ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز
کیا یرقانی ٹولہ بابری مسجد کی شہادت کا مجرم قرار پائے گا ؟
اس سوال پر فیصلہ آج سے ٹھیک چوتھے دن ہونا ہے ۔ اور جو 32 یرقانی کٹگڑے میں کھڑے ہوئے ہیں وہ بی جے پی یا آر ایس ایس یا وی ایچ پی یا بجرنگ دل کے معمولی قسم کے لیڈر نہیں ہیں، ان میں ایل کے اڈوانی، کلیان سنگھ، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، سادھوی رتھمبرا، ونئے کٹیار اور مہنت نرتیہ گوپال داس جیسے کٹر ہندوتوادی شامل ہیں ۔ سی بی آئی کے وکیل للت سنگھ کے مطابق لکھنئو کی خصوصی سی بی آئی کورٹ میں رواں مہینے کی پہلی تاریخ کو استغاثہ اور دفاع، دونوں ہی کی طرف سے بحثیں مکمل ہوچکی ہیں اور فاضل خصوصی جج ایس کے یادو نے فیصلہ لکھنا شروع کر دیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے پہلے خصوصی عدالت کو 31 اگست کو ہی اس مقدمے کو مکمل کرکے فیصلہ سنانے کی ہدایت دی تھی مگر بعد میں ڈیڈ لائن میں ایک مہینے کا اضافہ کر دیا ۔ ویسے بھی ایک بڑی اکثریت کا یہ ماننا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کی مجرمانہ سازش کا معاملہ 27 برسوں سے زیر سماعت ہے فیصلے میں ایک یا دو مہینے کے ادھر یا اُدھر ہونے سے کیا فرق پڑنے والا ہے !
بات سچ ہے ! بابری مسجد مجرمانہ سازش کے مقدمہ نے ایک لمبا راستہ طے کیا ہے ۔ درمیان میں تو یہ لگنے لگا تھا کہ شائد بابری مسجد کے قصور وار بغیر کسی مقدمے کا سامنا کیے ڈھٹائی کے ساتھ اپنے سیاہ کارنامے پر سینہ پھلاتے رہیں گے ، خصوصاً اس وقت جب 2014ء میں نریندر مودی کی بھاجپائی سرکار نے ملک کی حکومت پر قبضہ کیا تھا ۔ لیکن سپریم کورٹ کی مداخلت نے مقدمہ کی سماعت کا راستہ صاف کیا اور اب فیصلے کی گھڑی ہے ۔ فیصلہ جو بھی آئے، یرقانی ٹولہ بری ہو یا سزا پائے، مقدمے نے یہ یقینی بنا دیا ہے کہ اس ٹولی کا نام جب بھی لیا جائے گا بابری مسجد کی شہادت کو اور اس میں ان کے کردار کو ضرور یاد کیا جائے گا ۔ اگر یہ بری بھی ہو گئے تو لوگ اتنا تو کہیں گے ہی کہ یہ بابری مسجد کے ملزم تھے ۔ اور اگر قصوروار پائے گیے تو مجرم کہلائیں گے ہی ۔
وہ 6 دسمبر 1992ء کی سیاہ تاریخ تھی جب ایودھیا میں برسہا برس سے سر اٹھائے کھڑی تاریخی بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا تھا ۔ اسی روز دو ایف آئی آر درج کی گئی تھیں، پہلی ایف آئی آر تھی کرائم نمبر 197/1992 اور دوسری ایف آئی آر تھی کرائم نمبر 198/1992 ۔ پہلی ایف آئی آر نامعلوم کارسیوکوں کے خلاف درج کی گئی تھی، ان پر ڈکیتی، چوری، زخمی کرنے اور عوامی عبادت گاہ کے تقدس کو پامال کرنے نیز مذہب کی بنیاد پر دو فرقوں کے درمیان منافرت پھیلانے وغیرہ کے معاملات عائد کیے گئے تھے جبکہ دوسری والی ایف آئی آر بی جے پی، وی ایچ پی، بجرنگ دل اور آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والی آٹھ شخصیات کے خلاف تھی، ان پر رام کتھا کنج سبھا سے نفرت بھری تقریریں کرنے کا الزام تھا ۔ یہ آٹھ افراد تھے ایل کے اڈوانی، اشوک سنگھل، ونئے کٹیار ،اوما بھارتی، سادھوی رتھمبرا، مرلی منوہر جوشی، گری راج کشور اور وشنو ہری ڈالمیا ۔ مذکورہ افراد میں سے تین، گری راج کشور، اشوک سنگھل اور وشنو ہری ڈالمیا کی موت ہو چکی ہے ۔ اس معاملہ میں ایک اہم موڑ لبراہن کمیشن رپورٹ کی پیشی کے بعد آیا ۔ اس کمیشن کا قیام بابری مسجد کی شہادت کے دس دن بعد 16دسمبر1992ء کو کیا گیا تھا ۔ جسٹس ایم ایس لبراہن پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ کے جج تھے ۔ انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ بابری مسجد کی شہادت کو ممکن بنانے والے واقعات اور حالات پر رپورٹ پیش کریں ۔ حالانکہ حکومت نے انہیں تین مہینے کی مدت میں رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا تھا مگر اس کمیشن کی مدت کار میں 48 بار توسیع کی گئی، اس پر تقریباً آٹھ کروڑ روپے کی لاگت آئی، اور 1992ء میں بنایا گیا کمیشن 2009ء میں جاکر اپنی رپورٹ پیش کر سکا! کوئی 17 سال بعد ! اس وقت منموہن سنگھ کی سیکولر مانی جانے والی سرکار تھی ۔ حالانکہ بہت سارے لوگ لبراہن کمیشن کی رپورٹ کو بے مصرف قرار دیتے ہیں لیکن اس رپورٹ نے ایک بہت اہم کام یہ کیا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کو منصوبہ بند گہری سازش قرار دے کر 68 افراد کو مسجد کی شہادت کا ملزم بتایا ہے اور باقاعدہ ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے ۔ 68 ملزموں کی فہرست میں ملک کے سابق بھاجپائی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کا بھی نام شامل ہے، جو اب دنیا سے آٹھ چکے ہیں ۔ یہ واجپئی ہی تھے جنہوں نے کارسیوکوں سے کہا تھا کہ ایودھیا کی زمین پر بہت روڑے اور پتھر ہیں جا کر اسے سمتھل کردو ۔ بات مقدمہ کی ہے، پہلے دونوں ایف آئی آر پر للت پور کی خصوصی عدالت میں سماعت شروع ہوئی تھی بعد میں ایف آئی آر 197 کا معاملہ سی بی آئی کو سونپ کر لکھنئو کی عدالت میں لے آیا گیا اور ایف آئی آر 198 کی تفتیش اسٹیٹ سی آئی ڈی کو سونپ کر رائے بریلی کی خصوصی عدالت میں سماعت شروع کی گئی ۔ اب ایف آئی آر 197 میں مجرمانہ سازش کی، آئی پی سی کی سیکشن 120 بی، بھی شامل کر دی گئی ۔ سی بی آئی نے 5 اکتوبر 1993ء میں دونوں ایف آئی آر کی مشترکہ چارج شیٹ پیش کی، سی بی آئی کا یہ کہنا تھا کہ چونکہ دونوں ہی ایف آئی آر کے معاملات ایک ہی واقعے سے متعلق ہیں لہذا تمام معاملات میں مشترکہ مقدمہ چلانے کی وافر بنیاد ہے ۔ اس موقع پر شیوسینا پرمکھ بال ٹھاکرے، واردات کے موقع پر یوپی کے وزیراعلیٰ رہے کلیان سنگھ وغیرہ کے نام بھی ملزموں کی فہرست میں شامل کیے گئے ۔ یوپی سرکار نے 8 اکتوبر 1993ء کو نوٹیفیکیشن جاری کیا کہ اب دونوں ہی ایف آئی آر کو ملا دیا گیا ہے اور مشترکہ مقدمے کی سماعت لکھنئو کی خصوصی عدالت میں ہوگی ۔ خصوصی عدالت نے تمام ہی معاملات میں مجرمانہ سازش کے سیکشن کو شامل کرنے کی ہدایت دی اس طرح اڈوانی اینڈ کمپنی، جس پر صرف نفرت آمیز تقریریں کرنے کا الزام تھا، مجرمانہ سازش کی قصور وار بھی قرار پائی ۔ لیکن جیسے کہ باطل کا طریقہ ہے معاملے کو طول دینے کے لیے اڈوانی سمیت دیگر ملزموں نے مذکورہ حکم کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ، دلیل یہ دی کہ چونکہ ان پر مجرمانہ سازش کا الزام ایف آئی آر 197 کے سبب لگایا گیا ہے جبکہ ان کی ایف آئی آر 198 میں یہ الزام نہیں تھا لہٰذا اسے ختم کیا جائے ۔ ہائی کورٹ نے ان کا مقدمہ دوبارہ رائے بریلی کی خصوصی عدالت میں بھیج دیا اور سی بی آئی سے کہا کہ اگر ان کے پاس ان افراد کے خلاف مجرمانہ سازش کی شہادتیں ہیں تو وہ اضافی چارج شیٹ کی شکل میں رائے بریلی کی خصوصی عدالت ہی میں پیش کی جائیں ۔ 2003ء میں رائے بریلی کی خصوصی عدالت نے اڈوانی پر لگے الزامات کو ناکافی قرار دے کر انہیں بری کردیا ۔ شائد اس روز اڈوانی ہی کیا سارا سنگھ پریوار بہت خوش ہوا ہوگا، لیکن خوشی تھوڑے ہی دن کی تھی کیونکہ الہ آباد ہائی کورٹ نے 2005ء میں مداخلت کرکے مقدمے کی سماعت پھر شروع کروادی، بس ہوا یہ کہ اڈوانی اور دوسروں پر سے مجرمانہ سازش کا معاملہ ہٹا لیا گیا ۔ مجرمانہ سازش کا معاملہ ہٹائے جانے کے بعد سی بی آئی نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور 2017ء میں سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ تمام معاملات کا مشترکہ مقدمہ لکھنئو کی خصوصی عدالت ہی میں چلایا جائے اور سب پر، اڈوانی پر بھی، مجرمانہ سازش کا معاملہ چلے ۔ پھر سپریم کورٹ نے 31 اگست 2020ء کو مقدمے کا فیصلہ سنانے کی ڈیڈ لائن مقرر کی جسے بعد میں ایک مہینے کے لیے بڑھا دیا گیا، اب فیصلہ آج سے چوتھے روز آیا ہی چاہتا ہے ۔
اس معاملے کے چند کرداروں کو دلچسپ بھی کہا جا سکتا ہے اور زہریلے بھی ۔ مثلاً اڈوانی، جوشی اور اوما بھارتی ۔ سپریم کورٹ کے ذریعہ ’مجرمانہ سازش‘ کا مقدمہ چلانے کے حکم کے بعد اوما بھارتی کی زبان سے نکلا ہوا یہ جملہ ہم سب ہی نے سنا ہے کہ ’کچھ ڈھکا چھپا نہیں تھا ہم نے تو یہ کھلے عام کیا ہے‘ ۔ یہ ’اعتراف جرم‘ تھا مگر ’اعتراف جرم ‘ کے بعد بھی اوما بھارتی کو نریندر مودی نے وزارت میں شامل رکھا تھا ۔ خیر اب اوما بھارتی کو باہر کی راہ دکھا دی گئی ہے، نہ ہی وہ اب ایم پی ہیں نہ ہی وزیر، اور نہ ہی بی جے پی میں کسی بڑے عہدے پر ۔ کلیان سنگھ تو شہید بابری مسجد کے مجرم ہیں ہی، انہیں ’ایک روز کی سزا‘ ہوچکی ہے۔ مگر، ایک ایسے معاملے میں، جس نے سارے ملک کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کردیا تھا ، جس نے ملک میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی ایک خلیج حائل کردی ہے ، جو ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات کا سبب تھا، جس نے ممبئی کو دو مرحلوں میں آگ کے شعلوں میں ڈھکیلا، جس کی وجہ سے ممبئی کے بم بلاسٹ ہوئے، ’صرف ایک روز کی سزا‘ بے معنی ہے ۔ کلیان سنگھ کا قصور بہت شدید ہے۔ کلیان سنگھ کی سزا بھی بابری مسجد کی شہادت کے سلسلےمیں نہیں تھی بلکہ اس لیے تھی کہ انہوں نے مرکزی حکومت کو جو حلف نامہ دیا تھا کہ بابری مسجد پر کوئی آنچ نہیں آئے گی، وہ جھوٹ ثابت ہوا تھا۔ شہادت میں ان کے ’ہاتھ‘ اور سازشی ٹولے کے ساتھ ان کی ساز باز کا معاملہ کہیں اہم ہے اور سپریم کورٹ نے یہی کہا کہ عدالت اس کی شنوائی کرے ۔ کلیان سنگھ کو بچانے کی بہت کوشش کی گئی، انہیں راجستھان کا گورنر بنایا گیا تھا ۔ حالانکہ گورنری ایک آئینی عہدہ ہے اور جوشخص ملزم ہو اسے آئینی عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہوتا لیکن اس ملک کی حکومت جب سے مودی اینڈ کمپنی کے ہاتھ آئی ہے ہر وہ کام ہو رہا ہے جو کبھی نہیں ہوا، جسے کبھی ہونا بھی نہیں چاہیے تھا ۔ ان دنوں کلیان سنگھ کی، جو 88 سال کے ہیں، صحت بہت بُری ہے، انہیں کورونا نے دبوچ لیا تھا ۔ لیکن انہوں نے جو کیا ہے وہ تو سامنے آنا ہے ۔ اب ایک تصویر دکھاتے ہیں ؛ تصویر 6 دسمبر 1992ء کی ہے ۔ ایک ایسی تصویر جو شرمناک بھی ہے‘مکروہ بھی اورجس سے ملک کی ایک بہت بڑی بلکہ سب سے بڑی اقلیت کے خلاف نفرت کااظہار بھی عیاں ہے اوریہ گھمنڈ بھی نظرآرہا ہے کہ ’ہم جو چاہیں گے کریں گے تم لوگ ہمارا کچھ نہیں بگاڑسکوگے۔‘یہ تصویر یرقانیوں کی’بے شرمی‘اور’بے غیرتی‘کی علامت ہے ۔ تصویر شہید بابری مسجد کے دو’ قصورواروں‘ کی ہے اوریہ اس وقت اُتاری گئی تھی جب کارسیوک بابری مسجدکے گنبدوں پر چڑھے ہوئے تھے اورانہوں نے پہلا گنبدگرا دیاتھا ۔ تصویر میں کل کی مرکزی وزیر اوما بھارتی کل کے مرکزی وزیر مرلی منوہر جوشی کی پیٹھ پر تقریباً لدی ہوئی نظرآرہی ہیں‘دونوں کے ہی ہونٹوں پر’مسکراہٹ‘ہے ۔ ایک ایسی مسکراہٹ جس میں فتح کانشہ،طاقت کاگھمنڈاورزعم اورمسلمانوں سے نفرت کا کھلا اظہار سب کچھ نظرآرہا ہے ۔ آج یہ مسکراہٹ والی تصویر یرقانی ٹولے کی ’بے شرمی‘اور’بے غیرتی‘کی پہچان بن گئی ہے۔تصویر میں ملک کے سابق وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی نظر نہیں آرہے ہیں مگرجس وقت یہ تصویر کھینچی گئی تھی وہ قریب ہی موجودتھے ۔ 6؍دسمبر 1992ء کی’سیاہ تاریخ‘کو جب ڈیڑھ سے دولاکھ کی تعداد میں جمع کارسیوکوں سے خطاب کرنے کے لیے اڈوانی پہنچے تھے توان کا پُرجوش خیر مقدم ہواتھا….اور ہوتابھی کیوں نہ یہ اڈوانی ہی تھے جو ان تمام کارسیوکوں کےایودھیامیں جمع ہونے کا محرک تھے ۔ یہ ان کی ’رتھ یاترا‘ہی تھی جس نے سارے ملک کو ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک اس طرح سے ’دھارمک جنون‘میں مبتلا کردیاتھا کہ لوگ منھ اٹھائے ایودھیا کی طرف بڑھتے چلے گئے تھے ۔
یاد ہے سب ذرا ذرا ! 1989ء اور اس کے بعدمیں دورتھ یاترائیں شروع ہوئی تھیں،ایک رتھ یاترا مرلی منوہر جوشی کی تھی،اوردوسری اڈوانی کی ۔ جوشی کی رتھ یاترا اڈوانی کی رتھ یاترا کے مقابلے پھیکی تھی کیونکہ اڈوانی نے اس رتھ یاترا کو اپنی بھی اوربی جے پی کی بھی سیاسی زندگی کو عروج پر پہنچانے کاذریعہ بنایاتھا ۔ رتھ یاترا گجرات کے سومناتھ مندر سے شروع کی گئی تھی‘اس کامقصد یہ پیغام دیناتھا کہ ’’جس طرح محمودغزنوی کے ہاتھوں تباہ وبرباد کیے گئے سومناتھ مندرکی تجدید کاری ہوئی ہے اسی طرح بابر کے ہاتھوں تباہ وبرباد کیے گئے رام جنم استھان کی، وہاں جبراً بنوائی گئی بابری مسجدکو ڈھا کر، تجدید کاری کی جائے گی۔‘‘رتھ یاترا منصوبہ بند تھی،ملک کے ہندوؤں کو متحد کر کے ایودھیا بھیجنا اس کا مقصدتھا ۔ اس کے لیے جگہ جگہ اڈوانی نے انتہائی اشتعال انگیزتقریریں کیں، نتیجتاً رتھ یاترا جہاں سے گذری وہاں فرقہ وارانہ جھڑپیں ہوئیں،سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ان جھڑپوں میں 550 لوگ مارے گئے۔اسی لیے یہ ’خونی رتھ یاترا‘کہلائی ۔ بہار میں لالوپرساد یادو نے تواس ’خونی رتھ یاترا‘کو روک دیامگر مرکز کی کانگریسی حکومت ہمیشہ کی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔
مذکورہ پس منظر میں ایودھیا کی وہ تحریک منظم ہوئی جس کانتیجہ 6؍دسمبر 1992ء کے روزایودھیا میں بابری مسجد کی شہادت نکلا۔ مسجدشہید کی جائے گی اس کی پوری منصوبہ بندی تھی ۔ یوپی کی کلیان سنگھ اورمرکز کی نرسمہا راؤکی سرکاریں اس وقت بھی خاموش بیٹھی تھیں جب’اسپیشل ٹرینوں‘سے کارسیوکوں کےجتھے ایودھیا پہنچنا شروع ہوئے تھے ۔ فیض آباد سٹی اورایودھیا کے اسٹیشنوں پر کارسیوکوں کا’سواگت‘وی ایچ پی اورآر ایس ایس کے رضا کارکر رہے تھے۔ایودھیا میں سڑکیں دکانیں سج گئی تھیں۔’رام کتھا کنج‘میں سنگھی اوربھاجپائی لیڈروں نے قیام کا انتظام کرلیاتھا اورروزانہ کارسیوکوں کو ’بھاشن ‘دیا جاتااورانہیں بابری مسجد کو’گرانے‘کی ’تربیت‘دی جاتی تھی۔رام کتھا کنج کے ٹیلے پر تربیت کے لیے لوگ جمع ہوتے تھے۔بابری مسجد کی شہادت سے ایک روز قبل بابری مسجد کی شہادت کے لے آخری مگر’عملی تربیت‘دی گئی۔بابری مسجد سے ملحق قبرستان پر دھاوا بولاگیا،قبروں اورروضوں کو مسمار کر کے اٹھارویں صدی کے صوفی بزرگ قاضی قدوہؒ کی درگاہ کو منہدم کردیاگیا۔مگرآنکھیں نہ انتظامیہ کی کھلیں،نہ کلیان سنگھ حکومت کی اورنہ نرسمہاراؤسرکارکی ۔ 6؍دسمبرکو کوئی گیارہ بج کر پچاس منٹ پر کارسیوکوں نےمظلوم بابری مسجد کی دیواروں اورگنبدوں پر چڑھنا اوراسے شہید کرنا شروع کیا۔اس سے قبل رام کتھا کنج کے قریب بنے اسٹیج سے اڈوانی بے حد اشتعال انگیز تقریر کرچکے تھے۔اومابھارتی نعرے لگارہی تھیں ’ایک دھکا اور دو بابری ڈھانچہ توڑدو‘ ۔ ایک بجے بابری مسجد کا پہلا گنبد شہید ہوا اور دوپہر کے تین بجکر 35 منٹ تک ساری مسجدشہید کردی گی۔یہ اتوار کادن تھا ، اس روز ملک کے آئین کے معمارباباصاحب امبیڈکر کی برسی بھی تھی ۔ جو تاریخ’یوم آئین‘ہوناتھی وہ’یومِ شرم‘بن گئی۔یہ کہا جاتاہے کہ اڈوانی نے کارسیوکوں کو بابری مسجد کے گنبدوں اورچھت سے اتارنے کی کوشش کی تھی۔یہ بھی کہا جاتاہے کہ انہوں نے سادھوی اومابھارتی کوبھیجاتھا کہ وہ کارسیوکوں کو سمجھائیں۔اگرایسا ہے بھی توبھی یہ سوال اپنی جگہ برقرارہے کہ کیایہ اڈوانی ہی نہیں تھےجنہوں نے کارسیوکوں کوایودھیا میں جمع کیاتھا؟کیا انہوں نے کارسیوکوں کو اکسانے والی تقریر نہیں کی تھی؟اورکیا یہ اوما بھارتی نہیں تھیں جو’بابری ڈھانچہ توڑدو‘کے نعرے لگارہی تھیں؟جو ہنستے ہوئے جوشی کی پیٹھ پر لدی ہوئی تھیں؟سب کچھ صاف ظاہر ہے جیسا کہ اوما بھارتی سپریم کورٹ کے ذریعے مجرمانہ سازش کامقدمہ پھر سے شروع کرنے کے فیصلے کے بعدکہہ چکی ہیں کہ’ہم نے توسب کچھ کھلم کھلا کیا۔‘اس روز یعنی 6؍دسمبر کو اڈوانی کو بابری مسجد کی فکر نہیں تھی انہیں کارسیوکوں کے تحفظ کی فکر تھی۔وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ شہادت کے عمل میں کارسیوک زخمی ہوں یا اوپر سے گرکر مر جائیں۔ اڈوانی رام مندرکی تحریک کا’بنیادی چہرہ‘تھے ۔ کہاجاتاہے کہ’وقت پلٹ کرآتاہے‘وہ گناہ جو بہت پیچھے رہ جاتے ہیں ایک ایسے وقت پر سامنے آکھڑے ہوتے ہیں جب گنہ گارکو اس کی امید بھی نہیں ہوتی۔مگر یہی اللہ کی سنت ہے ۔ لوگوں کے خون سے اڈوانی اینڈکمپنی کے ہاتھ سرخ ہیں،انہیں جوابدہ توہونا ہی ہے….ثبوتوں کا انبار لگا ہے، عدلیہ نے اگرانصاف کیاتواڈوانی اینڈکمپنی کو سزاہوگی، 6 ؍دسمبر کاسارا واقعہ ایک’سچ‘کی طرح عیاں ہے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اب جبکہ بابری مسجد کی جگہ ہی سپریم کورٹ نے رام مندر کے لیے ہندوؤں کو سونپ دی ہے تو اس مقدمے اور اس کے فیصلے کے کوئی معنیٰ نہیں رہ جاتے ۔ مرحوم ہاشم انصاری کے بیٹے اقبال انصاری نے مقدمہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ کہ کسی کو مجرم نہ قرار دیا جائے ۔ یہی مطالبہ وی ایچ پی کا ہے ۔ لیکن جس سپریم کورٹ نے مسجد کی جگہ مندر کے لیے سونپی ہے اسی سپریم کورٹ نے مسجد کے انہدام کو غیر قانونی اور مجرمانہ قرار دیا ہے، لہذا بہتر یہی ہوگا کہ فیصلہ ہو جائے ۔ اقبال انصاری اور ان ہی جیسے دوسرے لوگ بھلے فیصلہ نہ چاہیں میں اور میرے جیسے بہت سے لوگ فیصلہ چاہتے ہیں، اس سے کم از کم ایک بار پھر ہمیں یہ جاننے کا موقع مل جائے گا کہ کیا واقعی ملک کی عدالتیں مکمل غیر جانبدار رہ گئی ہیں ۔