مولانا عبد القادر شمس قاسمی اب ہمارے درمیان نہیں رہے ۔اب ہم ان سے نہیں، کبھی نہیں مل پائیں گے۔ یہ سوچ کر دل خون کے آنسو روتا اور جگر شق ہوتا ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان کی وفات کے دن سے اب تک اپنے دل کو سنبھال نہیں پایا۔ دل منوں بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور میں واٹس ایپ پر یہ چند ٹوٹی پھوٹی سطریں لکھ رہا ہوں۔ ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات یاد آتے ہیں اور آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں۔ میں مرحوم( ہاے انہیں مرحوم لکھتے ہویے کلیجہ منھ کو آتا ہے) کے بھائ عبد الواحد رحمانی اور بیٹے عمارکو دلاسا دیتا رہا ہے کہ وہ کوئی وہم نہ پالیں۔ہمت رکھیں۔ وہ ہر حال میں روبہ صحت ہوکر ان شاءاللہ باہر آئیں گے۔
میرے دوست، میرے بھائی عبد القادر صاحب! جانا تو سبھی کو ہے لیکن کوئی ایسے بھی جاتا ہے کیا کہ ہم دو بات بھی کہہ سن نہ پائیں۔
جس دن انہیں مجیدیہ ہسپتال لایا گیا ،عبد الواحد بہت پریشان تھے۔ کہنے لگے وارث بھائی میں دوبارہ یتیم ہوجاؤں گا۔ میرا اس دنیا میں اس بھائی کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ میں نے کہا ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔ آپ حوصلہ رکھیں۔ میں ایک بھائی کی طرح آپ کے ساتھ ہوں ۔ روزانہ ان کے بیٹے عمار سے بات ہوتی۔ وہ گھبراہٹ کا اظہار کرتا اور میں تسلیاں دیتا کہ رات دن لوگ بیمارہورہے ہیں اور اچھے بھی ہورہے ہیں۔ حوصلہ رکھیں چند دن صبر کریں۔ مایوسی کی کوی بات نہیں ہے۔ مجیدیہ میں جانے کے بعد ان کی طبیعت سنبھلنے کے آثار پیدا ہوگئے۔ایک گونہ اطمینان ہونے لگا۔ دعائیں اوراپنی سی کوششیں دونوں جاری تھیں،لیکن افسوس!
چاروں اولاد کے ساتھ ان کے بھائی عبد الواحد بھی یتیم ہوگئے۔ جنہیں انہوں نے والد کی وفات کے بعد اپنے بچے کی طرح پالا تھا۔ والد کی وفات بھی ایک بڑا اندوہ ناک حادثہ تھا۔ گاؤں کے کچھ بد باطن لوگوں نے کسی رنجش کا بدلہ لینے کے لیے انہیں قتل کرڈالا۔ پھر گھر کی ساری ذمہ داری ان پر آن پڑی۔ مرحوم حادثوں کے شکار ضرور رہے۔لیکن انہیں کبھی کوئی قابل ذکر بیماری لاحق نہیں ہوئی۔ وہ ہمیشہ تندرست و توانا رہے۔ جب بھی ملے متبسم چہرے اور نہایت والہانہ پن کے ساتھ ۔ منکسر المزاجی اور زندہ دلی ان کی طبیعت ثانیہ تھی۔ باتوں باتوں میں پرزور قہقہے لگاتے۔ ہنسی اور دل لگی کی باتیں کرتے ۔ خوش رہنا اور دوسروں کو خوش دیکھنا ان کے سرشت میں شامل تھا۔
مرحوم سے ہمارا تعلق قریبا بیس سالوں پر محیط ہے۔ میں نے ترجمان دار العلوم کے مدیر کے طور 2000 میں ذمہ داری سنبھالی ۔ وہ ملی اتحاد سے بطور سب ایڈیٹر وابستہ تھے اور عملا اس کی ساری ذمے داریاں نبھاتے تھے۔ یاد آتا ہے کہ پہلی بار تنظیم ابناے قدیم دارالعلوم دیوبند کے آفس سیکرٹری مولانا نوشاد عالم قاسمی نے ہمیں ایک دوسرے سے متعارف کروایا اور یہ تعارف پہلے دن سے دوستی میں تبدیل ہوگیا۔ اس کے بعد نہ جانے کتنی شامیں اور صبحیں ساتھ گزریں۔ مولانا نوشاد،میں اور مولانا مرحوم کی دوستی کا مثلث باقی رہا۔ تنظیم کے خالی اوقات میں ہم گپیں ہانکتے اور مستقبل کے پلان بناتے تھے۔ ان ایام میں جب بھی نظر آتے بغل میں ملی اتحاد کی فائل دبی ہوتی تھی، بکھرے بال اور پریشان حال نظر آتے۔ جس پر ہم ان سے چٹکیاں لیا کرتے تھے کہ ملت کا سارا درد آپ نے اپنے دل میں بسا رکھا ہے ۔ وہ ہمیشہ سر کھجاتے ہویے اپنی مصروفیات اور الجھنیں بتاتے تھے۔ اصل میں جو کوئی ان کے ٹچ میں آتا وہ ان کے ہوجاتے تھے۔ پھر ان کے بہت سے کاموں کو اپنے سر پر لادلیتے تھے۔
