Home نقدوتبصرہ ایک ناول – احمد حسین

ایک ناول – احمد حسین

by قندیل

ریسرچ اسکالر،جواہرلال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی

دبیز اور بوسیدہ دفتی کو پلٹتے ہی نظر پڑی کسی نے کتاب کے پہلے صفحہ پہ پینسل سے لکھا تھا "اس کتاب کو ضرور پڑھیں، آپ کی معاشرتی سوچ کو غذا ملے گی” کتاب تو کسی اور کے مشورے سے اٹھایا تھا مگر اس جملے نے تقریبا 370 صفحے کی ناول کو پڑھنے کا مزید حوصلہ بڑھایا، ایک، دو، تین پھر دس بیس اور پچاس صفحے تک پہنچتے پہنچتے کتاب نے اپنی گرفت میں لینا شروع کیا، اور تقریبا ہر ناول کے ساتھ یہی ہوتا ہے کہ آپ چند صفحات کے بعدکردار اور کہانی میں گھستے چلے جاتے ہیں اور ایک کڑی سے دوسری اور تیسری کڑی تک پہنچنے کے لیے بیتاب رہتے ہیں۔

دھنباد، جھریا اور سندری کے کوئلے کے کانوں کے گرد گھومتی کہانی جیسے میری خود کی کہانی ہو، کیوں کہ گاؤں اور مقامات کے نام میرے لیے مانوس تھے۔ چونکہ میں خود اس علاقہ سے تعلق رکھتا ہوں اس لیے کسی واقعہ یا منظر کی جانب مصنف کا ذرا سا اشارہ مکمل تصویر بن کر آجاتا ہے، مجھے کوشش نہیں کرنی پڑتی ہے کہ مصنف یہاں کیا کہنا چاہ رہا ہے،ایسا محسوس ہوتا ہے گویا میں خود کوئلے کے کسی اونچے ملبے میں کھڑے ہو کر سارا منظر دیکھ رہا ہوں۔
بیسویں صدی کے آخری میں لکھی گئی کہانی در حقیقت ہندوستان کے ہر علاقہ کی کہانی ہے، ہندوستانی سماج کا ایک معمولی خاکہ ہے جہاں صدیوں سےکمزور اور طبقاتی نظام میں دبے کچلے لوگوں کا استحصال کیا جاتا رہا، بس علاقہ اور جگہ کا نام مختلف ہوتا ہے ظلم کی کہانی ایک ہوتی ہے۔

انوراگ کشپ کی فلم "گینگ آف واسع پور” اسی کتاب سے متاثر لگتی ہے، بلکہ ایک ایک کردار جیسے انہوں نے یہیں سے اخذ کیا ہو، جھریا اور دھنباد میں موجود کوئلے کی کانوں میں ظلم اور غنڈہ گردی کی اس کتاب میں نہایت ہی عمدہ تصویر کشی کی گئی ہے۔

یہ ناول حقیقت میں سیاہ زمین کے گرد آباد اس علاقے کی معاشرتی اور سماجی حقیقت کی ایک دستاویز ہے، جس میں کولیری میں کام کرنے والے مزدوروں کے ظلم و ستم کا تاریک باب درج ہے، انسانی سماج کی اونچ نیچ اور طبقاتی نظام کے بوجھ تلے دبی چیختی کراہتی انسانیت کی آہ و بکا کی ایک درد انگیز کہانی ہے جس پہ کوئی بات نہیں کرتا، اور جو کچھ ہوتا ہے ہونے دیا جاتا ہے۔
بے رحم زندگی بے بس اور لاچار انسانوں کے ساتھ کیا کیا کھیل کھیلتی ہے کتاب نے نہایت سادہ مگر پر اثر انداز میں بیان کیا ہے، مذہب، تہذیبی و ثقافتی اقدار و روایات، عزت و حرمت سب دولت و ثروت سے وابستہ ہوتی ہیں، غریب کی نہ کوئی تہذہب ہوتی ہے نہ ثقافت، ان کی نہ کوئی عزت ہوتی ہے نہ حرمت وہ محض ایک عدد زندگی کے مالک ہوتے ہیں اور کسی طرح اسے گذار کر اس جابر دنیا سے رخصت ہو جانا چاہتے ہیں، معاشرے میں ناسور کی طرح پنپتے برہنہ حقائق، خواتین مزدوروں کی جنسی استحصال، مزدوروں کے جسم میں بچی ہڈی کا ڈھانچہ خود ان پہ ہوئے ظلم کی گواہ ہوتی ہے مگر یہاں نہ کوئی دیکھنے والا تھا نا کوئی سننے والا، استحصال در استحصال کی طویل اور نہ ختم ہونے والی ایک داستان ہے۔

