Home ستاروں کےدرمیاں ایک مخلص استاذ، ایک عظیم انسان ماسٹر سید ظہیر الدین مرحوم – ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی

ایک مخلص استاذ، ایک عظیم انسان ماسٹر سید ظہیر الدین مرحوم – ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی

by قندیل

رام لکھن سنگھ یادو کالج ، بتیا۔مغربی چمپارن

ہر روز لاکھوں انسان دنیا میں آتے ہیں اور لاکھوں لوگ اپنی زندگی کی مدت پوری کر کے موت کی تاریکی میں گم ہوجاتے ہیں۔لیکن اللہ کے کچھ مقبول بندے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کی مثال اس روشن آفتاب کی سی ہوتی ہے جو ڈوب جانے کے بعد بھی شفق چھوڑ جاتا ہے ۔
سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا
(اقبال ساجد)
ایسے ہی اعلیٰ کردار اور عمدہ اخلاق کے حامل انسانوں میں ماسٹر سید ظہیر الدین مرحوم کا نام بھی آتا ہے ۔لمبا چوڑا قد،بلند چہرہ،لمبی ناک اور کچھ سوچتی آنکھیں،چہرے پر خوب صورت گھنی نورانی ڈاڑھی،سر پر نہرو ٹوپی،سادہ لباس و پوشاک ، کرتے کےساتھ کبھی لنگی اور کبھی پاجامہ، ہاتھ میں تسبیح لیے ، نگاہیں نیچی کر کے ایک بزرگ ہستی مسجد کی طرف تیزی سے قدم بڑھا رہی ہے جنھیں دنیا ماہر علم طبیعیات و ریاضی ماسٹر سید ظہیر الدین مخدوم چکی سے جانتی ہے۔
سید ظہیرالدین مرحوم کا آبائی وطن سادات کی معروف اور قدیم بستی سانہہ ( بیگو سرائے) ہے،وہ اسی بستی کے حسینی سید کے ایک خاندان میں پیدا ہوئے ۔سندی اعتبار سے ان کی تاریخِ پیدائش 21جنوری 1949 ہے ۔تین چار سال کی عمر ہی میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ، اہل خاندان نے والدہ سے دوسری شادی کی پیش کش کی مگر انھوں سے سرے سے انکار کردیا اور حضرت سید شاہ ابوالقاسم صاحب کی والدہ کے ہمراہ مخدو چک آگئیں جو ان کی رشتے کی بہن ہوا کرتی تھیں اور یہیں ماسٹرظہیر مرحوم اپنی والدہ اور دو بہنوں کے ساتھ رہنے لگے ، حضرت صاحب کی زیر نگرانی ان کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہوا ۔ماسٹر صاحب کی ابتدائی تعلیم مدرسہ اسلامیہ گھوڑدوڑ سمری بختیار پورمیں ہوئی اور یہاں سے انھوں نے 1 سے 5 درجےتک کی تعلیم حاصل کی ۔ چوں کہ حضرت ابو القاسم صاحب اسی علاقے کے مشہور اسکول "اسلامیہ ہائی اسکول” میں استاذ تھے اس لیے اب آگے کی تعلیم کے لیے وہ وہاں داخل ہوگئے اور وہیں سے دسویں پاس کی ۔پھر سہرسہ کالج سہرسہ سے بی ایس سی B.Sc. اور تلکا مانجھی بھاگل پوری یونیورسٹی بھاگل پور سے ایم ایس سی M.Sc. کی ڈگری حاصل کی ۔حسن اتفاق کہیے کہ تعلیم سے فراغت کے بعد سمری بختیار پور ہائی اسکول میں ٹیچر کے لیے بھی منتخب ہوئے اور اسلامیہ ہائی اسکول سمری بختیار پور میں بھی ان کا تقرر ہوگیا بلکہ الٰہ آباد بینک میں ان کا سیلکشن ہوگیا مگر انھوں نے اپنی مادرعلمی اسلامیہ ہائی اسکول کو ترجیح دی اور پورے خلوص اور دیانتداری سے اپنی تدریس کےانتہائی کامیاب 44 سال گزار کر سبکدوش ہوئے۔
