Home نقدوتبصرہ شاعری میں ٹھہر گئے ایک سفر کی بات -مالک اشتر

شاعری میں ٹھہر گئے ایک سفر کی بات -مالک اشتر

by قندیل

اس کہانی کا اختصار یہ ہے کہ ایک نوجوان نے اپنے ‘دیار شوق’ سے دیار غیر کی طرف ہجرت کی تھی۔ اس ترک سکونت کو ہوئے دو دہائیوں سے زیادہ بیت چکی ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے دوحہ قطر پہنچا وہ نوجوان اب اپنے لئے ایک دلکش دنیا تعمیر کر چکا ہے لیکن۔۔۔ان سب کے باوجود نہ جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ عزیز نبیل کی شاعری میں ان کی وہ ہجرت، وہ سفر ٹھہر گیا ہے۔ عزیز نبیل کے دوسرے شعری مجموعے ‘آواز کے پر کھلتے ہیں’ کو اگر میں اس ہجرت کی تفصیل کہوں تو شائد کچھ ایسا بے جا بھی نہ ہو۔

یہ کس زمیں کی کشش کھینچتی ہے میرے قدم
یہ کون لوگ بلاتے ہیں مجھ کو اپنی طرف

نئے جہانوں کے خواب آنکھوں میں پل رہے ہیں
نئے ستارے پرانے رستے بدل رہے ہیں

کچھ تو ایسا تھا کہ بنیاد سے ہجرت کر لی
خاک یونہی تو نہیں اپنے وطن سے نکلی

ہجر، ہجرت، سفر، مسافرت، سامان سفر، پردیس اور فرقت جیسے حوالے غزل کے لئے اجنبی نہیں ہیں لیکن عزیز نبیل نے انہیں کسی اور حادثے کا استعارہ بنانے کے بجائے ان کے اصل پس منظر کے ساتھ ہی اپنی شاعری کے لئے منتخب کر لیا ہے۔ اس طرح دونوں کام ہو گئے۔ دل پر جو کچھ گزرا اس کا بیان بھی ہو گیا اور غزل کا مخصوص لب و لہجہ بھی برقرار رہا۔

اک منظر حیرت میں فنا ہو گئیں آنکھیں
آئے تھے کسی موسم دیدار میں ہم لوگ

اٹھا کر لے گئی ہم کو روانی پانیوں کی
کناروں کی تھکن میں جذب تھی ہجرت ہماری

ہم جس ماحول کے پروردہ ہیں وہاں ہجرت اذیت بھی ہے اور ضرورت بھی۔ ہم دھان کی فصل کا پنیر نہیں کہ جہاں چاہا اگایا اور جس جگہ دل کیا، لے جاکر روپائی کر دی۔ ہم تو وہ پودھے ہیں جنہیں اگر اکھاڑا گیا تو، یا تو جڑوں کے بہت سے حصوں نے کٹ جانا قبول کر لیا، لیکن مٹی کی گود نہیں چھوڑی، یا پھر ہماری مٹی ہی جڑوں سے لپٹی لپٹی پودھے کے ساتھ آ گئی۔ ایسی روایتوں کے قبیلے سے تعلق رکھنے والوں کے لئے کیا ہجرت سے بھی زیادہ صبر آزما کوئی منزل ہو سکتی ہے؟ آپ ہی فیصلہ کیجئے۔ اب اگر عزیز نبیل کی شاعری میں جڑوں سے لپٹی مٹی کی خوشبو جابجا ملے تو حیرانی کیسی؟

بہتا ہوں میں دریا کی روانی سے کہیں دور
اک پیاس مجھے لائی تھی پانی سے کہیں دور

بجھ چکے راستے، سناٹا ہوا، رات ڈھلی
لوٹ کر ہم بھی چلے جائیں مگر گھر بھی تو ہو

کہیں بھی جاتا ہوں گھر ساتھ ساتھ چلتا ہے
عجب طرح کا تعلق ہے گھر سے لپٹا ہوا

عزیز نبیل کو پڑھنا اوروں کے لئے کیسا تجربہ ہے، یہ وہ جانیں مگر میرے لئے ان کی شاعری سے گزرنا اس زخم کی ٹیس کی طرف دھیان دینے جیسا ہے، جس کی تکلیف سے بچنے کے لئے ہم بڑی مشکل سے اس کی طرف سے ذہن ہٹائے بیٹھے تھے۔ ابھی اذیتوں کا یہ ابر ذرا بہت سا چھٹا ہی تھا کہ عزیز نبیل کی شاعری کی آواز کے پر کھلے اور سب کچھ پھر سے جل تھل ہو گیا۔
ہم نے دیہات سے بڑے شہر کی طرف ہجرت کو اپنا مقدر بنتے دیکھا تو بہت سے ایسے بھی تھے جنہیں مسافرت کی آندھی سرحدوں اور سمندروں سے دور لے گئی۔ ہم سب کے سب آنکھوں میں روشن مستقبل کے خواب سجائے گھروں سے نکلے، ہم سب کی گٹھڑیوں میں اپنی زمین چھوڑنے کی ایک سی کسک بندھ کر ساتھ آ گئی تھی۔

