Home ستاروں کےدرمیاں ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے-معصوم مرادآبادی

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے-معصوم مرادآبادی

by قندیل

تحریک وحدت اسلامی کے سربراہ مولانا عطاء الرحمن وجدی گزشتہ تیس جون 2024کو طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ انھوں نے دہرہ دون کے ایک اسپتال میں آخری سانس لی اور تدفین ان کے وطن سہارنپورمیں عمل میں آئی۔ جس وقت ان کا جنازہ دہرہ دون سے سہارنپور پہنچا تو ہر آنکھ اشک بار تھی۔ان کے جنازے میں سارا شہر امڈ آیا تھا۔ان کے غم میں شہر کی بیشتر دکانیں اور کاروباری ادارے بند تھے۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہردل عزیز شخصیت کے مالک تھے۔ان کی زندگی کے سرسری مطالعہ سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے مردمومن کی طرح زندگی بسر کی۔ پوری عمر اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کی سرخروئی کے لیے وقف کردی۔ شدید مصائب اور آلام کے باوجود ان کے پائے استقامت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہیں ہوگا کہ وہ عزم وحوصلے کا کوہ گراں تھے۔ انھوں نے قید وبند کی شدید صعوبتیں برداشت کیں مگر ظالم وجابر طاقتوں کے سامنے سرنگوں نہیں کیا۔ سچائی، ایمانداری، حسن اخلاق،بلند کردار، عجز وانکساری، مروت و رواداری جیسے اوصاف ان کی شخصیت کا بنیادی حوالہ تھے۔وہ ملک وملت کو درپیش ہر مشکل گھڑی میں سینہ تان کر کھڑے رہے اور اپنی جان کی بازی لگاکر بھی اپنامقصد حاصل کرنے کی جدوجہدکی۔ ان کی پوری زندگی جہدمسلسل سے عبارت تھی اور جب تک ان کے قویٰ نے ساتھ دیا وہ محاذ پر ڈٹے رہے۔یوں تو انھوں نے ہر ملی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، لیکن میں نے بابری مسجد بازیابی تحریک کے دوران ان کے جذبہ صادق کا عینی مشاہدہ کیا۔
ایک صحافی کے طورپر میں نے بابری مسجد بازیابی تحریک کے ہر پروگرام کی رپورٹنگ کی اور اس تحریک کے قائدین سے بہت قریب رہا۔ اسی دوران مجھے مولانا عطاالرحمن وجدی کو بھی دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔وہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی سہارنپور شاخ کے صدر تھے اور تحریک کے ہر احتجاجی پروگرام میں پیش پیش رہتے تھے۔ یہ پروگرام اکثر دہلی اور لکھنؤ میں برپا ہوتے تھے۔ بابری مسجد کی بازیابی کے لیے پورے ملک میں جو تحریک منظم کی گئی تھی اس میں اس دور کے وہ تمام لوگ شریک تھے جنھیں اس ملت سے ہمدردی تھی اور جو ملی کاز کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے جذبے سے سرشار تھے۔ ان میں کچھ سرسے کفن باندھ کر اس تحریک میں شریک ہوئے تھے۔ ان کے اخلاص اور جذبہ کو دور سے محسوس کیا جاسکتا تھا۔ مولانا وجدی ایسے ہی لوگوں میں شامل تھے جو بابری مسجد کے تقدس کی بحالی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے جذبہ صادق کے ساتھ اس کارواں میں شامل ہوئے تھے۔ میرا خیال ہے بابری مسجد بازیابی تحریک ہندوستانی مسلمانوں کی آخری تحریک تھی۔اب اس کے بعد نہ تو ایسے لوگ پیدا ہوں گے اور نہ ہی مسلم قیادت پر لوگوں کو ایسا اعتماد ہوگا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تحریک میں شامل بعض لوگ ایسے بھی تھے جو سیاسی عزائم رکھتے تھے، لیکن اس میں بیشترلوگ ایسے تھے جن کے اخلاص کی قسمیں کھائی جاسکتی ہیں۔میں مولانا عطاالرحمن وجدی کو ایسے ہی لوگوں میں شامل کرتا ہوں جو اپنی کشتیاں جلاکر اس کارواں کا حصہ بنے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ بابری مسجد کی بازیابی میں مسلمانوں کو کامیابی نہیں ملی لیکن جب بھی اس تحریک کی تاریخ لکھی جائے گی تو مولانا وجدی اس کا جلی عنوان ہوں گے۔
مولانا عطاالرحمن وجدی 1938 میں اترپردیش کے مردم خیز خطہ سہارنپور میں پیداہوئے۔انھوں نے سہارنپور کے مشہور اسلامیہ انٹرکالج سے اپنے تعلیمی سلسلے کا آغاز کیا، لیکن نامساعد حالات کی وجہ سے ہائی اسکول پاس کرنے سے پہلے ہی ان کا یہ سلسلہ ٹوٹ گیا۔انھیں شروع سے اردوزبان، ذوق خطابت، شاعری اور اسلامی امور سے دلچسپی تھی۔اس دوران معاشی ضرورتوں کے سبب مسلم امدادی سوسائٹی میں ملازمت کا آغاز کردیا۔ شعر گوئی کا شوق پیدا ہوا تو وجدی تخلص اختیار کیا۔مولانا مودودی کی تحریروں سے متاثر ہوکر 1965میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے۔ اس دوران ان کا بیشتر وقت قرآن فہمی میں گزرنے لگا۔ قرآن کی مختلف تفسیریں مطالعہ میں رہیں۔مولانا وجدی بنیادی طورپر رقیق القلب انسان تھے۔درس قرآن میں جب قیامت کے مناظر کا ذکر آتا تو ان پر رقت طاری ہوجاتی تھی۔
مولانا عطاالرحمن وجدی کو صحافت سے بھی خاص لگاؤ تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں کئی جریدے شائع کئے۔ ان میں ’تنقیحات‘ کانام قابل ذکر ہے، جو انھوں نے 1975میں جاری کیا تھا۔یہ ایک پندرہ روزہ جریدہ تھا اور بے لاگ صحافت کی اچھی مثال تھا۔اس جریدے کے ذریعہ انھوں نے نئے قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کی۔ 1975میں ہی جب ملک میں ایمرجنسی نافذ ہوئی تو مولانا وجدی کو سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ اس دور میں تمام سیاسی اور مذہبی قائدین کی گرفتاریاں عمل میں آئی تھیں۔ خاص طورپر جماعت اسلامی سے وابستہ قائدین کو پابندسلاسل کیا گیا تھا۔مولانا وجدی کی گرفتاری کا اصل سبب جماعت سے ان کی وابستگی ہی تھی۔یہیں سے ان کی ثابت قدمی اور اولولعزمی کا اندازہ بھی ہوا۔ جب ان کی رہائی کے لیے وکیل نے ان سے کہا کہ اگر عدالت میں یہ بیان دیدیں کہ وہ جماعت کے رکن نہیں ہیں تو ان کی رہائی کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے، لیکن انھوں نے ایسا کرنے کی بجائے عدالت میں کہا کہ ”میں کل بھی جماعت اسلامی سے وابستہ تھا، آج بھی ہوں اور کل بھی رہوں گا۔“
ان کا یہ بیان سن کر غیر مسلم وکیل اتنا متاثر ہوا کہ مقدمہ لڑنے کی کوئی فیس وصول نہیں کی۔انھوں نے ایمرجنسی کے دوران اٹھارہ مہینے جیل میں گزارے۔ جیل میں ان کے ساتھ مولانا صدرالدین اصلاحی اور مولانا شفیع مونس جیسے جماعت کے رہنما بھی تھے۔جیل میں ہی ان حضرات سے عربی زبان سیکھی۔ایمرجنسی کے خاتمہ کے بعد جیل سے رہا ہوئے تو ’ایک بار پھر ’تنقیحات‘ کی اشاعت شروع کی۔مولانا وجدی نے بعض اختلافات کی وجہ سے 2000میں جماعت اسلامی سے علاحدگی اختیار کرلی اور تحریک وحدت اسلامی کے نام سے اپنی علاحدہ جماعت شروع کی۔
اسی دوران ایک ایسا سانحہ پیش آیا جس کی وجہ سے ان کی صحت متاثر ہوئی۔ہوا یوں کہ2001میں گجرات کے شہر سورت میں آل انڈیا اقلیتی تعلیمی بورڈ نے مسلمانوں کے تعلیمی مسائل پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس میں مولانا بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔سیمینار کے شرکاء میں تمام اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شامل تھے۔گجرات سرکار نے ان تمام 127 شرکاء کو ممنوعہ تنظیم سیمی سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔ ایک ہی الزام میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی گرفتاری ایک عجیب وغریب واقعہ تھا۔مولانا وجدی بھی اسیروں کے اس کارواں میں شامل تھے۔ دوسال جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پررہا ہوئے تو مولانا کی صحت بگڑچکی تھی لیکن حوصلے جوان تھے۔ انھوں نے اس پیرانہ سالی میں بھی دہشت گردی مخالف قانون کے تحت اپنی گرفتاری کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ طویل عدالتی جدوجہد کے بیس سال بعد وہ باعزت بری بھی ہوئے۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران وہ وہیل چیئر پر سورت کی عدالت میں حاضری کے لیے جاتے تھے۔2007 میں انھوں نے ’وحدت‘ کے نام سے ایک اور جریدہ جاری کیا۔وہ اس میں ’تصریحات‘ کے عنوان سے ملی مسائل پر انتہائی جاں سوز تحریریں لکھتے تھے۔مولانا وجدی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بھی رکن رہے۔انھوں نے کئی تصانیف بھی یادگار چھوڑیں۔ ان کی پہلی تصنیف’مولانا مودودی اور ان کے افکارونظریات‘ تھی۔موجودہ تہذیب کی خرابیوں پر ان کی تصنیف’تہذیب ووحشت‘ بھی خاصے کی چیز ہے۔ ’نقوش زنداں‘ میں انھوں نے قیدوبند کی صعوبتوں کا احوال قلم بند کیا ہے۔’ترتیب ہند کی کہانی‘اور تاریخی منظر نامہ‘ان کی دیگر تصانیف ہیں۔مولانا عطاالرحمن وجدی نے مجموعی طورپر ایک مجاہد کی زندگی بسر کی اور اپنے عہد پر اپنی شخصیت وکردار کے گہرے نقوش چھوڑے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں دورتک اور دیرتک یادرکھا جائے گا۔

You may also like