کبھی کبھی کچھ عجیب و غریب واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ایسے واقعات کی کوئی توجیہ نہیں ہوتی لیکن ایسے واقعات سے آشنا ہوتے رہنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوتا۔
زیر نظر سطور میں بھی چند ایسے ہی واقعات کا جائزہ لینا مناسب معلوم ہوتا ہے-21 مئی کو کلکتہ ہائی کورٹ کے ایک سبکدوش جج‘ جسٹس چترنجن داش نے کہا تھا کہ آر ایس ایس نے ان کی شخصیت کی تشکیل کی ہے۔ پھر 14 جون کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے سبکدوش جج جسٹس روہت آریہ نے‘ سبکدوشی کے چند ہی ہفتوں کے بعد بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی۔ ان کا یہ بیان معنی خیز ہے کہ بی جے پی اور ان کے افکار ایک ہی ہیں۔ ایسے میں یہ ضروری ہے کہ قانونی مبصرین اس طرح کے ججوں کے کچھ اہم مقدموں کا جائزہ لیں۔
تاہم ان سے بھی زیادہ دلچسپ معاملہ مدراس ہائی کورٹ کی موجودہ جج‘ جسٹس ایل چندرا وکٹوریہ گوری کا ہے۔ وہ جج بنائے جانے تک کھلے طور پر بی جے پی کی سرگرم رکن اور اس کی عہدیدار تھیں۔ ان کی اشتعال انگیز تقریریں اور منافرت انگیز بیانات کا بہت شہرہ تھا۔ لیکن گزشتہ 15 جولائی کو انہوں نے ایک ایسے مسلمان پولیس افسر کو بہت بڑی راحت بخشی جسے داڑھی رکھنے کی پاداش میں پولیس کمشنر نے معطل کردیا تھا۔ اس موضوع پر میں نے پچھلے ہفتہ ہی لکھنا شروع کیا تھا لیکن کچھ دوسرے اہم موضوعات اور کچھ سفری مصروفیات کے سبب یہ موضوع مکمل نہ ہوسکا تھا۔
مدراس ہائی کورٹ کالجیم نے ایڈوکیٹ گوری کا نام سپریم کورٹ کالیجم کے پاس بھیجا اور پھر سپریم کورٹ کالجیم کی سفارش کے بعد جیسے ہی صدر جمہوریہ نے ان کی تقرری کو منظوری دی تو انصاف پسند طبقات کے اندر بے چینی پھیل گئی۔ ان کے خلاف صدر جمہوریہ سے اپیل کی گئی کہ ان کی تقرری کو روک دیا جائے۔ یہاں تک کہ سماجی رضاکاروں اور بعض وکلاء نے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کرکے ان کی حلف برداری کو روک دینے کی استدعا کی۔ صدر جمہوریہ اور سپریم کورٹ کے سامنے ان کے اشتعال انگیز بیانات اور ان کے اقلیت مخالف افکار کا حوالہ دیا گیا۔ اس وقت ڈویزن بنچ کے سربراہ جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا تھا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جج بننے سے پہلے وکیل کی وابستگی کس سیاسی جماعت سے تھی اور یہ کہ اس کے افکار کیا تھے‘ ایک جج آئین اور قانون کے مطابق مقدمات کو فیصل کرتا ہے۔ سپریم کورٹ نے ان کی حلف برداری کی طے شدہ تاریخ سے تین دن پہلے ہی حلف برداری کے احکامات بھی جاری کئے۔ بی جے پی کی سرگرم رکن اور وکیل گوری اب جسٹس گوری بن گئیں۔
