وہ ایک لڑکی جو ٹکرا گئی تھی راہوں میں
وہ گھومتی ہے ابھی تک مری نگاہوں میں
بھلی سے شکل تھی اچھا سا نام تھا اس کا
نسیم سحر سا نازک خرام تھا اس کا
ہر اک قدم پہ وہ شوخی، وہ بانکپن اس کا
بہار اس کی، اسی کے سَمَن، چمن اس کا
چلے تو جیسے ہواؤں کی اُف نکل جائے
رکے تو جیسے نظاروں کو رکنا کھَل جائے
وہ جس کا صرف اشارہ ہی فتنہ قامت ہو
وہ ہاتھ اٹھا کے جو انگڑائی لے، قیامت ہو
وہ سانس لیتی تو جوبن پہ دریا چڑھتے تھے
وہ بولتی تھی تو ہونٹوں سے پھول جھڑتے تھے
وہ خوش جمال کہ دام اجل کا اک پرتو
شہید ہوتے تھے اک اک نگاہ میں سو سو
ردھم وہ سانسوں کا موسیقی کو حیات ملے
بس اک جھلک بھی ملے اس کی، کائنات ملے
وہ کھلکھلائے یوں، دُھن کوئی آبشاروں میں
ہنسے تو جیسے لگے موتی ہیں قطاروں میں
قبا میں برق ہو یا برق کی قبا پہنے
وہ اس کے ناز، وہ انداز ہائے کیا کہنے
کہ جیسے پڑ گئی ہو جان حسین مورت میں
کہ جیسے حور ہو کوئی بشر کی صورت میں
پکارتی ہوئی آتی ہے میرے خوابوں میں
مرے خیالوں، تمناؤں کے سرابوں میں
حیا سے، جذبۂ بے اختیار کس دیتی
لجاتی، شرم سے پھر مسکرا کے ہنس دیتی
حیا سے جھکتی نظر گر کبھی جو مِل جاتی
تو مارے شرم کے وہ دہری ہو کے ہِل جاتی
تھکی تھکی سی نگاہیں، رکے رکے منظر
اداس اداس سی آنکھیں، بجھی بجھی سی نظر
وہ آنکھ اک نئی ان دیکھی دنیا کا دَرپَن
وہ آنکھ، پلتے ہوئے خوابوں کا کوئی مسکن
ہزار کشمکشوں کی منتشر بہار اس میں
کئی ہزار برس کا تھا انتظار اس میں
وہ ہر حواس پہ کچھ ایسے نقش سے چھائے
کوئی جو بھولنا چاہے بھی بھول نہ پائے
دل اپنا کوئی کہاں تک کہو بچا پاتا
وہ جیسے دیکھ رہی تھی، کوئی بھی لُٹ جاتا
میں تھک کے جو ابھی دریا کے پار بیٹھا ہوں
یہ سوچتا ہوں کہ دل اس پہ ہار بیٹھا ہوں
وہ گھومتی ہے ابھی تک مری نگاہوں میں
وہ ایک لڑکی جو ٹکرا گئی تھی راہوں میں