ترجمہ:نایاب حسن
ماریو برگس یوسا(2025-1936) ہسپانوی زبان کے اہم ترین و رجحان ساز ادیب، ناول نگار، ڈراما نویس اور مضمون نگار ہیں۔ ان کے دودرجن سے زائد ناول، اتنے ہی مضامین کے مجموعے اور نصف درجن سے زائد ڈراموں کے مجموعے شائع شدہ ہیں۔ 2010 میں انھیں نوبل انعام براے ادب سے نوازا گیا تھا۔طاقت و اقتدار کے ڈھانچوں کی بے تعصبانہ نقشہ کشی اور سماجی و سیاسی جبر کے خلاف فرد کی مزاحمت، بغاوت اور شکست وغیرہ کی عکاسی ان کے فکشن کا نمایاں وصف ہے۔ نوبل کے علاوہ انھیں اسپین، آسٹریا، چلی، پناما، امریکہ، فلپائن، اٹلی، چین،فرانس، جاپان، جرمنی، میکسیکو، برطانیہ اور سوئزرلینڈ وغیرہ کی حکومتوں اور ادبی اداروں کی جانب سے بھی درجنوں ادبی و شہری اعزازات مل چکے ہیں۔ان کے فکشن/نان فکشن کے ترجمے دنیا کی چالیس سے زائد زبانوں میں کیے گئے ہیں۔لیوسا سیاسی ایکٹیوزم کے حوالے سے بھی اپنی شناخت رکھتے تھے اور1990میں پیرو کے صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا۔زیرنظر مضمون ? Why Literature کے عنوان سے مشہور امریکی میگزین ’دی نیو ریپبلک‘ میں شائع شدہ ان کے مضمون کا ترجمہ ہے۔
میرے ساتھ اکثر ایسا ہوا ہے کہ کتاب میلوں یا کسی بک اسٹور میں کوئی شریف سا آدمی میری طرف بڑھتا ہے اور مجھ سے آٹوگراف مانگتا ہے۔ وہ کہتا ہے: ’میری بیوی، بیٹی یا میری ماں آپ کے آٹو گراف کی خواہاں ہے،وہ بہت مطالعہ کرتی اور ادب سے محبت کرتی ہے‘۔ میں فوراً پوچھتا ہوں: ’اور اپنے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا آپ کو مطالعہ کرنا اچھا نہیں لگتا؟‘، توجواب تقریباً ہمیشہ یکساں ہوتا ہے: ’مجھے مطالعہ کرنا اچھا تو لگتا ہے؛ لیکن میں بہت مصروف آدمی ہوں‘۔ میں نے یہ اعتذار درجنوں بار سنا ہے،گویا اس آدمی اور اس جیسے ہزاروں دیگر آدمیوں کے پاس زندگی میں اتنے اہم کام، اتنی ذمے داریاں، اتنے مشاغل ہیں کہ وہ کسی ناول، شعری مجموعہ یا ادبی مضامین کے مطالعے میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کر سکتے۔اس عمومی تصور کے مطابق گویا ادب ایک غیر ضروری قسم کی سرگرمی ہے۔یہ فی نفسہ بلند مرتبت، حساسیت اور اچھے اخلاق کو فروغ دینے کے لیے مفید تو ہے؛ لیکن بنیادی طور پریہ ایک تفریحی عمل ہے، سامانِ آرائش ہے ،جو تفریح و تزئین کا ذوق رکھنے والے لوگوں کے لیے ہی مناسب ہے۔ یہ فلموں،برج یا شطرنج جیسے کھیلوں کے ضمن میں فٹ ہونے والی چیز ہے اور کشاکشِ زندگی کی دوسری ناگزیر ترجیحات سے جب اس کا ٹکراؤ ہو،تو اسے بلا کسی جھجھک قربان کیا جا سکتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ادب زیادہ سے زیادہ خواتین کی سرگرمی بن گیا ہے۔ کتابوں کی دکانوں میں، کانفرنسوں میں یا ادبا کی عوامی مطالعاتی محفلوں میں، یہاں تک کہ یونیورسٹیز کے علومِ انسانی کے شعبہ جات میں واضح طور پر خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ نظر آتی ہے۔ اس صورتِ حال کی روایتی طور پر یہ توضیح کی جاتی ہے کہ متوسط طبقے کی خواتین زیادہ پڑھتی ہیں؛ کیونکہ مردوں کے مقابلے میں ان کے کام کا دورانیہ کم ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے وہ مردوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ وقت خیالی و تصوراتی دنیا(مطالعۂ ادب) کے لیے وقف کرپاتی ہیں۔ مجھے کسی حد تک ان توضیحات سے الرجی ہے جو مردوں اور عورتوں کو منجمد زمروں میں تقسیم کرتی ہیں اور ہر جنس کو اس کی خصوصیات اور خامیاں بتاتی ہیں؛ لیکن اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ ادب کے قارئین کی تعداد قلیل تر ہے اور اس قلیل تر میں بھی کثیر تعداد خواتین کی ہے۔
تقریباً ہر جگہ یہی حال ہے۔ مثال کے طور پر اسپین میں، جنرل سوسائٹی آف ہسپانوی رائٹرز کے زیر اہتمام ایک حالیہ سروے نے انکشاف کیاہے کہ اس ملک کی نصف آبادی نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔ سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ کتاب خواں اقلیت میں، پڑھنے کا اعتراف کرنے والی خواتین کی تعداد مردوں کی تعداد سے 6.2 فیصد زیادہ ہے اور یہ فرق روز افزوں ہے۔ میں مطالعے سے دلچسپی رکھنے والی خواتین کی بڑھتی تعداد سے خوش ہوں؛ لیکن میں ان مردوں اور ان کروڑوں انسانوں کے تئیں متفکر ہوں، جو پڑھ تو سکتے ہیں؛ لیکن نہ پڑھنے کا تہیہ کر چکے ہیں۔
مجھے نہ صرف اس وجہ سے ان پر ترس آتا ہے کہ وہ پڑھنے کی خوشی سے محروم ہیں؛ بلکہ اس لیے بھی کہ مجھے یقین ہے کہ ایک ایسا سماج جس میں ادب کا وجود نہیں ہوتا یا ایک ایسا سماج جس میں ادب کو معاشرتی اور ذاتی زندگی کے حاشیے پر ڈال دیا جاتا ہے، وہ محض جانداروں کے ایک گروہ میں تبدیل ہو جاتا ہے،وہ ایک ایسا سماج ہوتا ہے جس کے اندر وحشیانہ پن آجاتا ہے اور وہ روحانی آزادی سے محروم ہوجاتا ہے۔ میں ادب برائے تفریح و تعیش کے خلاف ہوں اور میرا یہ یقین ہے کہ ادب ایک بنیادی اور ضروری ذہنی عمل ہے، جدید، جمہوری اور آزاد افراد اور شہریوں پر مشتمل معاشرے کی تشکیل کے لیے ایک ایسی سرگرمی ہے،جس کا کوئی متبادل نہیں۔اب میں اپنے اس نظریے کی تائید میں کچھ دلائل پیش کرنا چاہتا ہوں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی شاندار ترقی اور اس کے نتیجے میں علم کی لاتعداد فروعات اور حصوں میں تقسیم ہونے کی بدولت ہم اس وقت اختصاصِ علم کے دور میں جی رہے ہیں۔ اس ثقافتی رجحان( اگر اس کی کچھ حقیقت ہے) کے آنے والے سالوں میں بڑھتے رہنے کا امکان ہے۔ اس میں شک نہیں کہ کسی بھی شعبے میں مہارت بہت سے فوائد لاتی ہے۔ یہ گہری جستجو اور بڑے تجربات کو بڑھاوا دیتی ہے اور یہ گویا ترقی کی گاڑی کا انجن ہے، اس کے باوجود اس کے منفی نتائج بھی سامنے آتے ہیں؛ کیونکہ یہ ان مشترکہ فکری اور ثقافتی امتیازات کو ختم کر دیتی ہے جو مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رہنے، بات چیت کرنے اور یکجہتی و ہم آہنگی کا شعور بخشتے ہیں۔یہ اختصاص سماجی فہم کی کمی کا باعث بنتا ہے، انسانوں کو ٹیکنیشینز اور ماہرین کے گھیٹووں میں تقسیم کردیتا ہے۔ اختصاصِ علم کے لیے مخصوص زبانوں اور مبہم علامتوں کی ضرورت ہوتی ہے؛ کیونکہ معلومات زیادہ سے زیادہ مخصوص اور منقسم ہوتی جاتی ہیں۔ یہ وہ خاصیت اور تقسیم ہے جس کے خلاف ایک پرانی کہاوت نے ہمیں متنبہ کیا تھا: شاخ یا پتوں پر اتنی زیادہ توجہ نہ دیں کہ آپ یہ بھول جائیں کہ وہ درخت کا حصہ ہیں یا درخت پر اتنی زیادہ توجہ نہ دیں کہ آپ بھول جائیں کہ وہ جنگل کا حصہ ہے۔ جنگل کے وجود کے بارے میں آگاہی عمومیت کا احساس پیدا کرتی ہے، اپنائیت کا احساس، جو معاشرے کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے اور اسے بے شمار انانیت پسندانہ خصوصیات میں بکھرنے سے روکتا ہے۔ قوموں اور افراد کی انانیت پسندی خبطِ عظمت اور گرد و پیش سے بے خبری کی صفت پیدا کرتی ہے، حقیقت کو مسخ کرتی ہے جو نفرت، جنگیں ،حتی کہ نسل کشی تک کا سبب بنتا ہے۔
علم کی لامحدود ثروت مندی اور اس کی ارتقائی رفتار کی وجہ سے ہمارے دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی ایک ارتباطی کردار ادا نہیں کر سکتیں، جس کی بناپر اختصاص اور اس کے ابہامات نے جنم لے لیا ہے؛ لیکن ادب پہلے بھی اور آئندہ بھی جب تک اس کا وجود ہے، انسانی تجربے کی ایسی مشترک قدروں میں سے ایک رہے گا، جن کے ذریعے انسان اپنے آپ کو پہچان سکتا ہے اور ایک دوسرے سے مکالمہ قائم کر سکتا ہے، چاہے اس کا پیشہ، زندگی کے منصوبے، جغرافیائی و ثقافتی مقامات، ذاتی حالات کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں۔ ادب نے بہت سے افراد کو ان کی زندگی کی مختلف خصوصیات کی وجہ سے تاریخ اور زمانے سے آگے بڑھنے کے قابل بنایا ہے۔ سروینٹس، شیکسپیئر، دانتے اور ٹالسٹائی کے قارئین کے طور پر ہم مختلف زمان و مکان میں ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں اور خود کو ایک ہی انسانی صنف کا رکن محسوس کرتے ہیں ؛کیونکہ ان ادیبوں کی تخلیقات سے ہم وہ چیزیں سیکھتے ہیں جو بطور انسان ہم سب میں پائی جاتی ہیں ، جو ہم سب میں جزوی اختلافات کے باوجود وسیع تر پیمانے پر مشترک ہوتی ہیں۔ انسان کو تعصب، نسل پرستی، مذہبی یا سیاسی فرقہ واریت اور قوم پرستانہ حماقتوں کے خلاف اس سچائی سے زیادہ کوئی اور چیز نہیں بچا سکتی، جو ہمیشہ عظیم ادب پاروں میں نظر آتی ہے؛یعنی یہ کہ تمام قوموں اور ملکوں کے مرد اور عورت بنیادی طور پر برابر ہیں اور یہ کہ ناانصافی ان کے درمیان امتیاز، خوف اور استحصال کے بیج بوتی ہے۔
ادب ہمیں سکھاتا ہے کہ انسانی دنیا کے نسلی و ثقافتی تنوعات دراصل نوعِ انسانی کی قیمتی میراث ہیں اور یہ دراصل انسان کی کثیر جہتی تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہیں۔ اچھے ادب کا مطالعہ ایک خوش کن تجربہ تو ہوتا ہی ہے، ساتھ ہی یہ عمل ہمیں خودی کا عرفان بخشتا ہے، روز مرہ اعمال، خوابوں، خیالوں ، تنہائیوں، ایک دوسرے سے مربوط رشتوں، عوامی شبیہ اور خفیہ شعوری مراحل کے حوالے سے ہماری انسانی خوبیوں اورخامیوں سے بھی ہمیں آگاہ کرواتا ہے۔
بقول یسعیاہ برلن(Isaiah Berlin) متضاد سچائیوں کا یہ پیچیدہ مجموعہ ہی انسان کے سراپاے اصلی کا مادہ و جوہر ہے۔ آج کی دنیا میں انسان کا یہ مکمل اور زندہ علم صرف ادب میں پایا جاتا ہے۔ انسانی علوم کی دوسری شاخیں مثلاً فلسفہ، تاریخ، آرٹس اور سماجی علوم بھی اس مربوط نقطۂ نظر اور اس عالمگیر مکالمے کو برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں رہی ہیں۔ ہیومینٹیز نے بھی علم کی کینسر زدہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہو کر خود کو تیزی سے منقسم اور تکنیکی شعبوں میں محدود کر لیا، جن کے تصورات و الفاظ عام انسان (عورت اور مرد) کی پہنچ سے باہر ہیں۔ کچھ ناقدین اور ماہرین ادب کو بھی سائنس میں تبدیل کرنا چاہیں گے؛ لیکن ایسا کبھی نہیں ہو گا؛ کیونکہ افسانے کا وجود صرف تجربے کے کسی ایک دائرے کی چھان بین کے لیے نہیں ہوتا، یہ تخیل کے ذریعے مکمل انسانی زندگی کو ثروت مند بنانے کے لیے ہوتا ہے، جسے نہ ختم کیا جاسکتا ہے، نہ منتشر کیا جاسکتا ہے اور نہ پیہم زیر عمل منصوبوں اور اصولوں کے سلسلے میں محدود کیا جاسکتا ہے۔ پروست(Proust) کا کہنا ہے کہ: ’حقیقی زندگی، روشن اور آشکارزندگی، وہ زندگی جو بھرپور طریقے سے گزاری جاتی ہے ، وہی ادب ہے‘۔ اس کا یہ قول مبالغہ آرائی پر مبنی نہیں ہے اور نہ صرف اپنے پیشے سے محبت کا اظہار ہے۔ اس کے کہنے کا اصل مطلب یہ ہے کہ ادب (لکھنے پڑھنے)کے نتیجے میں زندگی کو بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے اور اسے بہتر طریقے سے جیا جاسکتا ہے اور یہ کہ زندگی کو بھرپور طریقے سے جینا اور اسے دوسروں کے ساتھ شیئر کرنا زیادہ ضروری ہے۔
ادب ہی انسانوں کے درمیان برادرانہ ربط قائم کرتا ہے، انھیں مکالمے میں شمولیت پر مجبور کرتا ہے ، ایک مشترکہ اصل و مقصد سے آگاہ کرتا ہے اور تمام وقتی رکاوٹوں کو دور کرتا ہے۔ ادب ہمیں ماضی کی سیر کرواتا ہے اور ان لوگوں سے ملواتا ہے، جنھوں نے اپنی ان تحریروں کے ذریعے جو ہم تک پہنچی ہیں ؛ عہدِ گزشتہ کی منصوبہ بندی کی، اس عہد کا لطف اٹھایا اور خواب دیکھے، ایسی تحریریں آج بھی ہمیں حظ پہنچاتیں اور خواب دیکھنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ وقت اور جگہ کے اجتماعی انسانی تجربے کا حصہ بننے کا یہ احساس ہی کسی ثقافت کا سب سے بڑا کارنامہ ہے، اور نسلاً بعد نسلٍ اس کی تجدید صرف ادب کے ذریعے ہوتی رہی ہے۔
جب بھی بورخیس (Borges)سے پوچھا جاتا کہ ’ادب کا کیا فائدہ ہے؟‘ تو وہ جھنجھلا جاتا تھا۔ یہ اسے ایک احمقانہ سوال لگتا تھا، جس کا وہ یہ جواب دیتا تھا کہ: ’کوئی بھی یہ نہیں پوچھتا کہ کینری کے گانے یا غروبِ آفتاب کے خوبصورت منظر کا کیا فائدہ ہے‘۔ اگر ایسی خوبصورت چیزیں موجود ہیں اور اگر ان کی وجہ سے زندگی ایک لمحے کے لیے بھی کم بدصورت اور کم اداس لگتی ہے، تو کیا اس کے لیے عملی جواز تلاش کرنا حماقت نہیں ہے؟ لیکن ادب کے تعلق سے یہ سوال بہرحال اچھا ہے؛ کیونکہ ادب( فکشن اور شاعری) پرندوں کی چہچہاہٹ یا دور افق میں ڈوبتے سورج کے منظر کی طرح نہیں ہوتا؛ کیونکہ یہ اتفاقاً یا فطرت کی تخلیق نہیں ہوتا، انسانی تخلیق ہوتاہے اور اس لیے یہ پوچھنا جائز ہے کہ اس کا وجود کیسے اور کیوں کر ہوا اور اس کا مقصد کیا ہے اور وہ(یا اس کے اثرات) عرصۂ دراز تک کیوں باقی رہتے ہیں؟
ادبی تخلیقات ایک مصنف کی شعور ی مصاحبت میں بے شکل پیکروں کی طرح پیدا ہوتے ہیں، ان کے اندر لاشعور کی مشترکہ طاقت ، مصنف کی اپنے اردگرد کی دنیا کے تئیں حساسیت اور اس کے جذبات کی عکاسی ہوتی ہے اور یہی وہ چیزیں ہیں، جنھیں شاعر یا راوی مختلف النوع الفاظ سے جوجھتے ہوئے آہستہ آہستہ شکل، پیکر، حرکت، رِدھم، آہنگ اور زندگی عطا کرتا ہے۔ ایک مصنوعی زندگی یقینی طور پر ایک خیالی زندگی ہوتی ہے، ایسی زندگی جو محض زبان و الفاظ سے وجود پذیر ہوتی ہے، پھر بھی مرد و خواتین اس زندگی کی جستجو کرتے ہیں، کچھ تو اکثر و بیشتر، جبکہ کچھ وقفے وقفے سے؛ کیونکہ حقیقی زندگی ان کے لیے ناقص و محدود ہوتی ہے، انھیں وہ کچھ پیش کرنے سے قاصر ہوتی ہے، جو وہ دل سے چاہتے ہیں۔ ادب محض ایک فرد کی تخلیقات سے وجود میں نہیں آتا، یہ تب وجود میں آتا ہے جب دوسرے لوگ بھی اسے اپناتے ہیں اور جب یہ سماجی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے، جب یہ مطالعہ و کتب بینی کے عمومی ماحول کی بدولت ایک مشترکہ انسانی تجربہ بن جاتا ہے۔
اس کا پہلا نفع بخش اثر زبان کی سطح پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی قوم تحریری ادبی سرمایے سے محروم ہے،تو اس کے اجتماعی احساسات و تخیلات کے اظہار میں درستگی، نزاکت و لطافت اور وضاحت کے عناصر کم ہوں گے، جبکہ اس قوم کے اظہار میں یہ عناصر بخوبی پائے جاتے ہیں، جس کے پاس ابلاغ و ترسیل کا بنیادی وسیلہ یعنی ثروتِ الفاظ موجود ہے ،جسے وہ ادبی متون کے ذریعے مسلسل پروان چڑھاتی ہے۔ مطالعہ نہ کرنے والا انسانی معاشرہ ادب سے اچھوتا، بہرا ،گونگا اور ہکلا ہوگا، جو اپنی خام اور بنیادی زبان میں محصوری کی وجہ سے مواصلات کے زبردست مسائل سے دوچار ہوگا۔ یہی معاملہ افرادکا بھی ہے، وہ شخص جو بالکل نہیں پڑھتا یا کم پڑھتا ہے یا صرف بکواس چیزیں پڑھتا ہے، وہ بھی اسی قسم کے عوارض کا شکار ہوگا۔ وہ بک بک تو خوب کر سکتا ہے؛مگر کام کی بات کم ہی کرے گا؛ کیونکہ اس کے پاس جو ذخیرۂ الفاظ ہے،وہ شستہ و کارآمد اظہارِ خیال کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
