25 ذی الحجہ 1443، مطابق 25 جولائی 2022 ، روز پیر کو چند گھنٹے ایک ایسی جگہ گزارنے کا اتفاق ہوا، جہاں کے مشاہدات و تجربات خوشگوار یادیں بن کر دل و دماغ پر مرتسم ہو گئی ہیں۔ خیال ہوا کہ ان مشاہدات و تجربات میں قارئین کو بھی شریک جائے۔
دن کے گیارہ سوا گیارہ کا وقت ہوا تھا، جب عزیز مکرم مسعود ندوی صاحب کی رفاقت میں، طے شدہ پروگرام کے مطابق بردی پور چوک سے قریب ہر دل عزیز اور سدا بہار شخص برادر محترم مفتی مبین سعیدی صاحب زید مجدہ سے ملاقات ہوئی۔ ہمیشہ کی طرح محبت سے لپٹ گئے، دعائیں دی، پھر ان کی رہنمائی میں ان کے زیر انتظام چلنے والے ادارے مدرسہ طیبہ قاسم العلوم بردی پور، دربھنگہ کی طرف روانگی ہوئی ۔ ایک جگہ چند پلوں کے لیے ٹھہر کر یہ بتایا کہ ادارہ اسی جامع مسجد کے سامنے ان چند کمروں اور سائبان میں کئی سال چلا ہے، پھر اللہ کے فضل سے ادارہ کی اپنی زمین کا انتظام ہو گیا، تو اس زمین میں تھوڑی تعمیر کے بعد 2020 میں منتقل ہوگیا ہے۔ چند منٹوں میں ہم اس نئی جگہ پر تھے۔
یہ نئی، ادارے کی اپنی جگہ ، جہاں اب ادارہ کام کررہا ہے، ماشاء اللہ کھلی کھلی، ہرے بھرے کھیتوں کے درمیان اور خاصی پرفضا ہے، ایک چھوٹی سی، سادی؛ مگر صاف ستھری مسجد ، مطبخ کے نظام کے لئے ایک سائبان ، چند کھلے کھلے، روشن اور ہوا دار کمروں پر مشتمل ایک عمارت ، سلیقے سے بنے ہوئے کئی حمام اور طہارت خانے، یہ مدرسہ کے احاطہ کے اندر کی موجودہ تعمیرات ہیں۔
احاطے میں داخل ہوتے ہی مسجد پر نگاہ پڑی، خانۂ خدا کی سادی؛ لیکن صاف ستھری پرکشش عمارت نے دل میں عظمت کے ساتھ ایک خوبصورت سا تاثر بھی پیدا کیا۔ چند قدم آگے مطبخ کے سائبان سے گزرتے ہوئے اکلوتی بلڈنگ کے پاس ہم ٹھہرے، جن میں سامنے اساتذہ کی قیام گاہیں ، اور آفس ہیں، پھر حمام اور طہارت خانوں کا نظام ہے، پھر اس کے بعد یہیں(گراؤنڈ فلور پر )اور پہلی منزل پر طلبہ کی رہائش کے لیے متعدد کمرے ہیں۔
مفتی مبین قاسمی صاحب، اور مسعود ندوی صاحب کی معیت میں اساتذہ کے کمرے میں حاضری ہوئی، اساتذہ سے ملاقات ہوئی، ان کے پرجوش اور پر خلوص استقبال پر ایسا محسوس ہوا کہ سب پہلے ہی سے جانے پہچانے ہیں، ان اساتذہ کے درمیان ایک چہرہ واقعی پہلے سے خوب جانا پہچانا تھا، یہ تھے محترم جناب عارف اقبال قاسمی (آواپوری) صاحب۔ محبت سے چمٹ گئے، خلوص و محبت کی ٹھنڈک دل میں اترتی محسوس ہوئی۔
یادش بخیر! آئیے روداد کو آگے بڑھانے سے پہلے مختصر لفظوں میں ان تینوں احباب "عارف اقبال قاسمی آواپوری، مسعود ندوی شکرپوری اور مفتی مبین سعیدی قاسمی بردی پوری” کا تعارف کراتا چلوں۔
محترم عارف اقبال قاسمی آواپوری
میرے ہم عمر ہیں، آواپور سیتامڑھی کے رہنے والے ہیں، بڑا عرصہ کولکاتہ میں بھی گزارا ہے، تعلیمی اعتبار سے مجھ سے ایک دو سال جونیئر تھے، مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ میں ہم کئی سال تک ساتھ پڑھتے رہے، ان کی آخری یاد جو دل کے نہاں خانے میں تھی، وہ مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ کے اختتامی پروگرام کے حوالے سے تھی، جو ہم طلبہ عربی ششم (بیچ: 2005) نے منعقد کیا تھا، انتظامی امور کے لیے دوسری جماعتوں کے بعض طلبہ سے ہم لوگوں نے درخواست کی تھی، جن میں بہت زیادہ سرگرمی کے ساتھ جن چند احباب نے ہماری معاونت کی تھی، ان میں ایک عارف اقبال بھائی بھی تھے۔
پھر میں دار العلوم دیوبند چلاگیا، عارف اقبال بھائی جب دیوبند آئے، تو میں المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد چلا گیا، اس طرح 2005 کی شکرپور کی ملاقات ان سے آخری ملاقات ثابت ہوئی، چند سالوں پہلے پتہ چلا کہ عارف اقبال بھائی دیوبند ہی کے ہوکر رہ گئے ہیں کہ فضیلت کے بعد کمپیوٹر کی ٹریننگ لی تھی، اور اب کمپیوٹر کی ٹریننگ کا سنٹر اور کمپوزنگ و طباعت کا ادارہ قائم کیا ہے اور اسے چلا رہے ہیں۔
دو تین سال قبل پتا چلا کہ مبین بھائی کے کہنے پر عارف اقبال بھائی مدرسہ طیبہ قاسم العلوم بردی پور سے بطور استاذ اور مبین بھائی کے دست راست کے طور پر منسلک ہوگئے ہیں۔
تقریبا سترہ سال بعد کی ان سے ملاقات نے بڑا لطف دیا، چہرہ وہی، قدو قامت بھی تقریبا وہی، ہاں ان سترہ سالوں میں کچھ موٹے اور چوڑے ضرور ہو گئے ہیں، ہنس مکھ پہلے بھی تھے اب بھی ہیں، ہاں علم، تجربات اور عمر نے وقار میں اضافہ ضرور کیا ہے۔ سترہ سال پہلے اختتامی پروگرام میں انتظام و انصرام کی سمجھ کی جھلکیاں ان کے اندر میں نے محسوس کی تھی، اب ایک اچھے منتظم کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں، اور ان چند گھنٹوں میں ان کے حسن انتظام کا کھلی آنکھوں مشاہدہ بھی کیا، مبین سعیدی صاحب کا ان پر گہرا اعتماد اپنے آپ میں بہت کچھ کہتا ہے، اللہ عزوجل سدا انہیں اپنی نعمتوں میں رکھے اور مفید بنائے رکھے۔ آمین
عزیز محترم مسعود ندوی صاحب
اسی شکرپور کے رہنے والے ہیں، جہاں قائم شدہ ادارہ مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ نے مجھے، مبین بھائی، عارف بھائی اور مسعود صاحب کو باہم جوڑا اور وابستہ کیا ہے۔ میں جب حفظ کے شعبہ میں زیر تعلیم تھا، وہ شعبہ پرائمری میں پڑھا کرتے تھے، پھر عربی کی چند جماعتیں مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ میں پڑھنے کے بعد دار العلوم ندوة العلماء سے ملحقہ مدرسہ میں زیر تعلیم رہے، پھر ندوہ سے عالمیت کیا ہے اور اس کے بعد عصری دانش گاہ سے بھی کسب فیض کیا ہے۔
کئی سالوں سے دہلی میں کئی بڑے ہاسپٹلس سے منسلک ہیں، خلیجی اور عرب ممالک سے آنے والے مریضوں کو طبی امور سے متعلق مشورے دیتے ہیں اور مختلف نوعیتوں کی سروسز انہیں فراہم کرتے ہیں ۔
گورے چٹے، روشن پیشانی اور مسکراتی آنکھوں والے ہیں، مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ کی زمانہ طالب علمی کے بعد سے ہمارے بیچ باہم رابطہ منقطع سا ہو گیا تھا، چند سال پہلے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ ہوا ، تب سے ہم مستقل رابطے میں ہیں اور اتفاق سے ایک دو سال سے ایسا ہوتا ہے کہ جب میں چھٹیوں پر ہوتا ہوں، وہ بھی کسی ضرورت سے گھر آئے ہوتے ہیں، چنانچہ بالمشافہ ملاقات بھی ہو جاتی ہے اور چند گھنٹے ساتھ بیٹھنا اور باہم مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال بھی۔
مہمان نواز، محبت کرنے والے، بڑوں کا اکرام اور چھوٹوں پر شفقت کا معاملہ کرنے والے ہیں، میرے علم کے مطابق کشادہ دست اور خیر کے کاموں میں خرچ کرنے والے بھی ہیں۔ اللہ پاک ان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور دنیوی و اخروی سعادتیں نصیب کرے۔
مفتی مبین سعیدی قاسمی صاحب
بطور مبالغہ کے نہیں، سچ مچ جامع کمالات شخص ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے فاضل ہیں، انگریزی زبان کی باضابطہ تعلیم حاصل کی ہے، اس زبان پر اچھی گرفت ہے، مدرسہ طیبہ قاسم العلوم بردی پور کے بانی و ناظم ہیں، اور ایسے ناظم کے بڑوں کے سامنے اپنی کارکردگی اور مالی معاملات کے حساب کتاب کے لیے ہمہ دم مستعد رہتے ہیں اور ہمیشہ اس بات کے متلاشی کہ کوئی ایسا فرد مل جائے، جس کے ظاہری احوال سے یہ لگے کہ ان کے زیر انتظام چلنے والے ادارہ کو وہ دوسرے فرد بہتر طور پر چلا سکتے ہیں اور گاؤں سماج کے عمائدین اور سرپرست علماء کرام کی تائید بھی اس دوسرے فرد کو حاصل ہو جائے، تو انتظام و اہتمام کی اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائیں۔
بڑے ہی حسن انتظام کے ساتھ ادارہ کو چلارہے ہیں، من موہنی شخصیت ہے، تقریر و خطابت، مجلسی و شخصی گفتگو اور تعلقات عامہ کا ہنر اللہ عزوجل نے خوب دیا ہے۔ کھرے ، سادے اور محبتی ہیں۔
مبین بھائی بڑوں میں بڑے، ہم عمروں میں ہم عمر اور بچوں میں بچے بن کر رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں؛ لیکن کیا مجال کہ وقار کا دامن کبھی چھوٹے یا تواضع میں کہیں کمی آجائے۔ خود خرسند اور دوسروں کو ہنساتے رہنے والے ہیں؛ لیکن حاشا و کلا! غیر سنجیدہ ہر گز نہیں ہیں، حسن انتظام کے ساتھ ان کا ادارہ کو چلانا میرے اس دعوے پر شاہد عدل ہے۔
مبین بھائی کی گفتگو ظرافت کے پردے میں بہت ساری حکمت کی باتوں کو سمیٹے ہوتی ہے، گھنٹوں آپ ان سے بات کریں، اکتاہٹ نہیں محسوس ہوگی، وہ میزبان ہوں، تو بے تکلفی کے ساتھ ہر ممکنہ راحت آپ کو بہم پہنچانے میں کوشاں رہیں گے، اور مہمان بنیں، تو آپ کے لئے کسی طرح کا بوجھ نہیں بنیں گے۔
مبین بھائی کے بارے میں کیا کیا بتاؤں؟ ان کی شخصیت کے کن کن پہلوؤں کی طرف اشارہ کروں؟ یادوں کا ایک ہجوم سا ہے، کہ ان سے تعلق مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ سے جو شروع ہوا، وہ دارالعلوم دیوبند میں رہا، پھر ان کی بڑوں سے وابستگی کی عادت کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند کے بعد بھی مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ آتے جاتے رہنے کی وجہ مستقل رہا ہے، زمانہ طالب علمی کے مختلف ادوار کی بہت سی یادیں ہیں، پھر عملی زندگی کے عہد کے بہت سے تجربے۔ اللہ پاک نے چاہا اور کبھی موقع ہوا، تو احباب کے بارے میں لکھوں گا اور جی کھول کے لکھوں گا۔
خیر! اپنے اس چند گھنٹے کے سفر کے تجربات و مشاہدات کی طرف لوٹتا ہوں۔ اساتذہ سے ملاقات کے بعد دفتر میں ہمیں بٹھایا گیا، مبین بھائی نے ایک نوجوان استاذ کو بلایا اور مجھ سے کہنے لگے، ان کو پہچانتے ہیں؟ پل بھر میں ذہن و دماغ میں سینکڑوں نئی پرانی تصویریں آئیں اور میں نے کہا یہ عزیزی خالد سیف اللہ سلمہ ابن استاذ محترم مولانا حافظ نسیم احمد نعمانی صاحب ہیں، بیس بائیس سال پہلے جب میں درجہ حفظ میں پڑھتا تھا، تو حافظ صاحب کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی عزیزی خالد سیف اللہ سلمہ مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ آیا کرتے تھے، اب ماشاء اللہ دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مولانا مبین سعیدی صاحب کے مدرسہ میں تدریسی خدمت سے منسلک ہیں، اللہ عزوجل ان کو دونوں جہان کی سعادت نصیب کرے۔
کسی نے خوب کہا ہے کہ وقت کی سب سے خاص اور سب سے عام بات یہی ہے کہ وہ گذر ہی جاتا ہے، اپنے ان جیسے عزیزوں کے علم و عمل اور عمر میں بڑے ہوکر جوان ہونے پر جہاں خوشی ہوتی ہے، وہیں یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ اس حقیر نے زندگی کے کتنے مہ و سال غفلت میں گزار دیئے ہیں، اللہ پاک ماضی کی غفلتوں پر معاف کرے اور صحت و عافیت کے ساتھ لمبی عمر عطا کرے اور اگلے سارے وقت کو دین و دنیا کے لئے نفع بخش کاموں میں صرف کرنے کی توفیق اور ہنر دونوں دے۔
مولانا مبین صاحب سے پتا چلا کہ مدرسہ میں شعبہ پرائمری اور حفظ میں تقریبا ایک سو پانچ طلبہ زیر تعلیم ہیں، شعبہ پرائمری میں نورانی قاعدہ، ناظرہ قرآن کریم، دینیات، حساب اور اردو، ہندی و انگریزی زبانوں کی تعلیم ہوتی ہے، یہاں سے شعبہ پرائمری کی تکمیل کے بعد طالب علم حفظ قرآن مجید یا عربی درجات کی تعلیم یا اسکول میں چھٹی جماعت میں داخل ہونے کا اہل ہو جاتا ہے۔ شعبہ حفظ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد طالب علم عربی درجات کی تعلیم یا اسکول کی آٹھویں جماعت میں داخلہ کا اہل ہو جاتا ہے۔
مطبخ کے سائبان اور موجودہ پختہ عمارت کے درمیان کے حصے میں مٹی بھری جا رہی تھی، مولانا مبین صاحب نے بتایا کہ اس حصہ کو طعام گاہ کے طور پر استعمال کیا جائے گا، طعام گاہ کے ایک حصے میں ہاتھ اور برتن دھونے کا نظام رہے گا، وہیں برتن رکھنے کے لئے ریک بھی بنے ہوں گے، اور ایک طرف فرشی نشست پر کھانا کھانے کا نظم ہوگا، وہیں کھانا سرو کیا جائے گا، طلبہ وہیں کھا پی کر اپنے برتن دھو کر رکھ کر چلے جائیں گے، ذاتی طور پر یہ خوشگوار تبدیلی کا پلان مجھے بہتر محسوس ہوا، اس میں جہاں بہتر طور پر صفائی ستھرائی کا نظم بحال رکھا جا سکتا ہے، وہیں اس میں طلبہ کا اکرام بھی ہے، اسی طرح جہاں یہ ادارہ کے بہتر نظام کی غمازی کرنے والا ہوگا، وہیں طلبہ کی اس بات کی تربیت پر بھی مشتمل ہوگا کہ اپنا کام سلیقے سے خود کس طرح کرنا چاہیے۔
ظہر کی اذان پر مسجد کی طرف ہم چل پڑے، مسجد کے صدر دروازہ پر نہایت ہی مرتب طور پر قطار میں طلبہ کی چپلیں رکھی ہوئی تھیں، جو اساتذہ کی بہتر تربیت کی غماز تھیں، مسجد میں بھی طلبہ کو نہایت ہی سلیقے سے بیٹھے ہوئے دیکھا، چھوٹے چھوٹے بچے اور ایسی تربیت! اساتذہ کی محنت اور طلبہ کے تربیت کو قبول کرنے کے جذبے کے لئے دل و دماغ میں داد و تحسین کے جذبات اور کلمات آئے۔
ظہر کے بعد پر تکلف ظہرانہ سے مولانا مبین صاحب اور مولانا عارف صاحب نے شاد کام کرایا، دسترخوان پر ہلکی پھلکی گفتگو ہوتی رہی، ماضی اور زمانہ طالب علمی کی یادوں کو کریدتے رہے، ہنستے مسکراتے رہے اور آنکھوں کو نم بھی کرتے رہے۔
ظہرانہ کے بعد تھوڑے آرام کے بعد مولانا مبین صاحب اور مولانا عارف صاحب کا حکم ہوا کہ طلبہ کو مسجد میں جمع کیا جا رہا ہے، کچھ دیر ان سے گفتگو کرنی ہے۔
مسجد میں حاضری ہوئی، طلبہ سے مولانا مبین صاحب نے کچھ تمہیدی گفتگو کی، مولانا مسعود صاحب نے تفصیل سے علم کی اہمیت، حفظ کی اہمیت اور دینی و عصری تعلیم کے حوالے سے بہت سی مفید باتیں کیں۔ پھر مولانا مبین صاحب نے اس حقیر کے بارے میں طلبہ کے سامنے اپنے حسن ظن کا اظہار فرمایا، اللہ پاک سے دعاء ہے کہ ان کے حسن ظن کو میرے بارے میں سچ کردے، اور پھر مجھے گفتگو کے لئے کہا: سورہ مجادلہ کی آیت کے ایک ٹکڑے : {يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ} [المجادلة: 11] کو بنیاد بنا کر اس حقیر نے آدھے گھنٹے گفتگو کی، عام فہم انداز میں متعدد مثالوں سے بچوں کو بتایا کہ اللہ عزوجل نے دنیوی و اخروی اعتبار سے کامیابی و کامرانی کے لئے دو چیزوں کو نہایت ہی اہم بتایا ہے: ایک ایمان اور دوسرے علم۔ پھر متعدد آیات قرآنی اور اخلاق سے متعلق احادیث کو ذکر کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی کہ علم بغیر تربیت کے غیر نافع بلکہ بسا اوقات مضر بھی ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے آپ کی تربیت کے لیے آپ کے اساتذہ آپ کی تعلیم سے کم فکر مند نہیں رہتے ہیں، آپ کو بھی تربیتی امور کے قبول کرنے پر اتنا ہی متوجہ رہنا ہے، جتنی تعلیم کے لیے فکر کرتے ہیں، دوران گفتگو جہاں اس بات کو دیکھا کہ تمام طلبہ بہت سلیقے سے بیٹھے ہوئے ہیں، وہیں یہ بھی نظر آیا کہ تمام طلبہ کے پہناوے گو قیمتوں کے اعتبار سے یقینا مختلف ہیں، لیکن سب صاف ستھرے ہیں اور سلیقے سے پہنے گئے ہیں۔
طلبہ سے یہ گفتگو بڑی دلچسپ اور مزے کی رہی، ان ننھے منے طلبہ کی محبت نے آنکھیں نم کر دیں اور ان کے چہروں میں اپنا بچپن دکھائی دیتا رہا۔
اس مختصر پروگرام کے بعد عصر کی نماز ادا کی، عصر کے بعد عارف بھائی کے اصرار پر ہم نے لذیذ "بھنے ہوئے چوڑے اور پکوڑے ” چائے کے ساتھ تناول کیے، پھر مبین بھائی اور عارف بھائی کی محبتوں اور عنایتوں کے گہرے نقوش کے ساتھ واپسی کے لیے روانہ ہوگئے۔ ان چند گھنٹوں میں جو نقوش دل پر ثبت ہوئے، یہ تحریر اس کی ناتمام اور مدھم سی جھلک ہے۔
اخیر میں دو باتیں کہنی ہیں: ایک تو یہ کہ اگر آپ بردی پور کے اطراف کے رہنے والے ہیں، تو آپ کے بچوں کی ابتدائی تعلیم اور حفظ قرآن کے لیے مدرسہ طیبہ قاسم العلوم بردی پور ایک نہایت عمدہ اور صحیح انتخاب ہوگا، دوسری درخواست یہ ہے کہ اس ادارے کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اور جس طرح کا تعاون آپ کر سکتے ہوں، اس سے بھی دریغ نہ کریں کہ آپ کے لیے ذخیرہ آخرت ہوگا۔
و صلی اللہ تعالى على خير خلقه محمد و آله وصحبه أجمعين.