Home تجزیہ اب ہم کیا کریں؟

اب ہم کیا کریں؟

by قندیل

 

ڈاکٹر سلیم خان

دہلی فساد کی بابت ایک دوست نے پوچھا : اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ جواب دیا : وہی جو ہم کرتے ہیں تو وہ تعجب سے بولے: لیکن ہم لوگ تو بڑے سکون سےاقامت دین کا کام کررہے تھے کہ درمیان میں فرقہ وارانہ فساد ہوگیا۔ اب ہم وہ کام کیسے کرسکتے ہیں؟ ان سے دریافت کیا کہ ہم لوگ اقامت دین کا کام کیوں کرتے ہیں ؟ وہ بولے : تاکہ دنیا کا نظام اللہ کی مرضی کے مطابق چلے اور ہر سو عدل و انصاف قائم ہوجائے ۔ سوال کیا : اگر یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوجائے تو کیا فرقہ وارانہ فساد ہوں گے؟ یا ان کو جاری و ساری رہنے کی چھوٹ ملے گی؟ تووہ بولے : یہ کیسے ممکن ہے؟ پھرپوچھا : تو کیا آپ فساد کی آگ بجھاتے رہنا چاہتے ہیں ، لیکن اس کو لگنے سے روکنا نہیں چاہتے؟ انہوں نے کہا : جی ، اسی لیے ہم اقامت دین کی جدوجہد کررہے ہیں اور یہی ہمارے لیے رضائے الٰہی کا ذریعہ ہے ، مگر کیا آپ چاہتے ہیں کہ ان نامساعد حالات میں بھی ہم انہیں روایتی سرگرمیوں میں مصروف رہیں؟ جب پوچھا کہ یہ کس نے کہا تو وہ خاموش ہوگئے۔

زندہ تحریکات اپنے حالات سے بے نیاز نہیں ہوتیں ۔اس دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کے تقاضے ہمیشہ یکساں نہیں ہوتے ۔ وقت کے ساتھ مختلف سرگرمیوں کی اہمیت گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہے۔ فسادات کے دوران اس کو رکوانے کے لیے انتظامیہ پر سیاسی اور سماجی دباو ڈالنا۔ فساد کا شکار ہونے والوں کی باز آباد کاری کا اہتمام کرنا۔ پست ہمت ہونے والے لوگوں کا حوصلہ بلند کرنا ۔ زخمیوں کا علاج کروانا، یتیم اور بیوہ ہونے والوں سہارہ بن جانا اور فساد برپا کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دلانے کی جدوجہد کرنا وہ اضافی کام ہیں جو ان حالات کا تقاضہ ہوتے ہیں ۔معمول کی سرگرمیوں کے ساتھ یا انہیں قربان کرکے اس عارضی ذمہ داری کو اداکرنا لازمی ہوتا ہے لیکن یہ ساری سرگرمیاں بھی اسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہیں جس کے لیے تحریک اسلامی برپا ہوئی ہے۔ یہ کوئی الگ سے کیا جانے والا کام نہیں ہے اور ان کی اہمیت یا اجروثواب کسی صورت کم نہیں ہے۔

فساد کے زمانے میں جب کے مکان و روجان کے جلنے اور لوگوں کے مرنے کی خبریں اور ویڈیوز کی سوشیل میڈیا میں بھرمار ہو جاتی ہے توعوام کے اندر ہیجان و اضطراب کا پیدا ہونا فطری ہے۔ ایسےمیں انسان کے اندر ٹھہراؤ نہیں رہتا ، عقل ماند پڑ جاتی ہے اور راہِ حق پر گامزن رہنا دشوار ہوجاتا ہے۔ ان حالات میں فرمانِ ِ ربانی ہے ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، صبرو نماز سے مدد لو، ‘‘۔آزمائش کے دوران مستقل مزاجی کے ساتھ مقصد حیات پر ڈٹے رہنا امشکل ہوتا ہے ۔ایسے میں صبر کے ساتھ نماز کا ذکر اس لیے اہم ہے کہ بندۂ مومن جس طرح خوشی و غمی ہر حال میں نماز پڑھتا ہے، اسی طرح تنگی و آسانی کے مراحل میں اپنے مقصد حقیقی پر قائم رتے ہوئے حالات کو سازگار کرنے کی جدوجہد میں منہمک رہے۔ مشکل ترین حالات میں چونکہ ہم اگر نماز نہیں چھوڑ سکتے تو دین حق سے کیسے دست بردار ہوسکتے ہیں ؟صبر و نماز میں ایک مماثلت یہ بھی ہے کہ یہ دونوں انسان کواپنے رب سے قریب ترکرکے اللہ کی مددو نصرت کا حقدار بناتے ہیں ۔ اس لیے آگے یہ بشارت دی گئی ہے کہ ’’ اللہ صبر کرنے الوں کے ساتھ ہے‘‘۔

انسان جب یہ بھول جاتاہے کہ قضاء و قدر کے فیصلے آزمائشوں کے توسط سے نافذ ہوتے ہیں تو تذبذب کا شکار ہونےلگتا ہے حالانکہ ارشادِ قرآنی ہے’’ کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ محض یہ کہنے سے ، چھوڑ ئیے جائيں گے کہ ہم ایمان لے آئے ؟ اور ا ن کی آزمائش نہیں کی جائيگی ـ جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ہم نے اُنہیں آزمایا تھا ( اور انہیں بھی آزمائيں گے ) سو اللہ ضرور معلوم کر لے گا جو ( اپنے ایمان میں ) سچے ہیں اور انہیں بھی ( جان لے گا ) جو کہ جھوٹے ہیں ـ (العنکبوت : 1 3). یہی بات ایک اور جگہ اس طرح فرمائی گئی ’’(اے اہل ایمان ) تمھارے مال و جان میں تمھاری آزمائش کی جائیگی‘‘۔ جہانِ فانی میں سنت الہی کی اس معرفت کے بعد مشکل ترین حالات میں صبر و استقلال کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کرنا سہل ہوجاتا ہے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment