Home ستاروں کےدرمیاں ایک زندگی آموز شخصیت کا جانا !- نایاب حسن

ایک زندگی آموز شخصیت کا جانا !- نایاب حسن

by قندیل

دارالعلوم وقف دیوبند کے استاذ حدیث و ادب مولانا محمد اسلام قاسمی کی رحلت کی خبر آ رہی ہے۔ اللہ پاک مولانا کی مغفرت کاملہ فرمائے اور جملہ پسماندگان خصوصا برادر گرامی مولانا بدرالاسلام قاسمی کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔

مولانا پچھلے کئی سال سے علیل تھے ، فالج کے متواتر حملوں نے انھیں بے حال اور نڈھال کردیا تھا ، پھر بھی پوری ہمت و حوصلہ سے اس کے وار سہتے رہے، اس سخت بیماری میں بھی انھوں نے علمی و تدریسی مصروفیات کو باقی رکھنے کی کوشش کی، ان کی کئی کتابیں بھی اسی دوران آئیں۔ مولانا نہایت شگفتہ رو، شستہ خو اور سادہ و بے تکلف سرشت کے انسان تھے ، علمی و ادبی مقام ان کا بلند تھا، مگر اپنی نشست و برخاست ، معمولات زندگی ، لوگوں سے ملنے جلنے ، بات کرنے ، انھیں برتنے اور ان سے اپنے لگاؤ کا مظاہرہ کرنے میں وہ کسی روایتی تکلف کا مظاہرہ نہ کرتے ، بڑے چھوٹے سب سے لپک کر ملتے اور لہک کر اپنی محبت کا اظہار کرتے۔ ہم نے قیام دیوبند کے زمانے میں ان سے کوئی کتاب نہیں پڑھی، کہ ہم دارالعلوم قدیم میں ہوتے تھے ، مگر اپنی کتاب ‘ دارالعلوم دیوبند کا صحافتی منظرنامہ ‘ پر کام کے دوران دیوبند کے بہت سے دوسرے اہل علم و قلم سے بالمشافہ ملنے اور متعارف ہونے کے ساتھ مولانا سے بھی دید و شنید ہوئی اور پھر یہ ایک ایسے تعلق میں بدل گئی، جو ایک مخلص استاد کو اپنے شاگرد سے ہوتا ہے، اس کے بعد دیوبند میں رہتے ہوئے اور وہاں سے نکلنے کے بعد جب بھی مولانا سے ملاقات ہوتی تو وہ بڑی شفقتوں کا مظاہرہ کرتے، بات اور ملاقات میں مجھے ان کا والہانہ پن بڑا fascinating لگتا تھا ، ان کا یہی وصف مجھے ان کی طرف کھینچتا تھا ؛ اس لیے جب بھی دیوبند جاتا تو جن چند لوگوں سے لازماً ملاقات کرتا ، ان میں مولانا بھی ہوتے ، ان سے مل کر یہ محسوس ہی نہ ہوتا کہ وہ اتنے بڑے ادارے کے استاذ حدیث ہیں ، علما کی مجلسوں میں عموماً جو روایتی تکلفات ہوتے ہیں ، ان کا مولانا کے یہاں گزر ہی نہ تھا، وہ جس طرح اپنی قیام گاہ پر کسی سے ملتے تھے ، اگر دیوبند کی سڑکوں پر گزرتے ہوئے، دارالعلوم وقف آتے یا جاتے ہوئے کبھی ان سے ملاقات ہوگئی تو اسی بے تکلفی اور شفقت کا انھوں نے مظاہرہ کیا۔ وہ ہمارے رسمی استاد نہ تھے مگر بہت سے استادوں سے بڑھ کر تھے ، کہ ہماری ہیچ پوچ قلمی و‌ علمی کاوشوں پر نظر رکھتے اور دل کھول کر تحسین و حوصلہ افزائی فرمایا کرتے، کہیں کوئی غلطی ہوتی تو اس کی بھی نشان دہی کرتے، کچھ نیا لکھنے پر آمادہ کرتے اور ہم جیسوں کی علمی و قلمی سرگرمیوں پر وہ بے پناہ خوشی و مسرت کا اظہار کرتے، اتنا کہ کبھی کبھی شرمندگی سی محسوس ہونے لگتی۔ مولانا زندگی سے بھرپور شخصیت تھے اور وہ اپنے شاگردوں، متعلقین اور رفقا کو زندگی کرنا سکھاتے تھے،وہ قہقہہ لگاتے تو ایسا لگتا کہ سارا ماحول جھوم رہا ہے، باتیں کرتے تو لہجے میں شفافیت ہوتی اور دو ٹوک اندازِ بیان ہوتا، چلتے تو تیز تیز قدم اٹھاتے اور وقار و متانت کے ساتھ چلتے ، درس دیتے تو اپنے طلبہ پر معلومات و حاصلاتِ مطالعہ کا دہانہ کھول دیتے،ان کی تحریریں بھی علم ریز ہوتیں اور ان کی تقریروں میں بھی دلکشی و سبق آموزی کے انیک پہلو ہوتے۔ وہ مخصوص سانچے میں ڈھلے ہوئے بڑے پرلطف اور خوب صورت انسان تھے، پہلی نظر میں دل کو بھاجاتے اور ذہن پر چھاجاتے، ان سے مل کر اپنی زندگی بھی خوب صورت لگنے لگتی اور اس پر بے ساختہ پیار آجاتا ، وہ جو شاعر نے کہا ہے:

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ

آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

تو مولانا بھی اپنی منفرد خصوصیات کے اعتبار سے بالکل ایسی ہی شخصیت تھے۔

آخری بار مولانا سے 2019 کے اواخر میں ملاقات ہوئی ، دیوبند کے سفر کے دوران ان کے گھر عیادت کے لیے حاضری ہوئی تھی ، کہ غالباً اسی سال پہلی بار ان پر فالج کا دورہ پڑا تھا جس کا زیادہ اثر زبان پر تھا ، ہم نے دیکھا کہ ہمہ وقت چہچہانے اور بات بات میں زندگی آمیز قہقہے لگانے والے مولانا مشکل سے بات کر پا رہے تھے ، جس پر دل آزردہ سا ہوگیا ، مگر باقی رنگ ان کا وہی پرانا تھا ، یہ دیکھ کر قدرے اطمینان بھی ہوا۔ اسی سفر میں ان سے ایک اور مجلس میں ملاقات ہوئی جس میں مفتی ارشد فاروقی، حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر رحمہ اللہ بھی تھے ۔ یہ ان کے بے تکلف احباب کی مجلس تھی ، اس مجلس میں مولانا کی روانیِ طبع ہمیشہ کی طرح اوج پر تھی ، ہم نے بھی ان حضرات کی کل افشانی گفتار کا خوب لطف لیا‌‌۔ اس کے چند ماہ بعد ہی کورونا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ، جس کی قہرناکی کا سلسلہ کم و بیش دو سال تک جاری رہا ، اس دوران بھی مولانا پر فالج کے متعدد حملے ہوئے ، صحت ذرا بحال ہوتی تو وہ اپنے معمولات بھی بحال کرنے کی کوشش کرتے اور کبھی کال تو کبھی واٹس ایپ پر ہماری بات بھی ہوجایا کرتی ، پچھلے سال استاذ مکرم مولانا نور عالم خلیل امینی کے سوانحی نقوش پر مشتمل میری کتاب آئی تو مولانا نے واٹس ایپ میسج کے ذریعے مبارک باد دی اور بڑی قیمتی دعاؤں سے نوازا ۔ابھی 17 مئی کو برادر محترم مولانا بدرالاسلام قاسمی نے اطلاع دی تھی کہ مولانا پر فالج کا چھٹا اٹیک ہوا ہے جس کے بعد انھیں اسپتال میں داخل کروایا گیا اور چند دن آئی سی یو میں رہنے کے بعد بہ ظاھر صحت یاب ہو کر گھر آگئے تھے ، مگر بالآخر وقت موعود آ پہنچا اور مولانا اپنے رب کے حضور پہنچ گئے۔ اللهم اغفر له و ارحمه وأسكنه فسيح جناتك يارب العالمين

وہ کم و بیش نصف صدی تک درس و تدریس سے وابستہ رہے اور مختلف علوم و فنون کی امہات کتب پڑھائیں جن میں علمِ حدیث و ادب سر فہرست ہیں، وہ نہایت باکمال خطاط اور خوش نویس کاتب بھی تھے، تقسیمِ دارالعلوم سے قبل عربی مجلہ ’الداعی‘ کی کتابت اور آں وقتی مدیر مجلہ مولانا بدرالحسن قاسمی(مقیم کویت) کی معاونت کیا کرتے تھے، مجھے کہیں سے اجلاس صد سالہ کے موقعے پر شائع ہونے والا ’الداعی‘ کا خصوصی شمارہ ملا تھا ،اس میں ان کی فن کارانہ صلاحیتوں کا مشاہدہ کیا تھا۔ اس کے ایک صفحے پر عربی خطاطی کا بہت پرکشش نمونہ تھا، جسے مولانا نے اپنے ہاتھ کے ناخن سے لکھا تھا۔

بعد از وفات مولانا نے اپنے پیچھے ہزاروں شاگرد چھوڑے ہیں، جو ملک و بیرون ملک علمی خدمات میں مصروف ہیں، متعدد علمی ، سوانحی کتابیں بھی ان سے یادگار ہیں ، ان کے صاحبزادے مولانا بدر الاسلام قاسمی بڑی صلاحیتوں والے اور حوصلہ مند نوجوان ہیں ، امید قوی ہے کہ وہ ہر اعتبار سے ‘خیر خلف لخیر سلف’ کا مصداق ثابت ہوں گے۔

You may also like