دو ہزار چوبیس میں جن شعرا کے شعری مجموعے منظر عام پر آئے اور میری نظر سے گزرے ان میں شہرام سرمدی کا حواشی امیر حمزہ ثاقب کا کنج سیار گاں اور عبدللہ ندیم کا بوئے دوست میرے نزدیک بے حد اہم ہیں۔ یہاں حواشی اور کنج سیار گاں کو میں نے دانستہ دو ہزار چوبیس میں درج کیا ہے جبکہ میرا گمان ہے کہ حواشی دو ہزار تیئیس کے آخیر میں منظر عام پر آیا ہوگا کیونکہ کتاب میں سال تو درج ہے مگر ماہ اہتمام سے درج نہیں ہے۔ کنج سیار گاں کی دسمبر دو ہزار تیئیس کی تاریخ ضرور ملتی ہے۔ یہ دونوں مجموعے مجھے تاخیر سے دو ہزار چوبیس کے نصف میں موصول ہوئے۔ اور اب مطالعہ کرتے کرتے دو ہزار پچیس شروع ہو چکا ہے۔ حال یہ ہے کہ یہ تینوں مجموعے ہر روز نصف شب کی تنہائی میں میرے سرہانے رہتے ہیں۔ کیونکہ یہی وقت میری اپنی ذات اور ذوق کے لئے میرے حصے میں آیا ہے۔ میرے لئے مسئلہ یہ ہے کہ یہ تینوں مجموعے بہت اہم ہیں اس لئے تینوں مجموعوں میں سے تبرکاً ایک دو فن پارے ہر شب نوش فرما لیتا ہوں۔ یوں اپنے ذوق کی بھوک مٹاتا ہوں۔ ان مجموعوں سے سرسری گزر جانا میرے لئے بہت ہی مشکل ہے۔ کیونکہ یہ مجموعے خود ہی اپنے قاری کو سرسری گزرنے کا ذرا بھی موقع نہیں دیتے۔ ایک بار کوئی ان کی گرفت میں آ جائے تو یہ اپنی فکری اور فنی زنجیروں سے قاری کو ایسے جکڑ لیتے ہیں کہ ان کی گرفت سے نکل پانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں آپ سوچ سکتے ہیں کہ ہر مجموعہ کتنے سارے وقتوں کا متقاضی ہوگا۔ متقاضی اس لیے کہ اگر ہم نے کتاب کو ٹھہر ٹھہر کر نہیں پڑھا تو سمجھو ہم نے اس کا حق بھی ادا نہیں کیا۔ صرف سرسری گزر جانے کے بعد اگر قاری نے کلام یا صاحب کلام پر اپنی کوئی رائے پیش کی تو وہ رائے کھوکھلی اور پھس پھسی سمجھی جائے گی۔ چونکہ میرے سامنے تین بہت ہی اہم مجموعے تھے۔ اسی الجھن کو دور کرنے کے لئے میں نے یہ طے کیا کہ سب سے پہلے عبدللہ ندیم کے تازہ شعری مجموعہ بوئے دوست سے سیرابی حاصل کی جائے۔ بوئے دوستے کو پڑھنے کے بعد یہ چند سطور اسی مطالعہ کا نتیجہ ہیں جو میں یہاں رقم کر رہا ہوں۔ اس کے بعد باقی دونوں مجموعوں پر انشاء اللہ ضرور گفتگو ہوگی۔ آپ حضرات سوچ رہے ہوں گے اگر گفتگو عبدللہ ندیم کے مجموعے پر ہی کرنی تھی تو باقی دو حضرات پر اتنی لمبی تمہید باندھنے کی کیا ضرورت تھی۔ دراصل یہ تینوں شعراء ایک ہی قبیل کے ہیں اس لئے ان کا ذکر یہاں بے جا نہ ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ یہاں ان شعراء کا ذکر میں نے مجموعے کے حصول میں رسید کے طور پر بھی کیا ہے۔ جو میرا اخلاقی فریضہ ہے۔ تیسری بات یہ کہ یہ تینوں مجموعے مجھ تک ایک ہی وقت میں پہنچے۔
غالباً دو یا ڈھائی سال قبل فیس بک پر پوسٹ کی چھان پھٹک کرتے ہوئے کسی پوسٹ میں اتفاقاً مجھے ٹھیک سے یاد نہیں شاید سالم سلیم نےہی عبداللہ ندیم کا کوئی شعر یا غزل شیئر کی تھی ۔ کلام کی پرکاری برجستگی اور معیاری ہونے کی خوبیوں نے میرے دل میں یہ تجسس پیدا کیا کہ ان شاعر کا پروفائل دیکھا جائے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے سالم سلیم کو اگر کسی کا کلام پسند آجائے تو وہ اسے اپنی وال پر شیئر کرتے ہیں۔ اور یہ بات قابل ستائش ہے۔ ورنہ آج کل کون کس کو پوچھتا ہے۔ عبداللہ ندیم کی دریافت سے ایک اور شاعر کی کھوج یاد آئی۔ صابر بھی ایسے ہی کسی طرح دریافت ہوئے تھے۔ اسی طرح بہت خوبصورت لب ولہجہ کے نوجوان شاعر محب وفا سے بھی فنی شناسائی ہوئی۔ یہاں ایک بات اور ذہن میں آ رہی ہے کہ ان دنوں اردو میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کرنے والے حضرات نہیں بلکہ طبعی ڈاکٹر اردو شعر و ادب میں کمال اور اپنا جوہر دکھا رہے ہیں جس میں ڈاکٹر ارشد جمال صارم کا نام سر فہرست ہے۔
عبدللہ ندیم کے کلام نے پہلی ہی ملاقات میں اپنا بھرپور تعارف پیش کیا۔ فیس بک پر ہی میں نے عبداللہ ندیم کی کچھ غزلیں پڑھیں۔ عبدللہ ندیم کو پڑھتے ہوئے اس بات پر حیران تھا کہ اتنا معیاری کلام ہونے کے باوجود میں نے ان کا نام پہلے کبھی بھی نہیں سنا نا ہی کسی رسالے یا اخبار میں ان کا کلام میری نظر سے گزرا۔ کلام سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی بزرگ شاعر ہیں اور گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ زبان و بیان پر جو گرفت میں نے محسوس کی لگتا تھا کہ کوئی بہت پڑھا لکھا شاعر ہے اور دہائیوں کی ریاضت نے کلام میں یہ خوبی پیدا کر دی ہے۔ عبداللہ ندیم کے کلام کی جس خوبی نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ زبان تھی۔ جس طرح کی زبان میں نے ان کے کلام میں دیکھی وہ تو آج سے سو دیڑھ سو سو سال قبل ان شعراء کے یہاں استعمال کی جاتی تھی جن کا نام آج ہم بڑے ادب سے لیتے ہیں۔ روز مرہ کے محاورں کو شعر میں اتنی عمدگی سے برتنا۔ مصرعوں میں جگہ جگہ اردو اور فارسی کی تراکیب کا خوبصورت امتزاج اس پر خوبی یہ کہ تراکیب بھی وہ جو بہت دور کی نہیں ہوں جن سے ہر نیا اور پرانا بخوبی واقف ہو جن کے سمجھنے میں کسی کو کسی بھی قسم کی کوئی کسرت بھی نہیں کرنی پڑتی۔ اس پر مصرعوں میں تراکیب کا بر محل استعمال جو شعر میں چار چاند لگا دیتے ہیں۔ مصرعوں میں کہیں بھی کسی بھی طرح کا کوئی جھول نہیں۔ بھرتی کے الفاظ بمشکل ملیں گے۔ ہر شعر کسا ہوا۔ مصرع اول مصرع ثانی سے ربط رکھتا ہوا جو شعر کو نہ صرف جسمانی اعتبار سے بلکہ مضامین کی کسرت اور تہ داری کی خوبی کی وجہ سے باطنی اعتبار سے بھی شعر کو جاندار بنا دیتا ہے۔ اس پر سونے پہ سہاگا عبداللہ ندیم کا شعر میں ذاتی رنگ و اسلوب۔ اتنی ساری خوبیوں کے ساتھ عبداللہ ندیم جیسے بزرگ شاعر کی میرے دل میں جو عزت بنی اسے میں بیان نہیں کر سکتا۔ یہ بات تو صاف ہے عبداللہ ندیم کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی ان کی اردو زبان سے شناسائی ہے۔ کسی بھی زبان کے ادب کی بنیاد اور اصل خود اس کی زبان ہوتی ہے۔ ہم جس زبان میں ادب لکھ رہے ہیں اور پھر اس زبان سے ہی واقف نہ ہوں تو وہ محض چند لفظوں کا بے معنی کھیل بن کر رہ جاتا ہے۔
عبدللہ ندیم نہ اردو میں پی ایچ ڈی کی سند رکھنے والے ڈاکٹر ہیں نہ پروفیسر اس کے باوجود زبان خصوصاً نثر پر ان کی گرفت کمال کی ہے ۔نثر کی یہ خوبی آج کے ان پروفیسر حضرات کے یہاں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی جو خود کو اردو کا استاد بتاتے ہیں۔ جس طرح سے کوئی بہت اچھی شاعری خود کو قاری سے پڑھواتی ہے اسی طرح عبداللہ ندیم کی نثر بھی قاری کو پڑھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ عبداللہ ندیم کی نثر کو پڑھتے ہوئے قاری ذرا بھی نہیں اکتاتا۔ ان تمام خوبیوں کے پیچھے بچپن سے ان کی تعلیمی تربیت اور ادبی ماحول کا اثر ہے۔ جیسا کہ انہوں نے بوئے دوست کے اقبالیہ بیان میں درج کیا ہے۔
آپ کے ذہن میں یہ بات ضرور کھٹک رہی ہوگی کہ میں نے عبداللہ ندیم کو بزرگ شاعر کیوں کہا۔ جی ہاں جب تک عبداللہ ندیم سے فون پر میری گفتگو نہیں ہوئی تھی تب تک میں انہیں بزرگ ہی سمجھتا تھا۔ عبداللہ ندیم نے بڑی سادگی سے مجھے یہ بات بتائی کہ وہ ادب میں بالکل نو وارد ہیں ۔ لاک ڈاؤن کے دوران انہوں نے شعر کہنا شروع کیا۔ یہ بات میرے لئے بہت چونکانے والی تھی کہ محض تین چار سالوں میں کسی کی شاعری کی عمر اتنی طویل کیسے ہو سکتی ہے۔ کوئی طفل اتنا سنجیدہ اور اتنا بزرگ کیسے ہو سکتا ہے۔ ادب میں جن نئے اور پرانوں کو میں جانتا ہوں۔ خصوصاً جنہیں اپنے پرانے ہونے پر زعم ہے۔ یا جنہیں اپنے بڑے شاعر یا نثر نگار ہونے پر فخر ہے۔ وہ عبداللہ ندیم کے اس مختصر سے ادبی سفر کی عمر اور سرمایہ کے آئینے میں خود کو جھانک کر دیکھیں تو خود کو بہت چھوٹا محسوس کریں گے۔ میں نے معاصر پروفیسر اور لیکچرر حضرات کو بھی دیکھا ہے۔ برسوں کی ریاضت دن رات زبان و بیان میں کھوئے رہنا میر غالب اور تمام اساتذہ کے سائے میں ادبی پرورش پانا اس کے باوجود بھی ان کے یہاں ادب کی وہ سوجھ بوجھ اور شعور پیدا نہیں ہوتا جو ہونا چاہیے۔ میں کسی خاص حلقہ اربابِ پر طنز نہیں کر رہا ہوں۔ نہ ہی میری ان سے کوئی ذاتی دشمنی ہے۔ میں صرف ادب کے حوالے سے بات کر رہا ہوں۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ کسی شخص پر ماحول اسی وقت پوری طرح سے اثر پذیرہوتا جب کوئی اس کے اثرات خود سے قبول کرنا چاہے۔ ورنہ ہلکے پھلکے اثرات تو سبھی پر مرتب ہوتے ہیں۔ لاک ڈاؤن سے اب تک کے مختصر وقفے میں عبداللہ ندیم نے جتنا بھی ادب پڑھا چاہے وہ نثر ہو یا شاعری ان کے بڑے اثرات ان کی شاعری اور نثر میں صاف جھلکتے ہیں۔ عبداللہ ندیم نثر میں مشتاق احمد یوسفی کے دیوانے ہیں تو شاعری میں میر کے مرید۔ اب جن کے پیر ہی ایسے ہوں تو ان کی کرامات بھی بڑی ہی ہوں گی۔
بوئے دوست پر بہت سے ذی شعور حضرات نے اپنے تاثرات پیش کئے ہیں۔ ان لوگوں نے بھی لکھا ہے جو ادب کو بخوبی سمجھتے ہیں اور ان لوگوں نے بھی خامہ فرسائی کی ہے جو بہت تھوڑا جانتے ہوئے بھی بہت جانکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہر شخص اپنی بساط کے بقدر لکھتا ہے مگر کچھ لوگ احساس کمتری کا شکار ہو کر حد سے تجاوز بھی کر جاتے ہیں۔
برادرم شہرام سرمدی نے بوئے دوست کا فلیپ لکھ کر اپنی ذمے داری پوری کی۔ مگر کتاب کی اشاعت کے بعد فیس بک پر مزید گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے عبدللہ ندیم کو محترم کوثر مظہری صاحب کے ساتھ کھڑا کر دیا۔ محترم کوثر مظہری بہت اچھے شاعر ہیں میں اخلاقاً اور ادبی اعتبار سے ان کی بہت عزت کرتا ہوں مگر جب برادرم شہرام سرمدی نے عبداللہ ندیم اور کوثر مظہری صاحبان کو ایک ہی خانے میں رکھ دیا تو یہ بات کچھ مناسب نہیں لگی۔ دونوں کی شاعری میں بے حد فرق ہے۔ کبھی کبھی ہم محبت میں کچھ چیزوں کا لحاظ کرنا بھول جاتے ہیں۔ اور کبھی کبھی ہم مروت سے بھی کام لیتے ہیں۔
فیس بک کے توسط سے عادل رضا منصوری صاحب کا تحریر کردہ تبصرہ بھی میری نظر سے گزرا۔ اس سے پہلے بھی دیگر کتابوں پر ان کے تبصرے فیس بک کے ہی توسط سے میری نظر سے گزر چکے ہیں۔ مگر ان تبصروں اور بوئے دوست کے تبصرے میں زبان و بیان کی ساخت بالکل مختلف ہے۔ ایسا لگتا ہے گزشتہ تبصرے ان کے تحریر کردہ نہیں ہیں یا تازہ تحریر کردہ تبصرہ ان کا نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے باغ سے گزرتے وقت عادل بھی بلا سبب ہر ایک پھول کو چھیڑ رہے ہوں۔ جس سے اس طرح کی تحریر وجود میں آئی ہو۔ ویسے بھی موصوف کو ش ک نظام صاحب کی سرپرستی حاصل ہے۔ ہو سکتا ہے ان کے سائے میں یہ تحریر پروان چڑھی ہو۔ واللہ اعلم۔ دنیا کا ہمیشہ سے یہ طور رہا ہے کہ وہ ہر نئی سوچ کا پہلے تو انکار کرتی ہے۔ کچھ وقت گزر جانے کے بعد جب اس کے مثبت رنگ پوری طرح سے اجاگر ہو جاتے ہیں تو پھر اس کے پیچھے دوڑنے لگتی ہے۔ میں نے بوئے دوست کا بغور مطالعہ کیا ہے شروع سے لے کر آخر تک پوری کتاب میں عبداللہ ندیم کا اپنا رنگ صاف نظر آتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتدائی دنوں میں مختلف فنکار جن سے وہ سیکھتا ہے ان کے رنگ ضرور قبول کرتا ہے۔ اور اس میں کوئی عیب بھی نہیں۔ کیوں کہ انہیں رنگوں سے اس کی تربیت ہوئی ہوتی ہے۔ ان سب کے باوجود اگر کوئی نووارد بہت سے رنگوں کو ملا کر اپنا رنگ بنانے میں کامیاب ہوتا ہے تو یہ فنکار کی فنی خوبیوں کا ایک حصہ ہے۔ ورنہ میں نے دیکھا ہے جو کچھ دہائیوں سے مشق سخن کر رہے ہیں آج تک ان کا اپنا کوئی رنگ نہیں بن سکا۔ کسی فنکار کو اپنے وقت کے بہترین فنکاروں کا ساتھ تب ہی نصیب ہوتا ہے جب خود فنکار میں کوئی خوبی موجود ہو۔ اب استاد اور شاگرد گی کا زمانہ نہیں رہا۔ ہمارے زمانے میں جسے رینگ کر چلنا بھی نہیں آتا وہ بھی میدان میں سب سے تیز دوڑنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اب کوئی بھی فنکار یا تو خود پر اعتماد کر کے مشق سخن کرتا ہے یا ان دوست احباب سے مشورہ سخن لیتا ہے جو فن کے معاملے میں بے مروت اور دشمن کی آنکھ رکھتے ہوں۔
اب تک بوئے دوست پر جتنی بھی گفتگو یا تبصرے میری نظر سے گزرے۔ بیشتر کی باتوں میں میں نے ایک جھجھک اور ڈر محسوس کیا ہے خصوصاً سینیئر لکھنے والوں کی طرف سے اور یہ کوئی نئی بات بھی نہیں۔ ہمیشہ سے ایسا ہوتا رہا ہے۔ سینیئر کبھی بھی کشادگی کا مظاہرہ نہیں کرتے اگر چہ فنکار واقعی گلے لگانےکے لائق ہو۔ یہ ادبی دیانتداری نہیں بلکہ سراسر خیانت ہے۔ جس کی وجہ سے احساس کمتری کی بو بھی آتی ہے۔
بہرحال آئیے عبداللہ ندیم کی غزلوں کے کچھ ایسے پہلوؤں پر گفتگو کرتے ہیں جن پر میں سمجھتا ہوں گفتگو ہونی بہت ضروری ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں عبداللہ ندیم کی اردو زبان سے اچھی خاصی شناسائی ہے ٹھیک اسی طرح انگریزی اور دیوناگری سے بھی ان کی پہچان ہے۔ عبداللہ ندیم کو پڑھتے ہوئے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ شاید فارسی سے بھی ان کا کچھ ربط و ضبط ہے۔ مجھے صحیح علم نہیں یہ تو وہی بتا سکتے ہیں۔ بات زبان کی ہو رہی تھی تو بوئے دوست میں ان کی ایک بہت منفرد غزل آپ حضرات کے گوش گزار ہے۔
ملاحظہ فرمائیں ۔
ایسی نار سے دل کو لگائے جس میں کچھ عیاری ہو
پریم اگن میں جلتی ہو پر دنیا سے انکاری ہو
پیا ملن کی آس میں جو بس جلتے بجھتے رہتے ہیں
ان نینن پر جگ کے مالک رین نہ کوئی بھاری ہو
ہم بھی انگ بھبوت لگائے پیڑ کے نیچے بیٹھے ہوں
اور یہ سارا آڈمبر بھی اصلا دنیا داری ہو
ایسے میں اس نار کا چھل بل کس سے دیکھا جائے گا
بھیگ کے انگیا مسکی ہو اور رنگوں کی پچکاری ہو
بھوک بلاس کا سکھ پوچھو ہو وہ بھی اک بیراگی سے
ہم نے تو اسپرش بھی جانا مانو کوئی گاری ہو
اس غزل کو پڑھ کر ندا فاضلی کے دوہوں کا وہ رنگ یاد آ گیا جو کسی سے بھی چھپا نہیں۔ پورے مجموعے میں اپنے رنگ کی یہ واحد غزل ہے مگر اس کے باوجود ڈکشن اور معنی آفرینی کے اعتبار سے ندا فاضلی کے رنگ سے ذرا آگے نکل گئی ہے۔ کمال تو تب ہی ہے جب ہم کسی کے رنگ سے تھوڑا آگے نکل جائیں۔
برادرم عمیر منظر نے دیباچہ لکھنے کے لئے جب مجموعے کا بغور مطالعہ کیا ہوگا تو میری طرح ان کے بھی ذہن میں وہی بات آئی ہوگی جو انتظار حسین نے احمد مشتاق کے تعلق سے گرد مہتاب کے پیش لفظ میں لکھی ہے۔ اسی لئے عمیر منظر نے بلا کسی تمہید کے اپنی بات انتظار حسین کی بات سے شروع کی۔ گو کہ یہ بات اس وقت اتنی واضح نہیں ہے مگر مجھے لگتا ہے دوسرے مجموعے تک آتے آتے یہ بات اس کی صداقت تک پہنچ جائے۔
عبداللہ ندیم کی شعری کاوشوں پر اگر مزید گفتگو کرنے جاؤں تو شاید بات بہت طویل ہو جائے۔ اس لئے اپنی بات کو مختصر کرتے ہوئے یہاں نمونے کے طور پر بغیر کسی ارادے کے مجموعے میں سے چند غزلیں آپ حضرات کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ جس سے آپ اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکیں گے کہ عبدللہ ندیم کی شاعری اپنی اردو شعری روایت سے کس قدر رچی بسی ہوئی ہے جس میں جدید رنگ بھی صاف نظر آتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں۔
آنکھوں میں بھر کے گھومنے کشتہ جنون کا
پھر ذائقہ ملے گا کہیں اپنے خون کا
اب تک نہ لا سکے ہیں مجھے زیر دام آپ
کچھ دائرہ بڑھائیے اپنے فسون کا
دہکا ہوا ہے سینے میں وحشت کا اک الاؤ
کیا ڈھونڈتے پھریں کوئی گوشہ سکون کا
لے کر کھڑے ہوئے ہیں سہارا ہم ان دنوں
کامل شکستگی سے عبارت ستون کا
آنکھیں چھپائے گھومتے پھرتے ہیں ہم ندیم
کھل جائے اس پہ حال نہ اک دن درون کا
ہم سے نالہ و فغاں نہ اٹھا
جل گیا دل مگر دھواں نہ اٹھا
خلد سے لے کے اس خرابے تک
میرا قصہ کہاں کہاں نہ اٹھا
اٹھ گئے کتنے نامرادی میں
اور تو ہے کہ مہرباں نہ اٹھا
اور کچھ دیر ہے ہوا کا زور
اور کچھ دیر بادباں نہ اٹھا
کاسئہ سر میں بھر لیں اور جنوں
ہم سے اب تک یہ آسماں نہ اٹھا
ٹوٹ جانے تھےسارے بند ندیم
درد ہی آج بے کراں نہ اٹھا
ہم کو ہر شے پہ حقیقت کا گماں تھا پہلے
ہائے کس درجہ نگاہوں کا زیاں تھا پہلے
ضو فشاں ہے جو ستارہ تری پیشانی پر
اک سویدا سا مرے دل میں نہاں تھا پہلے
جشن ماتم بھی نہیں ہوتا ہے برپا اب تو
ورنہ دل اپنا یہی رشک جناں تھا پہلے
ڈھونڈ لائی ہے ہوا ریت پہ پیروں کے نشاں
یعنی دیوانہ کوئی اور یہاں تھا پہلے
خاک اس کی ہمیں کچھ یونہی نہیں کھینچتی ہے
دشت سنتے ہیں کہ مجنوں کا مکاں تھا پہلے
اب جو ارزاں ہے تو کیوں اتنا تعجب ہے ندیم
خون ویسے بھی کہاں اپنا گراں تھا پہلے