دولت اور طاقت کی گرد گھومتی زندگی میں ان مزدوروں کے پاس نہ تو طاقت ہے نہ پیسہ، مالک کے رحم و کرم سے اتنا مل جاتا ہے کہ ان کی سانس چل رہی ہوتی ہے، کولیری میں کام کرنےوالے ہرانسان کی ایک الگ کہانی ہے، درد بھری کہانی، وہ کہانی دھوپ اور کڑی محنت سے سیاہ اور جھریاں پڑے چہرے خود بیان کرتی ہیں، بسا اوقات آپ ان کا درد سن کراپنی آنکھوں میں آنسوؤں کی یلغار کو روک نہیں سکتے۔

دیگر مذاہب میں طبقاتی نظام کے چکرویو میں پھنسے نچلے طبقوں کے ظلم و ستم کی کہانی کافی دردناک ہے لیکن مذہب کوئی بھی ہو اور نام کچھ بھی دے دیا جائے، ہر زمانے میں ایک طبقہ موجود رہتا ہے، غربت کا مارا، بھوک سے پریشان، اس طبقے کا استحصال ہر وہ شخص کرتا ہے جس سے ممکن ہو پاتا ہے، مسلمانوں میں موجود اس غیر مساواتی نظام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں:

"خاں صاحب کی ماں آتی ہے، دن کا بچا ہوا کھانا لے کر(غربت سے دم توڑتے رحمت میاں کے گھر) کتوں سے پہلے آدمی کو دیکھنا چاہئے، یہی اصل ایمان ہے، اللہ اس کا اجر دیتا ہے۔آدمی بھی عجیب ہوشیار ہے، پھیکنے والے کھانے کی بھی قیمت وصولنا چاہتا ہے، آدمی سے نہیں ملے تو اللہ سے”

روپیہ پیسہ اور طاقت و خون ریزی کے دلدل میں پھنسے مزدور کے جسم سے ایک ایک قطرہ نچوڑ لیا جاتا ہے، انہیں کے خون پسینے سے لوگ بڑے بڑے عالی شان اور پر تعیش مکانات بناتے ہیں اور بے چارے مزدور مزدوری کرتے کرتے جان دے دیتے ہیں، ظلم و جبر کی یہ داستاں ہمارے اپنے ہی سماج کی پاتال کی کہانی بیان کرتی ہے، در اصل یہ ایک اجتماعی ظلم ہے جو اشراف اپنے ماتحت پر کرتا ہے خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، اپنی برتری اور تفوق کو برقرار رکھنے کے لئے۔

مذہب اور تہذیب تو اہل ثروت کے لئے ہوتی ہے، غریب کے پیٹ کی آگ بجھے تو وہ کائنات کے اسرار و رموز میں غور و خوض کرے، اس کائینات کے خالق و مالک کا پتا لگائے اور اس کی پرستش کرے، لیکن روٹی کی حاجت انہیں کب یہ موقع دیتی ہے، پیٹ کا مسئلہ حل ہو تو وہ کچھ اور سوچے، نسل در نسل یہی سلسلہ چلتا رہتا ہے، بیشک تمام سیارے آفتاب کے گرد چکر لگاتے ہوں لیکن زندگی صرف اور صرف پیسہ اور طاقت ہی کا طواف کرتی ہے۔

بغاوت اور انقلاب کی کوئی صدا اگر اٹھتی ہے تو طاقت کے زور پر کچل دیئے جاتے ہیں یا اتھاہ دولت کے بدلے خرید لیے جاتے ہیں۔

الیاس احمد صاحب نے "فائر ایرایا” میں درد و غم کی اسی طرح ایک المناک داستاں بیان کی ہے، اس کتاب سے معاشرے کے تانے بانے اور ان مفلوک الحال لوگوں کا درد سمجھنے میں مدد ملتی ہے جن کے درد اور آبرو کسی شمار میں ہی نہیں آتے، موصوف خود اس علاقہ سے اور ایک مزدور گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لہذا ایک ایک سطر میں جیسے انہوں نے اپنا کلیجہ نکال کر رکھ دیا ہو، ایک دفعہ ضرور اسے پڑھنا چاہیے تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ جس عزت اور ثقافت کی ہم دہائی دیتے ہیں، اپنے آرام کدوں سے عفت و حرمت پہ لمبی لمبی باتیں کرتے ہیں اور اگر اپنی یا اپنے خاندان کی عزت پہ کوئی بات آجائے تو کٹ مرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، وہیں ہماری ہی دنیا میں کچھ لوگ آباد ہیں جن کی عزت کی کوئی قدر ہے نہ ان کی حرمت کی کوئی قیمت۔

You may also like

Leave a Comment