Home تجزیہ بات یوگی اور اعظم خان کی !۔ شکیل رشید

بات یوگی اور اعظم خان کی !۔ شکیل رشید

by قندیل

بات آج یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ہوگی ۔ یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ ، یوگی کی بات کیوں ؟ جواب ہے کہ کیا کیا جائے ، بات اعظم خان کی ہونی ہے اس لیے یوگی کا ذکر آئے گا ہی ۔ اعظم خان کے نام کے ساتھ یوگی کا نام لینا ان دنوں ناگزیر ہو چکا ہے ۔ اعظم خان کے ساتھ جو ہوا ، اور ہو رہا ہے ، اس کی بنیادی وجہ اُن سے یوگی کی شدید ترین نفرت ہے ۔ اسے شدید ترین مسلم دشمنی بھی کہا جا سکتا ہے ۔ یوگی خود کو ’ ہندوتوا کا مشعلچی‘ سمجھتے ہیں اور اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ خود کو دوسروں کے مقابلے سب سے بڑا ’ ہندوتوادی ‘ ثابت کریں ، اور یہ ثابت کرنے کے لیے اس سے بہتر اور کیا ہوگا کہ اعظم خان کو نشانہ بنا کر ، ساری مسلم اقلیت کو متنبہ کر دیں کہ ’’ جب سماج وادی پارٹی کا اتنا بڑا لیڈر میرے سامنے نہیں ٹھہر سکا تو تم سب کیا ٹھہر سکو گے ‘‘۔ اعظم خان پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے ۲۰۱۹ء میں لوک سبھا کے لیے الیکشن مہم کے دوران رامپور میں نفرت انگیز تقریر کی تھی ، اور اپنی تقریر میں یوگی و مودی رامپور ڈی ایم کے خلاف ’ نفرت کی بولی ‘ بولی تھی ۔ باالفاظ دیگر اعظم خان کا خاص نشانہ یوگی اور مودی تھے ۔ عدالت نے اعظم خان کو مجرم قرار دیا ہے ۔ چلومان لیا کہ اعظم خان مجرم ہیں ، لیکن حکام سے یہ سوال تو کیا ہی جا سکتا ہےکہ یہ جو یوگی اور مودی اور ان کے گرگے بولتے ہیں کیا وہ ’ نفرت کی بولی ‘ نہیں ہے ؟ آخر کیا وجہ ہے کہ جب یوگی قبروں کو کھود کر مُردہ خواتین کو نکال کر اُن کی عصمت دری کی بات کرتے ہیں تو اُسے ’ ہیٹ اسپیچ ‘ نہیں مانا جاتا ، جب امیت شاہ کہتے ہیں کہ کرنٹ شاہین باغ تک جائے تو وہ ہیٹ اسپیچ نہیں مانی جاتی ، جب پرویش ورما مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کا نعرہ لگاتے ہیں تب وہ ’ ہیٹ اسپیچ ‘ نہیں مانی جاتی ، جب اس ملک میں ’ دیش کے غداروں کو ، گولی مارو سالوں کو ‘ کے نعرے لگتے ہیں اور دہلی جل اٹھتی ہے ، تب بھی وہ نعرہ ’ ہیٹ اسپیچ ‘ نہیں مانا جاتا ، لیکن جب کسی اعظم خان کی زبان سے کسی بی جے پی لیڈر کے لیے ’ کُتے کے بچے کے بڑے بھائی ۔۔۔ ‘ کا جملہ نکل جاتا ہے ، تو فوراً اسے ’ ہیٹ اسپیچ ‘ مان لیا جاتا ہے ! کیا صرف اس لیے کہ اعظم خان ایک خاص فرقے کی نمائندگی کرتے ہیں ؟ وہ ایک مسلمان لیڈر ہیں ، اس لیے ؟ کیا کسی کو یاد نہیں ہے کہ کس طرح ہمارے وزیراعظم نے ایک مخصوص فرقے کو ’ کتے کا پلّا ‘ سے تشبیہ دی تھی ؟ لفظ کتا اعظم خان نے استعمال کیا تو اسے ’ ہیٹ اسپیچ ‘ مان لیا گیا لیکن جب پی ایم نے استعمال کیا تھا تو وہ جائز تھا ! کیا یہ دوغلا معیار نہیں ہے ؟ یوگی آج فرقہ پرستوں کی آنکھ کا تارا ہیں ، اس کی وجوہ ہیں ، انہوں نے یوپی میں مسجدیں شہید کروائی ہیں ، بارہ بنکی کی شہید مسجد غریب نواز کی زمین پر ایک پارک کا سنگ بنیاد رکھوایا ہے ۔ کورونا سے متاثر یوپی میں کوئی اسپتال نہیں بنوایا جارہا ہے مگر مسجدوں کی زمین پر ، ایودھیا میں رام مندر اور بارہ بنکی میں پارک بن رہا ہے ۔ یہ یوگی کا ’ ہندوتوا ‘ ہے ۔ بات صرف مسجدوں کی شہادت کی ہی نہیں ہے ، اب تو وہ مسلمانوں کے ان گھروں کو جو سو سو سال سے بھی زیادہ قدیم ہیں اجاڑنے پر کمربستہ ہوگئے ہیں ۔ سی اے اے مخالف تحریک کے دوران وہ مسلمانوں کی املاک کو ہتھیا چکے ہیں ۔ بہت سارے مسلم سیاست دانوں کو غنڈہ ایکٹ کے تحت سلاخوں کے پیچھے کروا کر ان کے مکانوں پر بل ڈوزر چلوا چکے ہیں ۔ اور یہ ان کی ہی سرکار ہے جو یوپی کے ان اضلاع اور مقامات کو ، جن کے ناموں سے تھوڑا بھی ’ مسلمانیت‘ جھلکتی تھی خالص ’ سنسکرت نام‘ دے چکی ہے ۔ ان کی حکومت میں ہی وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ و مسجد کی جگہ منادر بنانے کی تحریک تیزہوئی ہے ۔ ماب لنچنگ کے واقعات ہورہے ہیں ۔ تو یوگی کی ’ زہریلی نیّا ‘ پوری رفتار سے رواں دواں ہے ۔ پہلے بھی یہ کہہ چکا ہوں پھر کہہ رہا ہوں کہ حالات بہت اچھے نہیں ہیں ، پوری کوشش ہے کہ مسلمانوں کو اقتدار کے گلیاروں سے ڈھکیل کر باہر کر دیا جائے تاکہ یہ جمہوریت ، سیکولرزم اور آئین کے نام پر کوئی جائز مطالبہ بھی نہ کر سکیں ۔ اس کے لیے کیا یہ جا رہا ہے کہ قانون ساز اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی گھٹائی جا رہی ہے ، اب نام کے مسلمان ، جیسے کہ مختار عباس نقوی اور سید شاہنواز حسین بھی کھٹک رہے ہیں ۔ یوگی نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کیا کہ ایک منتخب نمائندے کو ہی اسمبلی کی رکنیت سے محروم کرا دیا ۔ ممکن ہے کہ دوسری جگہوں پر بھی یوگی کا فارمولہ اپنایا جائے اور کامیابی حاصل کی جائے ۔ جب سرکار ان کی ہے ، تو کسی کا کیا خوف !

You may also like

Leave a Comment