(تیسری قسط)
ڈر اور خوف نام کی مولانا کے پاس کوئی چیز نہیں تھی، آزادی کے فوراً بعد جب حالات کشیدہ ہوئے تو مولانا نے میدان عمل میں اتر کر فرقہ پرستوں سے لوہا لیا، بڑھنی شوگر مل کے ورکرز کی فتنہ انگیزیوں کی سرکوبی میں مولانا نے کوئی کسر نہیں چھوڑی حد تو یہ ہے کہ شوگر مل اکھڑوا کر چھوڑا، ایک جمی جمائی شوگر مل کو اکھڑوانا کوئی معمولی بات نہیں، کرشن چندر شاستری مولانا کے دوست تھے، کمیونسٹ تھے اس لئے وہ مل ورکرز کی حمایت میں کھڑے ہو گئے لیکن مولانا ایک ہفتے میں مل منتقلی کا حکم لے آئے، اس مل کی باقیات بڑھنی میں آج بھی مل کالونی کے نام سے ہیں، شوگر مل کا واقعہ اس لئے اہم ہے کہ اس دور میں ایک ہنگامۂ محشر بپا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کنویں میں بھانگ پڑ گئی ہو، لوگ جائے پناہ کی تلاش میں بھاگ رہے تھے، مر رہے تھے، آبرو لٹ رہی تھی، ایسے ہنگامۂ محشر میں چند لوگ اگر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ ہمیں یہیں رہ کر اپنی جان، اپنی عزت، اپنی جائیداد اور اپنے مال کی حفاظت کرنی ہے تو ایسوں لوگوں کو یاد کرنا بہت ضروری ہے، یہ لوگ جو اپنی حفاظت کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے انہیں زمین سے اٹھا کر کھڑا کرنے والے مولانا عبدالقیوم رحمانی تھے، ایک عالم دین، ایک مفسر قرآن اور ایک محدث کے روپ میں مولانا کو آپ نے بہت دیکھا ہے، آیئے ایک الگ روپ میں دیکھیں لیکن اس روپ میں بھی دیکھنے سے پہلے چند مثالیں ملاحظہ کر لیں تاکہ وحشت نہ ہو-
زندگی دیکھ ترے ناز اٹھانے والے
سر پہ آ جائے تو تلوار اٹھا لیتے ہیں
ممکن ہے کہ ہمارے قارئین کو حیرت ہو کہ یہ کیسا مولوی ہے جو فرقہ پرستوں سے لوہا لے رہا ہے، جو قال اللہ و قال الرسول کو چھوڑ کر نعرۂ تکبیر بلند کر رہا ہے، کیا مولوی ایسے ہوتے ہیں، ہم ابتداء میں عرض کر چکے ہیں کہ علمائے کرام کے تعلق سے ہماری سوچ یہی ہے کہ علماء زندگی کے ہنگاموں سے دور رہتے ہیں لیکن یہ ایک غلط فہمی ہے، حقیقت یہ ہے کہ جب جب امت کو ضرورت پڑی ہے تب تب علماء اپنے حجرے سے نکل کر زندگی کے ہنگاموں میں نہ صرف شریک ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے قائدانہ کردار بھی ادا کیا ہے، جماعت مجاہدین علماء ہی کی جماعت تھی، انگریز برصغیر سے چلا گیا لیکن یہ بوریا نشین کہیں نہیں گئے، انگریزوں نے اپنی پوری طاقت استعمال کر لی لیکن جماعت مجاہدین کو وہ ختم نہیں کر سکے بلکہ خود ختم ہو گئے، تقسیم کے ہنگاموں میں مولانا آزاد جیسا تنہائی پسند بھی اپنے خلوت کدے سے نکل کر عوام کی حوصلہ افزائی کیلئے نکل پڑتا ہے، ابن تیمیہ کی عظمت ایسی ہے کہ بڑے بڑے صاحبان علم ان سے خوشہ چینی کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں لیکن فتنۂ مغول کی سرکوبی کیلئے ابن تیمیہ بھی میدان جنگ میں شمشیرزنی کے جوہر دکھاتے ہیں، قازان سے اس دبنگ لہجے میں گفتگو کرتے ہیں کہ ہمراہی خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ کہیں مار نہ دیئے جائیں، رمضان المبارک کے مہینے میں قازان سے جنگ لڑی گئی، یہ جنگ موت و حیات کی جنگ تھی، عین جالوت کے بعد اب مرج الصفر میں فیصلہ ہونے والا تھا کہ باقی کون رہے گا، مسلمان یا تاتاری، ایسے موقعے پر ابن تیمیہ مسلمان فوج کے ساتھ بنفس نفیس شریک ہوتے ہیں، دوران جنگ پوچھتے ہیں کہ مجھے موت کی جگہ دکھاؤ، جنگ سے پہلے یہ دکھانے کیلئے وہ روزے سے نہیں ہیں، انہوں نے امیروں اور سالاروں سے انگور مانگ کر کھایا، صفوں کے درمیان سپاہیوں کے سامنے کھجور کھاتے ہوئے چل رہے تھے اور یہ پیغام دے رہے تھے کہ آج کی رات بچیں گے تو سحر دیکھیں گے، روزہ رکھنے کیلئے تو پوری زندگی پڑی ہے، اب اسی مجاہدانہ رنگ میں مولانا عبدالقیوم رحمانی کو دیکھیں-
مولانا کے گاؤں دودھونیاں سے قریب میں ایک قصبہ ہے بڑھنی نام کا، بڑھنی سرحد پر ہندوستان کا آخری قصبہ ہے، سرحد کے اس پار نیپال میں جھنڈا نگر ہے جہاں کے مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈا نگری تھے تو بڑھنی میں اس وقت ایک شوگر مل تھی، مل ورکرز باہر کے تھے اور سنگھ کی ان ورکرز پر اچھی خاصی پکڑ تھی، پورے ملک میں فرقہ پرستوں کا ننگا ناچ جاری تھا کہ اس ملک سے مسلمانوں کے قدم اکھڑ جایئں تو ظاہر ہے کہ یہ علاقہ بھی محفوظ نہیں تھا، مولانا کے گاؤں کے ایک صاحب برساتی نام کے تھے، ان کے صاحبزادے یاسین کا انتقال ابھی حال ہی میں ہوا ہے تو یہ برساتی بڑھنی کے اسی شوگر مل میں ورکر تھے، مل ورکرز کی فسادی ذہنیت اہل علاقہ پر آشکار تھی اس لئے لوگوں نے برساتی کو منع کیا کہ اب تم کچھ دنوں کیلئے ڈیوٹی پر نہ جاؤ لیکن انہیں تو خوش فہمی لاحق تھی کہ مل ورکرز تو میرے دوست ہیں، وہ مجھے نقصان نہیں پہنچائیں گے، وہ سوشل میڈیا کا دور تو تھا نہیں کہ اطلاعات ایک پل میں ادھر سے ادھر پہنچ جائیں، تقسیم میں تو پڑوسی پڑوسی کا دشمن ہو گیا تھا، ایک شراکت دار نے دوسرے شراکت دار کی گردن کاٹی تھی، بلاشبہ اس دیوانگی کے دور میں بھی فرزانگی کی بہت ساری مثالیں ملتی ہیں لیکن وہ مستثنیات میں سے ہیں، بہرحال برساتی ڈیوٹی پر گئے اور ان کے دوستوں نے انہیں مل کے بوائلر میں جھونک دیا، بیچارے زندہ جل کر مر گئے، مولانا موجود نہیں تھے، دلی میں تھے، ٹرین سے واپس آئے، بڑھنی اسٹیشن سے اتر کر اپنے گاؤں دودھونیاں چل پڑے، راستہ وہی تھا، مل ورکرز نے مولانا کو گھیر لیا، مولانا کے ساتھ عظمت اللہ عرف موٹے تھے، مزدوروں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا، یہ مزدور فرقہ پرست تھے، ہندوتو کے نمائندے تھے، اس واقعے کو مولانا کی والدہ ضیائی اپنے پوتوں کو سناتی تھیں، جیسے لوگ مرثیہ پڑھتے ہیں ویسے ہی مولانا کی والدہ رو رو کر سناتی تھیں، مزدوروں نے چاروں طرف سے مولانا کو گھیر لیا، سب کے ہاتھ میں ننگی تلوار، ہر دوسرا آدمی کھ رہا ہے کہ مار دو، عظمت اللہ کا بیان ہے کہ مولانا گھیرا توڑ کر چل پڑے، میں نے مولانا کا کرتا پیچھے سے پکڑ لیا، پیچھے پیچھے چل رہا ہوں، آنکھ بند ہے، دیکھنے کی ہمت نہیں ہے، لگ رہا ہے کہ آج ہم لوگ مار دیئے جائیں گے، مفسر قرآن چلتے رہے، ان دیوانوں کے درمیان بھی کچھ فرزانے تھے، یہ لوگ کبھی کہتے تھے کہ مجاہد آزادی ہیں اس لئے نہ مارو، کبھی کہتے تھے کہ زینو بابو کے بٹوا ہیں، نہ مارو، شوگر مل سے بڑھنی کا ریلوے اسٹیشن فاصلے پر ہے، مولانا اور ان