Home نقدوتبصرہ ادبی صحافت کے دو سو سال- حقانی القاسمی

ادبی صحافت کے دو سو سال- حقانی القاسمی

by قندیل

 

(چھٹی اور آخری قسط)

اوراق
اوراق لاہور نے بھی جدیدیت کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس کے مشمولات چشم کشا ہوا کرتے تھے۔ یہ شاید پہلا رسالہ ہے جس نے انشائیے کو ایک اہم صنف کی حیثیت سے متعارف کرایا ۔ اس میں جو ادبی اور علمی مباحث ہوا کرتے تھے ۔ اس نے ادب میں تحرک اور طغیانی کی کیفیت پیدا کی ۔ یہ ایک رجحان ساز رسالہ تھا جس نے ادب کو بہت سے اہم موضوعات عطا کیے۔ خاص طور سے وہ موضوعات جو اردو ادب کے لیے اجنبی تھے۔شاید ہی کوئی ایسا ادبی موضوع ہو جس کے حوالے سے اداریے یا مباحث شامل نہ کیے گئے ہوں۔ اوراق کا ایک کالم ’’سوال یہ ہے ‘‘ کے عنوان سے تھا۔ جو بہت مقبول تھا، جس نے بحث و نظر کے نئے دروازے کھول دیے اور مختلف نظریہ فکر سے تعلق رکھنے والے ادیبوں کو اپنے خیالات کے اظہار کا مو قع عطا کیا۔ اسی کالم میں اردو میں انگریزی الفاظ کی آمیزش پر ایک فکر انگیز مکالمہ قائم کیا گیا جس میں مشتاق قمر محرک تھے اور شرکائے بحث میں عبادت بریلوی۔ عبد السلام خورشید، جمیل ملک، سلیم اختر، ناصر سید شہزاد اور جمیل آزر تھے۔ اردومیں انگریزی الفاظ کی آمیزش کو لے کر بہت سارے خدشات تھے جس میں انگریزی الفاظ پر احتساب عائد کرنے کی بات بھی کہی گئی تو بہت توکچھ لوگوں نے کہا کہ انگریزی کا بر محل استعمال کوئی قبیح بات نہیںاور جو انگریزی کے الفاظ قبول عام حاصل کر چکے ہیں اس پر قدغن لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔
اوراق ایک دستاویزی مجلہ ہے۔ انور سدید نے بہت صحیح لکھا ہے کہ: ’’اوراق تازہ ادبی مباحث کو ابھارنے، نئے صحت مند تجربات کو فروغ دینے، انشائیہ نگاری کے جدید ترین تصور کو رائج کرنے اور نظم اور غزل کو جدیدیت کی راہ پر ڈالنے میں پیش پیش ہے اور یہی اس کی انفرادیت ہے جس کا اعتراف عرصے سے کیا جا رہا ہے۔‘‘
(بحوالہ ڈاکٹر محمود اسیر، اوراق کی ادبی خدمات، ص۔406)
اوراق کے اداریے بصیرت افزا اور فکر انگیز ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر محمود اسیر لکھتے ہیں کہ: ’’اوراق کے ہر اداریے کی حیثیت ادبی ہونے کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے معاشرہ ، تہذیب اور کلچر کے ساتھ بھی مربوط ہوتی رہی۔ ان اداریوں کے مطالعہ سے نہ صرف سوچ کی گرہیں کھلتی ہیں بلکہ غور و فکر کے نئے زاویے بھی سامنے آتے ہیں۔ اوراق کے اداریوں کی ایک اولیت یہ بھی ہے ان میں تاریخی ، مذہبی معاشرتی، تہذیبی، اخلاقی، سماجی، ادبی اور تنقیدی و تحقیقی موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔‘‘
(بحوالہ ڈاکٹر محمود اسیر، اوراق کی ادبی خدمات، ص۔398)
مابعد جدید رسائل:
مابعد جدیدیت جو ایک نئی تحریک تھی اس سے مختص بہت کم مجلات تھے مگر اس تحریک کے سب سے زیادہ اثرات ادبی معاشرے پر مرتب ہوئے۔ جدیدیت سے وابستہ بہت سے قلم کاروں نے بھی مابعد جدیدیت کا اثر قبول کیا ۔ پروفیسر وہاب اشرفی کے رسالے مباحثہ پٹنہ کو کسی حد تک مابعد جدیدیت کا نقیب کہا جا سکتا ہے کہ اس میں ما بعد جدید نظریات اور تصورات کے حوالے سے بہت سے فکر انگیز مضامین شائع کیے گئے۔دانش الہ آبادی کا رسالہ سبق اردو بھی ما بعد جدیدیت کا نمائندہ مجلہ ہے۔ اس کے علاوہ آواں گارد سہ ماہی رسالہ استعارہ کاذکر ضروری ہے کہ صلاح الدین پرویز اور حقانی القاسمی کی ادارت میں شائع ہونے والے اس مجلے نے بھی ما بعد جدید تصورات اور رجحانات کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ترقی پسندی ، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت سے ماورا بہت سے ایسے مجلات ہیں جن سے ادبی ذہنوں کو تحرک ملا۔ ایسے رسالوں میں مژگاں،سوغات، کتاب نما،الفاظ علی گڑھ، صبح نو پورنیہ، نقد و نظر، آج کل، سب رس ، فکر و نظر، شیرازہ، ایوان اردواور اردو دنیا، بیسویں صدی، ادب ساز، روح ادب، انشا، زبان و ادب،اردو ادب ،استفسار، تفہیم ،تمثیل نو، جہانِ اردو، کوہ سار، قصے، انتساب، امکان، ساغر ادب مظفر پور، ثالث مونگیر، پیش رفت دہلی،عالمی فلک دھنباد، اردو امراوتی، تحریک ادب بنارس، دربھنگہ ٹائمز، ابجد ارریہ وغیرہ کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ ان تمام رسائل میں اہم ادبی موضوعات اور مسائل پر تحریریں شائع ہوتی رہیں۔ اصناف ادب، ادبی تحریکات و رجحانات، تنقیدی نظریات کے حوالے سے ان رسائل میں مضامین کا بیش بہا ذخیرہ ہے لیکن رسائل کی بھیڑ میں کم ہی ایسے رسالے ہیں جس نے ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے ہوں۔ ڈاکٹر محمود اسیر لکھتے ہیں ’’یوں تو تقسیم کے بعد سینکڑوں رسالے ادبی افق پر طلوع ہوئے اور ان سب رسائل نے ادب کے صحت مند رجحانات پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن ادب پر اپنے اثرات ثبت کرنے کے لیے جس طویل زندگی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں سے گنتی کے چند رسالوں کا مقدر بن سکی۔ ان رسائل میں ہمایوں، ادبی دنیا، ادبِ لطیف، افکار ، نیا دور، ساقی، نقوش، سویرا، تخلیق، سیپ، فنون اور اوراق نمایاں ہیں۔‘‘
محمود اسیر نے صرف پاکستانی رسائل کے نام لکھے ہیں ہندوستان میں بھی بہت سے رسالے ہیں جس نے ادب کے معیار و وقار اور اعتبار میں اضافہ کیاہے اور ذہنوں پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان میں سوغات،شاعر، شعور،ذہن جدید، آج کل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
سوغات
محمود ایاز کا رسالہ سوغات(1959) اس معنی میں بہت وقیع ہے کہ محمود ایاز کی تنقیدی بصیرت کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ انھوں نے تخلیقات کے انتخاب اور اشاعت میں کسی بھی قسم کے سمجھوتے کو روا نہیں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ سوغات کو علمی اور ادبی حلقوں میں سند اعتبار کا درجہ حاصل ہے۔اس کے مدیر محمود ایاز نے باز گشت کے عنوان سے ایک سلسلہ شروع کیا تھا تاکہ قارئین اور قلم کار شائع شدہ تخلیقات پر اپنے رد عمل کا اظہار کر سکیں ۔یہ بہت مفید سلسلہ تھا کاش آج بھی جاری رہتا۔ سوغات کا نئی نظم نمبر آج بھی ایک حوالہ جاتی اور دستاویزی اہمیت کا حامل ہے۔
شاعر
سیماب اکبرآبادی شاعر ممبئی بھی ایک اہم رسالہ ہے۔ اس کے اختراعی ذہن کے حامل مدیر افتخار امام صدیقی نے ادب میں بہت سے نئے تجربے کیے جس کی وجہ سے ادبی صحافت کو کئی اہم زاوئے ملے خاص طور پر شاعر کی خصوصی اشاعتوں اور اعترافی گوشوں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ جن میںہم عصر اردو ادب نمبرقابل ذکر ہے۔
ذہن جدید
زبیر رضوی کا رسالہ ذہن جدید بہت سے اعتبارات سے منفرد مجلہ ثابت ہوا۔ اس میں رسمی اور روایتی ڈگر سے ہٹ کر بہت سے وہ موضوعات شامل کیے گئے جو اردو میں کم متعارف تھے۔انھوں نے ادبیات کے علاوہ ذہن جدید میں فنونِ لطیفہ، تھیٹر، فلم، موسیقی، مصوری، آرٹ کلچر اور غیر ملکی ادب کے تراجم شائع کیے۔ اس کے علاوہ موضوعاتی مباحث کا سلسلہ قائم کیا۔ جس کی وجہ سے ذہن جدید کو بہت مختصر عرصے میں شہرت و شناخت کی وہ منزل نصیب ہوئی جو بہت کم رسالوں کا مقدر ہوتی ہے۔ زبیر رضوی کے اختراعی اور تجرباتی ذہن نے اس رسالے کو بام عروج تک پہنچایا اور لوگوں کے ذہنوں میں اس کا نقش قائم کر دیا ۔
شعور
بلراج مینرا نے اپنے مجلہ شعور کے ذریعے اس تہذیبی ، ثقافتی اور تاریخی منظر نامے کو روشن کیا جو قارئین کی آنکھوں سے اوجھل تھے۔ بہت سے اہم موضوعات پر شعور میں مضامین کی اشاعت ہوئی جس سے قاری ایک نئی دنیا کے رو بہ رو ہوئے آرٹ اور ادب کی نئی جہتیں روشن ہوئیں، ایک نئے اور الگ زاویے نے ذہنوں میں جنم لیا۔
آج کل
رسالہ آج کل (1947)نے بھی اپنی انفرادی شان برقرار رکھی اور مختلف مدیروں کے اختراعی ذہنوں نے نئے نئے زاویوں اور جہات کی جستجو کی یہ رسالہ بھی انفرادیت کا حامل ہے۔ خاص طور پر آج کل میں موسیقی، مصوری، سیرو سیاحت، جنگلی جانور، کشمیر، جدید ہندی کہانی وغیرہ پر جو خصوصی شمارے شائع ہوئے اس سے قارئین کو ایک جہاں دگر کی سیاحت کا لطف آیا۔ ڈاکٹر جمیل اختر نے دو جلدوں میں آج کل کا اشاریہ مرتب کیا ہے۔ جس سے آج کل کے موضوعاتی تنوع کو اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
سب رس۔ حیدر آباد
سب رس(جنوری1938)بھی ایک اہم رسالہ ہے ۔ اس نے دکنی ادب کو فروغ دینے میں بہت اہم رول ادا کیا ہے۔ دکنی مباحث اور ادبیات پر اس کے مضامین دکنیات پر کام کرنے والوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
نیا دور
رسالہ نیا دور(اپریل1955)بھی ایک اہم رسالہ ہے اس نے بھی ادبی ذہنوں پر بہت مثبت اثرات مرتب کیا ہے۔ یہ رسالہ اپنے خصوصی نمبروں کی وجہ سے بہت مقبول ہوا۔ منشی نول کشور نمبر،یاد رفتگاں نمبر، اطفال نمبر، نصف صدی نمبر، اودھ نمبر، صحافت نمبر بہت مقبول ہوئے۔ اس رسالے سے اردو ادب کی بڑی اہم شخصیتیں وابستہ رہیں۔اس کا مبسوط اشاریہ ڈاکٹر اطہر مسعود خان نے مرتب کیا ہے۔جو رضا لائبریری رام پور نے شائع کیا ہے۔
اکیسویں صدی میں جن رسائل نے ادبی جمود اور جلمود کو توڑا ہے ان میں ’امروز علی گڑھ(ابوالکلام قاسمی)‘، ’اثبات ممبئی‘(اشعر نجمی)، ’آمد پٹنہ‘(خورشید اکبر)، ’استفسار جے پور(ش ک نظام، عادل رضا منصوری)‘ قابل ذکر ہیں۔تحرک خیز اور فکر انگیزا دبی مباحث کی وجہ سے یہ رسائل ذہنوں میں زندہ رہیں گے۔
تحقیقی مجلات
اردو میں خالص تحقیقی مجلات کی بھی ایک روایت رہی ہے۔ اس ذیل میں معیار، دریافت، تحقیق، بنیاد، بازیافت، ریسرچ جرنل، خدابخش لائبریری جرنل، رضا لائبریری جرنل، ہندوستانی الہ آباد، تحریر، دہلی اور سہ ماہی فکر و تحقیق، نئی دہلی، فکر ونظر علی گڑھ وغیرہ کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ ان رسائل کا راتکاز صرف تحقیقی مقالات اور مضامین پر رہا ہے۔ اس میں کچھ شعبہ جاتی رسائل کے نام بھی شامل کئے جا سکتے ہیں۔ پٹنہ یونیورسٹی کا اردو جرنل بھی ایک تحقیقی مجلہ ہے اور چھپرا یونیورسٹی سے نکلنے والا اردو اسٹڈیز بھی اسی زمرے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
غالبیات، اقبالیات
کچھ ایسے رسالے بھی ہیں جو اقبالیات، غالبیات سے مختص ہیں۔ اقبالیات پر مرکوز رسائل میں اقبال اکیڈمی کراچی کا ’اقبال ریویو‘ اور اقبال اکیڈمی حیدرآباد سے شائع ہونے والے ششماہی ’اقبال ریویو‘ قابل ذکر ہیں۔ یہ رسالے اقبالیات کے مختلف فنی اور فکری زاویوں اور جہات کی تفہیم سے متعلق تھے۔ غالبیات سے متعلق جو رسائل شائع ہوئے ان میں سہ ماہی ’غالب کراچی‘ مرزا ظفرالحسن کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ہندوستان سے غالب انسٹی ٹیوٹ کا ’غالب نامہ‘ اور غالب اکیڈمی کا ششماہی’جہانِ غالب‘ قابل ذکر ہیں۔ ’غالب نامہ‘ کا پہلا شمارہ جنوری -اپریل 1976میں شائع ہوا ہے جس کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹر یوسف حسین خان اور مدیر نثار احمد فاروقی تھے۔ اس میں غالبیات سے متعلق مضامین کی اشاعت ہوا کرتی تھی۔ ’احرام مدعا‘ کے عنوان سے اداریے میں لکھا گیا ہے کہ ’’غالب نامہ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ غالب اور عہد غالب سے متعلق موضوعات پر علمی مضامین، سنجیدہ تحقیق کے نتائج، متوازن تنقیدی اور نئی معلومات پیش کی جائیں مگر مجلس ادارت نے غالبیات اور متعلقات غالب کے علاوہ مشرقی ادبیات کے دوسرے پہلوؤں پر بھی بحث و نظر اور تنقید و تحقیق کے لیے کھلے رکھے۔‘‘ششماہی ’جہانِ غالب‘ غالب اکیڈمی کا ترجمان ہے۔ اس کا پہلا شمارہ دسمبر 2005 میں ڈاکٹر عقیل احمد کی ادارت میں شائع ہوا۔ اس رسالے میں ماہرینِ غالبیات اور غالب شناسوں کی تحقیقات اور مطالعات پر مرکوز تحریروں کی اشاعت ہوتی ہے۔
یک صنفی رسالے
اردو میں بعض رسالے ایسے ہیں جو صرف ایک خاص صنف سے مختص ہیں۔ بلونت سنگھ کی ادارت میں الہ آباد سے ماہنامہ فسانہ دسمبر 1948 میں شائع ہونا شروع ہوا۔ اس رسالہ کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں صرف افسانے شائع ہوا کرتے تھے۔ اسی رسالہ میں تیغ الہ آبادی، صالحہ نکہت کے فرضی نام سے بھی لکھا کرتے تھے۔ ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ شاعر و ادیب کرشن کمار طور کی ادارت میں شملہ سے سرسبز شائع ہوتا ہے۔ یہ رسالہ صرف شاعری کے کے لئے مخصوص ہے۔ اس نوع کے اور بھی رسالے ہو سکتے ہیں۔ جس تک میری رسائی نہیں ہو سکی ہے۔
حاشیائی رسائل:
اردو میں بہت سے رسالے قصبات، قریات اور اُن شہروں سے نکلتے ہیں جو مرکز سے بہت دور ہیں اُن رسائل کی رسائی مخصوص علاقوں تک ہی ہو پاتی ہے۔ اُن سے ادبی صحافت کے مؤرخین اور محققین بھی کم ہی واقف ہو پاتے ہیں جب کہ ان حاشیائی رسائل کی بڑی اہمیت اور معنویت ہے کہ ایک ایسے علاقوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو شعر و ادب کے لئے زرخیز نہیں ہیں۔ وہ ان علاقوں میں اردو زبان و ادب کی آبیاری کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ وسائل کے بحران اور قاری کے فقدان کے باوجود شعر و ادب کی ترویج کے تئیں اُن کا جذبہ یقینی طور پر قابل ستائش ہے اور وہ قابل مبارک باد ہیں کہ اردو کے ایسے علاقوں سے رسائل شائع کرنے کی جرأت کر رہے ہیں۔ ان میں ’صبح نو‘، پورنیہ، ماہنامہ ’پیامِ سحر‘ کشن گنج، ماہنامہ ’فانوس‘ کٹیہار،دو ماہی ’غالب‘ کٹیہار، دو ماہی ’افکار‘ پورنیہ، ’عکس‘ ،ارریہ، ’ابجد‘ ،ارریہ، ’جامِ نو‘ ، دھنباد، ’پروانہ‘ دھنباد، ’کوئل‘ پلامو، ’میراث‘ ، جھریا، ’روپ‘ جھریا، ’ارم چمپارن، ’آئندہ‘ جمشید پور، ’شفق‘ بوکارو، ’انجو‘ مظفر پور، ’اسلوب‘ سہسرام، ’انعکاس‘ مظفر پور، ’نگارش‘ حاجی پور، ’جمیل‘ سیوان، ’حصار‘ رانچی، ’علم و ادب‘ لکھمنیا وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر عطا عابدی نے بہار کے ادبی رسائل میں ان پر اجمالی گفتگو کی ہے۔ بہار کے علاوہ دوسری ریاستوں کے قصبات و قریات سے بھی یقینی طور پر اس نوع کے رسالے شائع ہوتے ہوں گے جن کا ذکر ادبی صحافت کے ضمن میں خال خال ہی آتا ہو۔ ڈاکٹر آصف فیضی کی کتاب ’دبستان صحافت‘ میں مالیگاؤں سے شائع ہونے والے کچھ اسی نوع کے رسائل کا ذکر ہے۔ جن میں معیار سخن، افتخار سخن، بہار، تاجدار، خورشید، پیغام، جمال، نوید نو، جلیس، نشانات، ہم زباں، روایت، احساس، رفتار ادب، محبان ادب، تصویر جدید، جدید رجحانات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔اسی طرح آندھرا پردیش کے پونم، شاداب، فنکار، بساط ذکر و فکر، اصنام، رنگ و بو، مقناطیس، خوشبو کا سفر، پیام اردو، عدسہ، لمس کی خوشبو، پروانۂ دکن، بزم آئینہ، الانصار۔ اترپردیش کے تیر نیم کش (مراد آباد)، خرام (کانپور)، افق نو (شاہجہاں پور)، شاندار (اعظم گڑھ)، گُل کدہ (بدایوں)۔ اڑیسہ کے روزن، ترویج، ادبی محاذ، نئی شناخت۔ تمل ناڈو کے سرکار، امام، آب و تاب، ساون۔ گجرات کے گلبن، ذخیرہ، اجلی تحریر، نکات رنگ و برو۔ مدھیہ پردیش کے شجر۔ مہاراشٹر کے صبح امید، تکلم، فنون، شاہین، قرطاس، دل رس وغیرہ کے نام لئے جا سکتے ہیں۔
’علم و ادب‘ کے مدیر نے اس تعلق سے بڑی اہم بات لکھی ہے جس پر توجہ دی جانی چاہئے:
’’علم و ادب کے نکالنے کا جواز کیا ہے۔ پہلا تو یہی کہ چھوٹی جگہوں کے لوگ بھی ادب کے بڑے مسئلوں میں اپنی ایک رائے رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ علم و ادب کے بڑے مراکز ان پر غور کریں یہ لوگ اپنے نظریے (کہہ سکتے ہیں کہ قصباتی یا علاقائی) کے تحت اردو کے بڑے منظر نامہ کو جانچنے پرکھنے کا ارادہ اور حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہ رائے یا نظریہ، یہ ارادہ ، یہ حوصلہ اور اس کی آواز صدا بہ صحرا نہ ثابت ہو اس لئے ’علم و ادب ‘جیسے جریدے کا تصور ابھر کر آیا۔
(بحوالہ: ڈاکٹر عطا عابدی، بہار میں اردو کے ادبی رسائل،ص۔248)
قاضی سلیم نے بھی اپنے ایک خط میں اس کی طرف یوں اشارہ کیا تھا کہ:
’’وقیع اور پائے کے ادب کے بجائے آج اردو کو افقی پھیلاؤ کی ضرورت ہے۔ بڑے ادب کے بجائے مختلف ادب درکار ہے۔ ‘‘

رسائل نے یقینی طور پر ادبی ذوق کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مگر ادبی صحافت میں رسائل کے مقام اور معیار کا تعین اس کے اداریوں اور مشمولہ مباحث سے ہی کیا جا سکتا ہے کیوں کہ جب تک رسائل میں نئے مباحث نہیں ہوں گے قاری کو یکسانیت اور بوریت کا احساس ہوگا ۔ جن رسائل نے تخلیقیت اور اختراعیت کا خیال رکھا اور نئی جہتیں دریافت کیں وہ اب بھی اپنے ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔ کسی بھی رسالے میں اداریے کی حیثیت ریڑھ کی ہوتی ہے ۔ جن مجلات کے مدیران با شعور اور بالغ نظر تھے انھوں نے اپنے اداریوں کے ذریعے ادب میں طغیانی پیدا کی اور جمود کو توڑا مگر اب ایسے متحرک، فعال مدیر کم رہ گئے ہیں اور زندہ اداریوں کی تعداد بھی کم ہو گئی ہے ۔پہلے کے مدیروں نے بہت سے قلم کاروں کو جنم دیا اور ان کی شہرت و شناخت کا ذریعہ بنے۔ مگر آج کی ادبی صحافت کی صورت حال بہت مختلف ہو گئی ہے۔ بقول ابوالکلام قاسمی’’ آج کے مدیر حضرات عموماً کچی پکی ادبی تحریروں کا انتخاب کرتے ہیں اور اس کی اچھی بری پیش کش کو بھی ادبی صحافت کا متبادل بنا کر پیش کرتے ہیں۔‘‘ آج کل ادارت جمع و ترتیب سے عبارت ہو کر رہ گئی ہے۔ میرے خیال میں آج کے بیشتر مدیروں کے پاس نہ وہ وژن ہے اور نہ کوئی ادبی مشن اسی لیے آج ادبی صحافت کا معیار زوال پذیر ہے۔ اس لیے ادبی رسائل کی اشاعت کا جواز ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ شام و سحر کے مدیر ڈاکٹر شبیہ الحسن نے عصر حاضر میں ادبی رسالے کی عدم ضرورت کے حوالے سے تیرہ نکات پیش کیے ہیں ۔ ان کے مطابق *معاشرے کو ادبی مباحث نہیں، سائنسی علوم کی ضرورت ہے* غیرادبی ماحول میں ادبی رسالہ نکالنا غیردانش مندانہ فعل ہے* ادبی رسائل متحرک نہیں منجمد ہوتے ہیں، جن کا عملی زندگی میں کوئی فائدہ نہیں* یہ رسائل ذاتی مفادات اور تشہیر کے لیے نکالے جاتے ہیں، یہ ادب کافروغ نہیں ترقی ذات اور درجات کا ذریعہ ہیں * مقالات سطحی، تخلیقات غیرمعیاری اور شاعری اوزان و بحور سے عاری ہوتی ہے * رسائل کسی طرزِ احساس کو اجاگرکرنے میں ناکام رہتے ہیں * زیادہ تر رسالے تجارتی مقاصد کے لیے نکالے جاتے ہیں *اس سے ادیب کو عروج حاصل ہوتا ہے اور ادب زوال پذیر ہوتا ہے * ہر رسالے کا اپنا ایک خاص گروپ اور حلقہ اثر ہے * ادبی رسائل میں حیاسوز مواد شائع ہوتا ہے* ان رسائل کا اسلوب بیان بھی متعین نہیں اور نہ ہی یہ قارئین کے لیے کوئی لائحہ عمل مرتب کرپا رہے ہیں ۔
ان کے بعض نکات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان کے سوالات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں اگر شبیہ الحسن کی بات پر عمل کر کے یہ ادبی رسائل بند کر دیے جائیں تو ہجوم افکار میں حساس انسان حبس کا شکار ہو جائے گا اور خیالات و جذبات کے ہیجان کی وجہ سے امراض و آزار میں مبتلا بھی۔ ادبی رسائل ان کے لیے ایک طرح کی سائیکو تھریپی ہیں۔

اکیسویں صدی میں جو رسائل و جرائد شائع ہو رہے ہیںان میں سے بیشتر کی تفصیل پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی نے دو جلدوں پر محیط ’ہم عصر اردو رسائل:جائزہ‘ اور’ اکیسویں صدی کے ہم عصر اردورسائل‘ میں پیش کی ہے۔ پہلی جلد میں تقریباً 252 اور دوسری جلد میں 172رسائل کا ذکر ہے۔ یہ رسائل بھی اہمیت کے حامل ہیںکہ آج کے اس صارفی عہد میں ادب سے رشتہ منقطع ہو رہا ہے اور مادیت پر مرکوز معاشرے میں ادب کی افادیت اور معنویت پر سوالیہ نشان کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ ایسے میں یہ تمام ادبی رسائل مالی بحران، تعداد اشاعت کی قلت اور قاری کے بحران کے باوجودزبان و ادب کا چراغ روشن کیے ہوئے ہیں ۔انہی مسائل سے رسائل کی زندگی جڑی ہوئی ہے ۔ شاہد احمد دہلوی نے ساقی کے سال نامہ جنوری 1940کے اداریے میں بہت اہم لکھی تھی کہ‘‘صحافتِ اردو کی بے شمار دشواریوں نے جرائد و رسائل کی عمر شماری کے لیے وقت کا پیمانہ بدل دیا ہے ۔ ہر سال سیکڑوں رسائل جاری ہوتے ہیں اور سال ختم ہوتے ہی خود ختم ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی سخت جان ہوا تو دق کے مریض کی طرح سسکتا رہتا ہے اور اچانک دم توڑ دیتا ہے۔ اردو صحافت کی دنیا ہی الگ ہے یہاں عمر کا حساب دنوں اور مہینوں سے لگایا جاتا ہے۔ یہاں وقت گزرتا نہیں گزارا جاتا ہے۔ بلکہ گھسیٹا جاتا ہے اگر کوئی رسالہ چند سال بھی جی جائے تو اس ے بہت غنیمت سمجھنا چاہیے یہاں ان رسائل کا مذکور نہیں جن کا تعلق مذہبیات یا جنسیات سے ہے۔ ان کے پڑھنے والے بے شمار اور وسائل لا محدود ہیں۔ ذکر ان جرائد کا ہے، جن کا تعلق علم و ادب سے ہے وہ بھی اعلیٰ درجے کے علم و ادب سے۔‘‘
اس لیے ہمیں ادبی رسائل کی نہ صرف قدر کرنی چاہیے بلکہ اس کی اشاعت میں مدد بھی کرنی چاہیے تاکہ ہماری آنکھیں کم از کم زوالِ صحافت کی عبارتیں پڑھنے سے محفوظ رہ جائیں۔
انیسویں صدی سے اکیسویں صدی تک اردو کی ادبی صحافت کے طویل سفر میں مدیروں کو بہت سے موانع و مشکلات سے گزرنا پڑا ہے۔ بہتوں نے بیوی کا زیور بیچ کر مجلے کو زندہ رکھنے کی کوشش کی۔ ان مدیران کی قربانیوں کو ہم فراموش کر چکے ہیں۔ یہ ہمارے عہد کا بہت بڑا المیہ ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اگر یہ ادبی رسائل نہ ہوتے تو شاید ہم آج کے بہت سے بڑے قلم کاروں کی تحریروں سے محروم رہ جاتے۔عالمی ادبیات کے رویے ، رجحانات، سمت و رفتار سے نہ واقف ہو پاتے اور نہ ادبی مباحث زندہ رہ پاتے۔کتابیں اس کمی کو کبھی پورا نہیں کر پاتیں کیوں کہ رسائل کے مقابلے میں کتابوں کا دائرہ بہت محدود ہوتا ہے۔ مختلف تحریکات، رجحانات کے حامل رسائل میں ادبی معرکوں سے ہم محظوظ نہ ہو پاتے جن سے زبان و ادب کو بے حد فائدہ پہنچا اور علوم و ادبیات کے نئے زاویے روشن ہوئے مگر اب ادبی نقائض کا سلسلہ بند ہو چکا ہے تو ادب بھی منجمد اور مضمحل نظر آنے لگا ہے۔ کاش کوئی ٹھہرے ہوئے تالاب میں پتھر پھینکے تو پھر رسائل کا وہی جلوہ لوٹ آئے گا۔ بہر حال ادبی صحافت کی پوری تاریخ پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو کے ادبی رسائل کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ بر صغیر ہند و پاک سے شائع ہونے والے علمی و ادبی رسائل میںعلوم و ادبیات کا بیش بہا خزینہ ہے اگران رسائل سے یک موضوعی انتخابات شائع کیے جائیں تو ہمیں بہت سی ناقص کتابوں اور مقالات و مضامین سے نجات مل جائے گی۔ خاص طور پر رسائل میں اردو کی ہندوستانی شہریت اوراردو ہندی تنازع سے متعلق جو بیش قیمت تحریریں ہیںان کا انتخاب فوری طور پر کسی اکیڈمی یا ادارے کی جانب سے کیا جانا چاہیے کہ اس وقت کی یہ بہت بڑی ضرورت ہے۔

 

(میرے اس مضمون کو ادبی صحافت کے عصری منظر نامے، گلوبل معاشرہ اور ادبی رسائل ،صحافت و صارفیت، انٹر نیٹ اور عالمی منظر نامہ ، مسائل ، مجبوریاں اور مجلات سے جوڑ کر پڑھا جائے)

You may also like

Leave a Comment