ہرمرد و عورت کے لئے اس کی "ازدواجی زندگی” رب اکبر کا ایک عظیم انعام ہے، جس میں سکوں و راحت ،محبّت و رآفت کامیابیوں اور کامرانیوں کے خوشنما رنگ بھرنے کی ذمہ داری دونو پر ہی عائد ہوتی ہے، لیکن اس میںعورت کا کردار زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے ،اگر عورت عقل و شعور سے کام لے تو بڑ ے سے بڑا شرکش شوہر بھی ایک دن موم ہو ہی جاتا ہے ، اس سلسلے میں مجھے ایک واقعہ یاد ہے جو میری دادی سنایا کرتی ہے ہم بہنوں کی تربیت کے لیے۔
واقعہ یہ ہے کہ ایک لڑکی اپنی ماں سے اپنے شوہر کی سخت مزاجی شر کسی اور اس کے ظلم و ستم کی شکایت کرتے ہوئے اس کا حال پوچھتی ہے ۔
ماں نے کہا بیٹا کوئی مشکل عمل نہیں بس تمہیں کسی طرح سے شیر کابال حاصل کرنا ہوگا باقی تدبیر میں بعد میں بتاؤں گی، لڑکی بولتی ہے ،امی اگرچہ یہ کام مشکل لگتا ہے لیکن میں اپنے سخت گیر شوہر سے نجات پانے کے لیے ضرور کوشش کروں گی دوسرے دن لڑکی مناسب مقدار میں گوشت لیکر جنگل جاتی ہے اور شیر کی گزرگاہ کے پاس وہ ڈال دیتی ہے اور چھپ کر دیکھنے لگتی ہے، کچھ دنوں تک ایسا کرنے کے بعد لڑکی شیر کو گوشت ڈال کر چھپنے کے بجائے دور سے دیکھنے لگی ،لڑکی روزانہ گوشت ڈال کر دور سے اسے دیکھتی رہی ،کچھ دنوں کے بعد تھوڑا قریب ہو کر دیکھنے لگی ،اب شیر بھی یہ جان چکا تھا کہ یہی لڑکی اسے کھانے کے لئے گوشت پیش کرتی ہے اب شیرغراکر دیکھنے کے بجائے نرمی سے دیکھنے لگتا ہے اس سے لڑکی کا ڈر قدر ےکم ہوا اور گوشت ڈال کر شیر کے سامنے مناسب دوری بنا کر کھڑی ہونے لگی اب شیر گوشت کھاتے ہوئے اسے مانوس نظروں سے دیکھنے لگا، شیر وقت مقررہ سے پہلے ہی وہاں پہنچ کر اس لڑکی کا انتظار کیا کرتا اور جیسے ہی وہ لڑکی نظر آتی وہ خوش ہو جاتا ایک دن لڑکی نے ڈرتے ڈرتے گوشت دور سے پھینکنے کے بجائے اس کے بالکل قریب جا کر ڈالا ،لڑکی اس قدر خوف زدہ تھی کہ وہ پسینے سے شرابور ہو گئی ؛لیکن شیرمحبت بھری نگاہوں سےدیکھتا رہا اور گوشت کھاتا رہا اس دن کے بعد لڑکی کا رہا سارا ڈر بھی ختم ہوگیا اب وہ گوشت ڈال کر شیر کے پاس ہی کھڑی ہونے لگی لیکن اسے چھونے کی ہّمت نہیں کر پاتی رفتہ رفتہ یہ ڈر بھی ختم ہوگیا اور اب لڑکی گوشت ڈال کر شیر کی پیٹھ سہلانے لگی ،شیر اطمینان و سکون کے ساتھ گوشت کھاتا لڑکی کوتشکر و اطمینان بھری نظروں سے دیکھتا اور کچھ دیر یونہی اس کے ساتھ رہ کر چلا جاتا ۔ایک دن مناسب موقع دیکھ کر لڑکی شیرکے دوبال اکھاڑ لیتی ہے اور خوشی سے جھومتے ہوئے ماں کے پاس پہنچ جاتی ہے ۔
ماں نے جب یہ سنا تو اسے یکبارگی اپنے کانوں پر یقین نہیں ہوا ،کیا کہہ رہی ہو بیٹا ؟کیا تو سچ کہہ رہی ہے ؟کیا یہ واقعی شیر کےبال ہیں ؟ آخر یہ کارنامہ تو نے کیسے انجام دیا ؟لڑکی خوشی سے اتراتے ہوئے تفصیل سے اپنی اماں کو بتایا کہ کس طرح اس نے رفتہ رفتہ شیر کے دل میں اپنی جگہ بنائی اور آخرکار یہ بال حاصل کر ہی لیے ۔
ماں یہ ماجرا سن کر دم بخود رہ جاتی ہے اور لڑکی کو عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہوئے کچھ سوچنے لگتی ہے ،لڑکی سمجھ نہیں پاتی اور بولتی ہے ماں! تم خوش ہونے کے بجائے مجھے عجیب سی نظروں سے کیوں دیکھ رہی ہو ؟کیا سوچ رہی ہو ؟ماں بولتی ہے بیٹا میں یہ سوچ رہی ہوں کہ کیا تمہارا شوہر اس شیر سے بھی زیادہ خوفناک ہے ؟اس سے بھی زیادہ ڈراؤنا ہے ؟اس سے بھی زیادہ سخت مزاج ہے ؟بیٹا !