29 جون 2023 کو مدراس ہائی کورٹ کی مدورائی بنچ میں جسٹس آر سبرامنین اور جسٹس ایل وکٹوریہ گوری کی ڈویزن بنچ کے سامنے ایک مقدمہ پیش ہوا۔ اکھل بھارتیہ ہنومان سینا (راما لنگم) کے سیکریٹری نے عدالت کو بتایا کہ ’تھرپر اکندرم‘ پہاڑ کی چوٹی پر واقع کاشی وشوناتھ مندر میں جانے والے عقیدت مند واپسی میں ’نیلی تھوپو‘ مقام پر آرام کرتے ہیں اور کھانا کھاتے ہیں۔ لیکن اب وہاں واقع سکندر بادشاہ درگاہ کی مسجد کے نمازی ’نیلی تھوپو‘ مقام تک آجاتے ہیں اور وہاں نماز اداکرتے ہیں۔ اس سے ہندو عقیدت مندوں کو پریشانی ہوتی ہے۔ لہٰذا وہاں نماز ادا کرنے پر پابندی عاید کی جائے۔
یہ قابل ذکر ہے کہ ایسا محض عیدین کے موقع پر ہوتا ہے کہ جب نمازی زیادہ ہوجاتے ہیں اور مذکورہ مقام تک آجاتے ہیں۔ مذکورہ بنچ نے عرضی گزار سے سوال کیا کہ آخر محض 30 منٹ کی نماز سے کیا نقصان ہے؟ لیکن عرضی گزار نے مختلف قسم کے دلائل پیش کرکے فوری طور پر نماز کی ادائیگی پر اسٹے حاصل کرنا چاہا۔ اس نے یہاں تک کہا کہ مسلمان اس مقام پر کھانا اور پلاسٹک کی بوتلیں بکھیر دیتے ہیں جس سے عقیدت مندوں کو تکلیف ہوتی ہے لیکن عدالت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ بہت زیادہ زور ڈالنے پر عدالت نے ضلع کلکٹر کو نوٹس جاری کردیا لیکن واضح کردیا کہ چونکہ تہوار (بقرعید) قریب ہے اس لئے نماز پر کوئی اسٹے نہیں دیا جاسکتا۔
15جولائی 2024 کو جسٹس گوری نے ایک اور اہم فیصلہ سنایا۔ جی عبدالقادر ابراہیم کو 2019 میں پولیس نے گریڈ 1 پولیس کانسٹبل کے طور پر ترقی دی تھی۔ اس دوران اس نے داڑھی بڑھالی۔ کچھ ہی دن کے بعد وہ ای ایل کے زمرہ کی چھٹی لے کر گھر چلاگیا۔ اس کی واپسی پر پولیس افسران نے اسے یہ کہہ کر معطل کردیا کہ ’پولیس فورس میں داڑھی رکھنا ممنوع ہے اور اس نے اس اصول کی خلاف ورزی کی ہے۔’ سزا کے طور پر اس کی تین سال تک ترقی بھی روک دی گئی۔ عبدالقادر نے عدالت میں عرضی دائر کی۔ جسٹس گوری نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ ’باوجود اس کے کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ضابطہ کی سختی سے پابندی کرنی چاہئے لیکن پولیس افسران کو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ ضابطہ کی آڑ میں اقلیتی طبقہ کے اور خاص طور پر مسلمان ملازم کے خلاف داڑھی رکھنے کی پاداش میں ضابطہ شکنی کی کارروائی کریں۔
جسٹس گوری نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ(عامل ) مسلمان پوری زندگی پیغمبر محمد (ﷺ) کے احکام کی اتباع کرتے ہوئے داڑھی رکھتے ہیں۔ یہ فیصلہ جسٹس گوری کی یک رکنی بنچ کا فیصلہ ہے۔ اس فیصلہ میں جسٹس گوری نے داڑھی والے پولیس کانسٹبل کی حمایت میں بہت کچھ لکھا ہے لیکن ان کا یہ لکھنا بہت اہم ہے کہ ہندوستان ایک سے زیادہ مذاہب اور رواجوں کا ملک ہے اور یہاں اس طرح کی تعزیری کارروائی غیر آئینی ہے۔
یہاں 28 نومبر 2023 کے گجرات ہائی کورٹ کے بھی ایک فیصلہ کا ذکر مناسب ہوگا۔ چیف جسٹس مسز سنیتا اگروال اور جسٹس انیرودھا پی مائی کی ڈویزن بنچ نے ایک وکیل کی اس گمراہ کن اور شرانگیز پٹیشن کو حقارت کے ساتھ مسترد کردیا تھا جس میں مسجدوں میں لائوڈ اسپیکرس پر اذان دینے پر پابندی کی استدعا کی گئی تھی۔ عدالت نے عرضی گزار کوحقارت کے ساتھ ڈانٹ پھٹکار لگائی تھی۔ گجرات ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس وکرم ناتھ کے سپریم کورٹ آجانے کے بعد وہاں کی کارروائی کا مشاہدہ کرنے میں میری کوئی دلچسپی باقی نہیں رہ گئی تھی۔ اس کے علاوہ وہاں سے کئی ایسے فیصلے بھی آئے جن پر نہ صرف عوامی طور پر بے چینی محسوس کی گئی بلکہ جن کے خلاف سپریم کورٹ کی مختلف بنچوں نے ایک سے زائد مرتبہ سخت تبصرے بھی کئے۔
چیف جسٹس سنیتا اگروال نے عرضی گزار کے اس دعوے پر کہ اذان سے صوتی آلودگی اور خلل واقع ہوتا ہےسوال کیا کہ کیا ایسا صرف مسجدوں میں ہونے والی پانچ سے دس منٹ کی اذان سے ہی ہوتا ہے؟ انہوں نے مزید پوچھا کہ کیا مندروں میں پوجا اور بھجن کے دوران میوزک بجانے سے عوامی خلل اورصوتی آلودگی نہیں پھیلتی؟ انہوں نے کہا کہ صوتی آلودگی ایک سائنسی مسئلہ ہے۔ انہوں نے عرضی گزار سے بار بار یہی سوال کیا کہ اس سلسلہ میں اس کے پاس کیا سائنٹفک اعداد و شمار ہیں۔ چیف جسٹس نے عرضی گزار سے مسجدوں میں ہونے والی اذان کے ڈیسبل پوائنٹ (آواز کی بلندی کا پیمانہ) کے تعلق سے بھی سوال کیا۔ لیکن شرپسند عرضی گزار اور اس کے وکیل کے پاس عدالت کے کسی سوال کا جواب نہیں تھا۔
عام طور پر اس طرح کی فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی عرضیوں پر عدالتوں میں زیادہ دیر تک سماعت نہیں ہوتی اور اگر عدالت نے شروع میں ہی اپنی نیت اور اپنا ارادہ ظاہر کردیا اور اگر عرضی گزار نے اپنے الزام کے حق میں کوئی مسکت ثبوت بھی پیش نہ کیا تو پھر اس پر نہ عرضی گزار کو استدلال کی اجازت دی جاتی ہے اور نہ ہی عدالت بحث کو آگے بڑھاتی ہے۔ لیکن زیر نظر معاملہ میں چیف جسٹس مسز سنیتا اگروال نے جس طرح عرضی گزار سے بار بار ایک ہی سوال کیا اور جس طرح اس کے الزام کو ’کائونٹرالزام‘ سے شکست دی وہ عدیم المثال تھا۔
عدالت کے واضح موقف سے بحث کے شروع میں ہی یہ واضح ہوگیا تھا کہ عرضی گزار کی اس شرانگیز عرضی کو بحث کیلئے قبول نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود چیف جسٹس نے عرضی گزار کو موقع در موقع دیا کہ وہ اپنے الزام کے ثبوت میں سائنٹفک شواہد پیش کرے تو وہ اس کی عرضی پر سماعت کو تیار ہیں۔ عدالت عرضی گزار کی فرقہ وارانہ شرانگیزی کو سمجھ رہی تھی اور کمرہ عدالت میں موجود لوگ بنچ کے ارادہ کو بخوبی سمجھ رہے تھے۔
