Home خاص کالم افغانستان سے کون لوگ بھاگ رہے ہیں؟ ـ عبداللہ ممتاز

افغانستان سے کون لوگ بھاگ رہے ہیں؟ ـ عبداللہ ممتاز

by قندیل

 

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد وہاں سے کون لوگ بھاگ رہے ہیں اور کیوں، آئیے جانتے ہیں:

۱. انتہائی ظالم قسم کے لوگ جنھوں نے طالبان کے خلاف انسانیت سوز مظالم کیے تھے؛ چناں چہ عام معافی کے باوجود انھیں اپنے جرم کی سنگینی کا احساس ہے اور اندیشہ ہے کہ شاید ہم پکڑے جائیں تو عام معافی کے باوجود ہم سے انتقام لیا جائے گاـ عبدالرشید دوستم جیسے لوگ اسی فہرست میں شامل ہیں، جس نے قیدیوں کو صحرائے لیلی میں کنٹینروں میں بند کرکے ان پر گولیاں چلائیں، کتنوں کو زندہ دفن کردیا، کتنوں کے پیٹ میں گیس بھر کر آگ لگادیا اور اس کی بے دردی کی موت کا مزہ لیتا رہا اور کتنوں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر بیچ صحرا میں چھوڑ آئے تھے جہاں انھوں نے بھوک پیاس اور دھوپ کی شدت سے تڑپ تڑپ کر جان دے دی تھی ـ

فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کردیا تھا؛ لیکن اس کے باوجود حضرت عکرمہ ابن ابی جہل (جو بعد میں ایمان لائے؛ لیکن ان کے باپ نے مسلمانوں پر مظالم ڈھائے تھے اس خوف کی وجہ سے) مکہ چھوڑ کر بھاگ گئے تھےـ

۲. جو یوروپ کی چکاچوند دنیا سے بہت متاثر ہیں، انھیں لگتا ہے کہ امریکہ کے شرنارتھی (پناہ گزیں) بننے کا موقع بھی مل گیا تو وہ ان کے لیے بڑے مقدر کی بات ہوگی ـ ایسے لوگ صرف افغانستان ہی نہیں تیسری دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں، اگر آپ ہندوستان یا پاکستان میں بھی ایسا جہاز لاکھڑا کردیں اور اعلان کردیں کہ بغیر کسی ویزا پاسپورٹ کے انھیں امریکہ لے جایا جائے گا اور امریکہ کی شہریت مل جائے گی تو ایسے ہی بھگدڑ مچے گی اور لوگ جہاز کے پہیوں اور ونگ (بازو) سے بھی لٹک کر امریکہ پہنچنا چاہیں گےـ افغانستان میں ایسا ہی ہوا تھا، کسی نے شہریوں کو یہ بتا دیا تھا کہ امریکہ کا جہاز بغیر کسی ڈوکومینٹ کے انھیں امریکہ لے جارہا ہےـ

۳. جن کی معاشی اور کاروباری زندگی ہی ناجائز دھندوں پر قائم تھی، مثلا شراب فروش، جسم فروش، کالا بازری کرنے والے، نائٹ کلب چلانے والے، فلم تھیٹروں کے مالکان، فلم سازی کرنے والے، جواری، قماری، سودی کاروبار کرنے والے اور اس جیسے کسی بھی کام میں ملوث، انھیں وہاں اپنا مستقبل ختم ہوتا ہوا نظر آرہا ہےـ وہ نئی حکومت کے قیام کے بعد آخر افغانستان میں کیا کریں گے؟ ایسے لوگ کسی بھی قیمت پر افغانستان چھوڑ کر کسی اور ملک میں پناہ لینا چاہتے ہیں ـ

۴. غیر ملکی جو افغانستان میں رہ کر کسی کاروبار یا نوکری سے جڑے ہوے تھے، انھیں نئی حکومت سے اندیشہ ہے کہ معلوم نہیں کب کیا ہوجائے، انھیں ملکی حالات پر اطمینان نہیں ہے، وہ کسی محفوظ جگہ منتقل ہوجانا چاہتے ہیں، اس لیے وہ جلد سے جلد اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں ـ

اب جائزہ لیجیے کہ افغانستان میں لگ بھگ چار (4) کروڑ لوگ ہیں، جن میں کابل شہر میں پنتالیس (45) لاکھ کے قریب لوگ رہتے ہیں، کابل ایرپورٹ پر بھگدڑ مچانے والے اور کسی بھی قیمت پر ملک چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد ڈیڑھ دو ہزار لوگوں کی ہوگی جو صرف کابل شہر کی آبادی کا 0.05 فیصد سے بھی کم ہے، یعنی صرف کابل شہر کی بات کریں تو ایک ہزار میں سے پانچ لوگ نئی حکومت سے خوف کھا کر ملک چھوڑنا چاہ رہے ہیں ـ یہ تناسب تب کی بات ہے جب جہاز امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کو پرواز کر رہا ہو ورنہ اگر جہاز ویتنام، صومالیہ اور سینٹرل افریقہ جیسے ممالک کے لیے پرواز کر رہا ہو تب دیکھیے کہ کتنے لوگ وہاں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ـ

گزشتہ بیس سالوں کے دوران ایک اندازے کے مطابق پاکستان جیسے ملک میں چودہ سے پندرہ لاکھ افغانی پناہ گزیں ہوئے ہیں ـ مگر ان کا کسی کو نہ اندازہ ہے اور نہ خیال؛ البتہ ڈیڑھ دوہزار کے بھاگنے کی اتنی فکر سوار ہے میڈیا کوـ

کسی بھی حکومت سے سب لوگ خوش ہوں، یہ تو ممکن نہیں ہے، نئی حکومت سے خوف کھاکر بھاگنے والوں کی تعداد اتنی تھوڑی ہوگی، یہ بہت حیرت انگیز ہے، ورنہ عام ماہرین کا اندازہ تھا کہ اس سخت گیر حکومت سے بھاگنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوگی ـ

میں زی نیوز کے سدھیر چودھری کا پروگرام "ڈی این اے” دیکھ رہا تھا جو ایک سروے پیش کر رہے تھے کہ افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے خواہاں نناوے فیصد (99%) لوگ ہیں، پھر وہ سوال کر رہے تھے کہ جب نناوے فیصد لوگ اسلامی حکومت کے خواہاں ہیں تو پھر وہاں سے بھاگ کیوں رہے ہیں، اب انھیں کون بتائے کہ وہ جو ایک فیصد لوگ خواہاں نہیں ہیں ان میں سے بھی 0.01 فیصد لوگ بھاگ رہے ہیں ـ

دنیا میں موجود جمہوریت کا مذاق دیکھیے کہ اکثریت کے فیصلے سے آدمی صدر مملکت اور وزیر اعظم تو بن سکتا ہے؛ لیکن ننانوے فیصد (۹۹%) لوگوں کے اتفاق سے اسلامی مملکت قائم نہیں ہوسکتی ـ

خیر! یہ سب چھوڑیں ـ افغانستان میں طالبانی دہشت گرد ۹۹% لوگوں کے منشا کے مطابق اسلامی حکومت برپا کرنے کے لیے کوشاں ہیں ـ

You may also like

Leave a Comment