میں نے تصوف بہت کم پڑھا ہے اور یوں بھی تصوف پڑھنے سے سمجھ میں نہیں آسکتا کہ تصوف تصور اور نظریہ سے عبارت نہیں ہے بلکہ یہ حرکت و عمل کا نام ہے۔ شاید اسی وجہ سے مرزا اسداللہ خاں غالب نے کہا تھا کہ :
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے گربادہ خوار نہ ہوتا
اگر تصوف محض ایک تصور یا نظریہ ہوتا ہے تو شاید ہزاروں نظریات اور تصورات کی طرح یہ بھی اب تک معدوم ہو چکا ہوتا۔ مگر اس کا تعلق اطلاق و عمل سے ہے۔ اس لیے تصوف عالمی معاشرے میں زندہ اور تابندہ ہے۔
تصوف انسانی وجود کی داخلی روشنی کا نام ہے۔ یہ وہ اندرونی چمک ہے جو انسانی پیکر کو منور اور معطر رکھتی ہے۔ یہ وہ خوشبو ہے جو معاشرے کے پورے وجود کو مہکائے رکھتی ہے۔بہت سے لوگ جو تصوف کے اسرار و رموز اور اصطلاحات، مثلاً تنزلات، شطحیات، تلوین، تمکین، طریقت، معرفت وغیرہ سے قطعی ناواقف ہوتے ہیں وہ بھی تصوف کا مجسم پیکر ہوتے ہیں۔ ساغر صدیقی نے اسی لیے کہا تھا :
یہ جو دیوانے سے دوچار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں
ہر انسان کے وجود میں ایک داخلی اور باطنی روشنی ہوتی ہے radiance inner کا نام تصوف ہے۔ یہ داخلی طلعت جب غائب ہو جاتی ہے تو پھر انسان ایک مادی او ر میکانکی مشین بن کر رہ جاتا ہے اور اس کا منشور صرف مادیت اور منفعت تک محدود رہتا ہے اور اسی وجہ سے وہ ہر طرح کے انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ جب کہ تصوف وہ اضطراب و التہاب ہے جس میں سکون ہی سکون ہے یعنی تصوف وہ درد ہے جو حقیقت میں دوا ہے۔ یہ درد لا دوانہیں ۔یہ ایک غیر مشروط محبت سے عبارت ہے۔ تصوف میں انسانیت اور عشق کو مرکزیت حاصل ہے اور اس کا منشور احترام آدمیت اور تکریم انسانیت ہے۔ محبت کی مثبت قوت کا نام تصوف ہے۔
جس موضوع کا انتخاب کیا گیا ہے اس کے دو شق ہیں۔ ایک سماج اور دوسرا ادب اور دونوں کا تصوف سے گہرا رشتہ ہے۔ دوسری شق کی بات کی جائے تو اردو زبان و ادب کی رگوں میں تصوف کا لہو دوڑ تا رہا ہے اسی لیے اس زبان میں جان باقی ہے۔ جب بھی اس کی جان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو اسے خانقاہ اور درگاہ کی غیر مرئی محبت مل جاتی ہے۔ یہ اردو زبان کیمیائے محبت کی وجہ سے ہی زندہ ہے۔ورنہ یہ زبان کب کی نفرتوں کی نذر ہوجاتی۔ اس حقیقت سے شاید ہی کوئی انکار کرے کہ اردو کو خانقاہوں میں نہ صرف پناہ ملی بلکہ بے پناہ پیار بھی ملا ۔ یہ بات نہ ہوتی تو مولوی عبدالحق جیسے ناقد و محقق اردو زبان کی نشو نما میں صوفیاء کرام کا حصہ جیسی کتاب نہ لکھتے اور نہ ہی ارباب علم و دانش اردو شاعری میں تصوف جیسے موضوعات پر کتب اور مقالات تحریر کرتے۔ یہ حقیقت ہے کہ اردو زبان و ادب پر تصوف کا گہرا اثر ہے اور زیادہ تر شاعروں کے یہاں تصوف کے عناصر ملتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہو جس کی شاعری میں تصوف کا عکس نہ ملتا ہو اور حقیقت یہ ہے کہ اگر اردو شاعری سے تصوف کو منہا کردیا جائے تو اردو کے شعری سرمایہ میں ایک چوتھائی حصہ بھی نہیں بچے گا۔ تصوف اردو شاعری کی جان ہے۔ بہت پہلے مولانا حسرت موہانی نے کہا تھا:
