( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز )
اردو ادب ؛ ادب ، تہذیب اور ثقافت کا بہترین امتزاج : ’ اردو ادب ‘
انجمن ترقی اردو ( ہند) نئی دہلی سے شائع ہونے والا اردو زبان و ادب کا ایک تاریخی مجلّہ ہے ۔ یہ اپنی اشاعت کی سنچری مکمل کر کے 103 ویں سال میں داخل ہو چکا ہے ! بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اس کے گیسو سنوارے ہیں اور اردو کے ہر بڑے ادیب نے اس سے اپنے تعلق پر فخر کیا ہے ۔ اِن دنوں اس کے مدیر اعلا ( یہ املا رشید حسن خان کا ہے جو انجمن کی کتابوں اور رسالے میں استعمال کیا جاتا ہے ) صدیق الرحمان قدوائی اور مدیر اطہر فاروقی ہیں ، جو انجمن کے جنرل سکریٹری بھی ہیں ۔ تازہ اشاعت ( شمارہ نمبر 270 ) اپنے ادبی ، تہذیبی اور ثقافتی مضامین کے لیے یاد رکھا جائے گا ۔ اس شمارے میں ’ پہلا ورق ‘ کے مستقل عنوان سے مدیر اطہر فاروقی کا اداریہ شائع ہوتا ہے ، اس بار اُنہوں نے اردو کے تہذیبی معاشرہ پر بات کی ہے اور یہ اہم سوال اٹھایا ہے کہ یہ معاشرہ مختصر کیوں ہو گیا ہے؟ اس سوال کا ایک جواب انہوں نے دولت کی ریل پیل دیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ انگریزوں کی بنائی ہوئی یونی ورسٹیوں میں مغربی دانش گاہوں کی طرز پر تعلیم کے نتیجے میں معاشرے میں ایک نیا طبقہ پیدا ہو گیا ہے ، ایک ایسا طبقہ جس نے فطری طور پر اردو کو کم تر سمجھنا شروع کر دیا ہے ۔ وہ مزید لکھتے ہیں : ’’ اردو ادب ہمیشہ یونی ورسٹیوں کے اردو شعبوں کے باہر بھی پڑھا جائے گا مگر مستقبل میں ایک چھوٹا طبقہ ہی اسے پڑھے گا ۔‘‘ آگے اطہر فاروقی نے اردو کے اداروں اور آنے والے دنوں میں ان کی مشکلات پر بات کی ہے اور یہ ترغیب دی ہے کہ : ’’ اردو کو ان وسیع تر حلقوں ( اردو سے وابستہ یا واقف حلقے ، جن تک پہنچنے میں اردو ادارے ناکام رہے ہیں ) تک پہنچانا ہی اردو کی بڑی خدمت ہے تاکہ اس کا عظیم تر ادب ہندستان کے سماجی منظر نامے کو تبدیل کر سکے ، اور لوگ ایک مرتبہ پھر اردو تعلیم کی طرف لوٹ سکیں ۔‘‘ اس شمارے میں اطہر فاروقی کی نئی تحقیقی کتاب ’ دہلی کی عمارات کے کتبوں کا اولین مخطوطہ نسخہ حفیظ الدین احمد ‘ پر آن کا تحریر کردہ تعارف بھی شامل ہے ، لیکن اس مقالہ پر بات مذکورہ کتاب کے تبصرے میں ہوگی ۔ اس اشاعت کے گوشۂ املا میں رؤف پاریکھ ، معین الدین عقیل ، شمس بدایونی ( جن کی لاجواب کتاب ’ رموزِ اوقاف ‘ کچھ پہلے ہی انجمن نے شائع کی ہے ) اور خورشید اکرم کے چار اہم مضامین شامل ہیں ، جو املا کے مختلف پہلوؤں بشمول صحت املا پر بحث کرتے ہیں ۔ یہ ایک وقیع گوشہ ہے ۔ شیو ترپاٹھی ( بریلی کالج) کا ایک مضمون ’ تیسرے درجے کے محترم ‘ کا شاندار ترجمہ اس شمارے کی اہمیت کو دوچند کرتا ہے ۔ یہ مضمون 1972 میں ، آزادی کی پچیسویں سالگرہ پر تحریر کیا گیا تھا ، اس میں مصنف نے اپنے ایک سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے اُس وقت کے ادبی ، سیاسی اور سماجی ماحول کا محاسبہ کیا ہے ۔ ایک ترجمہ ’ سلطانہ کا خواب ‘ حقوق نسواں پر رقیہ سخاوت حسین ( انتقال 1935) کی ایک انگریزی تحریر کا ترجمہ ہے ۔ ترجمہ نگار اقرا شگفتہ چیما نے اسے ’ حقوق نسواں کے بارے میں ایک خیالی جنت کا نقشہ ‘ قرار دیا ہے ۔ سات ادبی مضامین ہیں جن کے لکھنے والے ہیں مرزا خلیل احمد بیگ ، نریش ندیم ، محمد باقر حسین ، تمثال مسعود ، صائمہ ذیشان ، تبریز احمد اور مسعود احمد ۔ شاہد کمال کا کامریڈ مسلم شمیم پر ایک بہترین خاکہ اس شمارے کا حصہ ہے ۔ اردو ادب کی معاون مدیر صدف فاطمہ کا ، حکیم ظل الرحمن کی کتاب ’ غالب : چند مقدمے اور تحریریں ‘ پر ایک بہترین تبصرہ ہے ۔ یہ شمارہ 150 روپیے کا ہے ، اسے حاصل کرنے کے لیے 9968236208 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔
آئی آئی سی کواٹرلی ؛ خوبصورت رنگوں سے سجا انگریزی کا مجلہ :
انڈیا انٹرنیشنل سیبٹر ( آئی آئی سی ) نئی دہلی ، سے شائع ہونے والا انگریزی کا سہ ماہی مجلّہ ’ آئی آئی سی کواٹرلی ‘ ( IIC Quarterly) ، کئی خوبصورت رنگوں سے سجا ہوا ، مطالعہ کے شوقین افراد کے لیے ، ایک تحفہ ہے ۔ ادب ، ثقافت ، تہذیب ، تمدن اور سماج یہ مجلّہ ان تمام موضوعات پر محیط ہے ۔ یہ مجلّہ میری نظر سے پہلی بار گزرا ہے حالانکہ یہ برسوں سے شائع ہو رہا ہے ۔ اسے دیکھ کر مجھے برطانیہ کا مشہور مجلّہ GRANTA یاد آ گیا ، اسے تقریباً اسی کے طرز پر ڈھالا گیا ہے ۔ اس مجلّہ کی مدیر اعلیٰ اومیتا گوئل ہیں ، جو SAGE پبلیکیشن کے لیے کام کر چکی ہیں ، اور ورلڈ بینک ، یونیسف و دیگر اداروں میں آزاد مدیر کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہیں ۔ مجّلہ کے اداریے میں اس شمارے کے مضامین کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے ۔ شمارے کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، پہلا حصہ Articles کے عنوان سے ہے ، اس حصے میں چھ مضامین شامل ہیں ۔ آغاز میں ، محکمہ خارجہ میں ٣٧ سال گزارنے اور کئی ملکوں میں ہندوستان کے سفیر کی حیثیت سے کام کرنے والے ، راجیو بھاٹیہ کا ، ہندوستان کی جی – 20 کی صدارت پر ایک شاندار تنقیدی مضمون ہے ۔ کمل ملہوترہ ( بوسٹن یونیورسٹی) کی تحریر ، ترکیہ اور ہندوستان کے حوالے سے جمہوریت اور سیکولرزم کے بحران پر ، سنجیدہ اور غور و فکر پر مائل کرتی ہے ۔ شمع افروز ( کراچی یونیورسٹی) کا مقالہ ، دہلی کی عمارتوں پر لکھی گئی مشہور فارسی کتاب ’ سیر المنازل ‘ کی اہمیت اور اس کے متون کے فرق پر ہے ۔ اس شمارے میں ، اطہر فاروقی ( جنرل سیکرٹری ، انجمن ترقی اردو ( ہند) نئی دہلی) کا ایک تحقیقی مضمون بھی شامل ہے ، جس میں دہلی کی قدیم عمارات کے کتبوں پر لکھی گئی حفیظ الدین کی کتاب کا تعارف کرایا گیا ہے ۔ مذکورہ دونوں مضامین کا اداریے میں خاص ذکر کیا گیا ہے ۔ اس حصے میں سچدانند موہنتی کا ایک مضمون ماحولیات پر مشہور فکشن نگار ڈی ایچ لارنس کے حوالے سے ہے ۔ اور ایک مضمون امریکہ میں پہلی خاتون ہندوستانی مہاجر کلا بگائی پر ہے ، جو ارکو داس گپتا کا تحریر کردہ ہے ۔ دوسرا حصہ سابق نیول افسر اور ماہر فوٹو گرافر نوتیج سنگھ کے ’ فوٹو ایسے ‘ پر ہے ۔ گوا کی رنگین تصویریں ہیں ، جنہیں اوپر یعنی آسمان کی جانب سے کھینچا گیا ہے ۔ یہ لاجواب تصویریں ہیں ۔ تیسرا حصہ مضامین پر اور آخری حصہ کتابوں کے تبصرے پر مشتمل ہے ۔ 208 صفحات کے اس ، سفید مضبوط کاغذ پر شائع ہونے والے شمارے کی قیمت محض 125 روپیے ہے ۔ اسے حاصل کرنے کے لیے فون نمبر 24609344 پر روہت سنگھ سے رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