپ کی گہری نظر تھی، دار الحدیث میں پیرانہ سالی ، ضعف اور مشغولیت کے باوجود دو دو بجے رات تک پروگرام سماعت فرماتے اور کسی بھی طرح کی اصلاح وتربیت سے دریغ نہیں کرتے۔ عربی سے آپ کو خاص شغف تھا،النھضۃ الادبیۃ آپ ہی کی تحریک پر شائع ہورہاہے،النادی کے پروگرام میں عربی میں آپ کا کلیدی خطاب ضرور ہوا کرتا تھا۔ میرے مشاہدے کے مطابق اتنے بڑے استاذ اور اتنے بڑے عہدے دار کی حیثیت سے طلبہ کی تربیت وتشجیع کے لیے سب سے زیادہ آپ ہی وقت فارغ کرتے تھے۔اس لیے اس حوالے سے طلبہ میں آپ کو غیر معمولی عظمت و جلالت حاصل تھی۔ دوسرے طلبہ کے لیے غیر معمولی اخلاص کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو صاحبزگان عطا کیے،علم وعمل اور صلاح و قابلیت کے اعتبار سے انھیں خاص امتیاز عطا کیا۔ لاک ڈاؤن کے سبب طویل تعلیمی تعطل کے دوران معزز اراکین مجلس شوریٰ نے جب آپ کے کاندھوں پر مساعدت اہتمام کی ذمہ داری ڈال دی تو آپ نے بڑی مستعدی اور تن دہی کے ساتھ اس خدمت گرامی کو انجام دیا،قبلہ حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے لیے بڑا سہارا ثابت ہوءے،حضرت کے مشورے سے آپ نے سارے انتظامی شعبوں کو انتہائی متحرک وفعال بنادیا،تعلیمی تعطل کے ایام کو کارآمد بنانے کے لیے تحقیق وتصنیف اور اصلاح معاشرہ کی کمیٹیاں تشکیل دیں اور سارے اساتذہ کو کام میں لگادیا اور روزانہ کی بنیاد پر کارکردگی کا جائزہ لیتے رہے جس سے دار العلوم کے اساتذہ اور عامۃ المسلمین کو خاطر خواہ فائدہ پہنچا،مستقبل میں بھی دارالعلوم کو آپ سے بڑی توقعات وابستہ تھیں لیکن تقدیر ہر تدبیر اور تمنا پر غالب رہتی ہے۔

آخری بار آپ سے ملاقات ماہ شعبان کے اواخر میں دیوبند کی سب سے بڑی تقریب گاہ فردوس گارڈن میں ہوئی،جہاں آپ نے انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ اپنے پوتے حافظ محمد ہشام سلمہ بن جناب مفتی محمد عفان صاحب کے تکمیل حفظ کا پروگرام رکھا تھا اور شاندار پر تکلف عشائیہ کا بھی نظم تھا،اس مختصر اور باوقار پروگرام میں مخدوم گرامی حضرت مولانا سید ارشد مدنی حفظہ اللہ سمیت علم و عمل کی پوری ایک کہکشاں موجود تھی،میں نے اپنی زندگی میں تکمیل حفظ پر حضرت قاری صاحب رح کی طرح کسی اور کو اس قدر اہتمام اور دل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ واقعی حضرت قاری صاحب رح کو قرآن مقدس سے خاص لگاؤ تھا،آپ خود بھی اچھا قرآن پڑھتے تھے اور دونوں فرزندانِ گرامی اور پوتوں کی ایسی تربیت کی ہے کہ ان کی تلاوت سن کر سامعین کی روح سرشار ہوجاتی ہے۔ اس پروگرام کے بعد مجھے ایک سفر میں جانا تھا،میں نے ملاقات کی اور سفر کی بابت عرض کیا تو بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ دعائوں سے نوازا،لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ آخرت اور رب کریم سے ملاقات کے سفر پر تو در اصل آپ روانہ ہونے والے ہیں۔۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی وسیع رحمتوں سے ڈھانپ لیں،حسنات کو قبول فرمائیں،صاحبزادگان سمیت جملہ لواحقین اور تلامذہ ومتعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائیں مختصر سوانحی خاکہ:

اپنے وطن مالوف منصور پور ضلع مظفر نگر میں 12اگست 1944ء کو سادات کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے ،ابتدائی تعلیم وطن ہی میں حاصل کی ، والد محترم جناب سید عیسیٰ صاحب رح نے آپ کی تعلیم و تربیت کی غرض سے دیوبند میں ہی سکونت اختیار کر لی تھی،اس لیے فارسی اور عربی کی مکمل تعلیم دارالعلوم دیوبند سے ہی ہوءی، 1965 میں دورہ حدیث شریف سے فرسٹ پوزیشن سے فراغت حاصل کی اس کے بعد دیگر فنون کی تکمیل کے ساتھ حضرت قاری حفظ الرحمن صاحب رح سےتجوید و قرات میں اور حضرت مولانا وحید الزمان کیرانوی رح سےادب عربی میں مہارت حاصل کی، اولا جامعہ قاسمیہ گیا میں پانچ سال تک تدریسی خدمات انجام دیں، پھر جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ میں گیارہ سال تک مختلف علوم و فنون کی کتابیں پڑھائیں ـ

1982ء میں دار العلوم دیوبند میں مدرس مقرر ہوئے، درس و تدریس کے ساتھ مختلف انتظامی ذمہ داریاں بھی آپ سے متعلق رہیں، 1986 میں عالمی اجلاس تحفظ ختم نبوت کے موقع پر آپ کو کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کا ناظم مقرر کیا گیا ،1999ءمیں تدریس کے ساتھ نائب مہتمم مقرر ہوئے ،اور نو سال تک اس اہم عہدہ پر فائز رہے،٢٠٨ءمیں جمعیت علماء ہند( میم ) کے قومی صدر منتخب کیے گئے ۔دارالعلوم کی مجلس شوریٰ منعقدہ صفر 1442ھ اکتوبر 2020ء نے آپ کو دارالعلوم دیوبند کا معاون مہتمم منتخب کیا۔ 8شوال المکرم 1442ھ 21مءی 2021ء عین جمعہ کی نماز کے وقت سوا بجے 76سال کی عمر میں آخری سانس لی۔ پس ماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو فرزندانِ گرامی مفتی سلمان ومفتی عفان صاحبان اور ایک صاحب زادی ہیں۔

You may also like

Leave a Comment