اگر آپ کو اپنے مشن سے محبت ہو، اس کو کسی بھی قیمت پر کرگذرنے کی چاہت ہو تو یقین مانیے پھر آپ کو کامیابی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ غربت ، پریشانی اور بے سروسامانی ایک حوصلہ مند انسان کو کبھی شکشت نہیں دے سکتی۔ یوں تو ایک حوصلہ مند انسان اپنی ذاتی زندگی میں بہت ساری کامیابیاں حاصل کرلیتا ہے، اور طوفانوں سے لڑکر اپنی کامیابی اور کامرانی کا ایسے جھنڈے گاڑ دیتا ہے کہ لوگ اس کی کامیابیوں پر ششدر رہ جاتے ہیں ، مگرجب کوئی شخص اپنی غربت ، بے کسی اور بے بسی کے باوجود اپنے لیے نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کی زندگی میں روشنی پیدا کرنے کے لیے نکل پڑتا ہے تو ایسا شخص تاریخ رقم کرتا ہے اور یہی کارنامہ منگلور کے ایک شخص نے کر دکھا یا ہے۔
منگلور کے بس اسٹینڈ پر وہ روزانہ نارنگی بیچا کرتا تھا، اس وقت اس کی عمر محض پچیس سال تھی ، اس عمر میں وہ روزبس اسٹینڈ پر پھل بیچتا ،کبھی زیادہ بک جاتا اور کبھی کم، مگر اس نوجوان کے گھر کا خرچہ اس سے نکل جاتا تھا، وہ پڑھا لکھا نہیں تھا کہ منگلور کی بس پر بیٹھ کر بنگلور چلاجاتا، جہاں، ویپرو، گوگل ، انفوسس اور ٹاٹاجیسی کمپنیوں میں جاکر ایک چپراسی ہی کی سہی نوکری کرلیتا، مگر وہاں تو ودیشی کام کرتے ہیں اور وہاں کا چپراسی بھی انگریزی بولتا ہے، تو پھر اس کو کون نوکری دیگا ۔ 1978کی بات ہے کہ ایک روز کسی ودیشی راہگیر کا اسی بس اسٹینڈ سے گزر ہوا، اس نے نارنگی کی قیمت انگریزی میں پوچھ لی، یہ بتانہ سکا،انگریز تو واپس چلاگیا مگر اس نوجوان کے دل ودماغ میں ایک کہرام برپا کرگیا ۔ اس کو اپنے پڑھے لکھے نہ ہونے پر بہت غصہ آیا، جب وہ شام میں گھر لوٹا اور رات کو سونے گیا تو نیند نہیں آئی ، بستر پر کورٹیں بدلتا رہا اور سوچتا رہا کہ وہ صرف ایک اسکول نہ ہونے کی وجہ سے نہیں پڑھ سکا، کاش اس کے گاوں میں کوئی اسکول ہوتا، وہ سوچنے لگا کہ اس کے گاوں کے بچے بھی اسی کی طرح ان پڑھ رہ جائیں گے ، وہ بھی انگریزی نہیں بول پایں گے اور میری طرح شرمندہ ہونگے ،اس نے عزم کیا کہ وہ اپنے گاوں کے بچوں کو ان پڑھ نہیں چھوڑے گا، وہ انکی تعلیم کا کسی نہ کسی طرح بندوبست کریگا تاکہ آنے والی نسلیں تعلیم یافتہ ہوسکیں۔ مگر پیسے کہاں سے آیںگے، وہ تو بہ مشکل اپنا خرچہ نارنگی بیچکر چلاپاتا ہے اور اسکول کے لیے بہت پیسے درکار ہوتے ہیں۔ پھر وہ دوسرے دن بس اسٹینڈ نارنگی پیچنے چلاگیا، مگر اس کے ذہن میں یہ بات پریشان کررہی تھی کہ وہ اپنے گاوں کے بچوں کے لیے اسکول کیسے قائم کریگا، جب وہ شام کو واپس آیا تو اس نے اپنی معمولی کمائی سے ایک معمولی رقم نکال کر الگ رکھ دی اور عزم کیا کہ چاہے جتنے دن بھی لگ جایں وہ کماکماکر پیسے جمع کرتا رہے گا او راپنے گاوں میں ایک اسکول ضرور قائم کریگا۔
اس طرح کئی سال گذر گئے، جب تھوڑی سی رقم جمع ہوگئی تو وہ اسکول کھولنے کے لیے اپنے گاوں چلاگیا اور ایک اسکول کھولا، اسکول تو کھل گیا مگر نہ تو اسکی عمارت تھی، نہ کلاس روم تھے نہ اچھے ٹیچر تھے اور نہ ہی دوسرے ضروری سامان، یہ پھر اپنے بس اسٹینڈ لوٹ آیا اور اگلے بیس سال تک نارنگی بیچ بیچ کر تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرتا رہا اور اس اسکول میں اپنے خون پسینے کی کمائی لگاتا رہا،بیس سال کی قربانی رنگ لانے لگی اور اب اسکا اسکول اس لائق ہوگیا کہ گاوں کے بچے اس میں تعلیم حاصل کرسکیں۔
آج اس اسکول میں ایک سو پچھتر بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں اور علم کی روشنی نے ہر گھر میں اجالا پھیلا دیا ہے، اور سب کمال اس نارنگی بیچ کر پیٹ پالنے والے شخص کا ہے جس کا نام ہارےکالا ہاجپا ہے۔اسی معمولی شخص کی غیرمعمولی قربانی پر صدر جمہوریہ ہند نے2020 کا اسے پدم شری ایوارڈایوارڈ دیکر یہ اعتراف کیا ہے کہ ایجوکیشن کے میدان میں ایسے کام کرنے والوں کی ہمارے ملک کو بہت سخت ضرورت ہے اور جو بھی تعلیم کے میدان میں ایسی خدمات انجام دیگا اسے حکومت ایسے ہی اعزازات سے نوازتی رہے گی۔ اس کے علاوہ بھی کئی انعامات واعزازات سے ہاریکالا ہاجپا کو نوازا گیا ہے ، یہی نہیں بلکہ انکی کی زندگی پر ایک کتاب بھی لکھی گئی ہے اور بی بی سی لندن نے 2012 میںان کی انمول قربانی پر ایک آرٹیکل بھی شائع کیا ہے۔
آپ بھی آئیے اور اپنی بے سروسامانی کے باوجود جو کچھ بھی آپ سوچ رہے ہیں اس کو عملی شکل دینے کے لیے قدم اٹھائیے اور یاد رکھیے اگر کام کرنے کا واقعی جذبہ ہو، کسی مشن کو پورا کرنے کی اگر سچی چاہت ہو تو ایسے انسان کی ہمت اور حوصلوں کے سامنے طوفان بھی اپنا رخ بدل دیا کرتے ہیں۔
ایک ان پڑھ نارنگی فروش جس نے علم کی شمع روشن کی!-نقی احمد ندوی
previous post