موہوم ساحلوں کے تحیر میں گم نبیل
ہم رک گئے جہاں بھی کنارہ ہوا نصیب

میاں تم کیا خریدوگے ہمارے خواب، جاؤ!
لگا سکتے نہیں نیندوں کی بھی قیمت ہماری

نشان راہ نہ ہو، سایۂ شجر بھی نہ ہو
جنوں تمام نہ ہو، راہ مختصر بھی نہ ہو

‘آواز کے پر کھلتے ہیں’ کی رفاقت نے مجھے دیہات سے شہر کی طرف اپنی ہجرت کی یاد تو دلائی ہی، یادوں کی بستی کی طرف کھلنے والی کھڑکی کے پٹ بھی کھول دیئے۔ میں اپنے بچپن اور بستی میں جا نکلا، جہاں میں نے جوان ہوتی نسل کو پردیس روانہ ہوتے اور ادھیڑ ہوتی نسل کو پردیس چھوڑ کر آتے دیکھا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھی کوئی بدیس سدھارتا تو اس کا ایک بڑا تھیلہ تو ان خطوط سے بھر جاتا، جو پردیس میں پہلے سے رہ رہے لاڈلوں کے نام تھے۔ اشک آلود روشنائی سے لکھی ان چٹھیوں میں سلامتی کی دعاؤں کے ساتھ یہ جملہ بار بار لکھا ملتا کہ ‘ہم سب تمہیں بہت یاد کرتے ہیں’۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ تو کہانی ایک حصہ ہوا، اس وقت کا کیا جب ان خطوں کو وصول کرنے والے، پردیس کے اپنے کمروں میں انہیں کھولا کرتے ہوں گے؟۔ کیا ان کی آنکھوں پر جھلملاتے آنسو انہیں آسانی سے پورا خط پڑھنے دیا کرتے ہوں گے؟۔

زندگی کی اس ‘ہجرت’ نامی واردات کو عزیز نبیل کی غزلوں کے آئینہ میں پڑھنا، ایک بے کلی کو مول لینے جیسا ہے۔ یہ شاعری اپنے قاری کو احساسات اور یادوں کے نگر میں جا چھوڑتی ہے۔ وہاں بیٹے کو قرآن کے نیچے سے گزارتی ماں ہے، بھائی سے فون پر بات کرتی بہن ہے، دھیمی آواز میں اپنے شوہر سے یاد آنے کی بات کہتی بیوی ہے، ہوائی اڈے پر بیٹے کو اچانک سامنے دیکھ کر بچوں کی طرح روتا بوڑھا باپ ہے، بھائی کو سلواکر بھیجنے کے لئے کپڑا خریدتا بھائی ہے۔ ان سب کے احساسات شعر کا فقط ایک مصرع ہیں، اس شعر کو مکمل کرنے کے لئے دوسرا مصرع بھی تو چاہئے۔ وہ مصرع چاہئے، جو ہجرت کرنے والے اس شخص کے احساسات سے عبارت ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ عزیز نبیل کی پوری شاعری شعر کو پورا کرنے والا وہی دوسرا مصرع ہے۔ اس موضوع پر کہنے کو میرے پاس بھی کئی باتیں ہے اور عزیز نبیل نے تو خیر اپنی شاعری میں اس عنوان کا حق ہی ادا کر دیا ہے، لیکن احساسات کے نازک تار زیادہ چھیڑے جائیں تو ان کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ بنا رہتا ہے، اس لئے عزیز نبیل کے دو شعر سناکر چپ ہو جانا ہی ٹھیک ہے۔

ہاتھ خالی نہ تھے جب گھر سے روانہ ہوا میں
سب نے جھولی میں مری اپنی ضرورت رکھ دی

نبیل ریت میں سکے تلاش کرتے ہوئے
میں اپنی پوری جوانی گنوائے بیٹھا ہوں

You may also like

Leave a Comment