ابراہیم افسر کا تعلق سیوال، ضلع میرٹھ سے ہے ۔فی الحال وہ حکومت دہلی کے شعبۂ تعلیم میں درس وتدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی ، میرٹھ سے انھوں نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے پی ایچ ڈی کا مقالہ’’ رشید حسن خان کی ادبی جہات‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ رشید حسن خاں کے حوالہ سے ان کے متعدد تحقیقی وترتیبی کام نے ادبی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل کی ہے۔’’مطالعۂ رشید حسن خاں‘ ‘ سے متعلق ان کی لگن، محنت اور جستجو جنون کی حد میں داخل ہوچکی ہے اوراب تک رشید حسن خاںسے متعلق تقریباً ایک درجن کتابیں منظر عام پر لاکر اہل علم و دانش سے داد وتحسین حاصل کرچکے ہیں۔
ڈاکٹر ابراہیم افسر نے2023ء میں احمد فرازؔ کے انٹرویوکو مرتب کرکے شائع کیا۔ اس سے پہلے’’ احمد فرازؔ کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ: ’خواب گل پریشاںہے‘ کے حوالہ سے‘‘ کے نام سے ان کی ایک کتاب شائع ہوچکی تھی۔یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ابراہیم افسر کے ایم فل کا عنوان ’احمد فرازؔ کی شاعری کا مطالعہ‘ ان کے ایک مجموعے کے حوالے سے رہا ہے ۔احمد فرازؔ کی شاعری کے مطالعہ کے دوران ہی ان کی رسائی انٹرویو تک ہوئی،جو آج کتابی شکل میں قارئین کے ہاتھوں میں ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب ’احمد فراز ؔکے انٹرویوز‘ در اصل ایسے مکالمے ہیں،جومتعدد صحافیوں اور ادیبوں نے ان سے کیے تھے ۔اس کتاب میںکل اکیس مکالمے شامل ہیں۔یہ انٹرویوز اس لحاظ سے اہم ہیں کہ اس میں احمد فرازؔ کی شخصیت اور فن پر بھرپور گفتگو ملتی ہے۔ابراہیم افسر نے بے حد دلجمعی اور محنت سے مختلف رسالوں وجریدوں اور کتابوں سے چن کریہ انٹرویوز یکجا کیے ہیں ۔کتاب میں شامل شارب ردولوی، معصوم مرادآبادی، ڈاکٹر عرفان بیگ اور ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ کے احمد فرازؔ سے مکالمے دیگر انٹرویوز سے اس لیے منفردہیںکہ ان میں ایک جیسے سوالات کی تکرار کم اور بنیادی باتیں زیادہ ہیں، جب کہ دیگر انٹرویوز میں رسمی قسم کے سوالات کی کثرت ہے۔
ڈاکٹر ابراہیم افسر نے 26 صفحات پر مشتمل اپنے ’پیش لفظ ‘میں احمد فرازؔ کی ذاتی زندگی ، ان کی تخلیقات ونظریات کا بھرپور تجزیہ پیش کرتے ہوئے ان کے انٹرویوز سے متعلق بھی گفتگو کی ہے اور اس سلسلہ میں خواجہ اکرام الدین کی مرتب کردہ کتاب’ ملاقاتیں‘، معصوم مرادآبادی کی ’بالمشافہ‘، ڈاکٹر محمد شکیل اختر کی’ رو برو‘[ حصۂ اول] ،رسالہ’ چہار سو‘اورماہنامہ’ اردو دنیا‘ وغیرہ سے استفادہ کیا ہے اوران کے شعری کلام پر بحث کرتے ہوئے ان کی چند نظموں اور غزلوں کا انتخاب ہدیۂ قارئین کیا ہے۔ڈاکٹر ابراہیم افسر اپنے’ پیش لفظ‘ میں لکھتے ہیں:
’’۔۔۔میرے لیے احمد فراز ؔکے بکھرے ہوئے انٹرویوز کو یک جا کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں تھا۔۔۔ان انٹرویوز میں ہمیں احمد فراز ؔکی زندگی کے بہت سے مخفی گوشوں کے بارے میں واقفیت حاصل ہوگی، جن سے ہم اب تک نابلد ہیں۔۔۔۔فراز ؔنے اپنے انٹرویوز میں بہت سی باتوں کا خلاصہ جذباتی طور پر کیا اور بعض باتوں کو پڑھ کر ہمارا روم روم کانپ اُٹھتا ہے۔‘‘