عام طور پر یہ بھی ہوتا ہے کہ اس طرح کی فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی شرانگیز عرضی کو ’کائونٹر‘ کرنے کیلئے عدالتیں دوسرے فرقہ کی نظیروں کا حوالہ دے کر موازنہ نہیں کرتیں۔ لیکن یہاں چیف جسٹس سنیتا اگروال نے ایک سے زائد مرتبہ اور سخت لہجہ میں مندروں میں بجنے والے گھنٹوں اور لائوڈ اسپیکرس پر بجائے جانے والے بھجنوں کے بھی حوالے دے کر سوال کیا کہ کیا ان سے عوامی خلل واقع نہیں ہوتا اور کیا ان سے صوتی آلودگی نہیں پھیلتی؟
چیف جسٹس نے ایک موقع پر کہا کہ مندروں میں تم لوگ گھنٹے اور گھڑیال بجاتے ہو‘ سڑکوں پر ڈی جے اور لائوڈ اسپیکرس پر گھنٹوں بھجن بجاتے ہو تو کیا اس سے عوامی خلل نہیں ہوتا؟ کیا پانچ سے دس منٹ کے اندر ختم ہوجانے والی اذان سے ہی خلل پڑتا ہے؟ عرضی گزار نے اپنی بات کو اونچا رکھنے کیلئے طرح طرح کے بہانے بھی بنائے اور ایک موقع پر تو الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کا بھی حوالہ دیا تو چیف جسٹس کو کہنا پڑا کہ ہم الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے پابند نہیں ہیں۔ الغرض چیف جسٹس نے عرضی گزار کی ہر بھونڈی دلیل کا جواب دیا اور عرضی کو یوں ہی سرسری بات لکھ کر مسترد نہیں کیا بلکہ ایک عمدہ فیصلہ بھی لکھوایا۔ چیف جسٹس نے یہ کہہ کر عرضی گزار کو خاموش ہوجانے کو کہہ دیا کہ اذان ایک عقیدہ پر عمل آوری کا مسئلہ ہے جو برسوں سے جاری ہے۔۔
کرناٹک ہائی کورٹ بھی اسی طرح کا ایک فیصلہ دے چکی ہے۔ ایک شرپسند نے ایک مخلوط آبادی والی سوسائیٹی کے ایک اپارٹمنٹ میں مسلمانوں کے نماز ادا کرنے کے خلاف عرضی دائر کی تھی۔ لیکن ہائی کورٹ نے اسے سختی کے ساتھ مسترد کردیا تھا۔ گوکہ اس سلسلہ میں متعلقہ فریقوں کو نوٹس جاری کرکے عدالت میں طلب کیا گیا تھا لیکن مسلم فریق کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے شرپسند عرضی گزاروں کی اپیل کو حقارت کے ساتھ ٹھکرادیا اور کہا کہ کسی کی پرائیویٹ جگہ پر کسی کو عبادت گزاری سے نہیں روکا جاسکتا۔
بہرحال ایسے وقت کہ جب مسلمان ہونا‘ داڑھی رکھنا‘ اذان دینا اور نماز پڑھنا شرپسندوں کے ہی نہیں بعض حکمرانوں کے بھی نشانہ پر ہو مذکورہ معاملات میں عدالتوں کا وہ رویہ اختیار کرنا جو عام طور پر عدالتوں میں نظر نہیں آتا بہت اہم ہے۔ میں اکثر ملی جماعتوں سے درخواست کرتا رہا ہوں کہ انہیں مشترکہ طور پر کوئی ایسا لیگل سیل تشکیل دینا چاہئے جو ملک بھر میں اس طرح کے معاملات اور مقدمات کی تفصیلات جمع کرتا رہے تاکہ بوقت ضرورت کام آسکے۔ ہوسکتا ہے کہ انفرادی طور پر کچھ لوگ یا کچھ جماعتیں یہ کام کر رہی ہوں لیکن جو کام مل کر اور اکٹھا ہو کر کیا جائے گا اس کے نتائج اور اثرات بھی کچھ الگ ہی مرتب ہوں گے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)