عبدالرحمن صدیقی ، جنہیں آج بھی مرحوم لکھتے ہوئے ہاتھ کپکپاتا ہے ، کا انتقال آج ، یکم ستمبر کی تاریخ کو ہی ہوا تھا ، بس دن کا فرق تھا ، وہ جمعہ کا دن تھا اور آج اتوار ہے ۔ دیکھتے دیکھتے ایک سال بیت گیا ! اس دوران مرحوم کی اہلیہ بھی اس فانی جہان سے کوچ کر گئیں ، اللہ دونوں مرحومین کو غریقِ رحمت کرے ، آمین ۔ پورے سال ’ ممبئی اردو نیوز ‘ کے عملے کے ہر فرد اور انتظامیہ کو مرحوم یاد آتے رہے ، یاد آتے رہتے ہیں ۔ کیا بات تھی مرحوم میں یاد رکھنے جیسی ؟ وہ اِس اخبار کے ایکزیکیٹیو ایڈیٹر تھے اور نیوز ایڈٹ کرنے کی انجام دہی کرتے ہوئے اکثر ، عملے کے کسی نہ کسی فرد سے ان کی کہا سُنی بھی ہو جاتی تھی ، اس کے باوجود بھی لوگ مرحوم کو یاد رکھے ہوئے ہیں ! کیوں ؟ اس لیے کہ سب جانتے ہیں کہ مرحوم اپنے معاملات میں تو لوگوں کی سُن لیتے تھے ، لیکن اخبار کے کام میں انہیں ذمہ داری سے کام کرنا اچھا لگتا تھا ، اور اگر انہیں یہ لگتا تھا کہ کوئی لاپروائی برت رہا ہے تو وہ اسے ٹوک دیتے تھے ۔ اپنی ذات پر وہ کسی کا اعتراض برداشت کرنے کی ہمت رکھتے تھے ، صابر انسان تھے اور اپنے عملے کی ہنسی خوشی میں بھرپور انداز سے شرکت کرتے تھے ۔ اکثر کوئی نہ کوئی لطیفہ چھوڑا کرتے ، یا عملہ میں سے کسی کی گدگداتی بات کا لطف لیتے ۔ صدیقی مرحوم کمال کے نیوز ایڈیٹر تھے ! انہیں اس ملک ہی کے نہیں ، بیرون ممالک میں ہونے والے بڑے واقعات اور سانحات ، بالخصوص سیاسی واقعات سے خوب دلچسپی تھی ، اور اکثر صحافی سیاسی تجزیے یا تبصرے لکھتے ہوئے ، گزرے ہوئے سیاسی واقعات کی تصدیق کرتے تھے ۔ مرحوم کی تعلیم کانپور میں ہوئی تھی ، ابتدائی تعلیم مکتب اور پھر مدرسہ میں ہوئی تھی ، لیکن اردو ، انگریزی اور ہندی پر انہیں مکمل عبور تھا اور کچھ سنسکرت و فارسی بھی جانتے تھے ۔ اداریے جم کر لکھتے تھے ، خاص کر سیاسی اور مسلم ممالک کے حالات پر ۔ کچھ شخصیات سے انہیں کافی دلچسپی تھی ، مثلاً وہ پاکستانی فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کو پسند کرتے تھے ! مرحوم میرے بھی ساتھی تھے ، اور اس کی ایک بڑی وجہ ہم دونوں کی کتابوں سے محبت تھی ۔ مرحوم کو کتابوں اور رسالوں ، خاص کر غیر ملکی انگریزی کے رسالوں کے مطالعے کا بہت شوق تھا ، اور وہ اپنے اس شوق کو پورا کرنے کے لیے ممبئی ہی نہیں ممبئی کے مضافات تک کی کتابوں اور کباڑیوں کی دکانوں کو چھان مارتے تھے ۔ مجھے عموماً ان کی زبانی پتہ چلتا تھا کہ فلاں فلاں اچھی کتاب بازار میں آئی ہے ۔ اب میرا کوئی ایسا ساتھی نہیں ہے جو کتابوں اور رسالوں کی بات کرے ، یا بتائے کہ فلاں کتاب یا فلاں رسالے کا فلااں مضمون ؒضرور پڑھیں ۔ ’ ممبئی اردو نیوز ‘ میں انہوں نے زندگی کے بیش قیمتی سال دیے ، اور خوب محنت کی ، لوگوں سے مل جل کر رہے ، اسی لیے عملے کے سارے لوگ ، انتظامی عملہ اور مالکان انہیں بھول نہیں سکے ہیں ۔ اللہ ہم سب کے عزیز دوست کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ، آمین۔