کتاب میں شامل پہلا انٹرویو ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے پروگرام’’ملاقات‘‘ کے تحت کنیز فاطمہ نے کیاہے اور پروفیسر فتح محمد ملک، ضیاء الدین ضیا شریک گفتگو ہیں۔ اس انٹرویو میںاحمد فرازؔ کی ریڈیو میں ملازمت وذاتی زندگی پر تفصیلی گفتگو ملتی ہے ۔اس میں ان کی شاعری کے جمالیاتی پہلو کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ انٹرویو 2009 ؍میں رسالہ’’ ماہ نو‘‘ کے’’ احمد فرازؔ نمبر‘‘ میں شائع ہوا تھا۔’’احمد فرازؔ سے شارب ردولوی کی گفتگو‘‘ کتاب میں شامل یہ تیسرا انٹرویو ہے۔ جس میں شارب ردولوی نے فرازؔ کی شاعری کے کئی اہم نکتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کی شاعری، لب ولہجہ اور انداز بیان پر جلا وطنی سے مرتب ہونے والے اثرات پر اہم سوالات کیے ہیں اور ایسے نازک وقت اور سیاسی حالات میں اُنہوں نے کس طرح اپنے اسلوب اور آواز کو محفوظ رکھا، اس پر عمدہ گفتگو کی ہے، ساتھ ہی ہند وپاک میں ہونے والی شاعری کے حوالہ سے احمد فرازؔ کی رائے بھی جاننے کی کوشش کی ہے۔شارب ردولوی نے انٹرویو کے دوران رسمی سوالات سے اجتناب برتا ہے، جس نے گفتگو کو خوبصورت بنادیا ہے اور قاری کا ذہنی ارتکازقائم رہتا ہے ۔ اسی طرح اطہر فاروقی نے اپنے انٹرویو میں احمد فرازؔ کی جلاوطنی اور ہندوستان و پاکستان کے باہر ہونے والی شاعری اور اس کی انفردایت سے متعلق گفتگو کی ہے اور جلا وطنی کے اسباب، اسلامی حکومت کے خواب، جمہوریت اور موجودہ سیاسی صورت حال کو بھی اس گفتگو میں شامل ہے۔ معصوم مرادآبادی نے ہند وپاک میں ہونے والی شاعری میں بنیادی فرق اور کئی اہم باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔
کتاب میں شامل انٹرویو’’احمد فراز ؔسے ایک غیر رسمی مکالمہ‘‘پروفیسر عرفان احمد بیگ نے کیا ہے۔اس میں انہوں نے ایک ادبی محفل میں دوستوں کے ذریعہ احمد فراز ؔسے کیے گئے سوالات اور ان کے جوابات کو مرتب کردیا ہے۔اس میں ہندوپاک کے شعری منظرنامہ اور فیضؔ وفرازؔ کے آپسی تعلقات اور زندگی کو ٹٹولنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ انٹرویوبہت دلچسپ ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ’امر اُجالا‘(ہندی روزنامہ) میں شائع شدہ احمد فرازؔ سے راجندر اُپادھیائے کا کیا ہوا انٹرویو ابراہیم افسر نے ہندی سے اردو ترجمہ کرکے شامل کیا ہے۔ اس مختصر انٹرویو میں رسمی گفتگو نہیں ہے اور نہ ذاتی زندگی سے متعلق سوالات ہیں ،بلکہ کچھ نئی باتوں سے قاری آشنا ہوتا ہے۔ اسی طرح مشکور علی، ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ اور نعیم بخاری کے انٹرویوز میں نئی باتیں قاری کو ملتی ہیں۔
ابراہیم افسر کی مرتب کردہ اس کتاب میں احمد فرازؔ سے گلزار جاوید، ڈاکٹر سجاد رضوی، رخشندہ جلیل، سلیم صدیقی، فیضان عارف، صائمہ عمران اور عبید صدیقی وغیرہ کے انٹرویوز کے علاوہ احمد فرازؔ کا انٹرویو سلیم صافی کے ساتھ بھی شامل ہے، جسے پشتو سے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔مجموعی طور پراس کتاب کے مطالعے سے احمد فراز کی عظمت کا اعتراف کرنا پڑتاہے اور ابراہیم افسر کے ذوق و جستجو کے لیے دل سے بے ساختہ داد نکلتی ہے۔
ڈاکٹرابراہیم افسر ایک مستندجواں سال ادیب ہیںاور لکھنے پڑھنے کا نہایت پاکیزہ ذوق رکھتے ہیں۔ کتاب کے آخری صفحات میں مرتب کا سوانحی خاکہ ہے، جس کے مطالعہ سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ڈاکٹر ابرہیم افسر کی تصنیفی وتالیفی سرگرمیاں قابل رشک وتحسین ہیں۔بے شمارادبی کاوشوں کے سبب ہی ان کا شمار تازہ دم محققین میں کیا جانے لگا ہے۔
اللہ تعالیٰ ڈاکٹر ابراہیم افسر کی اس کتاب کو بھی قبولیت سے نوازے ، قلم کی روانی اور بڑھائے، جستجو اور آرزو کا یہ نظام مزیدپختہ ہوجائے۔
کتاب کاسرورق دیدہ زیب اور طباعت عمدہ و صاف ستھری ہے۔240 ؍صفحات پر مشتمل احمد فراز کے انٹرویوز کے اس مجموعہ کی قیمت 350 ؍روپئے ہے جس کو جی این کے پبلی کیشنز،بڈگام، جموں کشمیر نے شائع کیا ہے۔