اشرف چک کے مولوی خاندان میں فارسی زبان کے ماہر مولوی سید مجیب الرحمٰن کی چھوٹی صاحبزادی سے ماسٹر ظہیر صاحب کا نکاح ہوا ۔ ماشاء اللہ ان کے چار بیٹے دو بیٹیاں ہیں ۔ بڑی صاحبزادی مشکی پور کے جناب سید معین الدین مرحوم کے بڑے صاحبزادے قاری سید منظر الحسن صاحب سے اور چھوٹی صاحبزادی ان ہی کے منجھلے صاحبزادے سید مستقیم احمد سے منسوب ہیں۔اس وقت دونو ں خاندان سمستی پور سمری بختیار پور میں سکونت پذیر ہے۔ماسٹر صاحب مرحوم کے بڑے صاحبزادے مولانا ڈاکٹر سید عبدالباسط حمیدی قاسمی ہیں ، انتہائی ذہین و فطین انسان ہیں ،اپنے علاقے سے حفظ کی تکمیل کی ، دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کی ڈگری لی، پٹنہ یونیورسٹی سے امتیازی نمبرات سے بی اے اور ایم اے کیا اور پی ایچ ڈی کی سند ملک کی ممتاز یونیورسٹی جواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی سے حاصل کی ، اس وقت وہ پٹنہ یونیورسٹی کے تحت ومنس کالج پٹنہ میں اسسٹنٹ پروفیسر (اردو)ہیں۔منجھلے صاحبزادے سید عبد الحق گریجویٹ ہیں اور والد کی حیات ہی سے گھر کی ساری ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔تیسرے صاحبزادے سید عبد الوارث شادان انجینئرنگ کالج حیدر آباد سے بی ٹیک ہیں اور اس وقت اپنے علاقے رانی باغ میں بچوں کا ایک عمدہ اسکول چلا رہے ہیں ۔چھوٹے صاحبزادے حافظ سید عبد الرافع حفظ کے بعد میٹرک پاس کیا پھر بنگلور سے ڈپلومہ انجینئرنگ، آر جی پی وی سے(Civil) B.E اورمانو سی ٹی ای دربھنگہ سے بی ایڈ سے کیا،اس وقت وہیں سے ایم ایڈ کر رہے ہیں ۔
یوں تو ماسٹر صاحب کی خدمات کی کئی جہتیں ہیں ۔تعلیمی ، تدریسی، دینی اور سماجی وغیرہ لیکن میرے خیال میں ان کی خدمات کا سب سے روشن باب ان کی 44 سالہ تدریسی خدمت ہےاور یہ ان کا ایک ایسا امتیازی وصف ہے کہ اسی کے ارد گرد دوسرے اوصاف گردش کرتے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے تعلیم کو سب سے بڑا مشن بنایا اور گھر سے اسکول تک طلبہ کی صلاحیتوں کو اجالنے،ان کو آگے بڑھانے، سنوارنے اور مفید شہری بنانے میں اپنی پوری زندگی صرف کردی ۔ آج سے پچیس سال پہلے کی بات ہے ، دور دراز سے طلبہ ان کے گھر پڑھنے آتے۔ مجھے خوب یاد ہے ، اس وقت ان کے گھر میں دروازہ(بیٹھک) نہیں ہوا کرتا تھاپھر بھی گھر سے باہر کھلے میں اور سخت سردیوں میں معمولی بینچ پہ بیٹھ کرطلبہ ماسٹر صاحب سے پڑھتےاوردیانتدار اور مخلص استاذ بھی انتہائی محنت اور عرق ریزی سے علم کا شیریں جام انھیں پلارہے ہوتے۔
وہ مدرسہ لائن سے پڑھے ہوئے تو نہیں تھے ؛ تاہم اپنی نیک مزاجی اور نیک صحبت و تربیت کی بنا پر ابتدائے عمر ہی سے نمازکے پابند رہے اور تلاوت قرآن اور ذکر و اذکار سے گہرا شغف رہا ۔ اسی وجہ سے قرآنیات سے انھیں خاص لگاؤ تھا ۔ وہ ایک مدت تک مخدوم چک کی مسجد میں بعد نماز فجر قرآن کا درس دیتے تھے ، طریقہ درس یہ تھا کہ مفتی محمد شفیع ؒ کی معارف القرآن کو دیکھ کر پہلے چند آیات کی تلاوت فرماتے اس کے بعد ترجمہ و تفسیر پڑھتے اپنی طرف سے کوئی چیز نہ بڑھاتے نہ گھٹاتے۔ایک خاص لے میں تلاوت فرماتے اور انداز بہت رقت آمیز ہوتا،ان کے اس درس میں اچھی تعداد میں لوگ شریک ہوتےاور قرآن کریم کے انوار و برکات سے اپنے دلوں کو منور کرتے اور بہت سے احکام و مسائل سے بھی واقف ہوتے۔قرآن سے عشق ہی کی بات تھی کی وہ کثرت سے تلاوت کرتے اور اپنے اہل و عیال کو بھی اس کی تلقین کرتے۔انھوں نے اپنے دو بچوں کو بھی حافظ بنانے کی سعادت حاصل کی ؛ بلکہ ان کے بڑے صاحبزادے تو حافظ ِ قرآن کےساتھ ممتاز عالمِ دین بھی ہیں ۔ان کے دینی جذبے کا اندازہ اس واقعے سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب ان کی بڑی صاحبزادی کے لیے لڑکےکے انتخاب کا مرحلہ آیا تو انھوں نے مال و جائیداد کی بجائے دینداری کو ترجیح دی اور حافظ و قاری داماد کا انتخاب کیا حالاں کئی صاحب ِ دولت و ثروت رشتہ دار کے یہاں سے بھی رشتے کی پیش کش ہوئی۔
سماجی حوالے سےان کی کئی خدمات ہیں۔مثال کےطورپرضرورت مندوں اوررشتہ داروں کاخیال رکھنا، بلکہ اپنے کئی عزیزوں کو اپنی تربیت میں رکھ کر ان کو پڑھانا لکھاناوغیرہ ۔بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ جھاڑ پھونک بھی کیا کرتے تھے بلکہ نام نکالنے میں تو انھیں ایک طرح کی مہارت حاصل تھی لیکن ان چیزوں سے اس قدر بچتے تھے کہ بمشکل ہی کوئی جانتا ہوکہ ان کا ایک پہلو یہ بھی تھا چہ جائیکہ وہ اسے پیشہ بناتے ۔
ان کی زندگی کے تین اہم پڑاؤ تھے : گھر ، مسجد اور اسکول۔ بہت ضروری پڑنے پر بازار یا کسی رشتہ دارکے یہاں جاتے۔ زمانہ طالب علمی میں شاعری اور کھیل سے دلچسپی رہی یہی وجہ ہے اپنے اسلامیہ ہائی میں ایک عرصے تک وہ گیم سپرٹنڈنٹ اور طلبہ کے فٹبال ٹرینررہے ۔ان کی ٹیم نے ضلع سطح کے مقابلے میں بھی اوراسٹیٹ لیول کے مقابلے میں بھی جیت حاصل کی۔بعد میں کھیل کی جگہ ان کی دلچسپیوں کا مرکز تلاوت و ذکر ، اچھی کتابوں کا مطالعہ اور ریڈیو بن گئے۔ جب بھی میرا ان کے یہاں برائے ملاقات جانا ہوا تو ان ہی تینوں شغل میں انھیں مشغول پایا یا پھر آرام کرتے ہوئے نظر آئے۔
مطالعہ تو ان کا بڑا وسیع تھا تاہم انھوں نے کوئی مضمون یا کتاب تحریر کی ہو ،اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا تااہم ان کا تیار کردہ ایک کیلنڈر ضرور ہے جو تقریبا سوسال کے ماہ و سال اور دن و تاریخ کو بتاتا ہے۔
ماسٹر صاحب مرحوم میرے دو بڑے بھائی صاحب کے خُسر(سسر)ہوا کرتے تھے، اس طرح ہم بھی انھیں ابا کہا کرتے تھے ، میں بچپن ہی میں اپنے والد کے سایے سے محروم ہوگیا تھا، ایک حد تک ان سے باپ کی شفقت ملی ، ہاپوڑ اور دیوبند کے زمانہ طالب علمی کے دوران میں جب بھی ان سےسلام کلام کرکے رخصت ہوتا تو ازراہ شفقت وہ میرے ہاتھوں میں کبھی دس بیس اور کبھی پچاس سو روپے پکڑا دیتے تھے۔ان سے جب بھی ملاقات ہوتی بڑی خندہ پیشانی سے ملتے اور ایسامحسوس ہوتا کہ پہلے ہی سے وہ میرے منتظر بیٹھے ہیں۔
لالچ سے وہ کوسوں دور تھےاور خودداری تو ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ، وہ ناحق کے آگے ٹوٹ سکتے تھے لیکن جھکنا ان کے لیے ناممکن تھا، جاننے والے جانتے ہیں کہ انھیں سچ بولنے کی کتنی سخت سزا ملی ، برسوں وہ اپنی واجب تنخواہ سے محروم رہے تاہم اپنی ڈیوٹی میں کبھی کوئی کمی نہیں کی ، بالآخر سچ کو فتح حاصل ہوئی اور جھوٹ اوندھے منہ گرا اور سیاہی اس کا مقدر بنی۔
معمولات کے بڑے پابند تھے ، آندھی ہو کہ طوفان ہو، سردی ہو یا گرمی جب تک وہ صحت مند رہے پانچوں وقت مسجد میں باجماعت نماز پہلی صف میں ادا کرتے رہے ۔دنیا ادھر سے اُدھر ہوجائے لیکن روزمرہ کے ان کے معمولات میں شاید کوئی فرق آتا، یہی وجہ ہے کہ وہ کہیں آنے جانے سے بہت گریز کرتے تھے، ہر عمل کے لیے ان کا ایک وقت متعین تھا، تلاوت اور ذکر و اذکار کا وقت الگ تھا، ریڈیو سننے کا وقت بھی مقرر تھا ، مطالعہ بھی ان کی زندگی کا اٹوٹ حصہ تھا ، اس کی بھی بڑی پابندی تھی،اپنی بیٹیوں سے بھی ملنے کا ایک ٹائم تھا ،وہ ہمیشہ اسٹیل کے بڑے کٹورے میں پانی پیا کرتے تھے۔اکثر وضو اور غسل گنگنے پانی سے کیا کرتے تھے ، معمولی تخت(چوکی)پر بغیر گدے کے معمولی بستر لگا ہوتا اسی پر وہ آرام کرتے، زندگی انتہائی سادہ اور رفتار و گفتار میں بڑی سنجیدگی پائی جاتی تھی، اصول کے بڑے پابند تھے ، بناوٹ سے کوسوں دور اور چاپلوسی سے وہ ناواقف تھے،فضولیات سے انھیں بڑی چڑھ تھی، ٹھگ پیروں سے بھی وہ بہت خار کھاتے تھے۔
گزشتہ آٹھ دس سالوں میں وہ کئی بار بیمار بھی ہوئے اور تشویشناک صورت حال بھی پیدا ہوئی مگر اللہ کے کرم سے علاج و معالجہ ہوا اور زندگی معمول پر آگئی ۔ ڈیڑھ دو برسوں سے ضعف کچھ بڑھ گیا تھا اور یادداشت بھی متاثر ہوگئی تھی تاہم اپنے سارے کام خود کرلے رہے تھے ۔بروز اتوار 19 دسمبر 2021 کو معمول کے مطابق اہل خانہ سے گفتگو وغیرہ کرکے وضو کیا اور عصر کی نماز کا انتظار کررہے تھے کہ اسی دوران وقت موعود آپہنچا ،تھوڑی دیر کے لیے وہ لیٹ گئےاور پھر کبھی نہ اٹھ پائے۔ رہے نام اللہ کا۔

You may also like

Leave a Comment