(چوتھی اور آخری قسط)
آفاقہا گر دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری
مفسر قرآن کی شخصیت بلاشبہ ہمہ جہت ہے، وہ زندگی کے ہر شعبے میں پوری طاقت کے ساتھ موجود ہیں، وہ ہماری مجلس علم و فضل کے صدر نشین ہیں تو عوام کے رہبر بھی ہیں، کسانوں کو کھیتی کے گر بتلا رہے ہیں، رات جلسے میں تقریر کر رہے ہیں تو صبح کچہری میں پہنچ کر کسی مظلوم کی پیروی کر رہے ہیں، یہاں سے نکلے تو چک بندی کے دفتر پہنچ کر بندوبست کے کاغذات دیکھ رہے ہیں، اب واپس گاؤں آ رہے ہیں لیکن ڈھبروا میں مولانا کو اتار لیا جاتا ہے اور تھانے دار کی شکایت کی جاتی ہے کہ اس نے تھانے سے متصل مسجد میں اذان دینے پر پابندی لگا دی ہے، یہ سن کر مولانا جلال میں آ جاتے ہیں اور ڈی ایم سے لے کر ڈی آئی جی تک کو فون کر کے کہتے ہیں کہ یہ کس ناسمجھ کو آپ لوگوں نے ہمارے تھانے کی ذمے داری دے دی ہے، مولانا اس وقت تک دم نہیں لیتے جب تک کہ اس کا تبادلہ نہیں کرا دیتے، بیک وقت چاروں دشاؤں میں ان کی مانگ ہے، سب کے کام آ رہے ہیں لیکن نہ کبھی تھکے نہ جھنجھلائے، چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے، اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے-
مفسر قرآن نے کسی ادارے میں درس و تدریس کا کام نہیں کیا، ان کے چند مضامین مرحوم رحمانیہ کے ترجمان محدث میں شائع ہوئے تھے، رہا مولانا کا تفسیری کام تو اس کے تعلق سے بہت ساری غلط فہمیاں عوام و خواص دونوں میں رائج ہیں، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مولانا کی تفسیر غائب ہو گئی، یہ تفسیر غائب نہیں ہوئی بلکہ ضائع ہو گئی، اس ضیاع پر گفتگو ہم اپنی کتاب میں کریں گے-
مفسر قرآن زندگی بھر اجتماعات میں شریک ہوتے رہے، یوپی، بہار و بنگال اور جھارکھنڈ میں مولانا کے چاہنے والے بہت ہیں، مولانا دعوت ملنے کے بعد ہر جلسے میں شریک ہوتے تھے، جلسہ چھوٹا ہو یا بڑا، وہ ہر حال میں شریک ہوتے تھے، بلیا ضلعے میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہے بانس گاؤں، اس گاؤں کے لوگوں نے ایک چھوٹا سا جلسہ کیا، کسی نے مولانا کو خط لکھ دیا، بات 1982 یا 1983 کی ہے، کسی کو امید نہیں تھی کہ مولانا آیئں گے، اس جلسے میں ریاستی جمعیت اہل حدیث مشرقی یوپی کا ایک مبلغ بھی شریک تھا جو جامعہ سلفیہ سے تازہ تازہ فارغ ہوا تھا، رات کے دس بجے گاؤں والے دیکھ رہے ہیں کہ جلسے کے پنڈال میں ایک کھٹارہ سی جیپ رک رہی ہے اور کوئی مولانا جیپ سے نیچے اتر رہے ہیں، کسی کو یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ کون بزرگ ہیں، ریاستی جمعیت کا مبلغ مولانا کے علاقے کا تھا، وہ مولانا کو پہچانتا تھا، وہ تیزی سے مولانا کے استقبال کیلئے آگے بڑھا، گاؤں والوں کو جب معلوم ہوا کہ یہی مولانا عبدالقیوم رحمانی ہیں تو انہیں بڑی حیرت ہوئی کہ ہمارے ایک خط پر مولانا چل کر ہماری طرف آ گئے، صبح مولانا کب چلے گئے، کسی کو پتہ بھی نہیں چلا، گاؤں والے افسوس کرتے رہے کہ ہم مولانا کو کرایہ بھی نہیں دے سکے، اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جن کا ذکر ہم اپنی کتاب میں کریں گے-
مولانا انتہائی مخلص تھے، وہ دعوت کا کام للہ فی اللہ کرتے تھے، وہ جلسے والوں سے نہ اجرت طے کرتے تھے اور نہ ہی انہیں کوئی کرایہ دے پاتا تھا، وہ پورے ملک کا سفر کرتے تھے اور کہتے تھے کہ سرکار نے مجھے پاس بنا کر دیا ہے اور مہینے میں ایک خطیر رقم مجھے پنشن کے طور پر پر ملتی ہے جو میری ضرورت کیلئے کافی ہے تو پھر میں خلق خدا کے سامنے کیوں ہاتھ پھیلاؤں، ان کی خودداری، امانت و دیانت اور ان کی حق گوئی کی تمام تر مثالوں کو پڑھنے کیلئے قارئین کو انتظار کرنا پڑے گا-
ایک سوال بہت اہم ہے اور وہ یہ کہ مولانا نے اپنی تقریروں کا موضوع قرآن ہی کو کیوں بنایا؟ دراصل ہمارے یہاں ضعیف و موضوع روایات بیان کرنے کا اور قصہ گوئی کا جو چلن عام ہو گیا تھا، مولانا نے اس کے ردعمل میں قرآن کو موضوع بنایا اور ایسا بنایا کہ قرآن فہمی کی ایک جوت جگا دی، مولانا کے قرآن پڑھنے کا انداز اتنا انوکھا تھا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے نازل ہو رہا ہے، نہ کوئی راگ، نہ کوئی ترنم لیکن ایسا پڑھتے تھے کہ سننے والا سر دھننے پر مجبور ہو جاتا تھا، سوالوں کے جوابات قرآن سے اتنا برجستہ دیتے تھے کہ ان کے استحضار پر علماء تک انگشت بدنداں ہو جایا کرتے تھے، ایک عالم نے پوچھا کہ مولانا شیعہ قرآن کے بارے میں ایسا کہتے ہیں، آپ کی کیا رائے ہے، مولانا نے برجستہ کہا کہ میری رائے کی کیا اہمیت جب اللہ پاک نے خود کہا ہے کہ ذَٰلِكَ ٱلۡكِتَٰبُ لَا رَيۡبَۛ فِيهِۛ اب شیعہ کہا کریں، مولانا يَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْأَهِلَّةِ کی تفہیم میں قرآنی آیات کا استعمال اس قدر برجستہ کرتے تھے کہ ایک سعودی عالم بدر بن علی بن طامی العتیبی بار بار مولانا سے سنتے تھے، دراصل مولانا قرآن کے ترجمہ و تفسیر و تفہیم کیلئے قرآنی آیات ہی کا سہارا لینا زیادہ پسند کرتے تھے، پھر قرآن کی تفہیم کیلئے وہ علاقائی زبانوں کا بھی سہارا لیتے تھے، اودھی میں وہ قرآنی آیات کا ایسا ترجمہ کر دیتے تھے کہ ایک عامی بھی قرآن کا مفہوم سمجھ جاتا تھا، فَبُهِتَ الَّذِیْ كَفَرَ کے ترجمے کے تعلق سے ایک لطیفہ بھی خاصا مشہور ہے جو لکھنے کی چیز نہیں ہے، بنگال والے تو بوڑہا مولبی کے بڑے مداح تھے، ایک بار مولانا نے گفتگو کا آغاز کچھ اس طرح سے کیا، جیسے ہم لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے، مفسر قرآن نے اس کو اس طرح سے کہا کہ پربھو بولَے، مولانا فضل رحمان گنج مرادآبادی کے ہندی ترجمۂ قرآن پر ہم چاہے جتنی وحشت کا مظاہرہ کریں لیکن اسحاق بھٹی سے پوچھ لیں، وہ بہتیرے وہابی علماء کے ترجمۂ قرآن کے نمونے آپ کے سامنے پیش کر دیں گے، ہم بس اتنا ہی کہیں گے کہ ہمارے اسلاف کا یہ بھی طرز عمل تھا، آپ بیشک اختلاف کریں لیکن اس طرح کی مثالیں ہمارے یہاں بھری پڑی ہیں، یہاں ایک بات اور سمجھنے کی ہے کہ ہم مولانا کو مفسر قرآن کی حیثیت سے جانتے ہیں، عالم عرب میں انہیں ایک محدث سمجھا جاتا ہے، بحرین کی ایک مجلس میں مولانا نے بحرین سے متعلق اتنی احادیث بیان کر دیں کہ بحرینی علماء مولانا کا استحضار دیکھ کر حیران رہ گئے اور پھر مولانا کی نگرانی میں مسند البحرین لکھی گئی-
مفسر قرآن کی شخصیت کی چند جھلکیوں ہی کو ہم نے پیش کیا ہے، ہمیں خود بھی احساس ہے کہ مولانا کے علم و فضل پر اب تک ہم گفتگو نہیں کر سکے ہیں، ایک قسط تو مولانا کے علم و فضل پر آنی ہی چاہئے تھی لیکن یہاں بھی ہم قارئین کو وعدۂ فردا پر ٹرخا رہے ہیں، ان مضامین کو نشر کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ اس کی وجہ سے مولانا کی زندگی ایسے گوشے ہمارے سامنے آ جایئں گے جو ہماری نظروں سے اوجھل ہیں، خدا کا شکر ہے کہ ہم اپنے مقصد میں بہت حد تک کامیاب ہوئے، اب اجازت دیں، ان شاءاللہ ہماری دوسری ملاقات اس حال میں ہوگی کہ ہمارے ہاتھ میں مولانا پر ایک کتاب ہوگی، ہماری پوری کوشش ہوگی کہ کتاب ہم جلد از جلد پیش کریں لیکن ایک لکھنے والے کو جلد باز نہیں ہونا چاہئے اس کے علاوہ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا-