شعبۂ تاریخ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
ترجمہ: محمد شمیم الزماں
استنبول میں اپنے قیام (13سے 27جون 2023ء)کے دوران ایک سوال نے مجھے بے حد پریشان رکھا: 1453ء میں عثمانیوں کے ہاتھوں شکست سے قبل بازنطینی یونانی عیسائیوں نے ترکی پر تقریباً ایک ہزار سال تک حکومت کی۔ ترکی اور اس کے مضافات میں عثمانیوں کے زیر اثر علاقوں میں عیسائیوں کی آبادی ضرور رہی ہوگی۔ آخر وہ کہاں گئے؟1453سے لے کر 1923کے دوران ان پر کیا گذری؟ 1923کے بعد ترک جمہوریہ میں ان کے ساتھ کیا ہوا؟مجھے ان سوالات کا جواب نہیں ملا، نہ ہی مجھے استنبول میں ایسے ماہرین تعلیم یا صحافی ملے جن سے میں ان سوالات کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتا تھا۔
ترکی کے بارے میں میرا اپنا مطالعہ بنیادی، یعنی نہایت محدود، معلومات سے بھی کم رہا ہے۔ جدید عالمی تاریخ میں ہمارا انڈرگریجویٹ کورس مختصر طور پر مصطفی کمال اتاترک (1881-1938)کے مطالعہ تک محدود رہا ہے۔ ہندوستان میں تحریک خلافت پر ہمارے کورس میں اس بات پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی کہ ترکی میں سنّی خلافت کا ادارہ (1517-1923)کیوں اور کیسے وجود میں آیا اور ہندوستانی مسلم قیادت 1920کے آتے آتے اس کے بارے میں اتنی فکر مند کیوں ہو گئی؟مجھے اس موضوع میں ہمیشہ دلچسپی رہی ہے کہ اتاترک کی قیادت میں نوجوان ترک تحریک جمہوری نظام کو خلافت کی جگہ ایستادہ کرنا چاہتی تھی جبکہ ہندوستان کی مسلم قیادت نے مسلمانوں کو خلافت کے تحفظ کے لیے متحرک کیا، کیوں؟ اس سوال پر فکر کا ایک پہلو انتظار حسین (1923-2016) کی حکیم اجمل خاں (1868-1927) کی بایوگرافی (1999)، اجملِ اعظم، میں مترشح ہوتا ہے۔ اس کتاب کا ایک اقتباس نقل ہے:
‘‘تحریک خلافت نے ایک انتہائی جذباتی رویے کو جنم دیا تھا۔ یا شاید اس انتہائی جذباتی رویے نے ہی تحریک خلافت کو جنم دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس کے بعد کیا ہوا؟ تحریک خلافت ہی کا آوا بیٹھ گیا۔ اس وقت تو سارا ہندو مسلم اتحاد اسی تحریک کے دم سے تھا۔ تحریک [خلافت ] ٹھنڈی ہوئی تو جوش اتحاد بھی ٹھنڈا ہوتا چلاگیا۔ اور صرف ٹھنڈا ہی نہیں ہوا، اس کے نتیجہ میں ایک اور مورچہ گرم ہو گیا۔ اصل میں اس اتحاد نے دو گروہوں کو بہ یک وقت خوف زدہ کیا۔ انگریزوں کو اب اندازہ ہوا کہ ہندو مسلمان متحد ہو جائیں تو کتنی بڑی طاقت بن سکتے ہیں اور ان کے لئے کتنی مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ مگر عجب ہوا کہ ہندو خود اس اتحاد سے ڈر گئے۔ ان کے اس نئے ڈر کا ایک تاریخی پس منظر تھا۔ آخر یہ تحریک خلافت کے نام پر چلی تھی۔ جس کا مرکز ترکی میں تھا۔ ساتھ ہی مسلمان رہنماؤں نے یہ منصوبے باندھنے شروع کر دیئے تھے کہ افغانستان اور ترکی کی مدد آزادی کی تحریک کے لئے حاصل کی جائے۔ ان کے ان ارادوں نے ہندوؤں کے اندر سوئے ہوئے اس تاریخی تجربے کو زندہ کر دیا کہ ان علاقوں سے اول العزم جنگجو نکلتے تھے اور ہندوستان پر حملہ آور ہوتے تھے۔ بس اس یاد کے ساتھ ان کے اندر وسوسے اور اندیشے پیدا ہوتے چلے گئے۔ لالہ لاجپت رائے (1865-1928) نے اپنے مذکورہ خط میں سی۔ آر۔ داس کو یہی تو لکھا تھا کہ ”میں ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں سے خوف زدہ نہیں ہوں۔ لیکن اگر ان سات کروڑ کے ساتھ افغانستان، وسطی ایشیا، عرب، عراق اور ترکی کے مسلح لشکر بھی شامل ہو جائیں تو پھر ان کا مقابلہ مشکل ہوگا”۔ قسمت کی خوبی دیکھئے کہ ان اندیشوں میں گھرے ہوئے لالہ لاجپت رائے کا انہیں دنوں ترکی جانا نکل آیا۔ استنبول میں ان کی ملاقات مولانا عبید اللہ سندھی سے ہوء۔ مولانا نے انہیں وہ منصوبہ، جس پر وہ بہت کام کر چکے تھے، بتایا۔
آزادی کے لئے افغانستان کے راستے انڈین نیشنل کانگریس کو روسی مدد پہنچاء جائے۔ افغانستان کے نام پر لالہ لاجپت رائے بھڑک اٹھے۔ ظفر حسن ایبک [آپ بیتی] کی روایت کے مطابق مولانا کا قیاس یہ تھا کہ لالہ لاجپت رائے نے ہندوستان جا کر اس کا ذکر مدن موہن مالویہ سے کیا جس سے ہندو مسلم تعلقات میں خرابی پیدا ہوتی چلی گئی۔
اصل میں تحریک خلافت کے قائدین نے اپنی ساری دانائی کے باوجود دو عوامل کو بالکل نظر انداز کیا۔ ایک تو انہوں نے ترکی کے اندرونی معاملات اور مسائل کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ نہ تو انہوں نے تاریخی پس منظر میں یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ خلافت کا ادارہ صدیوں کے عمل میں کیا سے کیا بن چکا ہے، نہ یہ جاننے کی کوشش کی کہ ترکی کے اندر معاملات کی کیا نوعیت ہے، اور نء سوچ موجودہ خلیفہ اور خود خلافت کے بارے میں کیا ہے۔ تعجب یہ ہے کہ نوجوان ترکوں سے رابطہ کے باوجود انہیں یہ اندازہ نہ ہو سکا کہ خلافت کے بارے میں ان کی کیا سوچ ہے۔
اندرون ملک مسلمان رہنماؤں نے ایک بڑی حقیقت کو فراموش کیا۔ وہ آزادی کے لئے ترکی اور افغانستان سے امداد حاصل کرنے کے خیالی پلاؤ پکاتے رہے اور ہندوؤں کے نفسیاتی مسئلہ کو انہوں نے سرے سے جانا ہی نہیں۔ ادھر یہ حضرات افغانستان اور ترکی سے امداد کے منصوبے بناتے رہے جس میں ان ملکوں کے ایما کو کم اور ان کی اپنی خوش فہمی کو زیادہ دخل تھا۔ ادھر وسوسے اور اندیشے تقویت پکڑتے چلے گئے جن سے نئے شگوفے پھوٹے۔ شدھی، سنگٹھن اور اس کے جواب میں تبلیغ کی مہم۔ ”
بیسویں صدی کے نصف اول میں ایک بار نہیں بلکہ تین دہائیوں سے بھی مختصر مدت میں برصغیر کے مسلمان اپنے لیڈروں کے ہاتھوں بری طرح گمراہ ہوئے۔ اپنی الجھنوں سے قطع نظر، میں نے مذکورہ بالا سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی قرار واقعی کوشش کبھی نہیں کی۔
میںجب اس صدی کے پہلے عشرے میں اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے پر نظر ثانی کرنے بیٹھا تاکہ اسے ایک کتابی شکل دی جا سکے، تو ایک امریکی ماہر بشریات جینی بی وہائٹ کی کتاب ’’اسلامسٹ موبیلائزیشن اِن ٹرکی: اے اسٹڈی اِن ورناکیولر پالیٹِکس‘‘ نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس سے پتہ چلا کہ بنیادی طور پر ایک کاسموپالیٹن محاذ اور سیکولر جدیدیت کا نمونہ ہونے کے باوجود ترکی میں 1990کی دہائی میں اسلامسٹ ویلفیئر پارٹی آہستہ آہستہ اپنے پیر پھیلا رہی تھی۔1996 سے 1997کے دوران یہ وہاں کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔ترکوں کا شہری متوسط طبقہ بڑی تیزی سے اس کی جانب راغب ہو رہا تھا۔ 1998سے 2001کے درمیان ویلفیئر پارٹی اور اس کے نظریاتی حلیفوں اور اس کے اوتاروں پر پابندی بھی عائد کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے اباوجود اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا رہا۔ (یہاں یہ اضافہ غیر موزوں نہ ہوگا کہ 2011تک بر صغیر ہند و پاک میں بھی ویلفیئر پارٹیاں وجود میں آ چکی تھیں۔ یہ جماعت اسلامی کی حلیف تھی۔ مسعودہ بانو نے اکنامک اینڈ پالیٹیکل ویکلی کے جلد 47، شمارہ 1، 7؍جنوری 2012میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔)
جینی وہائٹ نے انکشاف کیا کہ اسلامی عقائد کی بنیاد پر رابطہ بندی کے بجائے کس طرح روزمرہ کی زندگی میں ایک دوسرے کے لیے فکر مندی اور یگانگت کے باہمی اظہار نے ویلفیئر پارٹی کے کارکنان کو کمیونٹی نیٹ ورکس کے اندر تک رسائی حاصل کرنے اور قابل اعتماد پڑوسیوں کے توسط سے مختلف حلقوں کے درمیان براہ راست روابط کو جاری رکھنے میں مدد کی۔ باہم متضاد ایجنڈوں اور عقائد کے باوجود رشتوں، فرائض اور اعتماد کی ثقافتی تفہیم پر مبنی اسلامی سیاسی نیٹ ورکس کی بنیاد پر اسلامی کارکنان کے درمیان ہم آہنگی قائم ہوتی گئی اورمقامی تعلقات کے ذریعہ شہری تنظیموں نے قومی سیاسی تنظیموں سے، خاص طور سے میونسپل ایڈمنسٹریشن کے شعبوں میں، ان نیٹ ورکس کی خود مختاری کو یقینی بنایا جن کی خدمت میں بظاہر وہ مصروف کار نظر آتے تھے۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے بی جے پی اور سنگھ پریوار نے قبائلی علاقوں میں اپنے کاموں ے ذریعہ غلبہ حاصل کیا جیسا کہ طارق تھیچل نے اپنی کتاب ’’ایلیٹ پارٹیز، پوئر ووٹرس: ہائو سوشل سروسز وِن ووٹس اِن اِنڈیا‘‘ (2014)میں واضح کیا ہے۔ ان کی تازہ ترین مشترک تصنیف ’’مائگرینٹس اینڈ مشین پالیٹکس‘‘ (2023) میں اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ ’کس طرح غالب پارٹی مسابقت کو کچلنے، نسلی تعصب کو فروغ دینے اور ووٹ کی خرید و فروخت کے لیے شہری غریبوں کا استحصال کرتی ہے‘۔
میری کتاب میں اگرچہ صرف بہار پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، اس کے باوجود 1980، 1990اور 2000کی دہائیوں میں ہندوستان میں اکثریتی سیاست کے فروغ میں، جینی وہائٹ کے تجزیہ کی روشنی میں، ترکی سے خاصی مماثلت پائی جاتی ہے۔ اگرچہ ہندوستان کے برعکس، ترکی میں کثیر مذہبی، کثیر لسانی (اور ’’کثیر ثقافتی‘‘) معاشرے نہیں ہیں، اس کے باوجود اکثریت پسندی کے فروغ کے ساتھ اور ا س کے بعد نئے سماجی طبقات کا عروج قدرے متوازی یا تقابلی تناظر پیش کرتا ہے۔
ہندوستان کے ہندی بیلٹ میں ہندی (مقامی) اخبارات کے ذریعہ مذہبی دائیں بازو کی اکثریت پرستی ٹھیک اسی طرح عروج حاصل کر رہی تھی جیسے وہائٹ کے مطابق ترکی میں مقامی سیاسی عمل اسلام پسندوں کو راستہ دے رہا تھا۔
لیکن میری الجھن برقرار تھی کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان آبادیاتی (ڈیموگرافک) اور تاریخی سطح پر بہت فرق ہے۔
حال ہی میں مجھے جینی وہائٹ کی دوسری کتاب ’’مسلم نیشنلزم اینڈ دی نیو ٹرکس‘‘ (2012)کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کتاب میں انہوںنے واضح کیا ہے کہ ’’جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (AKP)کے زیر نگیں ترکی حکومت نے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات کو کم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، عالمی تجارت میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے اور کچھ اقلیتی اور انفرادی حقوق جن کو روایتی طور پر ترک جمہوریہ نے نظر نداز کیے تھے، انہیں تسلیم کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے‘‘۔ اے کے پی کی مسلم قوم پرستی ’ریاست اور اس کی سرحدوں کے بارے میں ایک غیر روایتی نظریہ‘ کو اختیار کرتی ہے جس کی تشکیل ’ایک زیادہ لچکدار اور وسیع عثمانی ماضی‘ کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ سنّی اسلام کا ’عثمانی ملت سسٹم‘ (Ottoman Millet System)علویوں، کردوں، عیسائیوں اور یہودیوں کو الگ گروہ تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ غیر مساوی، لیکن روادارانہ سلوک کرتا ہے۔وہائٹ کے مطابق یہ نیا نظام مسلم خواتین کو ان کی انفرادیت پر زور دے کر آزادی فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ لیکن وہائٹ کا یہ بھی خیال ہے کہ جب یہ اقتدار مستحکم ہو جائے گا تو اس نظام میں بھی خواتین سے اپنی انفرادیت کو ترک کرکے اپنے روایتی کردار یعنی ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی میں اسلامی تحریکوں میں خواتین کی مضبوط شمولیت کے باوجود ’فیصلہ سازی‘ کی حد تک ان کے کردار کو استحکام حاصل نہیں ہوا ہے۔
مجھے معلوم ہوا کہ جینی وہائٹ نے اور بھی بہت سی کتابیں لکھی ہیں جن میں افسانہ بھی شامل ہے۔، جن کا مطالعہ میں جلدی ہی شروع کروں گا۔ ابھی تو مجھے ترک معاشرے میں عیسائیوں کی نہایت کم اور نہ کے برابر موجودگی کے بارے میں جاننے میں دلچسپی ہے۔ اس کا جواب تلاش کرنے کی میری جستجو مجھے مزید کچھ تحریروں کی طرف لے گئی۔
اتفاق سے ٹھیک سو سال پہلے 1923میں ایک عجیب اور المناک واقعہ پیش آیا تھا۔ اسے 1923کا یونانی-ترک آبادی کا تبادلہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت تقیریباً ڈیڑھ ملین لوگوں کو زبردستی نقل مکانی کے لیے مجبور کیا گیا۔ یونان کے مسلمانوں کو ترکی میں دوبارہ آباد کیا گیا اور ترکی میں موجود آرتھوڈوکس عیسائیوں کو یونان منتقل کردیا گیا۔ ایسا لوزان (Lausanne)معاہدہ 1923کے تحت کیا گیا تھا۔اس تاریخی واقعہ نے مذہبی یا نسلی امتیاز کی بنیاد پر آبادی کے انتظام کے لیے ایک قانونی نظیر قائم کر دی۔ اس طرح کی علیحدگی پسند پالیسیاں جیسے د یواریں کھڑی کرنا، تقسیم کرنا اور رنگ پرستی وغیرہ اسی تناظر کے نتائج ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ آبادی کا یہ تبادلہ ،مبینہ طور پر ’امن‘ کے قیام کے مقصد سے کیا گیا تھا۔
1878کی روس-ترک جنگوں کے بعد سے، عثمانی حکومت کے دوران اناطولیہ مین ایک شعوری نسلی تنظیم نو کا عمل جاری تھا۔ عثمانی اور ان کے پیش رو بازنطینیوں، دونوں میں سامراجی استحکام حاصل کرنے کے لیے آبادی کی منتقلی کی روایت تھی۔ بعد میں آبادی کی منتقلی کا یہ طریقہ کار باغی گروہوں کو زیر کرنے کے لیے ایک تعزیری اقدام کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔ اس کی وضاحت مشیگن یونیورسٹی کی ایک ترک ماہر عمرانیات فاطمہ موج گوچ نے زیادہ بہتر انداز میں کی ہے۔ نسیم سیکر (2013) اسے ’’جبری ہجرت‘‘ قرار دیتے ہیں۔
صاف طور سے کہا جائے تو جب عثمانی سامراج اپنے علاقے کھونے لگے تو ان علاقوں میں آباد ترک غیر محفوظ ہو گئے اور انہیں ترک علاقوں میں آباد ہونا پڑا۔ اسی طرح ترک علاقوں میں آباد یونانی اور آرمینیائی، جو عیسائی تھے، عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہوئے اور انہیں ترکی علاقوں سے باہر منتقل کیا گیا۔اس طرح نسلی و مذہبی تصادم ایک بڑا اور بار بار درپیش آنے والا مسئلہ تھا۔
ریپبلکن عہد کے 1924کے آئین میں کہا گیا تھا کہ ’’ترکی کے عوام، مذہب اور نسل سے قطع نظر، شہریت کے حوالے سے ترک ہیں۔ بادی النظر میں اس نے شہریت کو نسلی تعلق سے قطع نظر سیاسی برادری کی رکنیت کے طور پر بیان کیا، تاہم اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ نسل کو یکسر نطر انداز کیا گیا ہو۔ترکیت میں ثقافتی اور لسانی انضمام، جس کو سیکولر اور واضح طور پر نسلی قوم پرستی سے تعبیر کیا گیا، درحقیقت اصل مقصد تھا اور ترکی جمہوریہ کے ابتدائی عہد میں جبر، آبادکاری اور جلاوطنی ڈیموگرافک انجینئرنگ کے بنیادی ذرائع تھے۔ ’’ترک کاری‘‘ کی پالیسیوں میں غیر مسلم برادریوں کے اقلیتی حقوق کی تلفی بھی شامل تھی جو انہیں لوزان معاہدے کے تحت دیے گئے تھے جس کے تحت بلقان سے مسلمانوں کی ہجرت کو فروغ دینے کے لیے ’’شہریو، ترکی بولیں‘‘ کے نعرے کے ساتھ انہیں عوامی ترک زبان کے استعمال پر مجبور کیا گیا تاکہ ترک قوم کے درمیان ہم آہنگی اور یکسانیت کو فروغ دیا جائے، نئے مہاجرین کو کرد عوام کے درمیان آباد یا جائے تاکہ کرد آبادی والے علاقوںمیں ترک اکثریت بنائی جائے اور 1934میں نافذ کیے گئے نئے آبادکاری قانون کے تحت کردوں کو ترک غالب علاقوں میں بکھیر دیا جائے اور آخر میں جگہوں کے نام بدل دیے جائیں جس کوایک محقق، آختیم (2009) ’’ٹوپونیمیکل انجینئرنگ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔
ترک کاری کی پالیسی کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں لیکن فی الوقت یہ نتیجہ اخذ کرنا مناسب ہے کہ نسیم سیکر (2013) کے مطابق ترک قوم پرستی کا ’’ترک کاری‘‘ کا مقصد پہلی جنگ عظیم اور ابتدائی ریپبلکن ادوار تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ اس کی توسیع 20ویں صدی کے آخر تک ہوتی ہے۔ مرو اکگُل کا ایک اور مطالعہ (2017) استنبول میں 1950-1985کے دوران ’’ٹوپونیمک‘‘ طریقوں (سڑکوں کے نام تبدیل کرنے) کے ذریعے نسلی یکسانیت اور دبدبہ کو ظاہر کرتا ہے۔ناموں کی تبدیلی کے ذریعہ ماضی اور غیر مسلموں کے ورثے کو نشانہ بنایا گیا۔ جمہوری عہد میں بڑے پیمانے پر اقلیت مخالف پالیسیوں کے نفاذ کے ساتھ شہر کا آبادیاتی تنوع ختم ہو گیا اور عوامی حلقوں اور استنبول کی روزمرہ کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں غیر مسلموں کی موجودگی غائب ہو گئی۔
سلطنت عثمانیہ نے نئے فتح شدہ علاقوں کو جلاوطنی (sürgün) اور بازآباد کاری کے ذریعہ خالی زمینوں کو آباد کرنے اور فائدہ مند جگہوں پر بستیاں قائم کرنے کے لیے اپنی نوآبادیات بنالیا ۔ جب سلطنت عثمانیہ نے اپنی حکومت کو وسعت دی تو انہوں نے نئے علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے لوگوں کو اناطولیہ سے بلقان منتقل کیا اور لوگوں کو مفتوحہ علاقے سے استنبول (قسطنطنیہ) منتقل کیا۔ 1908 سے 1920کے دوران، جسے دوسرے آئینی دورکے نام سے جانا جاتا ہے، عثمانی سرزمین قفقاز اور بلقان کے مسلم مہاجرین کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن گئی۔ روس-ترک جنگ (1878) میں عثمانیوں کی شکست کے بعد بلقان میں عثمانی اثر و رسوخ بہت حد تک کم ہو گیا۔ اس ناگہانی آفت اور 1912-1913 کی بلقان جنگوں کے نتیجے میں دس لاکھ سے زیادہ مسلمان بے گھر ہوگئے۔
نئی بننے والی بلقان ریاستیں نسلی یکسانیت کی بنیاد پر ریاستوں کی تشکیل نو کی کوشش کر رہی تھیں۔ ترکی میں برسراقتدار یونٹی اینڈ پروگریس پارٹی کے ساتھ آبادی کے باہمی تبادلے کے معاہدوں کو ڈیموگرافک انجینئرنگ کے لیے بہترین ٹول کے طور پر دیکھا گیا۔ ترکی میں حکمراں جماعت نے اپنی حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر نئی آبادی اور بازآبادکاری کے امتزاج کا بھی استعمال کیا اور بلقان سے تعلق رکھنے والے مسلمان مہاجروں کو سرحدی شہروں میں آباد کرنے کے ساتھ ہی ان علاقوں میں مسلم آبادی میں اضافہ کیا گیا جہاں تاریخی طور پر غیر مسلم اکثریت تھی۔
1876 اور 1926 کے درمیان مسابقتی قوم پرستی کے عروج نے آبادی کی منتقلی کے لیے ماحول تیار کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ 20 ویں صدی کے اوائل میں بڑے پیمانے پر قوم پرست اور نوآبادیاتی مخالف جذبات کے بھڑکنے سے عثمانیوں میں زینو فوبیا کو ہوا ملی۔ عثمانی ادیبوں نے اپنی تحریروںمیں ذلت آمیز غیر ملکی تسلط سے ناراضگی کا اظہار کیا جس سے سلطنت کی معاشی صحت منفی طور سے متاثر ہوئی۔ علیحدگی پسند قوم پرست تحریکوں نے سلطنت عثمانیہ کی غیر مسلم برادریوں کے درمیان زور پکڑا جنہوں نے تسلط اور آئینی اصلاحات سے سب سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے والوں کی حیثیت سے سامراج مخالف گروپوں کی دشمنی اور ناراضگی کا سامنا کیا۔
لیکن پہلی جنگ عظیم (1915-1916) کے دوران آرمینیائیوں کی نسل کشی بدترین واقعہ تھی۔ حکمراں کمیٹی آف یونین اینڈ پروگریس (CUP) کی سربراہی میں، اس کا نفاذ بنیادی طور پر صحرائے شام کی طرف موت کے سفر کے دوران تقریباً 10 لاکھ آرمینیائی باشندوں کے اجتماعی قتل اور دیگر لوگوں،خاص طور پر خواتین اور بچوں کی زبردستی اسلامائزیشن کے ذریعے کیا گیا۔ اس نسل کشی نے مشرقی اناطولیہ میں دو ہزار سال سے زیادہ قدیم آرمینیائی تہذیب کا خاتمہ کر دیا۔ آشوری (Assyrian) یا شامی اور یونانی آرتھوڈوکس عیسائیوں کے اجتماعی قتل اور بے دخلی کے ساتھ ساتھ، اس نے ایک نسل پرست ترک ریاست، ترک جمہوریہ کے قیام کو ممکن بنایا۔ 1915 میں اناطولیہ کی آبادی کا تقریباً 14% حصہ آرمینیائی عیسائیوں پر مشتمل تھا۔ اگرچہ زیادہ تر عثمانی آرمینیائی کسان تھے، لیکن تجارت میں ان کی نمائندگی زیادہ تھی۔ مڈل مین اقلیتوں کے طور پر، کچھ آرمینیائیوں کے پاس دولت کی بہتات کے باوجود، ان کی مجموعی سیاسی طاقت کم تھی، جس کی وجہ سے وہ کمزور تھے۔
یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ 1839 کے بعد سے عثمانی سلاطین نے مساوات پر مبنی قوانین بنانے کی کوشش کی لیکن ایسے تمام اقدامات کی مسلم علما اور ان کے نفاذ کے ذمہ دار حکام نے مخالفت کی اور اس پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ 1877 (سلطان عبدالحمید ثانی کے دور حکومت) سے قوانین خود بہ خود آرمینیائیوں کے مخالف ہونے لگے۔ اس نے کرد قبائل کو آرمینیائیوں کے خلاف کھڑا کر دیا تاکہ انہیں بے دریغ قتل کیا جا سکے۔ ینگ ترک موومنٹ نے اس کی درستگی پر زور دیا۔
پہلی بلقان جنگ (1912) کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ کا تقریباً تمام یورپی علاقہ ضائع ہو گیا اور بلقان سے مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر بے دخل کر دیا گیا۔ بلقان کے مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم سے عثمانی مسلم معاشرہ مشتعل تھا، جس سے عیسائی مخالف جذبات میں شدت پیدا ہوئی اور ان کے اندر انتقام کی خواہش پیدا ہوئی۔ نقصان کی ذمہ داری بشمول عثمانی آرمینیائی کے تمام عیسائیوں پر ڈال دی گئی جن میں سے بہتوں نے عثمانیوں کی طرف سے جنگ لڑی تھی۔ بلقان کی جنگوں نے تکثیریت اور بقائے باہم کی عثمانی تحریک کا خاتمہ کر دیا۔ اس کی جگہ پر ینگ ٹرکس کی کمیٹی آف یونین اینڈ پروگریس نے سلطنت کو بچانے کے لیے تیزی سے بنیاد پرست ترک قوم پرستی کو فروغ دینا شروع کر دیا۔ طلعت اور انور پاشا جیسے CUP لیڈروں نے سلطنت کے بہت سے مسائل کے لیے اسٹریٹجک علاقوں میں غیر مسلم آبادی کے ارتکاز کو ذمہ دار ٹھہرایا اور 1914 کے وسط تک اس تصور کو عام کر دیا کہ غیر مسلم اندرونی ٹیومر ہیں جن کا نکالا جانا ضروری ہے۔ ان میں سے عثمانی آرمینیائی باشندوں کو سب سے زیادہ خطرناک سمجھا گیا کیونکہ CUP کے رہنماؤں کو خدشہ تھا کہ اناطولیہ میں ان کا آبائی وطن جسے ترک قوم کی آخری پناہ گاہ تصور کیا جاتا ہے، سلطنت سے الگ ہو جائے گا جس طرح بلقان خطے الگ ہو گئے تھے۔
آرمینیائی باشندوں کا ضم شدہ اسلامائزیشن، جسے ایک منظم ریاستی پالیسی کے طور پر اختیار کیا گیا، جس میں بیوروکریسی، پولیس، عدلیہ اور مسلم علما بھی شامل تھے، آرمینیائیوں کی نسل کشی کا ایک اہم جز تھا۔ نسل کشی کا ایک ثانوی محرک ترک اور مسلم متوسط طبقے کے لیے جگہ بنانے اور مسلم ترکوں کے زیر کنٹرول ”قومی معیشت” کی تشکیل کے لیے آرمینیائی بورژوا کی تباہی تھی۔
بعد ازاں، مئی 1955 میں، فسادیوں کے ذریعہ ریاستی تحفظ میں یونانی اور آرمینیائی عیسائیوں کے خلاف نسل کشی کی ایک اور لہر استنبول میں چلائی گئی،جیسا کہ اورحان پاموک نے بیان کیا ہے، گوکہ اس نے بھی اس کی تفصیل نہیں دی ہے۔
ترکی کے اسلام پسند آج مغرب زدہ مسلمانوں کو کرپٹو عیسائی (اور کرپٹو یہودی) سمجھتے ہیں۔ حالانکہ وہ اس حقیقت کو چھپاتے ہیں کہ جنہیں وہ کرپٹو عیسائی بلاتے ہیں وہ دراصل جبری طور پر تبدیلی مذہب کرنے والے الحاق شدہ آرمینیائی عیسائیوں کی ہی مسلمان اولادیں ہیں۔ اس کی مثال 16ویں صدی کے آخر اور 17ویں صدی کے اوائل کے اسپین کے مسلمان ہیں، جنہیں کرپٹو مسلم کہا جاتا تھا (اسلامک اسپین پر ایل پی ہاروے کی دو جلدیں ایک مفید تعارفی مطالعہ ہو سکتی ہیں)۔
یہاں ان سوالات پر غور کرنا اہم ہوگا کہ کیا دنیا بھر کے مسلمانوں میں یہ خوف غالب ہے کہ عیسائی مغرب انہیں اسی طرح ختم کردے گا جس طرح اسپین میں ان کا صفایا کیا گیا؟ کیا ترک اسلام پسندوں میں بھی ایسا ہی خوف ہے کہ وہ مغرب کے ہاتھوں اپنی طاقت اور ثقافت کھو بیٹھیں گے؟ کیا ہندوستان کے مسلمانوں کے دل میں بھی یہی خوف بیٹھا ہے، کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان ہندوستان میں کئی صدیوں تک حکمران رہے ہیں؟ کیا اسی خوف کی وجہ سے مسلمان مظلومیت کے احساس کے تئیں حد درجہ حساس ہیں ؟ کیا اس قسم کے خوف کا اس حقیقت سے کوئی تعلق ہے کہ اسپین کی اسلامی فتح نے مفتوحہ علاقوں کی قبل از اسلام ثقافت کو ختم کر دیا اور بلقان جنگوں کے بعد انہوں نے آرمینیائیوں کے ساتھ کیا کیا جو ریپبلکن ترکی عہد میں بھی جاری رہا؟
