Home ستاروں کےدرمیاں احمدپٹیل کے بغیر کانگریس

احمدپٹیل کے بغیر کانگریس

by قندیل

 

معصوم مرادآبادی

 

کانگریس کے سینئر لیڈراحمدپٹیل نے گزشتہ25 نومبر کو جب کوروناجیسی موذی وباکی زد میں آکر اپنی جان ہاری تو پارٹی میں زلزلہ سا محسوس ہوا۔ یوں لگا کہ کوئی تناور درخت گرگیا ہو۔ احمد پٹیل اس وقت کانگریس کے خزانچی تھے اوران کا کمرہ کانگریس ہیڈ کوارٹر میں پارٹی صدر کی برابر میں تھا۔ اس سے قبل وہ کانگریس صدر سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر رہ چکے تھے ۔ کانگریس میں ان کی جو حیثیت اوردبدبہ تھا‘ اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ کانگریس کی اعلیٰ قیادت کے کان، ناک اور زبان سبھی کچھ تھے تو بے جا نہیں ہوگا۔احمد پٹیل جنھیں پارٹی میں سبھی لوگ ’’ احمد بھائی ‘‘ کے نام سے پکارتے تھے ، دراصل پارٹی کے چھوٹے بڑے لیڈروں اور اعلیٰ قیادت کے درمیان ایک پُل کا کام کرتے تھے۔ کوئی بھی ان کی مرضی کے بغیر سونیاگاندھی تک نہیں پہنچ سکتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ ان کے گھر پر رات گئے تک لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا ۔ ان میں مرکزی وزیر بھی ہوتے تھے۔ وزرائے اعلیٰ بھی اور صوبائی گورنر بھی۔ کسی کو اپنی ترقی مقصود ہوتی تو کوئی اپنی ہلتی ہوئی کرسی کو سہارا دینے احمدبھائی کے دردولت پر حاضری دیتا۔ وہ سبھی کی مشکلوں کو آسان کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انھیں کانگریس کا ’سنکٹ موچک‘(مشکل کشا) بھی کہا جاتا تھا۔ وہ محض ضرورت مندوں کی مشکلیں آسان نہیں کرتے تھے بلکہ پارٹی یا اس کی اعلیٰ قیادت کے بھی مشکل کشا تھے اور اسی لئے سونیا گاندھی نے انھیں جذباتی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’میں نے ایسا وفادار دوست کھودیا ہے جس کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔‘‘ راہل گاندھی نے انھیں یاد کرتے ہوئے کہا کہ’’ احمدپٹیل ایک ایسے ستون تھے جو سب سے مشکل دور میں بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔‘‘سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے جن کی دس سالہ حکومت کا اصل بوجھ احمدبھائی کے کاندھوں پر تھا ، انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ احمدپٹیل کانگریس کے بھروسے مند اور میرے بہترین دوست تھے۔ ان کا جانا پارٹی کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔‘‘

