Home تجزیہ آپ نے سنا،وزیر اعظم نے کیا کہا:ایک ملک اور ایک انتخاب-صفدر امام قادری

آپ نے سنا،وزیر اعظم نے کیا کہا:ایک ملک اور ایک انتخاب-صفدر امام قادری

by قندیل

صدر شعبۂ اردو،کالج آف کامرس،آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
خدشات اب یقینی شکل میں سامنے آنے لگے ہیں۔ نریندر مودی کی وزیر اعظم کی حیثیت سے دوسری بار کا انداز مکمل طور پر بدلا ہوا ہے اور اب وہ حکومت کی طاقت سے ملک کے وفاقی ڈھانچے میں ان تبدیلیوں کے خواہاں ہیں جن کے بارے میں آر۔ایس۔ایس اور ہندو مہاسبھا کے افراد گذشتہ پچاس برس سے جگہ جگہ کہہ رہے ہیں۔ بیچ میں وفاقی نظام میں صدارتی نظامِ حکومت کی بات سامنے آئی تھی یعنی اقتدار مرکزیت کی حامل ہو اور ایک مٹھی میں پورا دیش آجائے۔ اب کی بار یومِ آئین کے موقعے سے وزیرِ اعظم نے ایک نیا نعرہ دیا: ایک ملک اور ایک انتخاب۔ ہمیں معلوم ہے کہ وزیر اعظم کو نعروں میں سب سے زیادہ دلچسپی ہے۔ وہ نعرے بناتے ہیں اور لوگوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ نعرے لگائیں۔ اس سے پہلے ایک ملک ایک آئین ایک زبان کا نعرہ بھی ان کی زبان سے سامنے آچکا ہے۔ کون جانے کل جو دل میں پوشیدہ بات ہے، ایک ملک اور ایک قوم ایک مذہب ۔ وہ بھی کسی روز جوش میں زبان پر آجائے۔
اقتدار کا ناجائز مصرف زمین سے لے کر آسمان تک اگر کسی ایک شخص کو لینے آتا ہے تو اس میں وزیر اعظمِ ہند یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ وہ اپنی حقیقی بات نعروں میں اس طرح پوشیدہ رکھتے ہیں کہ نعرہ لگانے والا بھی ان کے منشا سے اور خفیہ ایجنڈے سے بے خبر رہتا ہے۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں دنیا کا شاید ہی کوئی حکمراں نریندر مودی سے آگے بڑھ سکے۔ سب کو اپنے ملک اور قوم کی عمومی ترقی سے کچھ نہ کچھ لگائو رہتا ہے مگر ہمارے وزیر اعظم گل افشانیِ گفتار کے بعد یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ عام لوگوں کے ووٹوں سے اس مقام تک پہنچے ہیں اور انھیں بہرطور ان کے جذبات اور ان کی خواہشوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
آخر وہ ملک میں ایک انتخاب یا ایک ہی موقعے سے انتخاب کیوں چاہتے ہیں؟ نریندر مودی کو معلوم ہے کہ قومی انتخاب وہ بڑی آسانی سے ہندو مسلمان یا ہندستان پاکستان یا اب ہندستان اور چین کے سچ جھوٹ پر لڑ لیتے ہیں۔ دو بار انھوںنے انتخاب اسی انداز میں جیتا اور ملک کے طاقت ور حکمراں کے طور پر آج ہمارے سامنے ہیں مگر انھیں یہ بات صاف طور پرنظر آرہی ہے کہ صوبائی انتخابات کے نتائج ہوبہ ہو قومی انتخابات کی طرح سامنے نہیں آرہے ہیں۔ کئی جگہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی ساکھ اکھڑ جارہی ہے اور مختلف صوبوں میں بہت مشکلوں سے نہ جانے کتنے تماشوں کے بعد وہ سرکار بناپائے۔ مطلب صاف ہے کہ انتخاب کا نقطۂ نظر صوبائی اعتبار سے الگ ہے اور قومی معاملے میں مزاج دوسرا ہوتا ہے۔ ایک ہی آدمی اپنے صوبے میں کبھی دوسرے کو ووٹ دیتا ہے اور کبھی مرکز میں اس سے مختلف افکار و نظریات رکھنے والی سیاسی جماعت کو۔ نریندر مودی جانتے ہیںکہ جب تک مرکز میں ان کی حکومت ہے صوبائی انتخابات میں ان کی رفتار دھیرے دھیرے تھمتی جائے گی اور کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والے وقت میں ٹھیک جب ۲۰۲۴ء میں انتخاب ہوگا، صوبوں میں اکثر و بیش تر غیر بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومتیں نہ ہوجائیں اور تب انتخاب اور ای۔وی۔ایم۔ کی جعل سازی میں مختلف انداز کی پریشانیاں آئیں گی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سارے بنے بنائے راستے معدوم ہوجائیں۔
نریندر مودی کو ۲۰۲۴ء کا حقیقی خوف انھیں نئے انداز سے چیزوں کو دیکھنے کے لیے مجبور کررہا ہے۔ اسی لیے انھوںنے یومِ آئین پہ ملک کے نمایندہ الیکشن آفیسرس کی نشست میں یہ سوال اٹھایا کہ کیوں نہیں پارلیامنٹ اور اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ منعقد کیے جاتے ہیں۔ انھیں حقیقی خطرے جو نظر آرہے ہیں، ان کا ذکر اپنی تقریر میں کرنا مناسب نہیں معلوم ہوا۔ انھوںنے دوسرے تکنیکی معاملات بتائے ۔ کہا کہ ہر موقعے سے ملک میں کہیں نہ کہیں انتخابات ہوتے رہنے کا سلسلہ رہتا ہے۔ کسی ایک گوشے میں انتخاب ختم ہوا تو دوسرے گوشے میں انتخاب شروع ہوتا ہے۔ اس میں پیسے کا خرچ بہت زیادہ ہوتا ہے اور وہ اسے روکنا چاہتے ہیں۔ الیکشن کے عملے بھی باضابطہ طور پر ہمیشہ کہیں نہ کہیں مصروفِ کار ہوتے ہیں۔ اس لیے انھوںنے یہ مشورہ دیا کہ اچھا ہوتا کہ سارے انتخابات ایک ہی ساتھ ہوتے۔ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ پارلیامنٹ اور اسمبلی انتخابات ایک ساتھ ہونے میں انتخابی عملوں کی تعداد بڑھے گی اور سیاست دانوں سے لے کر ووٹروں تک کی پریشانیوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ خرچ کی جہاں تک بات ہے تو یہ سراسر جھوٹ ہے کہ نریندر مودی کو فضول خرچی سے بیر ہے اور ہندستان کے خزانے کو سنبھال کر رکھنے اور عام لوگوں کے خون پسینے کی کمائی کی حفاظت میں انھیں خصوصی دل چسپی ہے۔ نوٹ بندی سے لے کر ملک بندی تک ہندستانی عوام کی دولت کو انھوںنے مٹی میں ملا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔
آر۔ایس۔ ایس۔ کا پرانا تصور ہے ؛ ہندوواد، ہندوراشٹر یا ایک ملک اور ایک مذہب۔ پانچ جنیہ اخبار ہمارے ملک کے نام کو ہندو استھان دہائیوں سے لکھتا رہا ہے۔ نریندر مودی نے رفتہ رفتہ اسی ناگپور کے ایجنڈے کو طرح طرح سے منزل تک پہنچانے کی باضابطہ کوششیں کی ہیں۔ آخر رام جنم بھومی کا قضیہ کتنی آسانی سے اس حکومت نے اپنی طاقت کے بل پر حل کرلیا۔ یہی نہیں مندر کی بنیاد رکھنے کے سلسلے میں وزیر اعظم کے ساتھ آر ۔ ایس۔ایس۔ کے سربراہ کی شمولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ وزیر اعظم کے حقیقی رہنما وہی لوگ ہیں اور حکومت کی جواب دہی بھی انھیں کے تئیں ہے۔ کورونا کے دور کے پہلے وزیر تعلیم نے ایک ملک اور ایک زبان کا سوال اٹھایا تھا جس کی جنوبی ہندستان کی ریاستوں کے نمایندگان نے بڑی سختی سے مخالفت کی اور حکومت کی زبان خاموش ہوئی۔ اب اس سے بڑا قدم اٹھانے کی کوشش ہے۔ راگ اسی انداز کا ہے اور بحر و وزن بھی کم و بیش وہی ہے۔
نریندر مودی نے یومِ آئیں کے موقعے سے اپنی گفتگو میں ایک معرکتہ الآرا بات یہ کہی کہ ہمارا قانون بڑا پیچیدہ ہے، اس کی زبان پہلو دار ہے اور شِق در شِق اس کے اتنے واسطے پیدا ہوتے ہیں کہ عام آدمی اسے سمجھ ہی نہیں پاتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ پندرہ سال وزیر اعلا اور ساڑھے چھے برس وزیر اعظم رہنے کے بعد انھیں یہ بات سمجھ میں آئی۔ سچی بات یہ ہے کہ انھیں تو قوانین اور ان کی عمل درآمد سے ہی بیر ہے۔ حالاںکہ اب وہ قانون کی پیچیدگیوں سے اپنے من مطابق نتائج اخذ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں اور بابری مسجد سے لے کر کورونا کے دور کے سینکڑوں فیصلوں کو اپنی طرف موڑ لینے میں انھیں کوئی دشواری نہیں ہورہی ہے۔ گجرات فسادات کے سیدھے الزام کے باوجود وہ پیچیدہ قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا اور امت شاہ بھی ایک مختصر میعاد کے لیے ماخوذ ہوئے اور جس نے انھیں بری کیا، وہ تو چیف جسٹس کے عہدے تک پہنچا۔ بابری مسجد کا جس نے فیصلہ دیا ، وہ ہندستان کے ایوانِ بالا میں تمام آئینی روایات کا منہ چڑھاتے ہوئے موجود ہے۔
قانون کی کون کہے نریندر مودی میڈیکل اور انجینئرنگ کی کتابیں پڑھیں گے تب بھی انھیں یہ شکایت ہوگی کہ ان کے موضوعات مشکل ہیں اور انھیں عام فہم انداز سے نہیں پیش کیا گیا ہے۔ ہندستان کا عام شہری تو ان کتابوں کے اندراجات کو سمجھ بھی نہیں سکتا۔ فزکس کیمسٹری سے لے کر علم الحساب تک میں سے کون ایسا شعبۂ علم ہے جسے سمجھنا سب کے لیے آسان تسلیم کرلیا جائے۔ دھرم شاستر اور فلسفہ ، الٰہیات؛ سب کے سب دقیق علوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہندو مذہب اور فلسفہ؛ جس کے نام پر مودی حکومت فرمارہے ہیں، ان کی مقدس کتابوں کو پڑھنا اور سمجھنا آسان نہیں۔ اگر یہ کتابیں سہل ہوتیں تو بار بار لوگوں کو ان کی شرحیں اور شرح در شرح لکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی مگر ایسا سب کے سامنے ہے۔ انھیں نریندر مودی کیا مشکل زبان اور مشکل مفاہیم کی ترجمانی کہنے والا قرار دے سکتے ہیں؟
عام آدمی اور عام زبان کے سوال کے بہانے حقیقت میں اس آئین کے مضبوط ڈھانچے کو توڑنے اور بکھیرنے میں مدد لینے کا ارادہ ہے۔ اٹل بہاری باجپئی کی حکومت میں آئین کی ترمیم و تنسیخ اور باضابطہ تبدیلی کا ایک منصوبہ بنایا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کو ان سفارشات کے لیے مامور کیا گیا مگر بات نہ بن سکی اور ملک کے عوام نے بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے اس ترمیم کی مخالفت کی تھی۔ یہ محض اتفاق ہے کہ اس کے بعد دس برسوں تک منموہن سنگھ کی حکومت رہی اور وہ ٹھنڈے بستے میں پڑا رہا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی اپنی حکومت کے پہلے دور میں بابری مسجد اور آئین میں ترمیم کے سوالوں کو الگ تھلگ رکھنا تھا۔
نریندر مودی ابھی قانون کی زبان اور اس کے مشکل مباحث کو نشان زد کرکے اپنی بات پیش کررہے ہیں۔ وہ روزانہ حب الوطنی اور قوم کے تئیں وفاداری کا پاٹھ پڑھاتے ہی رہتے ہیں۔ اسی حوالے سے کل عین ممکن ہے کہ پھر نئے سرے سے آئین میں ترمیم اور تغیر و تبدل کا ایک سازشی رویہ سامنے آئے۔ اس ملک کو ہندو راشٹر کے طور پر اعلان کرکے آئین کا حصہ بنانے کی ایک خواہش آر۔ایس۔ایس۔ کے لیڈروں میں ہمیشہ برقرار رہی ہے مگر ہمارے آئین کے معماروں نے غیر مذہبیت اور سیکولرزم کو رہنما مانا تھا اور اسے تبدیل کرنا ایک مشکل کام ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اب اس مشکل نشانے کو لینا چاہتی ہے۔ وبائی ماحول میں بہت ساری آسانیاں بھی حکومت کو دے دی ہیں تاکہ وہ نئی نئی سازشیں کرسکے اور غلط راستے پہ ملک کو لے جانے کے لیے چھوڑ دے۔ کسانوں کی فلاح کے نام پر جو قانون بنائے گئے وہ حقیقت میں کسانوں کے خلاف ہیں اور اس کے لیے کسان دلی کی سڑکوں پر سردی کے موسم میں احتجاج کررہے ہیں۔ حکومت قوانین بنانے میں اتنی مستعد ہے کہ وبا کا بہانہ لے کر ہندستانی عوام کے خلاف روز فیصلے ہو رہے ہیں۔ ہمیں خبردار ہونا چاہیے صرف کسانوں پہ مصیبت نہیں آنے والی ہے، ہندستان کا ایک ایک آدمی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی زد میں آنے والا ہے۔ ورنہ ایک ملک، ایک زبان، ایک مذہب، ایک انتخاب اور ایک لاٹھی اس ملک کو وہاں پہنچا دے جہاں سے ہمارا مستقبل مزید اندھیروں کا سفر کرے گا ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment