Home خاص کالم العیسیٰ اور ایمانی غیرت-شکیل رشید

العیسیٰ اور ایمانی غیرت-شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)
رابطہ عالم اسلامی کے سکریٹری جنرل محمد عبدالکریم العیسیٰ کو ایک موقعہ ملا تھا کہ ، وہ ’ انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر‘ کی تقریب میں اپنی تقریر سے ہندوستانی مسلمانوں کو یہ باور کرا دیتے کہ ، نہ تو وہ اسلامی اقدار کے مخالف ہیں ، اور نہ ہی سعودی حکومت اسلامی اقدار کے خلاف ہے ، لیکن انہوں نے یہ موقعہ کھو دیا ۔ یہ بات تو خیر مانی جانی چاہیے کہ انہوں نے سینٹر کی تقریب میں ہندوستانی مسلمانوں کو کٹگھڑے میں کھڑا نہیں کیا ، دہشت گرد کہنے کی بجائے ، انہیں قوم پرست اور آئین پسند قرار دیا ، لیکن ان سے امید یہ تھی کہ وہ اُن مسائل پر ، جو اِن دنوں ہندوستانی مسلمانوں کو گھیرے ہوئے ہیں ، مودی حکومت میں سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کی موجودگی میں بات کریں گے ، تاکہ یہ حکومت کچھ تو مسلم مسائل پر توجہ دینے کی سوچے ، مگر انہوں نےکسی ایک مسٔلے پر بھی بات نہیں کی ۔ چند بڑی مسلم شخصیات ، جیسے کہ جمعیتہ علماء ہند کے صدر مولانا محترم سیّد ارشد مدنی ، اس بات کے لیے العیسیٰ کی شکر گزار ہیں ، کہ انہوں نے اپنی کسی بات سے حکومتِ ہند کے مجوزہ یونیفارم سِول کوڈ کی حمایت نہیں کی ۔ اگر ایسا ہے تو واقعی العیسیٰ کا شکریہ تمام ہندوستانی مسلمانوں پر واجب ہو جاتا ہے ۔ ان کے امن و امان کے پیغام کو ، اور بقائے باہمی پر اُن کے زور کو بھی قبول کیا جانا چاہیے کہ امن کا راستہ عافیت کا راستہ ہوتا ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بقائے باہمی سے ان کی مراد کیا ہے ؟ اس سوال پر غور کرنے سے پہلے یہ سوال ہے کہ کیا واقعی الیعسیٰ نے یکساں سِول کوڈ کی حمایت کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے ؟ میں اپنے دفتر کے ایک سینیئر ساتھی کی اس بات سے متفق ہوں کہ ، یہ ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی کا ایک ایسا دور ہے جو بہت سارے مسائل اور مصائب کے ساتھ اُن پر مسلط کر دیا گیا ہے ، اور مسلط کرنے والی یہی مودی کی حکومت ہے ، لہٰذا ان حالات میں مسلمانوں کے سیاسی و مذہبی قائدین کو بہت سوچ سمجھ کر زبان کھولنی چاہیے ، اور بہت ہی احتیاط سے قدم اٹھانا چاہیے ، کیونکہ کسی بات سے یا کسی اقدام سے ممکن ہے کہ اِس حکومت کو اپنے کسی مذموم عمل کی تکمیل کا جواز مِل جائے ۔ کیا العیسیٰ کی خاموشی اِس حکومت کے لیے جواز نہیں ہے ؟ کیا العیسیٰ کو یہ پتہ نہیں کہ مودی سرکار یو سی سی کے نفاذ کا منصوبہ بنائے ہوئے ہے ، اور اگر یو سی سی کا نفاذ ہوتا ہے ، تو مسلمانوں کے عائلی قوانین پر ضرب لگ سکتی ہے ، اور کئی شرعی قوانین زد میں آسکتے ہیں ؟ الیعسیٰ کو یہ سب پتہ نہ ہو یہ ممکن نہیں ہے ، کیونکہ وہ رابطہ عالم اسلامی کے سکریٹری جنرل ہیں ، اور رابطہ کا قیام ہی اس لیے ہوا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے مسائل پر نظر رکھے ۔ لہٰذا یہ نہیں مانا جا سکتا کہ العیسیٰ لاعلمی کے سبب خاموش رہے ۔ بلاشبہ انہیں سب پتہ تھا ، لیکن انہوں نے زبان نہیں کھولی ۔ زبان کا یہ نہ کھولنا اور مودی سرکار کی تعریف کرنا کیا ایک طرح سے یو سی سی کی حمایت نہیں ہے ؟ سچ کہیں تو یو سی سی کے لیے جو ہنگامہ مچا ہوا ہے ، اس ہنگامے کو دیکھتے ہوئے الیعسیٰ کو ہندوستان کا دورہ کرنا ہی نہیں چاہیے تھا ۔ لیکن کیا کریں کہ مفادات اب لوگوں کے لیے زیادہ عزیز ہوگئے ہیں ، عقیدہ اور دین و ایمان نہیں ۔ ایک سوال یہ بھی کہ بقائے باہمی کا کیا مطلب ہے ؟ کیا الیعسیٰ کا مندر جانے کا عمل بقائے باہمی ہے ؟ تو اس بقائے باہمی کے لیے آر ایس ایس تو کب سے کوشش میں لگا ہوا ہے ، بلکہ وہ تو یہ تک کہہ رہا ہے کہ مسلمان بھی خود کو ہندو کہیں ، تو کیا یہ کیا جائے ؟ خیر الیعسیٰ کے آنے اور جانے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا ، وہ مسلم مسائل پر بات کرتے تب بھی یہ حکومت جو کرنا چاہتی ہے وہی کرتی ۔ لیکن ایمانی غیرت بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے ، کیوں اس کو ہمارے دانشور کھوتے چلے جا رہے ہیں !

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like