بلا شبہ ان کے انتقال سے کانگریس پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ احمدپٹیل نے اپنی سیاسی دانش مندی اور دوراندیشی سے پارٹی میں جو مقام حاصل کیا تھا وہ کسی اور کوحاصل نہیں ہوسکا۔ انھوں نے کانگریس پارٹی کے ساتھ وفاداری کے عوض اس کی قیادت کا جو اعتماد حاصل کیا تھا ،وہ شاید ہی کوئی دوسرا حاصل کرسکے ۔یہ ایک مسلمان کا سرمایہ افتخار تھاکہ اس نے ملک کی سب سے پرانی برہمن وادی پارٹی میں اپنے لئے ایسی مضبوط جگہ بنائی کہ کوئی برہمن بھی اس مقام کو نہیں پہنچ سکا۔اگر آپ غور سے دیکھیں تو موجودہ سیاست میں وفاداری ہی ایک ایسی چیز ہے جس کا سب سے زیادہ فقدان ہے اور یہ احمدپٹیل کا سب سے بڑا سرمایہ تھی۔انھوں نے پردے کے پیچھے رہ کر پورے دس سال یو پی اے سرکار کی باگ ڈور سنبھالی ، لیکن اپنے لئے کبھی کوئی عہدہ یا کرسی طلب نہیں کی۔نہ تو انھوں نے اپنے لئے کسی عہدے کی خواہش کی اور نہ ہی دیگر سیاست دانوں کی طرح اپنے بیٹے کو سیاست میں لائے۔ ان کے بیٹے فیصل کا نام بھی لوگوں نے پہلی بار اس وقت سنا جب ا س نے رات کے آخری پہر ٹوئٹر کے ذریعہ اپنے والد کے انتقال کی خبر دی ۔احمد پٹیل ہمیشہ پس منظر میں رہے اوریہ ایک ایسا وصف ہے جس کا موجودہ سیاست میں کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں تک کہ نئی دہلی کے مدرٹریسا مارگ پر واقع ان کے سرکاری بنگلے پر ان کی نیم پلیٹ بھی نہیں تھی اور یہ کوٹھی 23نمبر کے نام سے مشہور تھی۔سیاست میں لوگ اقتدار اور بے شمار دولت اکٹھا کرنے کے لئے ہی آتے ہیں ، لیکن احمدپٹیل ان دونوں سے دور تھے ۔ ہاں کچھ اہم اسپتالوں اور اسکول کالجوں کی تعمیر سے ان کا نام ضرور جڑا ہوا ہے اور یہی ان کی مغفرت کا وسیلہ بھی بنے گا۔وہ خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور کئی دینی اداروں اور مسجدوں کی تعمیر میں بھی ان کی شمولیت رہی۔

یہ بات کم ہی لوگوں کے علم میں ہے کہ پارٹی میں اتنا دبدبہ قائم کرنے والے احمدپٹیل پر ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جب انھیں بالکل بے دست وپا کردیا گیا تھا۔1986میں انھیں راجیو گاندھی نے گجرات کانگریس کا صدر بناکر احمدآباد بھیجا۔اس دوران ایک دہشت گردانہ کارروائی میں راجیو گاندھی کی موت کے بعد جب نرسمہارائو اقتدار میں آئے توبیشتر لیڈروں نے اپنی وفاداریاں ان سے وابستہ کرلیں۔لیکن احمد پٹیل گاندھی خاندان کے وفادار رہے۔اس دوران گجرات سے چناؤ ہارنے کے بعد انھیں صوبائی صدارت سے بھی علیحدہ کردیا گیا۔ جب وہ دہلی واپس آئے تو یہاں ان کا نہ تو کوئی سیاسی سرپرست تھا اور نہ ہی ان کے رہنے کے لئے مکان ۔ان کی دوست نجمہ ہپت اللہ نے ان کے لئے مینا باغ کے ایم پی فلیٹس میں ایک مکان کا انتظام کرایا۔ لیکن جلد ہی انھیں تین دن کی مہلت پر مکان خالی کرنے کا نوٹس تھمادیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب دہلی میں ان کا بیٹا اور بیٹی بورڈ کے امتحانات کی تیاری کررہے تھے۔ مکان خالی کرانے کی یہ کارروائی اپوزیشن کے نہیں بلکہ خود کانگریس کے وزیراعظم نرسمہاراؤ کے دور میں ہوئی تھی۔ اس دوران احمدپٹیل نے نرسمہاراؤ سے کوئی مدد یا عہدہ طلب نہیں کیا اور انھوں نے یہ مشکل وقت صبر اور قناعت کے ساتھ گزارا، جس کا نتیجہ بعد کے دنوں میں برآمد ہوا۔

کچھ لوگوں نے سوال اٹھایا ہے کہ پارٹی میں اتنا عروج حاصل کرنے کے باوجود انھوں نے مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں کیا اور وہ مسلم ووٹوں کے ٹھیکیداروں اور چند مفاد پرست مولویوں کے نرغہ میں رہے۔ یہ بات اس حد تک درست ہوسکتی ہے کہ الیکشن کے زمانے میں ان کے گھر پر مسلم قائدین، علمائے کرام اور اردو صحافیوں کا میلہ لگا رہتا تھا ۔ ان میں بعض لوگ مسلم ووٹوں کے پیشہ ور تاجر بھی ہوا کرتے تھے جنھیں احمدبھائی ان کی حیثیت کے مطابق نوازتے تھے۔ مجموعی طور پر مسلمانوں کے لئے کوئی بڑا کارنامہ انجام نہ دینے کے باوجود ہزاروں مسلمان ایسے تھے جن کا چولہا احمد بھائی کی لکڑیوں سے جلتا تھا ۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں مفاد پرست مسلمانوں نے اپنے نرغے میں لے رکھا تھا۔مخلص اور دیانتدارلوگ ان سے اس لئے دور تھے کہ وہ کاسہ لیسی کا ہنر نہیں جانتے تھے۔

اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ احمدپٹیل کی موت کے بعد کانگریس میں ان کا خلا کون پُر کرے گا۔ یہ سوال بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی موت کے بعد پوچھا گیا تھا یعنی ’’ نہرو کے بعد کون؟‘‘احمدپٹیل ملک کے وزیراعظم نہیں تھے،لیکن پارٹی کے لئے ان کی حیثیت اس سے بھی زیادہ تھی۔ مشکل ترین دور میں اور اپنی آخری سانس تک کانگریس پارٹی پراپنا سب کچھ نچھاور کرنے والے احمدپٹیل کے بغیر کانگریس پارٹی کا تصور ہی محال ہے۔ پارٹی کے سیاسی اور تنظیمی امور پر ان کی گرفت یکساں طور پر مضبوط تھی ۔انھوں نے اپنی سیاسی زندگی میں بہت کم صحافیوں کو انٹریوز دئیے اور شہرت سے ہمیشہ دور رہے ، لیکن وہ اپنے کام اور سیاسی انجینئرنگ کے حوالے سے ہمیشہ سرخیاں بٹورتے رہے۔اخباری شہرت سے اتنا دور رہنے کے باوجود اخبارنویسوں سے ان کے تعلقات سب سے زیادہ مضبوط تھے۔ شاید ہی کوئی سرکردہ صحافی ایسا ہو جس کی رسائی احمد پٹیل تک نہ ہو۔

احمدپٹیل تین بار لوک سبھا اور پانچ بار راجیہ سبھا کے رکن چنے گئے۔ وہ پہلی بار 1977 میں اس وقت کانگریس کے ٹکٹ پر چناؤ جیت کر آئے تھے جب ان کی پارٹی کو ایمرجنسی کے بعد بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑاتھا ۔ خود اندرا گاندھی بھی چناؤ ہارگئی تھیں، لیکن احمدپٹیل نے کامیابی کا پرچم بلند کیا۔1984 میں اندرا گاندھی کے بہیمانہ قتل کے بعدجن لوگوں کو راجیو گاندھی کے مشیروں میں شامل کیا گیاان میں احمدپٹیل کا نام بھی شامل تھا اور انھیں پارٹی کا جوائنٹ سیکریٹری بھی بنایا گیا۔ بعد میں وہ جنرل سیکریٹری بھی بنے۔ پچھلے دنوں پارٹی قیادت کے خلاف 23لیڈروں کے خط نے جو بحران پیدا کیا تھا اسے بھی احمدپٹیل نے ہی سنبھالا۔2014 میں جب پارٹی کی قیادت راہل گاندھی کے ہاتھوں میں آئی تو وہ کانگریس صدر کے سیاسی مشیر نہیں بنائے گئے ، لیکن پارٹی میں ان کا جلوہ برقرار رہا۔ حالانکہ راہل گاندھی کے قیادت سنبھالنے کے بعدپارٹی کو شکست وریخت کے جن مراحل سے گزرنا پڑا اس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ آج کانگریس سیاست میں حاشیہ پر چلی گئی ہے ۔اس میں نئی جان ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں اسے احمدپٹیل جیسے تجربہ کار ، وفا شعار اور خود سپردگی والے لیڈروں کی سخت ضرورت ہے ۔ لیکن پارٹی کے اندر ان کی صلاحیت کا کوئی دوسراآدمی نظر نہیں آتا۔نہ ہی کوئی ایسا لیڈر ہے جسے اعلیٰ قیادت کا اعتماد حاصل ہو۔ایسے میں سب سے بڑا سوا ل یہی ہے کہ اب احمدپٹیل کی جگہ کون لے گا؟ اس کا جواب فی الحال نفی میں ہے۔

You may also like

Leave a Comment