ہرش مندر کہتے ہیں کہ یوپی میں حالات بہت خطرناک رُخ اختیار کرگئے ہیں اور وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے مسلمانوں کے خلاف ایک جنگ چھیڑ دی ہے۔ان کا خیال ہے کہ یوپی میں آج وہی ہورہا ہے جو کشمیر میں ایک طویل عرصہ سے ہوتا رہا ہے کہ گھروں میں گھس کر فورس توڑ پھوڑ مچاتی ہے اور بے گناہوں کو پکڑ کر لے جاتی ہے۔
2 اور 3 جنوری کے انڈین ایکسپریس کے شماروں میں بھی اس کے کچھ شواہد پیش کئے گئے ہیں۔۔ہرش مندر ایک ریٹائرڈ آئی اے ایس ہیں۔۔ وہ یوپی کے نو مختلف اضلاع کے کلکٹر بھی رہے ہیں ۔ لہذا وہ یوپی کے حالات پر برابر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔حال ہی میں انہوں نے مظفر نگر اور دوسرے متاثرہ مقامات کا دورہ بھی کیا ہے۔۔۔ وہ مسلمانوں کے خلاف یوپی پولیس کے تعصب کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہیں ۔
ٹی وی چینلوں میں این ڈی ٹی وی کچھ حد تک یوپی کی اصل تصویر دکھا رہا ہے۔اس کے علاوہ ’دی وائر‘ اور انفرادی طورپر ونود دوا‘ابھسار شرمااور رویش کمار بھی حوصلہ مندی کے ساتھ سرکاری مظالم کی قلعی کھول رہے ہیں۔
جب سے وزیر اعلی نے پر امن مظاہرین سے ’بدلہ‘لینے اور نقصان کا ہرجانہ انہی سے وصول کرنے کی دھمکی دی ہے اسی وقت سے یوپی پولس بے خوف ہوکر نہتے اور بے قصور لوگوں پر ظلم کر رہی ہے۔۔۔ میں نے اس وقت بھی اس اندیشہ کا اظہار کیا تھا کہ اب یوپی کے بے قصور لوگوں پر قیامت گزرنے والی ہے اور بہت سے قائدین کا نام لے کر ان سے درخواست کی تھی کہ یوپی کے ان بے کس وبے بس لوگوں کی مدد کے لئے باہر نکلیں۔
انڈین ایکسپریس کی 2 جنوری کی اشاعت میں سنبھل (مغربی یوپی) کے تعلق سے ‘کونین ایم شریف’ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پولس نے ’فسادیوں‘کے خلاف جو ایف آئی آر درج کی ہیں ان میں بڑی وضاحت کے ساتھ واقعات کو بیان کیا گیاہے۔باقاعدہ ٹائم لائن کے ساتھ یعنی لمحہ بہ لمحہ اور Minute to minute حملوں کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ یہی نہیں ایف آئی آر کے مرحلہ پر ہی پولس کو کلین چٹ بھی دیدی گئی ہے۔اس کے برخلاف جو لوگ جاں بحق ہوئے ہیں ان کے تعلق سے بہت کمزور اور بے دم سی ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور اس میں بھی صرف ایک پیرا گراف لکھا گیا ہے۔
سنبھل کے 23سالہ محمد شہروز خان کو 20 دسمبر کے مظاہرہ کے دوران گولی لگی تھی‘اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں اسے دوسرے بڑے ہسپتال کو ریفر کردیا گیا۔اس بڑے ہسپتال تک پہنچتے پہنچتے شہروز کا دم نکل گیا۔۔۔ پولس نے اس تعلق سے جو ایف آئی آر درج کی ہے اس میں نہ تو ملزم کا نام ہے اور نہ کسی گواہ کا کوئی ذکر ہے۔۔۔یہی نہیں آج 14روز گزرجانے کے بعد بھی اس کے اہل خانہ کو اس کی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نہیں دی گئی ہے۔ایف آئی آر میں دفعہ 302کے تحت معاملہ درج نہیں کیا گیا ہے۔یہ دفعہ قتل سے بحث کرتی ہے۔ایسی کمزور‘بے جان اور لا یعنی ایف آئی آر کا جو نتیجہ نکلنا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔۔۔عدالت میں اہل خانہ کو یہ ثابت کرنا ہی مشکل ہوجائے گا کہ شہروز کا قتل ہوا بھی تھا یا نہیں۔
پولس نے اپنے اوپر ہونے والے مبینہ حملوں میں جن17 افراد کو نامزد کیا ہے ان کے خلاف (سچی یا جھوٹی) تمام دستاویزات جمع کی گئی ہیں اور ایک ایک واقعہ کی تفصیلات کو باریکی کے ساتھ لکھا گیا ہے۔پولس نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس نے اپنے دفاع میں گولی چلائی۔یہ حال جب ہے کہ جب دونوں ایف آئی آر 24 گھنٹے کے اندر رونما ہونے والے واقعات کے تعلق سے ایک ہی تھانہ میں لکھی گئیں۔انڈین ایکسپریس کو ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ فساد مچانے کے تعلق سے جو ایف آئی آر تیار کی گئی ہے وہ اس مضبوطی کے ساتھ کی گئی ہے کہ پولس کو معقول شک کا فائدہ مل جائے گا جبکہ گولی لگنے سے نوجوانوں کی موت کی ایف آئی آر اتنی بودی لکھی گئی ہے کہ کسی کو یہ معلوم ہی نہیں ہوگا کہ گولی چلانے کا ملزم کون ہے۔
انڈین ایکسپریس کی صحافی ارنیا شنکر نے آج اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مظفر نگرپولس نے چار لوگوں کو 10دنوں تک اپنی گرفت میں رکھنے کے بعد رہا کردیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔ان پر پتھر بازی اور پولس پر حملہ کے الزامات عاید کئے گئے تھے۔یہ مظاہرے 20 دسمبر کو ہوئے تھے۔ان رہا شدگان میں ایک 50 سالہ سرکاری کلرک بھی ہے لیکن ابھی اس کے 20 سالہ بیٹے کو رہا نہیں کیا گیا ہے۔سرکاری کلرک کا دعوی ہے کہ 20 دسمبر کی شب 10.30 پر ان کے گھر پر 50 پولس والوں اور قرب وجوار کے رہنے والے کوئی 60 لوگوں نے دھاوا بول دیا اور انہیں بہت زدوکوب کیا گیا۔اس کے بعد پولس انہیں گرفتار کرکے لے گئی۔ انہوں نے ارنیا شنکر کو بتایا کہ پولس نے ان کے ساتھ بہت وحشیانہ سلوک کیا اور جب انہوں نے پانی مانگا تو کہا گیا کہ اپنا پیشاب پی لو۔انہوں نے بتایا کہ اس رات تھانہ پر کوئی 100لوگ پکڑ کر لائے گئے تھے۔انہیں جب اگلے روز عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تو عدالت نے انہیں جیل بھیج دیا۔
ارنیا نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ میرٹھ میں رہنے والا ایک خاندان بھی اسی روز یعنی 20 دسمبر کو شام سات بجے اپنی گاڑی میں سوار ہوکر نکلا۔لیکن مظفر نگر کے میناکشی چوک پر انہیں پولس نے روک لیا۔شہر میں اس خاندان کی بہت سی اسٹیل کی فیکٹریاں ہیں۔اس گاڑی میں ایک 53سالہ مریض بھی تھا۔اس کے پاس تمام میڈیکل کاغذات تھے لیکن پولس والوں نے ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی اور انہیں گالیاں دیتے ہوئے تھانہ لے گئی۔
یہ رپورٹ مزید بہت سی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ یہ تفصیلات پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ایسے ایک دو نہیں درجنوں بلکہ سینکڑوں واقعات رونما ہوئے ہوں گے۔ پولیس نے جب نامی گرامی ہندو شہریوں کے ساتھ انتہائی سفاکی کا مظاہرہ کیا ہے تو عام مسلمانوں کا تو پوچھنا ہی کیا۔۔۔ لکھنؤ میں بزرگ ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر ایس آر داراپوری کو مظاہرہ میں شرکت کی پاداش میں پولیس نے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا۔ وہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں لیکن عدالت سے بھی انہیں کوئی راحت نہیں ملی۔اسی طرح ایک اور ہندو جوڑے کو بھی گرفتار کرکے بہت سخت دفعات لگادی گئی ہیں ان کی ایک سال کی بچی ایک ہفتہ تک تڑپتی رہی، اب جاکر محض ماں کو ضمانت مل سکی ہے۔
حیرت ہے کہ عدالتوں نے محض پولیس کی داستان پر یقین کیا اور لوگوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا۔ اب جن لوگوں کو ثبوت نہ ہونے کے سبب پولیس نے رہا کردیا ہے کیا وہ ان پولیس والوں کے خلاف کوئی کارروائی کرسکتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ بالکل کرسکتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ ایسے متاثرہ لوگوں کو ضرور کارروائی کرنی چاہئے۔ اس کے لئے ہر قصبہ’ شہر اور ہر ضلع کے درد مند وکلاء کو گروپ تشکیل دے کر ان متاثرین کی مدد کرنی چاہئے۔ مسلم وکلا کو چاہئے کہ وہ گروپ بناکر مشہور ہندو وکیلوں کے گھروں پر جائیں اور ان سے درخواست کریں کہ وہ اس ‘لیگل گروپ’ کی قیادت کریں ۔
دہلی میں محمود پراچہ نے ایک گروپ تشکیل دیا ہے۔ وہ بڑے پیمانے پر پولیس کے خلاف شواہد جمع کر رہے ہیں ۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ چن چن کر ایک ایک خاطی پولیس افسر کے خلاف ہائی کورٹ میں رٹ دائر کریں گے اور انہیں سزا دلوائیں گے۔ میرا خیال ہے کہ اس کام کو منظم پیمانہ پر کرنا ضروری ہے۔ یوپی کے متاثرین بھی انہیں اپنی روداد بمع شواہد ارسال کرسکتے ہیں۔ اس کام میں صاحبِ ثروت افراد متاثرین کا خاموشی سے تعاون کرسکتے ہیں۔محمود پراچہ کے دفتر کا نمبر یہ ہے
: 011-24358560