تم نے تو ایک خونخوار جنگلی جانور کو بھی موم کر لیا پھر تمہارا شوہر تو ایک انسان ہے ،اگر تم چاہتی تو اپنی چاہتوںاور محبتوں سے اسے کب کا موم کر چکی ہوتی ،لیکن تم نے اسے رام کرنے کی ترکیب سوچنے کے بجائے اس کی شکایت اور گلہ و شکوہ کو ہی زیادہ بہتر سمجھا ،اسے اپنا گرویدہ بنانے کے بجائے اس سے جھگڑ نے کی ترکیب سوچی ،بیٹا تم نے دیکھ لیا کہ محبت کے سامنے تو ایک خونخوار جانور بھی اپنی خصلت بدل لیتا ہے ،تمہارا شوہر تو پھر بھی انسان ہی ہے،جس محبت و اپنائیت کا مظاہرہ تم نے اس شیر کے لیے کیا اگر اپنے شوہر کے لیے کیا ہوتا تو آج تو اپنے گھر میں خوش و خرم ہوتی اور اپنے شوہر کے دل پر حکومت کر رہی ہوتی ،لڑکی کو ساری حقیقت سمجھ میں آ چکی تھی اور وہ ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ اپنے شوہر کے یہاں روانہ ہوگئی ۔
اب اس لڑکی کے نظریات بدل چکے تھے ،اب جو باتیں اسے پہلے ناگوار گزرتی تھی اب وہی باتیں اچھی لگنے لگی تھی ،اب وہ کہتی ہے :
مجھے اچھا لگتا مرد سے مقابلہ نہ کرنا اور اس سے ایک درجہ کمزور رہنا ،مجھے اچھا لگتا ہے جب کہیں باہر جاتے ہوئے وہ مجھ سے کہتا ہے "رکو !میںتمہیں لے جاتا ہوں یا میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں ۔”
مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ مجھ سے ایک قدم آگے چلتا ہے ،غیر محفوظ اور خطرناک راستے پر اس کے پیچھے پیچھے اس کے چھوڑے ہوئے قدموں کے نشان پر چلتے ہوئے احساس ہوتا ہے ،اس نے میرے خیال سے قدرے ہموار راستے کا انتخاب کیا۔
مجھے اچھا لگتا ہے جب گہرائی سے اوپر چڑھتے اور اونچائی سے ڈھلان کی طرف جاتے ہوئے وہ مڑ مڑ کر مجھے چاہنے اور اترنے میں مدد دینے کے لیے بار بار اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے ۔
مجھے اچھا لگتا ہے کسی سفر پر جاتے اور واپس آتے ہوئے سامان کا سارا بوجھ وہ اپنے دونوں کاندھوں اور سر پر بنا درخواست کیے ،خود ہی بڑھ کر اٹھا لیتا ہے اوہر روز نئی چیزوں کو دوسری جگہ منتقل کرتے وقت اس کا یہ کہنا کہ : "تم چھوڑ دو یہ میرا کام ہے ۔”
مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ میری وجہ سے سردی کے موسم میں سواری کا انتظار کرنے کے لیے نسبتاً سایہ دار اور محفوظ مقام کا انتخاب کرتا ہے ۔
مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ مجھے میری ضرورت کی ہر چیز گھر پر ہی مہیا کرا دیتا ہے تاکہ مجھے گھر میں ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ باہر جانے میں وقت نہ ضائع کرنی پڑے اور لوگوز کے مناسب رویوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
مجھےبہت اچھا لگتا ہے جب رات کی خنکی میرے ساتھ آسمان پر تارے گنتے ہوئے وہ مجھے ٹھنڈ لگ جانے کے ڈر سے اپنا کوٹ اتار کر میرے شانوں پر ڈال دیتا ہے۔مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ بدترین حالات میں مجھے اپنا متاع حیات مان کر تحفظ دینے کے لیے میرے آگے ڈھال کی طرح کھڑا ہو جاتا ہےاور کہتا ہے "ڈرو مت میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گااور میں تمہارے ساتھ ہوں "۔
مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ مجھے غیر نظروں سے محفوظ رکھنے کے لئے نصیحت کرتا ہے اور اپنا حق جتاتے ہوئے کہتا ہے کہ "تم صرف میری ہو”۔
لیکن افسوس ہم میں سے اکثر لڑکیاں ان تمام خوشگوار احساسات کو محض مرد سے برابری کرنے کی وجہ سے کھو دیتی ہیں ،اس طرح خوبصورت لمحات ایک ایک کرکے زندگی سے رخصت ہوتے چلے جاتے ہیں اور پھر زندگی بے رنگ اور بد مزا ہو کر اپنا توازن کھو دیتی ہے ۔رشتوں کی اپنی الگ خوبصورتی ہے ۔ کبھی ہنس کر کبھی مسکرا کر کبھی سنبھل کر کبھی سنبھال کر کبھی ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوکر، ایک دوسرے کا ساتھ دے کر رشتے کو خوبصورت بنا سکتے ہیں ۔ "نبھانے کی چاہت اگر دونوں طرف ہو تو کوئی رشتہ ناکام نہیں ہوتا” ۔
ایک حق شناس عورت کے احساسات- رباب دہلی
previous post