2002 یا 2003 میں روزنامہ راشٹریہ سہارا میں جب سب ایڈیٹر کی پوسٹ نکلی تو ہم دونوں نے ساتھ جاکر انٹرویو دیا۔وہ کامیاب رہے اور میں ناکام جس پر مرحوم بار بار افسوس کا اظہار کرتے رہے۔ لیکن جب سہارا میں تلخ تجربات کا انہیں سامنا ہوا تو سہارا کےلیے میرے عدم انتخاب کو میری خوش بختی تصور کرتے تھے۔عالمی سہارا اور روزنامہ راشٹریہ سہارا میں ان کے توسط سے میرے متعدد مضامین شایع ہوئے۔ بکثرت ایسا ہوتا کہ وہ مضامین لکھواتے،انہیں شایع کرتے اور پھر ان کے معاوضے کا چیک خود لاکر تھمادیتے تھے۔
مرحوم نے درویشی اور قلندری کو اپنا شعار بنایا۔ بارسوخ سیاسی وسماجی شخصیات سے ان کے اچھے مراسم تھے لیکن انہوں نےشخصی منافع کے حصول کے لیے ان کا استعمال نہیں کیا۔اپنے علاقے میں مکاتب کھولے۔اپنے ٹرسٹ کے ذریعے متعدد طرح کے رفاہی کام کرتےتھے جن میں غریب خاندانوں کے لیے روزگار مہیا کرنے کے علاوہ علاج معالجے کی خدمات (موبائل ہاسپٹل) بھی شامل ہیں۔ سہارا کی نوکری صرف گھر کے چولہے کو بجھنے سے بچانے کے لیے تھی، باقی ان کی ساری ذہنی اور عملی تگ و دو اور مصروفیات ملی اور سماجی کاموں کے لیے وقف تھیں۔انہوں نے ان کو ذریعۂ معاش نہیں بنایا۔ ان کا ذہن منصوبہ ساز تھا اور طبیعت حوصلہ مند ۔ چناں چہ طرح طرح کے منصوبے بناتے۔ نہایت جوش و خروش کے ساتھ ان کی تفصیل بتاتے اور ان کے شرمندۂ تعبیر ہونے کے قطعی یقین پر دل سے خوش ہوتے تھے۔ ان کی بے لوثی اور بے غرضی کے ایسے متعدد واقعات میرے ذہن میں ہیں۔ انہوں نے صلہ و ستائش کی پرواکیے بغیر دوسروں کے کاموں کے لیے اپنے وقت اور صلاحیت کو داؤ پر لگا دیا اور حرف شکایت زبان پر نہیں لائے۔ دوسروں کے کام کو انجام دے کر اس طرح خوش ہوتے جیسے یہ ان کا ذاتی کام ہو۔ بہت سے لوگوں کو انہوں نے ملازمت سے لگایا جن میں ہمارے مشترکہ دوست نوشاد عالم قاسمی بھی ہیں۔
مجھے یاد نہیں پڑتا کہ اپنے بیس سالہ تعلقات میں کبھی ان سے کوئی معمولی رنجش،کوئی ان بن ہوئی ہو۔اگر کسی سے ایسا ہوتا بھی تو اگلے ہی لمحے وہ موم ہوجاتے اور سب کچھ بھول جاتے تھے۔
ابھی بیماری سے چند دنوں قبل ان کا فون آیا کہ آپ اپنی کچھ سوانحی تفصیلات بتائیں۔شاید وہ کچھ لکھنا چاہتے تھے۔ میں نے پیشگی شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ لکھ دیجیے۔ سمجھیے دعوت پکی ہے۔ کیا پتا تھا کہ ان سے یہ آخری گفتگو ثابت ہوگی۔ مرحوم کے اہل خانہ کو شکایت تھی کہ ان کے چاہنے والے اور دوستی کا دم بھرنے والے اکثر افراد اس آزمائش کی گھڑی میں ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ مالی مسائل بھی پیدا ہوگئے تھے۔ مرحوم نے خدمت خلق کے بہت سے کام کیے لیکن اپنے برے وقت کے لیے اثاثہ جمع نہیں کیا۔ جو کچھ تھا وہ اس بیماری میں کام آگیا۔ دین وملت کے مخلص خادم اور انسانیت کا درد رکھنے والوں کی کہانی ایسی ہی ہوتی ہے۔ایک بچی کی شادی ابھی جلد ہی ہوئی تھی۔ باقی دو لڑکیاں اور ایک لڑکا زیر تعلیم ہیں۔ اللہ بڑا کار ساز ہے ۔ وہ اس مصیبت کی گھڑی میں ان کی ضرور غیب سے اپنی مدد فرمائے گا۔
جانے والے تو جاتے رہتے ہیں۔ یہی زندگی کی سچائی اور حقیقت ہے لیکن کسی کا اس طرح اچانک روٹھ کر زندگی کی بھری پری بزم سے چلا جانا، دل کی دنیا کو ویران کرجاتا ہے۔ باقی رہ جاتی ہیں صرف ان کی حسین یادیں ۔ یادیں جو دل کو کچوکے لگاتی،تڑپاتی اور یاد دلاتی رہتی ہیں کہ نہ جانے کس گھڑی ہم بھی صرف اور صرف ایک یاد بن کر رہ جائیں:
حیف در چشمِ زدن صحبتِ یار آخر شد
روے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد!