Home تجزیہ ابھی سے فکر کیجیے-ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

ابھی سے فکر کیجیے-ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

by قندیل

 

ملک کے ظالمانہ قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہروں کو دو ماہ سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے _ نوجوانوں کے جو مظاہرے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے شروع ہوئے تھے وہ بہت سی دیگر یونی ورسٹی میں بھی ہوئے ، اس کے بعد پورے ملک میں پھیل لگے _ جلد ہی جنوبی دہلی کے ‘شاہین باغ’ میں خواتین نے محاذ سنبھالا ، جس کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی اور اس کے طرز پر ملک میں جگہ جگہ ‘شاہین باغ’ قائم ہو گئے _ ان مظاہروں کی شدّت میں اب تک کوئی کمی نہیں آئی ہے اور امید ہے کہ یہ ابھی کچھ اور عرصہ جاری رہیں گے _

مظاہروں کا ایک فائدہ تو یہ سامنے آیا کہ حکم راں جماعت کی جو ہیبت عوام کے دلوں میں بیٹھی ہوئی تھی اس میں بہت حد تک کمی آئی ، مظاہروں میں ظلم اور نا انصافی پر مبنی حکومتی پالیسیوں کا کھل کر تجزیہ کیا گیا ، جس سے عوام میں بیداری آئی اور وہ اپنے بھلے بُرے کی تمیز کرنے لگے _ ان کا دوسرا فائدہ یہ دکھائی دیا کہ نوجوانوں کی قائدانہ صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ، مسائل کا ادراک اور تجزیہ کرنے اور ان پر پورے اعتماد کے ساتھ اظہارِ خیال کرنے کی ان کی صلاحیت بڑھی _ مختلف چینلس اور نیوز پورٹلس نے ان مظاہروں کو کَوَر کرنے کی کوشش کی تو ان کے اینکرس اور رپورٹرس کے سوالات کے جوابات نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے جس خود اعتمادی اور مہارت کے ساتھ دیے ہیں اس سے ملک کا مستقبل ان کے ہاتھوں میں محفوظ ہونے کی امید بندھتی ہے _ ان مظاہروں سے حاصل ہونے والے کچھ اور فائدے بھی بیان کیے جاسکتے ہیں ، لیکن امّت کے باشعور طبقے کو ان نقصانات کی بھی فکر کرنی چاہیے جو ان مظاہروں سے مسلم نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو پہنچ سکتے ہیں _ ممکنہ نقصانات کے کچھ اشارے ملنے لگے ہیں _ ان کے تدارک کی ابھی سے فکر کرنی ضروری ہے _ اگر ان پر بروقت توجہ نہ دی گئی اور غفلت برتی گئی تو بعد میں بڑا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور اس وقت کفِ افسوس ملنے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوگا _

جاری مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کی غالب اکثریت مسلم نوجوان لڑکوں ، لڑکیوں اور خواتین پر مشتمل ہے ، اگرچہ مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ بھی قلیل تعداد میں شریک ہیں _ ان میں اظہارِ خیال کرنے والے وہ تمام لوگ ہیں جو حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں سے نالاں ہیں اور انہیں ظالمانہ و جابرانہ سمجھتے ہیں _ مقرّرین کی بڑی تعداد کمیونسٹ فکر و فلسفہ والوں کی ہے ، جو اگرچہ ہندوتوا کے سخت خلاف ہیں ، لیکن وہ تمام مذاہب سے فاصلہ بناکر رکھتے ہیں اور ان پر تنقید کرنے سے نہیں چوکتے _ اسلام کا بھی اس سے استثنا نہیں ہے _ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان مظاہروں کو مذہبی شناخت کے اظہار سے دور رکھا جاتا اور سب مل کر صرف اصل مقصد (ظالمانہ قوانین کی مخالفت) پر فوکس کرتے ، لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا ہے ، چنانچہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایسے کام کیے جانے لگے اور ایسی سرگرمیاں انجام دی جانے لگیں جو وحدتِ ادیان تک لے جانے والی ہیں _ تمام مذاہب کے مراسم سب مل کر انجام دیں ، یہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے مظاہرہ کا درست طریقہ نہیں ہے _ اسلام عقائد اور طرزِ معاشرت کے معاملے میں بہت حسّاس ہے _ وہ اپنے ماننے والوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ نام نہاد ہم آہنگی کے اظہار کے لیے آنکھ بند کرکے شرکیہ نعرے لگائیں اور دوسری قوموں کی مشابہت اختیار کرلیں _ ظلم کے خلاف مشترکہ جدّوجہد کی متعدد مثالیں سیرت نبوی سے پیش کی جاسکتی ہیں ، لیکن یہ دوسروں کی شرائط پر اور ان کے ہرکارے اور پیادے بن کر نہیں ، بلکہ اپنی شرائط پر اور اپنے دین کی بنیادی قدروں کی رعایت کرتے ہوئے ہونا چاہیے _

اس سلسلے میں وہ لوگ زیادہ مفید نہیں ہوسکتے جو ان مظاہروں میں عملاً شامل نہیں ہیں اور محض دور کے تماشائی ہیں ، بلکہ وہ نوجوان لڑکے ، لڑکیاں اور خواتین اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جو ابتدا سے ان مظاہروں کو منظّم کررہے ہیں ، ان میں انجام دی جانے والی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں اور انھیں صحیح سمت دینے پر قادر ہیں _ انہیں ابھی سے اس کی فکر کرنی چاہیے کہ کچھ عرصے کے بعد جب یہ مظاہرے ختم ہوں گے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلم نوجوان لڑکوں ، لڑکیوں اور خواتین کا اغوا ہوچکا ہو اور غیر اسلامی افکار و نظریات ان کے ذہنوں میں گھر کر چکے ہوں _

میں بہ خوبی جانتا ہوں کہ ان مظاہروں میں شامل نوجوان لڑکوں ، لڑکیوں اور خواتین کی خاصی تعداد اسلام پسند ہے _ وہ بغیر کسی تکلّف اور جھجھک کے دینی شعائر پر برملا عمل کرتے ہیں _ اس موقع پر ان کی ذمے داری بڑھ کر ہے _ انہیں ابھی سے ان اندیشوں کا تدارک کرنے کی فکر کرنی چاہیے جو ان کے ساتھیوں پر مستقبل میں ان مظاہروں کے پڑنے والے اثرات کے سلسلے میں لاحق ہیں _ اللہ تعالیٰ انھیں توفیق مرحمت فرمائے ، آمین _

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment