ترجمہ: استوتی اگروال
Email:[email protected]
ایک تھا ’آنسو‘،تھا تو بہت اچھا مگر دل کا کمزور۔چاہتا تھا کہ کسی کو نہ رُلائے ،سب کی آنکھوں کا تارا بن کر رہے پر اُس کی قسمت۔سب نے اُسے اپنی آنکھوں سے اتار دیا۔اِس وجہ سے وہ بہت اُداس تھا۔
ایک دن اچانک اس کی ملاقات ہوئی ’مسکان‘ سے۔کومل، بھولی بھالی،نازک سی۔جس کے ہونٹوں پر آتی اس کے چہرے کی رنگت کھِل اُٹھتی۔آنسو نے جب اُسے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔وہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا مگر اسے یہ بھی ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں میری وجہ سے یہ بھی رو نہ دے۔ہمت کرکے آنسو اُس کے پاس آیا، پوچھا:
’’تم کون ہو اور اِتنی حسین کیسے ہو؟‘‘
مُسکان نے سوال بھری نظروں سے اسے دیکھا،’’تم مجھے سچ میں نہیں جانتے؟‘‘
آنسو نے بڑے بھولے پن سے جواب دیا،’’نہیں ۔‘‘
مسکان مسکرا دی ،پھر اُس نے بتایا:’’ارے! میں تو وہ ہی ہوں جس کے پیچھے چھِپ کر تمھاری اہمیت بڑھ جاتی ہے اور لوگ تمھیں خوشی کے آنسو کہتے ہیں۔‘‘
یہ سمجھاتے ہوئے مسکان کی آنکھوں میں چمک تھی۔تھوڑی دیر دونوں چُپ رہے ۔ پھر آنسو نے مسکان سے پوچھا:
’’مجھ سے دوستی کروگی؟‘‘
’’نہ بابا نہ۔۔۔کہیں تم نے مجھے بھی رُلا دیا تو!میں اکیلے ہی خوش ہوں۔سب مجھے پیار کرتے ہیں اور میں سب کو خوش رہنا سِکھاتی ہوں۔‘‘
’’مجھے بھی خوش رہنا سِکھا دو نہ!۔‘‘آنسو کی آنکھوں میں امید کے آنسو تھے۔
اب مسکان تو مسکان ٹھہری۔کسی کو روتا کیسے دیکھ سکتی تھی!کہا-’’چلو ٹھیک ہے،میں تمھیں مسکرانا سکھا دوں گی پر میری ایک شرط ہے،تم کبھی مجھے رلائوگے نہیں ۔‘‘
آنسو نے حامی بھری اور دونوں دوست بن گئے۔اب دونوں ہمیشہ ساتھ رہتے۔پر جب کبھی آنسو اکیلا ہوتا تو خوب روتا۔مسکان بھی کیا کرتی؟ہر جگہ تو آنسو کو نہیں لے جا سکتی تھی نہ!جہاں صرف خوشیاں ہوتیں وہاں آنسو کیسے جا سکتا تھا؟پھر بھی زیادہ تر سمے دونوں ساتھ رہتے۔جب بھی دونوں ایک ساتھ ہوتے لوگوں کے ہونٹوں پر مُسکان ہوتی اور آنکھوں میں آنسو۔ دونوں خوش تھے۔
اِس طرح دھیرے دھیرے کچھ اور وقت گزرا۔ پھر ایک دن وہی ہوا جس کا ڈر تھا،دونوں میں پیار ہو گیا۔دونوں ایک دوسرے کو اِتنا چاہنے لگے کہ اب دونوں میں سے کوئی اکیلا نہیں رہنا چاہتا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں یہ دنیا عجیب سی ہو گئی،کیونکہ لوگوں نے خوشیوں میں مسکرانا چھوڑ دیا اور غم میں رونا۔اگر کوئی خوش ہوتا تو ہنسنے کے ساتھ ساتھ رونے بھی لگتا اور دُکھی ہوتا تو رونے کے ساتھ ساتھ ہنسنے بھی لگتا۔
جلد ہی دونوں کو اِس بات کا احساس ہو گیاکہ اُنھوں نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔
’’اب کیا کریں ؟‘‘مسکان نے پوچھا۔
’’ہم دونوں کو پہلے کی طرح ہی الگ ہونا پڑے گا۔‘‘کلیجہ مضبوط کرکے آنسو نے کہااور سب سے عجیب بات یہ تھی کہ آج اُس کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے۔شاید مسکان نے اسے مسکرانا سِکھا دیا تھا۔بدلے میں اس نے بھی تو مسکان کو رونا سکھا دیا تھا۔
’’ہم دونوں دوست ہی اچھے تھے۔میں لوگوں کو رُلاتا تھا پر تم تو خوش رکھتی تھیں نہ!یہ دنیا بھی ویسے ہی ٹھیک تھی۔اب دیکھو کیسی عجیب ہو گئی ہے؟ہم دونوں اِتنے خود غرض تو نہیں ہیں نہ کہ اپنی خوشی کے لیے پوری دنیا کو عجیب بنا دیں!‘‘
آنسو نے مسکراتے ہوئے کہا-’’دیکھو نہ! میں تو اپنی دوستی بھی ٹھیک سے نہیں نبھا پایا۔تم سے کہا تھا کہ میں کبھی تمھیں رُلائوں گا نہیںاور رُلا دیا۔کیا کروگی میرے ساتھ رہ کر؟تم نے مجھے ہنسنا سکھایا اور میں نے تمھیں رونا۔‘‘
آنسو زیادہ دیر رُک نہیں سکتا تھا۔وہ بہہ رہا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے مسکان کی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔تب سے آنسو ہمیشہ اپنی مسکان کی یاد میں لوگوں کی آنکھوں میں بہتا ہے اور مسکان آنسو کو اپنے دل میں بسائے پوری دنیا کومسکرانا سکھاتی ہے۔
یہ تھی مُسکان اور آنسو کی پریم کہانی،جنھوں نے دنیا کو جوں کا توں رکھنے کے لیے اپنی محبت کی قربانی دے دی۔
کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔بچھڑتے وقت مسکان نے آنسو سے پوچھا تھا-’’ تو کیا ہماری دوستی بھی ختم ہو جائے گی اور ہم پھر کبھی نہیں ملیں گے؟‘‘
آنسو نے جواب دیا تھا -’’ملیں گے،جب لوگوں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آئیں گے۔‘‘