مرا ایماں عجب کیا ہے جو ایمان تصوف ہے
تصوف جان مذہب عاشقی جان تصوف ہے
اردو میں تصوف سے گہری ذہنی مناسبت کی وجہ سے غالب اور تصوف، اقبال اور تصوف، اردو غزل پر تصوف کے اثرات، اردو رباعی میں تصوف کی روایت، اردو شاعری تصوف اور روحانی اقدار، تصوف اور اردو کی صوفیانہ شاعری، غالب اور وحدۃ الوجود، غالب اور تصوف، بہار میں اردو کی صوفیانہ شاعری جیسی بہت ساری کتابیں لکھی گئیں اور اس موضوع کے تمام زاویوں کا احاطہ کر لیا گیا ہے اس لیے اس پر مزید گفتگو محض اعادہ اور تکرار کہلائے گی۔
جہاں تک پہلی شق کی بات ہے تو حقیقت یہ ہے کہ سماج پر تصوف کا نہایت گہرا اثر پڑا ہے۔ اگر تصوف سے سماج کا رشتہ نہ ہوتا تو ہمارا پورا معاشرہ وحشی سماج میں بدل چکا ہوتا۔ آدمی کی شکل و صورت میں ہر طرف خطرناک درندے ہی نظر آتے۔ ہمارا سماج مکروہات اور منہیات کا مجموعہ ہوتا۔ تشدد، قحبہ گری، ڈکیتی، بدعنوانی، کرپشن اور اس طرح کی بہت ساری چیزیں عام ہوتیں۔ منفی رویے،رجحانات اور ذہنیت کی وجہ سے سماج کا شیرازہ بکھرا ہوا ہوتا۔ تصوف ہی کا فیض ہے کہ اس نے سماج کو اخلاقی اور روحانی اقدار سے جوڑے رکھا ہے اور تصوف ہی نے انسانی روح کے خالی پن، ویرانی اور اس خلا کو دور کیا ہے جسے سائنس ٹکنالوجی بھی دور نہیں کر سکتے۔ درگاہوں اور خانقاہوں میں خلقت کا ہجوم اس کا ثبوت ہے کہ انسان روح کی ویرانی کا مداوا صرف تصوف کے پاس ہے۔ خانقاہوں نے عوام کو جوڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خانقاہیں آباد ہیں جب کہ شہنشاہوں کے محل ویران نظر آتے ہیں۔ درگاہوں اور خانقاہوں میں ہر طرف روشنی ہی روشنی ہوتی ہے۔ جب کہ شہنشاہوں کے دربار میں اندھیرے چھائے ہوئے ہیں۔ یہ تصوف کی کرامت نہیں تو اور کیا ہے۔
تصوف نے تطہیر، تزکیہ اور تنقیہ نفس کا وہ منتر دیا ہے جس کے ذریعہ انسان نفس امارہ کی خواہشات ، افعال ذمیمہ اور دیگر منفی عناصر سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ تصوف جہاں تزکیہ کے ذریعہ انسانی وجود سے نفاق، شرک، ریا، بخل، غرور، حب دنیا اور دیگر منفی صفات و حرکات کو ختم کرتا ہے وہیں تحلیل کے ذریعہ وہ بری صفات کو اچھے اوصاف میں تبدیل کرتا ہے۔ انسان کے اندر اخلاص، صدق، شکر، صبر، امید جیسے جذبات پیدا کرتا ہے۔
دراصل تصوف بری عادتوں سے اچھی عادتوں اور مکارم اخلاق کی طرف ہجرت کا نام ہے۔ خالق کے ساتھ مخلوق کا مضبوط رشتہ تصوف کہلاتا ہے۔ mind and soul of detoxification کے لیے اس سے بہتر کوئی نسخہ کیمیا نہیں ہے۔ من کا وش ہرن اسی سے ہو سکتا ہے دوسرا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ کوئی تو وجہ ہوگی کہ پورا ویسٹ آج نغمہ رومی پر جھوم رہا ہے رقص کررہا ہے کلام رومی میں وہ سوز و گداز ہے جس کی دنیا کو آج ضرورت ہے۔ اس میں قلبی اور ذہنی سکون ہے جسے دولت و ثروت سے حاصل نہیں کیا جاسکتا اسے صرف میڈیٹیشن مراقبہ اور روحانیت سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مغرب رومی میں اسلام کا face radiant دیکھتا ہے رومی انہیں رگ جاں کے قریب محسوس ہوتا ہے۔ مغرب مولانا رومی کے کلام سے اپنے مائنڈ کو detoxify کر رہا ہے ۔کیوں کہ مولانا رومی اتحاد اور محبت کی ایک علامت (Icon of Unity and love)اور انسانیت کا مظہر (Epitome of humanity)تھے۔ان کا مذہب اور مشرب صرف انسانیت اور عشق تھا۔اسی وجہ سے مولانا رومی کا نغمۂ محبت اور انسانیت مغربی ذہن وشعور کا بھی ایک حصہ بن چکا ہے۔William Dalrampleنے گارجین میں ایک مضمون لکھاتھا کہ نائن الیون کے بعد جب پوری دنیا میں مسلمانوں کی شبیہ مسخ ہوگئی تھی ، تب بھی امریکہ کا رابرٹ فراسٹ، رابرٹ لوویل، شیکسپئر، ہومر، دانتے، یا یورپین شاعر ہی نہیں بلکہ رومی Best sellingپویٹ تھا۔مغرب میں مولانا رومی کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ جنون اور دیوانگی کی حد تک مولانا رومی سے محبت کرنے والے لوگ ہیں اور ان کی شاعری کو اپنے لیے مسیحائی تصور کرتے ہیں ۔کیونکہ ان کی پوری شاعری انسانوں سے غیر مشروط محبت پر مبنی ہے۔ان کا ایک آفاقی تصور ہے جس میں سب سے زیادہ مرکزیت، انسانیت اور عشق کو حاصل ہے۔ مولانا رومی کو اس بات کا یقین تھا کہ کائنات میں سب سے مضبوط متحد کرنے والی طاقت(Unifying force)صرف محبت ہے اور کائنات کی تمام چیزیں ایک ہی محور پر گردش کرتی ہیں اور اس کا ایک ہی مظہر ہے جس کا نام ’محبت ‘ہے۔وہ کہتے ہیں:
ازمحبت خارہا گل می شود
وزمحبت سرخہا کامل شود
از محبت دار تختی می شود
وز محبت دار بختی می شود
از محبت سجن گلشن می شود
وز محبت خانہ روشن می شود
از محبت نارنوری می شود
وز محبت دیوحوری می شود
مولانا کے نزدیک محبت ہی ہر مرض کی دوا اور ہر مرض کا مداوا ہے ، اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ :
از محبت دردہا صافی شود
ازمحبت دردہاشافی شود
از محبت مردہ زندہ می شود
از محبت شاہ بندہ می کند
مولانا جلال الدین رومی کے خیال میں انسانی نجات یا موکش کے لیے صرف خدا نہیں بلکہ اس کی مخلوق سے بھی محبت ضروری ہے۔ انسان سے محبت کے بغیر کسی کو تقدس حاصل نہیں ہوسکتا ۔مولانا رومی کے خیال میں تمام انسانوں کی جڑ ایک ہے اور جتنے بھی اختلافات ہیں یا تصادم وہ صرف مادّی نقطۂ نظر کی وجہ سے ہے ، روحانی اعتبار سے تمام انسان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔اسی لیے انھوں نے سب سے زیادہ زور انسانیت کی تکریم، احترام آدمیت(Dignity of humanity)پر دیا ہے۔ان کے خیال میں دنیا میں جو بھی تصادم ہے ، وہ صرف مختلف تعبیرات اور منفی تصورات(Negative thoughts) کی وجہ سے ہے۔انھوں نے محبت کی بنیاد پر انسانی رشتے کی جستجو کی اور یہ واضح کیا کہ انسانوں کے درمیان مشترکات ہیں اور تمام مخلوق خدا کا ایک کنبہ ہے۔مولانا رومی کا سارا تصور تشدد، تصادم، تفریق، تعصب کے خلاف ہے اور ان کا سارا زوراتحاد واشتراک، اتفاق واجتماع، تفاوق وتطابق، یکتائی ویکجہتی پر ہے۔انھوں نے یہ واضح کیا ہے کہ مذہبی، نسلی ، قومی اختراق انسانی اشتراک کی راہ میں مانع نہیں ہے۔اسی تنوع میں وحدت ہے ۔ہر سطح پر اختلاف کے باوجود جذباتی سطح پر انسانوں کے درمیان ہم آہنگی ہے۔سب کے دکھ درد ،خواب اور عذاب ایک سے ہیں۔ مذاہب یا تہذیبوں کا اختلاف ، وطنیت ، قومیت یا انسانیت کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے، مختلف شناختوں میں بٹے ہونے کے باوجود ہماری ایک ہی اجتماعی شناخت ہے اور وہ ہے انسانیت۔کوئی سکھ، عیسائی ہندو اور مسلمان ہے مگر انسان نہیں تواس کی حیثیت بے جڑ کے پودے یا شاخ سے گرے ہوئے پتے سے زیادہ نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی اصل جڑ سے دور ہوچکا ہے ۔پوری دنیا کے انسانوں کی ایک ہی جڑ ہے اور وہ انسانیت اور محبت ۔ مولانا رومی کا وہی تصور ہے جو شیخ سعدی کے اس شعر میں بھی واضح ہوا ہے کہ:
بنی آدم اعضائے یک دیگرند
کہ از آفرینش زیک جوہرند
کہ تمام بنی آدم ایک دوسرے کے اعضا کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی پیدائش ایک ہی جوہر سے ہوئی ہے تو پھر یہ تفریق اورتصادم کیوں؟ نسلی، قومی اور مذہبی اختلافات صرف اور صرف انفرادی شناخت نامے ہیں ، اجتماعی شناخت نامہ صرف انسانیت ہے۔اسی لیے انھوںنے نقش دوئی مٹانے ، غیریت کے پردے اٹھانے کی بات کی اور یہ بتایاکہ انسانی تجربوں کے تناظرات (Perspectives)الگ الگ ہوسکتے ہیں، تعبیرات بھی الگ ہوسکتی ہیں ، مگر حقیقت ایک ہے اس کا تصور صرف الگ الگ ہے۔ انھوںنے ایک حکایت کے ذریعے اسے بیان کیا کہ ایک شخص نے چادر آدمیوں کو ایک درہم دیا جن میں ایک ایرانی، دوسرا ترک، تیسرا عرب اور چوتھا آرمینی تھا۔اس ایک درہم سے چاروں اپنی پسند کی چیز خریدنا چاہتے تھے۔اس پر ان لوگوں میں لڑائی ہوگئی۔ایرانی نے کہا کہ مجھے اس ایک درہم کا انگور چاہئے ۔ عرب نے کہا کہ ہمیں انب چاہیے۔ترک نے کہا ازوم چاہیے اور آرمینی نے کہا کہ میں استافیل چاہتا ہوں۔چاروں ایک ہی چیز چاہتے تھے مگر چاروں کی زبان الگ تھی اور وہ ایک دوسری کی زبان سے ناواقف تھے اسی لیے چاروں میں لڑائی ہوگئی ۔سب کی پسند ایک ہی چیز تھی انگور ۔ان کے نام مختلف تھے، مراد ایک تھی۔اسی طرح تہذیب کا معاملہ ہے کہ سب کے راستے الگ الگ ہیں مگر منزل ایک ہی ہے۔جس طرح کعبہ اور کاشی کے بہت سے راستے ہیں۔کعبہ کی طرف ایک ہی راستہ نہیں جاتا ، نہ ہی صرف کاشی کا راستہ متھرا ہوکر جاتا ہے۔رستے الگ ضرور ہیں مگر منزل ایک ہے اور مولانا رومی نے اپنی مثنوی میں اسی منزل کو اپنامرکز ومحور بنایا ہے۔اس لیے وہ کسی بھی طرح کے مذہبی یا تہذیبی اختلاف کے خلاف ہے ۔اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ
ہر نبی ہر ولی را مسلک است
لیک تا حق می برد جملہ یکے است
نبی ہو یا ولی ہو ہر ایک کا اپنا اپنا طریقہ اور اپنا اپنا راستہ ہے لیکن حق تک پہنچنے میں سب برابر ہیں۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ :
پس مگو کہ ایں جملہ دین ہا باطل اند
باطلاں برموئے حق دام دل اند
جملہ ادیان ومذاہب کو کیسے باطلان حق کہا جاسکتاہے ۔سب میں دلکشی اور حق کی بوہے ۔مولانا رومی پولرائزیشن پر نہیں ، ری کنسلیشن پر یقین رکھتے تھے۔ ان کی Pacificismکی بنیاد Penthismاور Loveپر ہے وہ محبت ہی کی نگاہ سے ہی ہر چیز کو دیکھتے ہیں جہاں خدا کے سوا اور کچھ نہیں۔Pacificismکی بنیاد اخلاقی اقدار اور اصولوں پر ہے جہاں نفرت ،تشدد اور بغض وعداوت کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔اس میں ہم آہنگی ہے ۔یہ مکمل طورپر جنگ اور تشدد کے خلاف ہے۔اس فلسفے میں شر بھی ایک اضافی ہے، اس لیے مولانا رومی کا تصور تھا کہ There is no absolute love in the world، ان کی قومیت محبت ہے، ان کا مذہب بھی محبت اور یہی ان کا محبوب بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ہر فکر کا محور اس محبت کو بناتے ہیں جس میں قوت شفا ہے اور جو صرف انسان کی باطنی ذات کو دیکھتا ہے ، خارجی نہیں۔ان کی نظر میں انسانی وجود میں ایک طرح کی مساوات اور وحدت ہے۔وہ کسی بھی سطح پر انسان کی تفریق کے قائل نہیں ہیں۔ان کا خیال ہے کہ سارے انسان اس چراغ کی مانند ہیں جن کی شکلیں تو الگ الگ ہیں مگر روشنی ایک جیسی ہے۔ ان کی نظر میں رنگ ، نسل ،ذات کی تفریق صرف ایک نشانِ امتیاز ہے، ایک شناختی کارڈ ہے مگر اصل تشخص انسانیت ہے۔مولانا رومی فرماتے ہیں:
درمعنی قسمت واعداد نیست
درمعنی تجزیہ و افراد نیست
یک گوہر بودیم چوہم آفتاب
بے گراں بودے صافی ہم چو آفتاب
مولانا رومی تہذیبوں اور مذاہب کے مابین تفریق نہیں تعامل کے قائل تھے ، وہ جانتے تھے کہ تہذیبوں کا تمول تعامل پر منحصر ہے ۔انھوں نے اپنی مثنوی میں جسے ہست قرآں درزبان پہلوی بھی کہاجاتاہے۔اسی انسانیت کادرس دیا ہے اور ان کی پوری زندگی خود بھی انسانی اقدار سے معمور اور متصف تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انسانیت کے جو تقاضے ہوتے ہیں ، ان کی انھوں نے اپنے عمل سے بھی تکمیل کی ۔ان کی پوری زندگی کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ ان کے اندر ایثار بھی تھا، قربانی بھی تھی، تواضع بھی تھی، انکساری بھی تھی، سخاوت بھی تھی ، فیاضی بھی تھی، انسانوں کی خیر خواہی اور دلجوئی بھی تھی اور دل آزاری سے نفرت بھی تھی کہ دل آزاری ان کی شریعت میں گناہ ہے ، وہی جو حافظ نے کہا تھا کہ :
مباش درپہ آزار ہر چہ خواہی کن
کہ در شریعت ماغیرازیں گناہ نیست