مطالعے سے دوری کی وجہ سے صرف زبان و الفاظ کی محدودیت کا مسئلہ پیش نہیں آتا، یہ ذہن و تخیل کو بھی محدود کردیتی ہے اور فکری افلاس کا بھی سبب بنتی ہے، اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ وہ خیالات و تصورات جن کے ذریعے ہم اپنی حالت کے سربستہ رازوں کو سمجھتے ہیں، وہ الفاظ کے علاوہ کوئی اور وجود نہیں رکھتے اور ہم اچھے ادب (اور صرف اچھے ادب )کے مطالعے سے ہی دقیقہ رس، پختہ، خوب صورت اوردرست گفتگو کا سلیقہ سیکھتے ہیں۔ ادب کے علاوہ فنونِ لطیفہ کا کوئی دوسرا شعبہ یا شاخ اس زبان کی تشکیل نہیں کر سکتی، جس کی لوگوں کو ایک دوسرے سے مکالمہ و ارتباط کے لیے ضرورت ہے۔ اچھی گفتگو کرنا،متنوع تعبیرات اور اظہارِ خیال کے مختلف پیرایوں پر عبور رکھنا، ہر خیال اور عمل مثلاً سوچنے، سکھانے، سیکھنے، بات چیت کرنے ، تصور کرنے، خواب دیکھنے اور محسوس کرنے کے لیے بھی انسان کی تیاری بھرپور ہونی چاہیے ،جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر موقعے کے لیے مناسب الفاظ کے استعمال پر بھرپور قدرت رکھتا ہو۔ غیر محسوس یا خفیہ طورپر ہمارے تمام اعمال دراصل ہمارے الفاظ ہی کی گونج ہوتے ہیں، وہ اعمال بھی جن کا بہ ظاہر زبان و الفاظ سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ جیسے جیسے ادب کی بدولت زبان ارتقا پذیر ہوئی ،وہ نظافت و شستگی کی اعلیٰ سطحوں پر پہنچی، جس سے انسانی لطف اندوزی کے امکانات بڑھ گئے۔
ادب نے تو محبت ، خواہش اور جنسی عمل کو بھی ایک آرٹ کا درجہ دیا ہے۔ ادب کے بغیر انسانی شہوت کا مہذب اظہار ممکن ہی نہیں ہے،اس کے بغیر محبت اور سرور میں کوئی دم نہیں رہ جائے گا، اس کی نزاکت و نفاست جاتی رہے گی، لوگ اس شدت اور لذت کی انتہا کو حاصل کرنے میں ناکام ہوں گے، جو ادبی فنتاسی پیش کرتی ہے۔ یہ کہنا شاید ہی مبالغہ آرائی ہو کہ ایک ایساجوڑا، جس نے گارسیلاسو(Garcilaso)، پیٹرارک(Petrarch)، گونگورا(Gongora) یا بودلیئر(Baudelaire) کو پڑھا ہے وہ اُن اَن پڑھ لوگوں سے زیادہ جسمانی و ذہنی سرور اور اس کے تجربے کی قدر کرتے ہیں، جنھیں ٹیلی ویژن سیریز اور ڈراموں نے بے وقوف بنا رکھا ہے۔ ایک ناخواندہ دنیا میں محبت اور خواہش جانوروں کے جذبۂ تسکین سے مختلف نہیں ہوگی اور نہ ہی وہ ابتدائی جبلتوں کی خام تکمیل سے بالاتر ہوگی۔
اسی طرح سمعی و بصری ذرائع ابلاغ بھی اس وظیفے کی ادائیگی میں ادب کی جگہ نہیں لے سکتے، جو ادب نہایت وثوق و مہارت کے ساتھ انسان کو زبان میں موجود ثروت مند امکانات کے استعمال کی کیفیت سکھاکر ادا کرتا ہے۔ اس کے برعکس سمعی و بصری میڈیا تصاویر کے حوالے سے الفاظ کو ثانوی سطح پر منتقل کرنے کا رجحان رکھتا ہے، جو ان ذرائع ابلاغ کی ابتدائی زبان ہے اور زبان کو اس کی تحریری جہت سے بہت دور، اس کے زبانی اظہار تک محدود کرتا ہے۔ کسی فلم یا ٹیلی ویژن پروگرام کو ’ادبی‘ بتانا یہ کہنے کا ایک خوبصورت طریقہ ہے کہ یہ بورنگ ہے۔ اسی وجہ سے ریڈیو یا ٹیلی ویژن پر نشر کیے جانے والے ادبی پروگرام شاذ و نادر ہی عوام کو اپنی جانب کھینچ پاتے ہیں۔ جہاں تک میں جانتا ہوں اس اصول کی واحد استثنا فرانس میں برنارڈ پیوٹ(Bernard Pivot) کا پروگرام Apostrophes تھا اور یہ مجھے سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ادب نہ صرف مکمل علم اور زبان پر مکمل عبور حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہے؛ بلکہ اس کی تقدیر لازمی طور پر کتاب کی تقدیر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، اُس صنعتی پیداوار سے جسے اب بہت سے لوگ متروک و مہجور قرار دے رہے ہیں۔
یہاں مجھے بل گیٹس کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ وہ کچھ عرصے قبل میڈرڈ گئے تھے اور وہاں رائل ہسپانوی اکیڈمی کا دورہ کیا، جس نے مائیکرو سافٹ کے ساتھ ایک مشترکہ منصوبہ شروع کیا ہے۔ دیگر باتوں کے علاوہ گیٹس نے اکیڈمی کے ممبران کو یقین دلایا کہ وہ ذاتی طور پر اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ کمپیوٹر سافٹ ویئر سے ’fl‘حرف کو کبھی نہیں ہٹایا جائے گا ،یہ ایک ایسا وعدہ تھا، جسے سن کر پانچ براعظموں میں پھیلے چار سو ملین ہسپانوی بولنے والوں نے راحت کی سانس لی، کیونکہ سائبر اسپیس سے اس طرح کے ایک ضروری حرف کے اخراج سے بڑے مسائل پیدا ہوسکتے تھے۔ البتہ گیٹس نے ہسپانوی زبان کو اپنی دوستانہ رعایت دینے کے فوراً بعد اکیڈمی کے احاطے سے نکلنے سے پہلے ہی ایک پریس کانفرنس میں اس بات کا اظہار کیا کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے اعلیٰ ترین ہدف کو پورا کرنے کی توقع رکھتے ہیں،جو کہ کاغذ اور بالآخر کتابوں کو ختم کرنا ہے۔
ان کے خیال میں کتابیں ازکار رفتہ ہوگئی ہیں۔ گیٹس کا یہ کہنا ہے کہ کمپیوٹر اسکرین میں وہ تمام اوصاف موجود ہیں جو کاغذ سے مخصوص سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا اس پر بھی اصرار ہے کہ انسانی انرجی کے کم استعمال کے ساتھ کمپیوٹر جگہ بھی کم لیتا ہے اور زیادہ آسانی سے نقل و حمل کے قابل ہوتا ہے اور یہ بھی کہ اخبارات اور کتابوں کے بجائے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے خبروں اور ادب کی ترسیل سے جنگلات کی تباہی کو روکنے کا ماحولیاتی فائدہ بھی ہوگا؛کیونکہ یہ ایک ایسی تباہی ہے جو کاغذ سازی کی صنعت کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ گیٹس نے اپنے سامعین کو یقین دلایا کہ لوگ پڑھتے رہیں گے؛ لیکن وہ کمپیوٹر اسکرین پر پڑھیں گے اور اس کے نتیجے میں ماحول کی ہریالی و شادابی میں بھی اضافہ ہوگا۔
میں گیٹس کی اس مجلسِ گفتگو میں موجود نہیں تھا۔ مجھے یہ تفصیلات پریس سے معلوم ہوئیں۔ اگر میں وہاں ہوتا تو میں گیٹس کو بے شرمی سے یہ اعلان کرنے کے لیے کہتا کہ وہ مجھے اور مجھ جیسے کتابوں کے مصنّفین کو براہ راست بے روزگاروں کی صف میں بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور میں ان کے تجزیے سے سخت اختلاف کرتا۔ کیا اسکرین میں واقعی کتاب کی تمام خصوصیات آسکتی ہیں؟ مجھے تو ایسا نہیں لگتا۔ میں اس زبردست انقلاب سے پوری طرح واقف ہوں جو انٹرنیٹ جیسی نئی ٹیکنالوجی نے مواصلات اور معلومات کے تبادلے کے شعبوں میں برپا کیا ہے اور میں یہ بھی اعتراف کرتا ہوں کہ انٹرنیٹ مجھے اپنے تحریری و تخلیقی کاموں میں روزانہ قیمتی مدد فراہم کرتا ہے؛ لیکن ان غیر معمولی سہولتوں کے لیے میری شکرگزاری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ الیکٹرانک اسکرین کاغذ کی جگہ لے سکتی ہے یا کمپیوٹر پر پڑھنا مطبوعہ ادب پڑھنے کا متبادل ہو سکتا ہے۔ دونوں میں اتنی وسیع خلیج ہے جسے پاٹا ہی نہیں جا سکتا۔ میں اس خیال کو قبول نہیں کر سکتا کہ پڑھنے کا ایک غیر فعال یا غیر حقیقی عمل، جس کا مقصد نہ تو معلومات کی جستجو ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مفید اور راست ارتباط،وہ کمپیوٹر اسکرین پر خوابوں اور الفاظ کی لذتوں کو اسی احساسِ قربت ، ذہنی ارتکاز اور روحانی گوشہ گیری کے ساتھ یکجا کر سکتا ہے، جن سے مطبوعہ کتاب پڑھنے کے دوران ایک قاری گزرتا ہے۔
ممکن ہے کہ میرا یہ خیال مشق و مزاولت کی کمی اور کتابوں اور مطبوعہ ادب سے طویل وابستگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عصبیت کا نتیجہ ہو؛ لیکن بہرحال یہ حقیقت ہے کہ بھلے ہی میں دنیا کی خبروں کی تلاش میں مختلف ویب سائٹس کے چکر لگاتا ہوں، مگر میں کبھی بھی گونگورا(Gongora) کی نظم یا اونیٹی(Juan Carlos Onetti) کا ناول یا پاز(Octavio Paz) کا مضمون پڑھنے کے لیے کمپیوٹر اسکرین پر نہیں جاؤں گا؛ کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کے پڑھنے کا اثر ویسا نہیں ہوگا، جیسا کتاب پڑھنے کا ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے، گوکہ میں اسے ثابت نہیں کر سکتا، کہ کتاب کی گمشدگی سے ادب کو شدید دھچکا لگے گا، حتی کہ اس کی موت بھی ہوسکتی ہے۔ ’ادب‘ کی اصطلاح تو یقیناً باقی رہے گی،البتہ یہ تقریباً طے ہے کہ اس کا استعمال ایسے متون کے لیے ہوگا، جو ان سے بہت مختلف ہوں گے جنھیں آج ہم ادب کہتے ہیں، ٹی وی سیریلز اور سوفوکیلز اور شیکسپیئر کے المیہ ڈراموں میں جو فرق ہے وہی فرق ہوگا۔
قوموں کی زندگی میں ادب کو اہم مقام دینے کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ اس کے نہ ہونے سے تنقیدی ذہن، جو تاریخی تبدیلی کا حقیقی پیش خیمہ اور آزادی کا بہترین محافظ ہے، ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار ہوگا؛ کیونکہ ہر اچھا ادب اَصالت پسند ہوتا ہے اور جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اس کے بارے میں بنیادی سوالات اٹھاتا ہے۔ تمام عظیم ادب پاروں میں غیر ارادی اور فطری طور پر کہیں نہ کہیں ایک مزاحمتی رنگ پایا جاتا ہے۔ادب ان انسانوں کو کچھ نہیں کہتا، جو اپنی روزمرہ کی زندگی اور روایتی طرزِ حیات سے مطمئن ہیں۔ ادب تو باغیانہ جذبے کی خوراک ہے، عدمِ تعاون کو فروغ دیتا ہے، ان لوگوں کی پناہ گاہ ہے، جن کی زندگی میں کچھ بہت زیادہ یا بہت کم ہے۔ انسان اس لیے ادب کی پناہ میں آنا چاہتا ہے کہ کچھ دیر کے لیے ہی سہی،ناخوشی اور عدمِ تکمیل کے احساس سے چھٹکارا پا سکے۔
ادب ہماری بے اطمینانی کی کیفیت کو محض لمحاتی سکون بخشتا ہے،مگر اسی معجزاتی لمحے میں، زندگی کے اسی وقتی تعطل کے دوران ادبی فنتاسی ہمیں تاریخ سے پرے لے جاتی ہے ، ہم ایک لازوال خطے کے شہری بن جاتے ہیں اور اس طرح خود بھی لافانی ہو جاتے ہیں۔ ہم عام زندگی کے محدود معمولات کے مقابلے میں زیادہ پرقوت، زیادہ ثروت مند،زیادہ گھنیرے، زیادہ خوش اور زیادہ واضح ہو جاتے ہیں۔ کتاب بند کرنے اور افسانہ خوانی سے فراغت کے بعد ہم حقیقی دنیا کی طرف لوٹتے ہیں اور اس کا موازنہ اس شاندار دنیا سے کرتے ہیں، جسے ہم نے ابھی الوداع کہا ہے۔تب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ کتنی مایوسیاں ہماری منتظر ہیں،مگر ان کے ساتھ ہی ایک اور زبردست احساس ہمارا منتظر ہوتاہے، یعنی یہ کہ ناول یا افسانے کی خیالی زندگی اس زندگی سے بہتر ہے، جو ہم فی الحقیقت جیتے ہیں اور جو مختلف حدود و قیود میں گھری ہوئی ہے، یہ خیالی زندگی اس سے زیادہ خوبصورت اور زیادہ متنوع، زیادہ قابل فہم اور زیادہ مکمل ہوتی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو اچھا اور حقیقی ادب ہمیشہ سوال انگیز، غیر آسودگی بخش ، باغیانہ اور دنیا بھر میں جو کچھ موجود ہے، اس کے لیے ایک چیلنج ہوتا ہے۔
ہمWar and Peace یا Remembrance of Things کے مطالعے بعد اپنی اس دنیا میں لوٹتے ہوئے کیسے احساسِ فریب میں مبتلا نہیں ہوں گے، جو بہت معمولی جزئیات اور ہر جگہ حدود و قیود سے گھری ہوئی ہے اور جو ہر قدم پر ہمارے تخیلات کی نفی کرتی ہے؟ دیکھا جائے تو ثقافتی تسلسل اور زبان کو ثروت مند بنانے سے زیادہ انسانی ترقی میں ادب کا سب سے بڑا حصہ یہ ہے کہ وہ ہمیں ( زیادہ تر غیر ارادی طور پر) یہ یاد دلاتا ہے کہ یہ دنیا بہت بری ہے اور جو لوگ اس کے برعکس یعنی طاقت ور اور مرفہہ الحال ہونے کا ڈھونگ کرتے ہیں، وہ دراصل جھوٹے ہیں اور یہ کہ ہم لفظ کی کائنات کو بہتر کر سکتے ہیں اور اسے ان دنیاؤں کے مشابہ بناسکتے ہیں،جن کی تخلیق کی صلاحیت ہمارے تخیل اور ہماری زبان میں موجود ہے۔ ایک آزاد اور جمہوری معاشرے میں ذمے دار اور ناقدانہ مزاج کے شہریوں کا ہونا ضروری ہے ؛تاکہ ہم جن لفظوں کی انجمن میں رہتے ہیں، انھیں مسلسل جانچتے رہیں یا اس کی کوشش کرتے رہیں، گوکہ انھیں اْس دنیا سے زیادہ قریب یا مشابہ بنانا بہت مشکل ہے، جس میں ہم رہنا چاہتے ہیں۔ اور حالتِ موجودہ کے تئیں عدم اطمینان کو فروغ دینے کا اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ اچھا ادب پڑھا جائے۔ تنقیدی ذہنیت رکھنے والے اور خودمختار شہریوں کی تشکیل کا بھی اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں۔
یہ تو حقیقت ہے کہ ادب دنیا کے نقائص کے تئیں اپنے قاری کے شعور کو بیدار کرتا ہے،مگر اس کے معنی یہ نہیں ہیں(جیسا کہ بعض دفعہ خیال کیا جاتا ہے) کہ ادبی متون سماجی ہلچل پیدا کرنے یا انقلابی رفتار کو تیز کرنے میں راست رول ادا کرتے ہیں۔ کسی نظم، ڈرامے یا ناول کے سماجی اور سیاسی اثرات کا پیشگی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا؛ کیونکہ نہ اجتماعی طور پر ان کی تخلیق ہوتی ہے اور نہ اجتماعی طور پر ان کا تجربہ کیا جاتا ہے۔ وہ افراد کے ذریعے تخلیق کیے جاتے ہیں اور انھیں پڑھنے والے بھی افراد ہی ہوتے ہیں اور ان سب کے مطالعے کے نتائج بھی مختلف ہوتے ہیں ، یکساں نہیں ہوتے۔ اس وجہ سے کوئی یقینی راے قائم کرنا مشکل یاتقریباً ناممکن ہے۔ مزید یہ کہ کسی ادب پارے کے سماجی نتائج کا اس کے جمالیاتی معیار سے بہت کم تعلق ہو سکتا ہے؛ چنانچہ Harriet Beecher Stowe کے ایک معمولی ناول نے ریاست ہائے متحدہ میں غلامی کی ہولناکیوں کے خلاف سماجی اور سیاسی شعور بیدار کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا؛ اس لیے اصل بات یہ ہے کہ ادب کے اثرات کی نشان دہی مشکل ہے ، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کا وجود ہی نہیں ہے۔ ہاں،اس حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ ان شہریوں کے عمل سے پیدا ہوتے ہیں ،جن کی شخصیتیں جزوی طور پر کتابوں کے ذریعے تشکیل پاتی ہیں۔
اچھا ادب انسان کی بے اطمینانی کی کیفیت کو وقتی طور پر دور کرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کے تئیں تنقیدی اور غیر روایتی رویہ پیدا کر کے درحقیقت اس میں اضافہ بھی کرتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ادب انسان کو آشوبِ آگہی سے دوچار کرتا اور اسے زیادہ تر ناخوش رہنے کا عادی بنادیتا ہے۔ غیرمطمئن زندگی گزارنا اور دنیا کے ساتھ پیہم برسرِ پیکار رہنا دراصل ایسی چیزوں کی جستجو میں رہنا ہے، جو شاید وجود ہی نہ رکھتی ہوں، یہ بے فائدہ کی مذموم لڑائیوں جیسا ہے، جیسے وہ لڑائیاں جو کرنل اورلیانو بوئنڈیا(گیبریئل گارسیا ماکیز کے ناول ’تنہائی کے سو سال‘کا کردار) نے لڑی تھیں، یہ جانتے ہوئے کہ وہ سب کچھ کھو دے گا۔ یہ سب کچھ سچ ہو سکتا ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ اگر زندگی کے معمولی پن اور گھٹن کے خلاف بغاوت کا وجود نہ ہوتا،تو ہم تاہنوز اپنے وجود کے تشکیلی دور میں ہی رہتے اور انسانی تاریخ پر جمود طاری رہتا۔ کوئی خود مختار فرد نہ جنم لیتا، سائنس اور ٹیکنالوجی نے ترقی نہ کی ہوتی، انسانی حقوق کو تسلیم نہ کیا جاتا اور آزادی کا کوئی وجود نہ ہوتا۔ ان ساری چیزوں نے ناخوشی اور ناکافی یا ناقابلِ برداشت سمجھی جانے والی زندگی کے خلاف باغیانہ کارروائیوں کے بطن سے ہی جنم لیا ہے۔اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اُس جذبے کے لیے ادب ایک عظیم محرک کا کام کرتا ہے، جو زندگی کی یکسانیت پر طعنہ زن ہوتا ہے۔
ایک ایسی دنیا کا تصور کریں،جو ادب سے خالی ہو، ایک ایسے انسانی معاشرے کا، جس نے نظمیں/ غزلیں یا ناول نہ پڑھے ہوں۔ اس قسم کی خستہ حال تہذیب میں الفاظ کا ذخیرہ قلیل تر ہوگا اور چیخنا چلانا یا بندر جیسے اشارے کرنا الفاظ پر غالب ہوگا اور وہ قابلِ ذکر صفات سے خالی ہوگا۔ ان میں Quixotic، Kafkaesque، Rabelaisian، Orwellian، Sadistic اور Masochistic جیسی صفات نایاب ہوں گی،جن کی اصل خالص ادبی ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہمارے بیچ کچھ پاگل ،خبطِ عظمت ، انفعالی کیفیت سے دوچار اور ایسے لوگ پائے جاتے ہوں جو غیر مانوس خواہشات کے مارے اور حدود سے تجاوز کرنے والے ہوں اور ایسے دوپایے جو کسی کو تکلیف پہنچانے یا خود اذیتی سے لطف اندوز ہوتے ہوں؛ لیکن ہم نے رویے کی ان انتہاؤں کے پیچھے جو ہمارے ثقافتی ضوابط کے تحت ممنوع ہیں، انسانی حالت کی ضروری خصوصیات کو دیکھنا نہیں سیکھا۔ ہم اپنی ہی ان خصلتوں کو اس طرح دریافت نہیں کر پاتے، جس طرح سروینٹس(Cervantes)، ریبیلے(Rabelais)، آرویل(Orwell)، ڈی ساڈ(Ðe Sade) اور زاخر-مزوخ (Sacher-Masoch)کی صلاحیتوں نے ان کو ہم پر منکشف کیا ہے۔
تمام عظیم ادبی تخلیق کاروں کی تخلیقات ہماری اپنی جبلت کے نامعلوم پہلوؤں کا انکشاف کرتی ہیں۔ وہ ہمیں عام انسانی پہنائیوں کو مزید مکمل طور پر دریافت کرنے اور سمجھنے کے قابل بناتی ہیں۔ جب ہم ’Borgesian‘ (بورخیسی)کہتے ہیں، تو یہ لفظ ہمارے ذہنوں کی حقیقت کے عقلی ترتیب سے علیحدہ ایک شاندار کائنات میں داخل ہونے کا اشارہ دیتا ہے، ایک ٹھوس اور نفیس ذہنی دنیا میں داخل ہونے کا، جو ہمیشہ پیچ دار اور پرکشش ہوتی ہے، جوادبی حوالوں اور استعاروں میں لپٹی ہوتی ہے، جس کی انفرادیتیں ہمارے لیے اجنبی نہیں ہیں؛ کیونکہ ان کے پس پردہ دراصل ہمارا واسطہ اپنی ہی شخصیت کی پوشیدہ خواہشوں اور اندرونی سچائیوں سے پڑتا ہے اور انھیں یہ شکل جارج لوئس بورخیس کی ادبی تخلیق کی بدولت حاصل ہوئی ہے۔
اسی طرح لفظKafkaesque( کافکائی) کو سن کر ہمارا ذہن قدیم ،بازووں والے کیمرے کی شکل کے اس فوکس مشین کی طرف جاتا ہے جسے دیکھ کر ہم ہربار اپنے آپ کو نہتھے افراد کے مانند خوف زدہ محسوس کرتے تھے، جیسے کہ نئے زمانے میں ظالمانہ اقتداری مشنریز نے انسانی دنیا کو بہت سے درد اور نا انصافیوں سے دوچار کیا ہے۔
ایک اور ادبی اصطلاح Orwellianہے، جس نے اس خوفناک اذیت اور پایابی کو گویائی بخشی، جو بیسویں صدی کی مطلق العنان آمریتوں کی پیدا کردہ تھی، تاریخ کی سب سے منظم، ظالمانہ اور بے لگام آمریتوں کی پیدا کردہ، جن کے قبضہ و تصرف میں انسانی اعمال اور ان کی نفسیات تک تھی۔اپنے ناول ’1984‘ میں جارج آرویل نے ’بڑے بھائی‘ کے سامنے زیر ہوجانے والی انسانیت کی نہایت سرد و دہشت انگیز شکلیں پیش کی ہیں،یہ بڑا بھائی بے لگام ہے، جس نے ٹکنالوجی اور دہشت کے مخلوط استعمال کے ذریعے آزادی،خود مختاری اور مساوات کو تہہِ تیغ کردیا ہے اور تمام انسانی سماج کو ایک خود کارقسم کے شہد کی مکھی کے چھتے میں تبدیل کردیا ہے۔ ایسی خوفناک دنیا میں زبان بھی طاقت کے تابع ہوگئی ہے اور اسے ایک نئی زبان میں تبدیل کر دیا گیا ہے،جو تمام ترایجادات اور ہر قسم کی سبجیکٹیوٹی سے اچھوتی ہے ،جو پامال اور مبتذل الفاظ کے ایک سلسلے میں تبدیل ہو گئی ہے،ایسا سلسلہ جو فرد کو سسٹم کا غلام بناتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ 1984 کی مذموم پیشین گوئی پوری نہیں ہوئی اور سوویت یونین کا مطلق العنان کمیونزم جرمنی اور دیگر مقامات پر فاشزم کی راہ پر گامزن ہوگیا،پھر یہی سلسلہ آگے چین، کیوبا اور شمالی کوریا جا پہنچا،گویا یہ خطرہ اپنی جاے قیام تو بدلتا رہا،مگرکبھی مکمل طور پر دور نہیں ہوا، لفظ ’آرویلین‘ اسی خطرے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اسے سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔
لہٰذا ادب کے غیرحقیقی واقعات اور بیانیے اور اس کے جھوٹ بھی دراصل انسان کی پوشیدہ ترین حقیقتوں کا علم حاصل کرنے کا قیمتی ذریعہ ہیں۔ ادب جن سچائیوں کی نشان دہی کرتا ہے،وہ ہمیشہ مبالغہ آرائیاں نہیں ہوتیں اور کبھی کبھی ناولوں اور نظموں/غزلوں کے آئینے میں خود ایک قاری کی اپنی جو تصویر ابھرتی ہے، وہ ایک عفریت کی تصویر ہوتی ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب ہم ڈی ساڈ کے تصور کردہ خوفناک جنسی قتل عام کے بارے میں پڑھتے ہیں، یا ان سیاہ زخموں اور وحشیانہ قربانیوں کے بارے میں پڑھتے ہیں جو زاخر مزوخ اور باتیل(Bataille) کی کتابوں میں بھری پڑی ہیں۔ بعض اوقات یہ تماشا اس قدر جارحانہ اور وحشیانہ ہوتا ہے کہ ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ پھر بھی ان صفحات کا بدترین پہلو خون، ذلت، ایذا رسانی کی چاہ نہیں ہے،بدترین پہلو یہ ہے کہ یہ تشدد اور یہ زیادتی ہمارے لیے اجنبی نہیں ہے، کہ یہ عالمِ انسانیت کا جزء ِ لاینفک ہے۔ وحشت و درندگی کے شوقین یہ عفریت ہمارے وجود کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے ہیں اور موقع ملتے ہی انسانیت کے خول سے باہر نکلتے اور معقولیت پسندی کا خون کردیتے ہیں۔ یہ سائنس نہیں تھی، جس نے سب سے پہلے انسانی ذہن کی ان تنگنائیوں کا اکتشاف کیااور اس کی دنیا اور خود کو تباہ کردینے کی صلاحیتوں کی نشان دہی کی۔ یہ اکتشاف ادب نے کیا۔ ادب کے بغیر دنیا جزوی طور پر انسانی وجود کی ان خوفناک گہرائیوں کو دیکھ نہیں سکتی، جنھیں ہمیں فوری طور پر دیکھنے اور متنبہ ہونے کی ضرورت ہے۔
ادب کے بغیر یہ دنیا غیر مہذب، وحشی، حساسیت سے عاری، ناپختہ بولیوں اور لکنت زدہ زبان والی، جاہل اور بدو، ہر قسم کے جذبہ و احساس سے دور ، محبت میں خام اور ایک ڈراؤنا خواب ہوگی ، جس کی بنیادی خصلت ہر صورتِ حال کو قبول کرلینا اور ہرطاقت کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا ہوگی۔ اس لحاظ سے یہ ایک خالصتاً حیوانی دنیا بھی ہوگی۔ خِلقی جبلتیں زندگی کے روزمرہ طرزِعمل کا تعین کریں گی جس کی خصوصیت جہدللبقا ، نامعلوم خوف اور جسمانی ضروریات کی تسکین ہوگی۔ اس میں روح کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ اس دنیا میں زندگی کو کچل دینے والی یکسانیت کے ساتھ مایوسی کے دہشت ناک سایے بھی ہوں گے اور یہ احساس بھی کہ انسانی زندگی وہی ہے ،جو اسے ہونا تھا اور یہ ہمیشہ ایسی ہی رہے گی اور کوئی چیز اسے بدل نہیں سکتی۔
جب ہم اس طرح کی دنیا کا تصور کرتے ہیں، تو در اصل لاطینی امریکہ،اوشیانیا اور افریقہ کے دور دراز خطوں میں موجود چھوٹے چھوٹے لنگوٹ بند جادو گر انسانی گروہ کی تصویر ابھرتی ہے،جو جدیدیت و ترقی پسندی سے بہت دور ہیں؛ لیکن میرے ذہن میں کچھ اور ہے۔ میں جس ڈراؤنے خواب کے بارے میں خبردار کر رہا ہوں اس نے ترقی کی کمی سے نہیں، اس کی بہتات سے جنم لیا ہے۔ ٹکنالوجی کی بے چون و چرا تابعداری کے نتیجے میں ہم مستقبل کے ایک ایسے معاشرے کا تصور کر سکتے ہیں، جس میں کمپیوٹر اسکرینز اورا سپیکرز کی کثرت ہوگی اور کتابیں گم ہوجائیں گی یا ایک ایسے معاشرے کا ،جس میں کتابوں کی حالت وہ ہوگی،جو طبیعیات کے دور میں کیمیا کی تھی، ایک ازکار رفتہ شے جو میڈیائی ثقافت کے مدفن میں پڑی ہوگی اور بس کچھ مجنوں صفت لوگ اس سے چمٹے ہوں گے۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ سائبرنیٹک دنیا تمام تر خوش حالی، طاقت و قوت، اعلیٰ معیار زندگی اور سائنسی کامیابیوں کے باوصف بہت حد تک غیر مہذب اور بالکل بے روح ہو گی، جس کے مابعد ادب خود کار دور میں انسانیت اپنی تمام تر آزادی سے دست بردار ؛بلکہ محروم ہوجائے گی۔
حالانکہ فی الحقیقت انتہائی ناممکن ہے کہ یہ مکروہ یوٹوپیا کبھی سامنے آئے گا۔ ہماری کہانی کا اَنت، ہماری تاریخ کا اختتامیہ ابھی تک لکھا نہیں گیا اور یہ کوئی طے شدہ منصوبہ بھی نہیں ہے۔ ہم کیا بنیں گے اس کا انحصار مکمل طور پر ہمارے وِژن اور ہمارے ارادہ و مرضی پر ہے؛ لیکن اگر ہم اپنے تخیل کے افلاس، آزادی کی شکست و ریخت سے بچنا اور اُس قیمتی بے اطمینانی کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں، جو ہماری حساسیت کو نکھارتی اور ہمیں فصیح و بلیغ گفتگو کا سلیقہ سکھاتی ہے، تو عملی اقدام کرنا ہوگا،یعنی ہمیں پڑھنا ہوگا!