Home ستاروں کےدرمیاں ایک بولنے والا خاموشی سے چلاگیا

ایک بولنے والا خاموشی سے چلاگیا

by قندیل

 

ایم ودودساجد

 

ہفت روزہ ’سیکولر قیادت‘کے ایڈیٹراور شعلہ بیاں مقرر قاری محمدمیاں مظہری 67 سال کی عمر میں انتہائی خاموشی کے ساتھ اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ان کا انتقال گزشتہ روز ایک ہسپتال میں ہوگیا تھا۔تدفین آج بعدنمازِ جمعہ عمل میں آئی۔

قاری صاحب مرحوم مختلف النوع خوبیوں اور اوصاف کے مالک تھے۔وہ فی الواقع ’سیکولر‘ ہی تھے۔ اُن کی ہر حکومت سے بات بن جاتی تھی۔ وہ لہر کے خلاف چلتے تھے۔ جب بابری مسجد کی شہادت کے بعد سیکولر عوام نرسمہاراؤ کی وجہ سے کانگریس سے متنفر تھے قاری صاحب نرسمہاراؤ کا ساتھ دے رہے تھے۔ نرسمہاراؤ شکست کھا گئے۔اٹل بہاری باجپائی وزیراعظم بنے تو قاری صاحب ان کے حلقۂ احباب میں شامل ہوگئے ۔ باجپائی نے انہیں قومی اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کا چیر مین بنادیا۔ پھر جب الیکشن آیا تو سب کو معلوم تھا کہ ملک بی جے پی سے ناراض ہے لیکن قاری صاحب نے باجپائی کا ساتھ دیا۔ اور باجپائی بھی شکست کھا گئے۔

میرا ان کا تعلق 32 سال رہا اور اس مدت میں کبھی میں نے ان کے افکار کی تائید نہیں کی۔اس کے باوجود وہ مجھ سے دوستانہ تعلق نبھاتے رہے۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی میں نے ان کے حق میں کچھ لکھا ہو۔جب بھی لکھا ان کے خلاف ہی لکھا۔ لیکن اس کے باوجود قاری صاحب مرحوم نے نہ سلام کلام چھوڑا اور نہ کبھی ناگواری کا اظہار کیا۔شکایت ضرور کرتے تھے لیکن اس شکایت میں بھی مزاح کا عنصر غالب رہتا۔وہ مجھ سے اس کی توقع بھی نہیں رکھتے تھے کہ میں کبھی ان کے حق میں لکھوں گا۔لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ جس شخص کے خلاف اس کی پوری زندگی میں لکھتا رہا وہ مرنے کے بعد مجھ سے اپنے حق میں لکھوالے گا۔

وہ کہتے بھی تھے کہ میاں کوئی بات نہیں زندگی میں ایک لفظ میرے حق میں نہیں لکھا تو کیا ہوا’ مرنے کے بعد تو ضرورلکھو گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک مرحلہ کے بعد انہیں میرے ذریعے اپنے خلاف لکھنے میں لطف آنے لگا تھا۔جب کبھی دوچار مہینے میں ان کا جی چاہتا تو فون کرکے کہتے کہ ارے بھائی گالیاں کھانے کو جی چاہ رہا ہے اور پھر چائے پینے گھر آجاتے۔

کوئی سیاسی موقع ایسا نہیں آیا کہ جب انہوں نے مجھے اپنے حق میں لکھنے کا موقع دیا ہو۔لیکن ان کا ایک وصف ایسا تھا کہ ان سے نظریاتی اختلاف رکھنے کے باوجود ان سے متنفرہونے کو کبھی جی نہیں چاہا۔ وہ تعلقات کو آخری حد تک نبھاتے تھے۔میں نے انہیں کبھی غصہ میں نہیں دیکھا۔ کبھی فون پر بات ہوتی اور انہیں محسوس ہوتا کہ مجھے کوئی مشکل درپیش ہے یا طبیعت ناساز ہے تو سنجیدہ ہوجاتے اور دیر تک پُرسشِ احوال کرتے رہتے۔ وہ دوستوں کی ہر ممکن مدد بھی کرتے تھے۔گوکہ وہ کوئی بہت متمول نہیں تھے لیکن خاطر تواضع میں بخل نہیں کرتے تھے۔ ان کی اہلیہ کا بہت عرصہ پہلے انتقال ہوگیا تھا۔ انہوں نے پھر شادی نہیں کی۔ میں اکثر کہتا کہ ابھی تو آپ جوان ہیں’ دوسری شادی کیوں نہیں کرلیتے؟ تو کہتے کہ ارے میاں میں تین بیٹیوں کا باپ ہوں۔ نہیں معلوم کوئی کیسی آجائے اور میری بچیوں کی زندگی مشکل ہوجائے۔ اپنے چھوٹے بیٹے ‘راجو’ کو بہت چاہتے تھے۔ راجو کا اصل نام کچھ اور تھا لیکن میں کبھی نہ جان سکا۔

2005 میں جب میں ہفت روزہ Views Times کا چیف ایڈیٹر تھا تو 18 سال میں پہلی بار احمد بخاری صاحب کے خلاف ایک مضمون لکھ ڈالا۔ قاری صاحب کا فون آیا’ گرجدار آواز میں بولے: دیکھو میاں میرے خلاف جو چاہو لکھ لو’ میں تو کچھ نہیں کہوں گا لیکن احمد میاں بہت ناراض ہیں’ وہ تو بندوق لے کر آجائیں گے۔ میں نے کہا کہ بندوق کا تو مجھے کوئی خوف نہیں لیکن آپ سفارش کرتے ہیں تو آئندہ احتیاط کروں گا۔ احمد بخاری دوستی کے معاملے میں اعلی ظرف ہیں ۔دوتین برس کی آنکھ مچولی کے بعد انہوں نے خود ہی سلام کلام کرلیا۔

قاری صاحب مرحوم اپنے خلاف بولنے والوں کی بات ہنس کر ٹال دیا کرتے تھے۔ کبھی دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے بھی کسی مخالف کو لعن طعن نہیں کرتے تھے۔جہاں مسکرانے کی ضرورت ہوتی وہاں فلک شگاف قہقہے لگاتے لیکن جب صورتحال سنجیدگی کی متقاضی ہوتی تو لمحہ بھر میں اتنے سنجیدہ ہوجاتے کہ سنجیدہ طبع لوگ خود پر حیرت کرتے۔

قاری صاحب بہت زود نویس اور بسیار نویس بھی تھے۔ ‘سیکولر قیادت’ کے بیشتر مضامین خود ہی لکھ ڈالتے تھے۔ اپنی سیاسی وابستگی کے برخلاف وہ ملی مسائل پر شمشیرِ برہنہ بن جاتے تھے۔ انہیں ملی مسائل پر سیمنار کرنے کا بہت شوق تھا۔ نرسمہاراؤ اور اٹل بہاری واجپائی دونوں ان کی تقریری اور تحریری صلاحیت کے معترف تھے۔ قاری صاحب گوکہ مسلکِ بریلوی کے پیروکار تھے لیکن وہ دوسرے مسالک کے جید علماء کا فدویانہ احترام کرتے تھے۔مولانا علی میاں ندوی’ قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور مولانا عبدالحمید رحمانی کا ذکر بڑی محبت سے کرتے تھے۔ انہوں نے سیاسی اتحاد کے لئے بریلی’ دیوبند’ ندوہ اور مظاہر علوم کےکئی مرتبہ دورے بھی کئے۔ یہ علماء بھی ان سے محبت کے ساتھ پیش آتے تھے۔

اس موقع پر ایک واقعہ یاد آگیا۔ وہ میرے غریب خانے پر چائے پینے کے بعد واپس جارہے تھے۔ میں انہیں گاڑی تک چھوڑنے کی غرض سے ساتھ آگیا، راستے میں مسلک اہل حدیث کے جید عالم اور درجنوں دینی وعصری تعلیمی اداروں کے بانی مولانا عبدالحمید رحمانی سے ملاقات ہوگئی ۔مولانا ہم دونوں کو باصرار اپنے دولت خانے پر لے گئے ۔چائے آگئی اور مولانا اپنے ہاتھ سے کاٹ کاٹ کر ہم دونوں کو سیب کھلاتے رہے۔ احیاءِ سنت کے معاملے میں مولانا بہت سخت تھے۔سیب کا ایک قتلہ قاری صاحب کی طرف بڑھانے کے بعد اچانک مولانا نے پوچھ لیا: قاری صاحب آپ کی یہ داڑھی نہ ایرانی ہے اور نہ رضا خانی’ آخر یہ کون سی داڑھی ہے؟ قاری صاحب شرمندہ ہوکر مسکرانے لگے، لیکن سب سے زیادہ خراب حالت میری تھی،میری داڑھی تو قاری صاحب سے بھی چھوٹی تھی۔

مولانا رحمانی صاحب کبھی کبھی مجھ سے کہا کرتے تھے کہ عبدالودود صاحب! خدا کی قسم میں آپ کی قدر اس لئے نہیں کرتا کہ آپ اچھے صحافی ہیں بلکہ اس لئے کرتا ہوں کہ آپ حافظِ قرآن ہیں ۔ واقعہ یہی ہے کہ قاری محمد میاں مظہری بھی مجھے اسی لئے عزیز تھے کہ وہ سال کے 11 مہینے کچھ بھی کرتے لیکن رمضان میں ایک متقی مسلمان بن جاتے تھے اور پابندی سے مسجد بھوری بھٹیاری میں21 شب میں قرآن پاک سناتے تھے۔مالکِ دوجہاں کی بارگاہ میں عاجزانہ دعا ہے کہ اسی قرآن پاک کی برکت سے ان کی مغفرت کا فیصلہ کردے۔

You may also like

Leave a Comment