مولانا رومی صرف گفتار نہیں ، بلکہ اپنے کردار کے اعتبار سے بھی مکمل طورپر انسانیت پسند تھے۔ان کی ا نسانیت پسندی کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ ایک تنگ راستے سے جارہے تھے ۔آپ نے دیکھاکہ راستے میں کتا سویا ہوا ہے ، آپ وہیں ٹھہر گئے، اتنے میں اس کتے کو کسی نے ہٹادیا، تو آپ نے کہا کہ اسے کیوں بے وقت بیدار کردیا۔کتے کے ساتھ ہمدردی کا جس کا یہ عالم ہو تو انسانوں کے ساتھ اس کا کیا عالم ہوگا۔اسی طرح ایک واقعہ ہے کہ دو لوگ آپس میں جھگڑ رہے تھے، ان میں سے ایک نے دوسرے کو کہا کہ اگر تم مجھ کو ایک بات کہوگے تو ہزار باتیں سنوگے، مولانا نے سنا تو آگے بڑھ گئے اور دونوں سے کہا کہ اگر تم دونوں کو جوکہنا ہے مجھے کہہ لو،اگر تم ہزار بھی کہوگے تو ایک نہ سنوگے۔ مولانا کی زندگی کے جس زاویہ پر بھی نظر ڈالو گے وہاں تصادم، نفرت ، بغض وعناد اورتعصب سے گریز ہی ملے گا۔کیونکہ ان کا دل عشق ومحبت سے معمور تھا، اس لیے ان کے دل میں نفرت کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں بچی تھی۔ان کا تصور تھا کہ محبت ایک ایسی مثبت قوت ہے جو جنگ کو امن ، تلخی کو شیرینی، بد صورتی کو خوبصورتی میں بدل دیتی ہے ، اسی لیے انھوں نے اپنی پوری شاعری کو محبت پر مرکوز رکھا اور اپنی مثنوی میں صرف اور صرف عاشق ومعشوق ، آتما اور پرماتما کی بات کی، انھوںنے اپنے تھیوسوفیکل آئیڈیاز کو اپنی مثنوی میں پیش کیا اور پوری دنیا سے اپنا روحانی تجربہ شیرکیا، جس طرح ڈارون نے دنیا کو جسمانی ارتقا کا ایک فلسفہ دیا، اسی طرح مولانا رومی نے پوری کائنات کو روحانی ارتقا کا ایک تصور دیا ہے۔ ان کے خیال میں ہر انسان کی روح مقدس ہے کہ خدا سے اس کی تخلیق ہوئی ہے اور وہ اشرف المخلوقات ہے۔ وہ دل کو زیادہ اہمیت دیتے تھے جو کہ خدا کا مقام ہے نہ مادی مظاہر کو جو معابد ومنادر کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
مولانا رومی نے جو تصور دیا تھا، آج کے زمانے میں اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے ، انھوں نے کامن لیٹی اور ہیومینٹی کی بات کی تھی اور سماج میں ہم آہنگی کا تصور دیا تھا ، آج کے انٹر کمیونل اور civilistionalڈائیلاگ کے لیے رومی کے خیالات بہت زیادہ مفید ہیں ۔آج جب کہ پوری دنیا میں خوف ودہشت ہے ، تو مولانا رومی نے اپنے افکار کے ذریعہ پوری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ سماج کو خوف ودہشت نہیں ، محبت وانسانیت کی ضرورت ہے۔ اور یہ بھی پیغام دیا کہ انصاف ، مساوات اور رواداری کے بغیر کوئی بھی انسانی معاشرہ مہذب نہیں ہوسکتاکہ انسانیت ہی سے انسانی کائنات کا مستقبل محفوظ ہے ۔ انھوںنے اپنی شاعری کے ذریعے جو پیغام دیا کہ اگر تمام بنی نوع انسان ایک ہے اور خدا کا کنبہ ہے تو پھر مزاحمت نہیں، مفاہمت چاہیے ، مجادلہ نہیں مکالمہ ہونا چاہیے ، وواد نہیں سمواد ہونا چاہیے ، اور اس کے لیے محبت کی نظر ضروری ہے ، یہی نظر ہر فرد کو ایک ہی زاویہ سے دیکھتی ہے اور آج کی دنیا میں ایسی نگاہ محبت کی ضرورت ہے۔ مذہب معاشرے کے لیے لازمی ہے ، مگر خبط مذہب معاشرے کو تباہ وبرباد کردیتا ہے۔ مولانارومی کی مثنوی پوری دنیا میں الگ الگ تہذیبوں اور ثقافتوں میں اسی لیے مقبول ہے کہ انھوںنے اس میں نغمہ محبت وانسانیت کو چھیڑا ہے اور سازاور سوز زندگی کوپیش کیا ہے ،اسی لیے شاید علامہ اقبال نے کہا تھا:
