Home خواتین واطفال عالمی یوم حجاب پر تعلیمی میدان کی حجابی خواتین سے چند باتیں ـ شہلا کلیم

عالمی یوم حجاب پر تعلیمی میدان کی حجابی خواتین سے چند باتیں ـ شہلا کلیم

by قندیل

 

ترقی یافتہ سائنسی دنیا کی ایک مضحکہ خیز منطق ہے کہ "پردہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہےـ”جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسانی ارتقا کی سب سے پہلی منزل لباس اور حجاب ہےـ
ترقی یافتہ انسان کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہےـ زندگی کے ہر پہلو کے ارتقا کی اپنی ایک منفرد داستان ـ مخلتف تہذیبوں ملکوں اور مذاہب کا اپنا ایک الگ قصہ ـ لیکن بے شمار اختلافات کی اس ترقی یافتہ سائنسی دنیا میں ہر تاریخ، تہذیب، ملک، قوم ، مذہب اس ایک بات پر ضرور متفق ہیں کہ روئے زمین پر قدم رکھنے والا پہلا انسان برہنہ تھاـ ایک مذہب کی تاریخ کے مطابق آدم کو جنت سے برہنہ نکالا گیاـ شعور جاگا، شرم محسوس ہوئی چنانچہ پردہ پوشی کیلیے درختوں کے پتوں کا سہارا لیاـ دوسرے مذاہب کی تاریخ دیکھ لیں کہ آدی مانو ایک طویل مدت تک (جو کہ زمانۂ جاہلیت پر محیط ہے) بے لباس جنگلوں میں گھومتا رہاـ شعور بیدار ہوا تو ابتداءً سردی گرمی سے بچاؤ اور پھر جسم ڈھانپنے کیلیے درختوں کے پتوں اور چھالوں کا سہارا لیاـ اور جوں جوں ترقی کے منازل طے کیے لباس بھی بڑھتا اور ہیئت بدلتا گیاـ ایک عام مشاہدہ اور سائنسی منطق بھی یہی کہتی ہے کہ کوئی بھی بچہ ماں کی کوکھ سے مع لباس جنم نہیں لیتا لیکن جیسے جیسے اس کا شعور بڑھتا ہے لباس بھی بڑھتا جاتا ہےـ
اگر ہم سے کوئی مذہبی شخص پردے کی اہمیت و افادیت پہ سوال کرے تو ہم خالق کائنات کی یہ آیات اس کے گوش گزار کر دیں گےـ
(ترجمہ: اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے مونہوں پر نقاب ڈالا کریں یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے)
لیکن اگر کوئی غیر مذہبی شخص مذہب سے ہٹ کر انسانی تاریخ و تہذیب کی روشنی میں دلائل طلب کرےـ ترقی کی راہ میں رکاوٹ کہہ کر پابندیاں عائد کرے (جیسا کہ بڑے بڑے ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا آیا ہے اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے) یا پھر دقیانوسیت اور بیک ورڈ ہونے کے طعنے دے (جیسا کہ عام رواج ہو چلا ہے) تو پھر ایسے لوگوں کے لیے بیان کردہ کہانی کی روشنی میں یہی کہنا درست ہوگا کہ "پردہ شعور ہے”ـ
پردے کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ، بیک ورڈ اور دقیانوسیت سے تعبیر کرنے والے ترقی یافتہ انسان جب کہتے ہیں کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی اور آپ لباس میں الجھے ہوئے ہیں تب حقیقتا یہ انہی کے حق میں مقام حیرت اور لائق افسوس ہے کہ آخر ستاروں پہ کمندیں ڈالنے کے دعویدار اس قدر بیک ورڈ اور دقیانوس کیوں کر ہو سکتے ہیں کہ ترقی کو لباس تک محدود کر دیں اور کسی مخصوص طبقے کے لباس میں الجھ کر اس کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ گردانیں ـ کیسا کھلا تضاد اور دوغلی پالیسی ہےـ ایک عام فہم بھی اس دوہرے معیار کو بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ محض تعصب پرستی کے سوا کچھ نہیں اور جس کی مثالیں آئے دن دیکھنے کو ملتی ہیں ـ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ابھی حالیہ واقعہ غزالہ احمد نام کی ماس کمیونیکیشن طالبہ کا ہےـ جس نے تعلیم کے بعد صحافت کے میدان میں قدم رکھنے کی کوشش کی تو حجاب کو بنیاد بنا کر اس کی صلاحیتوں کو پس پشت ڈال دیا گیاـ کیسی احمقانہ دلیل ہے اور ستم یہ کہ ترقی یافتہ عہد کا انسان ہونے کے دعوے ہیں ـ ایک غزالہ احمد ہی کیا،حجاب کرنے والی خواتین اور لڑکیوں کو اکثر تعیلمی سفر سے لے کر انٹرویو اور جاب تک اس طرح کے مسائل اور سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہےـ انٹرویور کی سوالیہ نگاہ سب سے پہلے حجابی خاتون کے اسکارف کی جانب اٹھتی ہے اور سب سے پہلا سوال یہی کیا جاتا ہے کہ آپ حجاب کیوں کرتی ہیں؟ عام مشاہدہ ہے کہ اس طرح کے سوالات پر تعلیم یافتہ لڑکیاں بھی اکثر بوکھلا جاتی ہیں یا پھر کم علمی کے باعث ادھر ادھر کی ہانکنے لگتی ہیں، حالانکہ یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ آپ کسی بھی لبرل، سیکولر یا ناستک فرد کے سامنے اپنا تعارف پیش کریں وہ کسی صورت آپ کی مذہبی شناخت سے ہٹ کر آپ کو نہیں پرکھےگاـ لہذا ایسے مواقع اور سوالات کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے اور جب پوچھا جائے کہ آپ حجاب کیوں کرتی ہیں؟ تو بلا جھجھک کہہ دیں کیونکہ "ہم آزاد ہیں ـ” اگر لباس اتار دینا شخصی آزادی کے زمرے میں شمار ہے تو لباس پہن لینا کیوں نہیں؟ کیا تمام تر فطری اور اخلاقی قیود سے آزاد ہو جانے کا نام ہی آزادی ہے؟
مزید یہ کہ "پردہ شعور ہے”ـ ہاں مگر شعور کا مذہب سے بڑا گہرا ربط ہےـ کیونکہ اسلام کے سوا دنیا کا کوئی دوسرا مذہب یہ نہیں کہتا:

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔

(ترجمہ:اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے اوراپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں اوراپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنہیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہو جائے اوراے مسلمانو تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ)
اور چونکہ اسلام مساوات کی تعلیم دیتا ہے تو صرف عورتوں کے لیے ہی تمام تر اصول و قوانین کی پابندی لازم قرار نہیں دی گئی بلکہ مرد کو بھی احکام دیے گئےـ ارشاد باری تعالی ہے:
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَ‌ٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ
(ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کو بھی محفوظ رکھیں یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے بے شک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔)

You may also like

Leave a Comment