جو لوگ علامہ اقبال (1877-1938) کی شاعری میں علیحدگی پسند سیاسی نکتہ آرائی کا انکار کرتے ہیں، ان کی دلیل ہے کہ اقبال نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تصادم کے پیش نظر صرف آبادی کی منتقلی کا خیال پیش کیا تھا، اور یہ کہ اس کی وضاحت خود اقبال نے ایڈورڈ تھامسن کے ساتھ اپنے خط و کتابت میں فراہم کی تھی۔ میرا مخصوص سوال یہ ہے کہ اگر اقبال کی اس دلیل کو مان بھی لیا جائے تو اقبال کو آبادی کی منتقلی کا خیال کہاں سے آیا؟ کیا اقبال کو یہ خیال بازنطینی اور عثمانی تاریخوں سے ملا تھا؟ اگر ایسا ہے تو اقبال نے حالیہ اور ماضی کی تاریخ کی اس حقیقت کو کیوں تسلیم نہیں کیا؟ ایک آخری لیکن اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر ڈیموگرافک انجینئرنگ اور آبادی کی منتقلی یا جبری ملک بدری کامیاب حکمرانی کے لیے ایک آزمودہ تاریخی نسخہ تھا، اور چونکہ اسے 1923 کے اواخر میں استعمال بھی کیا گیا تھا، تو پھر 1947 میں ہندوستان کو غیر معمولی خوفناک تشدد کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟ اگر ہندوستان کا بٹوارہ ہونا ہی تھا، تو یہ آبادی کی منتقلی کے بعد، بڑے پیمانے پر تشدد کے بجائے، لوزان کے معاہدے (1923) جیسے انتظامات کے ذریعے ہونا چاہیے تھا۔ نسلی قومیت سے متعلق ان سوالات کے ساتھ میرے ذہن میں وی ڈی ساورکر کی بات بھی ہے جو انہوں نے اپنی بعد کی تحریروں (اور 1938 کے بعد کی تقریروں) میں اس نوع کے مسائل کے تعلق سے کہا تھا۔
اقبال کے برعکس، امبیڈکر نے اپنی 1946 کی کتاب، ’’پاکستان یا ہندوستان کی تقسیم‘‘ میں یونان-بلغاریہ اور یونان-ترکی آبادی کے تبادلے پر طویل بحث کی ہے۔ وہ یہاں تک تسلیم کرتے ہیں کہ ’’میں نے جس اسکیم کا خاکہ پیش کیا ہے وہ اسی اسکیم کی نقل ہے‘‘۔
افسوس، حکمرانوں کے لیے انسان کتنی حقیر اور قابلِ تلف شے ہیں!
استنبول کی رہائشی گلیوں کے بارے میں میری اہلیہ نرگس کا اپنا مشاہدہ ہے۔ انہوںنے محسوس کیا کہ استنبول کے باسیوں میں ایک بے چینی، ایک پراسرار سکون ہے، جیسے وہ کسی بڑے سانحے کے واقع ہونے کا انتظار کر رہے ہوں۔ انہوں نے مجھ سے پوچھاکہ کیا وہ کسی قسم کے اجتماعی احساس جرم کا شکار ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ میں نے بھی کچھ محسوس کیا، لیکن، یہ میرے لیے مبہم تھا۔ اب جب انہوں نے مجھ سے پوچھا تو مجھے ایسا لگا گویا انہوں نے اس ابہام کو واضح کر دیا، یا شاید اس راز سے پردہ اٹھایا دیا۔ مجھے نوبیل انعام یافتہ ناول نگار اورحان پاموک کی کتاب، استنبول (ص 103) کا ایک حوالہ یاد آیا:
’’روایتی ثقافت اور مغربی ثقافت کے درمیان معلق، ایک انتہائی امیر اقلیت اور غریب اکثریت سے آباد، لہر در لہر مہاجرین کے قدموں سے روندا ہوا اور مختلف نسلی گروہوں میں ہمیشہ کی طرح تقسیم استنبول ایک ایسا شہر ہے جہاں گزشتہ ڈیڑھ سو سالوں سے کسی نے بھی گھر جیسا سکون محسوس نہیں کیا ہے‘‘۔
ہم جیسے سیاحوں یا تفریحی مہمانوں کے لیے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لیکن، جبری ملک بدری، آبادی کی منتقلی، ڈیموگرافک اور ”ٹوپونیمیکل” انجینئرنگ، حکومت کی سرپرستی میں ہونے والا قتل عام، ریپبلکن دور میں بھی نسلی قوم پرستی وغیرہ جیسے پریشان کن تاریخی انسلاکات کے پیش نظر بے چینی بھرا سکون یا اجتماعی احساس جرم یا خوف، یا شاید دونوں، اس پُر اسرار راز کی کلید معلوم ہوتے ہیں۔