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب وگل ایراں وہی تبریز ہے ساقی
رومی ایک روشنی کا نام ہے ، روشنی کائنات میں جتنی پھیلتی جائے گی، اندھیرے دور ہوتے جائیں گے۔ اس روحانیت اور روشنی کی بازیافت ہر سطح پر خاص طورپر آج کے متصادم ماحول میں بہت ضروری ہے کہ انسانی کائنات کو نفرتوں کے اندھیروںکی نہیں بلکہ محبتوں کے اجالوں کی ضرورت ہے۔
تصوف کا منشور عالمی بحران انتشار اور اضطراب کو دور کر سکتا ہے تصوف ایک طرح سے کیتھارسس کا عمل ہے۔
تصوف کو اگر صحیح طور پر پیش کیا جاتا تو آج ہمیں اسلامو فاشزم اور اسلاموفوبیا کی اصطلاح سننے اور پڑھنے کو نہیں ملتی اور نہ ہی اسلام اور ٹیرررازم بہت سے منفی ذہنوں کو Identical محسوس ہوتے ۔ تصوف تو سماجی مذہبی نسلی طبقاتی فاشزم کے خلاف ہے آج کاسٹ فاشزم نے سماج کا ذہن زاویہ جغرافیہ بدل گیا ہے۔ تصوف نے اس تقسیم و تفریق کو ختم کرنے کی کوشس کی تھی۔ آج دنیا میں Interfaith Harmony پر ڈسکورس کا سلسلہ شروع ہے۔ تصوف نے پہلے ہی بین مذاہب ہم آہنگی کا راستہ دکھایا تھا۔ اس پر عمل کیا جاتا تو شاید آج معاشرے میں اتنا انتشار نہ ہوتا۔ بہت پہلے ایک شعر کہا گیا تھا:
در حیرتم کہ دشمنی کفر و دیں، چرا است
ازیک چراغ کعبہ و ب خانہ روشن است
(میں کفر اور اسلام کی دشمنی پر حیران ہوں جب کہ ایک ہی چراغ سے کعبہ و بت خانہ روشن ہیں)
یہی اصل انسانی مذہب ہے اور صوفیا کرام نے اسی مذہب کی ہمیشہ تبلیغ اور تلقین کی ہے۔ اکبر الہ آبادی نے اسی لئے کہا تھا:
نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
اور حقیقت یہی ہے کہ چاہے دین کا علم کتابوں سے مل جائے لیکن تدین بزرگوں کی صحبت سے ہی پیدا ہوتا ہے۔آج کے معاشرہ میں دین تو ہے مگر تدین نہیں۔ اسی لیے ہمارے معاشرے میں تفریق اور تعارض ہے۔ جب کہ تصوف میں معارضت نہیں، مفاہمت پر زور ہے۔
آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ تصوف ہماری زندگی کے لیے Essential ہے۔ تصوف سے ہی ہمیں روشنی ملک سکتی ہے۔ اسی لیے آج ہی معاشرے میں رومی، عطار، سنائی، ابن الفارض، ابوالخیر ابن عربی، عبدالقادر جیلانی، جنید بغدادی، ابراہیم ادہم کو مرور ایام کے باوجود وقت نے فراموش نہیں کیا ہے بلکہ ذہنوں مزید تابندگی کے ساتھ زندہ کیا ہے۔ چونکہ انہوں نے جو تین راہیں دکھائی ہیں۔راہِ عمل (کرم) راہِ علم (گیان)، اور راہ ریاضت(بھکتی)یہی اخروی اور دنیوی فوز و فلاح کی راہیں ہیں اور انہی راہوں پر چل کر ہم لوگ اس منزل تک پہنچتے ہیں جو ہماری تخلیق کا مقصد و منشا ہے۔