Home نظم اے وقت کے فرعون! ڈراتاہے ہمیں تو؟!

اے وقت کے فرعون! ڈراتاہے ہمیں تو؟!

by قندیل

طاہرضیا

غایت کو پہنچ جاتی ہے جب تیرگئِ شب
اور ہوتی ہے ہر سمت سے تاریکی کی یلغار
اک نور کی پو پھوٹتی ہے حکمِ خدا سے
اور شرق سے ہوتی ہے نئی صبح نمودار

تاریخ نے تاریخ کی پھر یاد دلائی
ماضی میں کبھی کوئی یہاں شاہِ شہاں تھا
چھن جائے گا یہ تاج، پلٹ جائے گا یہ تخت
اس بات کا کیا اس کو کبھی وہم و گماں تھا؟

اے وقت کے فرعون! ڈراتا ہے ہمیں تو
زنداں سے، سلاسل سے زدِ تیغ و سناں سے
تاریخ اٹھا کر تو ذرا دیکھ ہماری!
پیچھے نہ ہٹے ہیں کبھی ہم حق کے بیاں سے
جب جس کی ضرورت پڑی تاریخ لکھا لی
پیروں سے، جوانوں سے کبھی نازِ زناں سے
ہر دور میں حالات کا رخ ہم نے ہے پھیرا
ٹکرائے ہیں ہم وقت کے ہر کوہِ گراں سے
سیراب چمن کو کِیا ہے حسب ضرورت
گہ اشکِ رواں سے گہے خونِ جگَراں سے
ہم طالبِ آزادیِ گفتار ازل سے
کیا ہم کو سروکار بھلا سود و زیاں سے
گونجے گی صدا پھر سے اب آزادی کی ہر سمت
منبر سے، کلیسا سے کبھی کوئے بتاں سے
ہم امن کے داعی ہیں، محبت کے طلبگار
پیغام یہی دیتے ہیں ہم شہر اماں سے

"خاکم بدہن” اب وہ گھڑی پھر نہ کبھی آئے
تاریخ دوبارہ کبھی تاریخ کو دہرائے
گلشن میں مرے اہلِ ستم پھر کوئی در آئے
پھر شاخ کوئی ٹوٹے کوئی پھول نہ مرجھائے

You may also like

Leave a Comment