احمد آباد (گجرات) میں حضرت پیر محمد شاہ لائبریری جاتے ہوئے راستے میں دو خوب صورت مسجدیں نظر آئیں ـ میرے ساتھیوں ڈاکٹر محمد سلیم پٹّی والا اور جناب عبد الرزّاق نے ان کا اس طرح تعارف کرایا کہ وہ تاریخی اعتبار سے بہت اہمیت کی حامل نظر آئیں ـ ان میں سے ایک ہے جامع مسجد ، جو ‘جمعہ مسجد’ کے نام سے معروف ہے اور دوسری سِدی سیّد مسجد ـ یہ دونوں مساجد قدیم شہر کے وسط میں واقع ہیں ـ
جامع مسجد کی تعمیر 1411ء میں احمد آباد شہر بسائے جانے کے کچھ ہی عرصے کے بعد سلطان احمد شاہ اوّل نے کروائی تھی ـ یہ مسجد گجراتی طرزِ تعمیر کا نمونہ ہےـ اس میں 5 محرابیں ہیں ، جو خوب صورت زرد ریت کے پتھروں سے بنی ہوئی ہیں ۔ مرکزی محراب پر جو کتبہ لگا ہوا ہے اس میں درج ہے کہ مسجد کا افتتاح یکم صفر 827 ھ/4جنوری 1424ء میں سلطان احمد شاہ اوّل کے ہاتھوں ہوا تھاـ مسجد میں 15 گنبد اور 260 ستون ہیں ۔ مسجد کے تین اطراف میں خوب صورت کالم بنائے گئے ہیں ، جن کی دیواروں پر فارسی رسم الخط میں خطاطی کے پُرکشش نمونے نظر آتے ہیں ۔75 میٹر لمبا اور 66 میٹر چوڑا صحن سنگ مرمر سے سجا ہوا ہےـ اس کے درمیان میں وضو کرنے کے لیے حوض موجود ہے ۔ جامع مسجد میں داخل ہونے کے لیے 3 جانب دروازے بنے ہوئے ہیں ۔ مسجد کے بالکل سامنے ایک مقبرہ ہے ، جس میں سلطان احمد شاہ اوّل ، اس کے بیٹے اور پوتے کی قبریں ہیں ۔
دوسری مسجد ، جو ‘سِدی سیّد مسجد’ کے نام سے مشہور ہے ، اس کا شمار احمد آباد کی مشہور اور خوب صورت مساجد میں ہوتا ہےـ اس کی تعمیر مغل تسلّط سے قبل گجرات سلطنت کے آخری حکم راں سلطان محمود سوم کے زمانے میں اس کے شاہی غلام سِدی سیّد کے ذریعے 1573ء میں ہوئی تھی ـ اس مسجد کی شہرت کا سبب اس کی جالیاں ہیں ـ ان کی وجہ سے یہ مسجد ‘سِدی سیّد کی جالی’ کے نام سے بھی مشہور ہےـ
مسلم حکم رانوں کی تعمیر کردہ عظیم الشان عمارتیں : قلعے ، مقبرے ، مساجد وغیرہ ملک کے چپّے چپّے پر پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی عظمتِ رفتہ کی گواہی دیتی ہیں ـ موجودہ حکم رانوں کے لیے انہیں کھرچ کر پھینک دینا ممکن نہیں ہےـ یہ اتنی دیدہ زیب ہیں کہ دیگر ممالک کے حکم راں جب یہاں آتے ہیں تو ان کی زیارت کروائی جاتی ہےـ