کے ہمراہی اسٹیشن پر پہنچ کر اسٹیشن ماسٹر کے کمرے میں داخل ہو گئے، مولانا کا گاؤں دودھونیاں اسٹیشن سے تقریباً ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، مولانا اگر اپنے گاؤں آتے تو راستے ہی میں مار دیئے جاتے اور نہ ہی اس پوزیشن میں تھے کہ گاؤں میں قاصد بھیج کر کمک بلوا لیں، اس لئے مولانا نے اسٹیشن ماسٹر سے اپنا تعارف کرایا اور اس سے گزارش کی کہ میرے حوالے سے اپنے آفیسروں سے بات کرو اور اسپیشل ٹرین سے مجھے ٹیسم بھجواؤ، اسٹیشن ماسٹر بھی کوئی بھلا آدمی تھا، خطرہ وہ بھی دیکھ رہا تھا، اس نے اپنے آفیسروں سے بات کر کے اسپیشل ٹرین اور اسپیشل گارڈز کا بندوبست کیا اور مولانا کو ٹیسم بھیجا، مولانا ٹرین سے ٹیسم اس لئے گئے کہ ٹیسم بھی مولانا کا گاؤں تھا اور مولانا کے خاندان کے بہتیرے لوگ ٹیسم میں سکونت پذیر تھے، ریلوے لائن ان کے گھروں کو چھو کر گزرتی ہے، بہرحال مولانا ٹیسم سے حفاظتی انتظامات کے ساتھ دھودنیاں آئے-
شوگر مل کے مزدور جب ناکام ہو گئے تو انہوں نے نے دھودنیاں اور کھجوریا کو ٹارگٹ کر کے حملہ کر دیا، یہ حملہ عشاء کے بعد ہوا تھا، وہ لوگ سوچ رہے تھے کہ دودھونیاں والے بے خبر ہیں، ہم لوگ نیند ہی میں انہیں ختم کر دیں گے لیکن یہاں تو ہر بات کی خبر تھی، مفسر قرآن نے گاؤں والوں کو پہلے ہی سے الرٹ کر رکھا تھا، علاقے والوں کو اپنی مدد کیلئے بھی بلا لیا تھا، حملہ آور جب دودھونیاں پہنچے تو انہیں اندازہ ہو گیا کہ یہ لوگ خطرہ بھانپ چکے ہیں اس لئے حملہ آور آگے بڑھ گئے، اب ان کا نشانہ کھجوریا تھا، یہاں مہدی بادشاہ مقابلے کیلئے موجود تھے، رہرا کے بھون سنگھ مہدی بادشاہ کے دوست تھے، انہوں نے تین سو لٹھ بازوں کو مہدی بادشاہ کی مدد کیلئے بھیج دیا تھا اور دودھونیاں والے بھی مولانا کی قیادت میں مہدی بادشاہ کی مدد کیلئے پہنچ چکے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ حملہ آوروں کو یہاں بھی ناکام ہونا پڑا لیکن واپسی کا راستہ تو دودھونیاں سے ہو کر گزرتا تھا، حملہ آور پلٹے، مولانا بھی کھجورریا سے پلٹے، یہاں مولانا کے ایک مددگار موجود تھے، نام ضیاءاللہ تھا، دھنورہ کے رہنے والے تھے، یہ مرد بزرگ شیخ عبدالرشید مدنی استاذ جامعہ سراج العلوم کے والد محترم تھے، ضیاءاللہ صاحب نے نعرۂ تکبیر بلند کر کے بلوائیوں کو اپنی موجودگی کا احساس کرایا، حملہ آوروں کا دستہ گزر رہا تھا کہ کسی منچلے نے چھیڑ دیا کہ آئے تھے باگھ بن کر اور اب جا رہے ہیں سیار بن کر، حملہ آوروں کو بہانہ مل گیا، جھڑپ ہو گئی لیکن مولانا کی کوشش یہ تھی کہ ان لوگوں کو دہشت زدہ بھی کیا جائے اور نکل جانے کا راستہ بھی دیا جائے سو حملہ آور نکل گئے، اب مولانا نے ٹھان لیا کہ اس شوگر مل کو یہاں نہیں رہنے دینا ہے، سارے فساد کی جڑ یہی ہے، جب تک یہ مل رہے گی تب تک فساد ہوتا رہے گا اور اس کی وجہ سے ہمارے لوگ بھی غیر محفوظ رہیں گے، مولانا پنڈت جی سے ملے اور اپنی بات رکھی، کرشن چندر شاستری مولانا کے دوست تھے، دونوں نے ایک ساتھ انگریزوں سے لوہا لیا تھا لیکن شاستری جی نظریاتی طور پر کمیونسٹ تھے اس لئے وہ شوگر مل ورکرز کے حق میں کھڑے ہو گئے لیکن مولانا کی کوششیں جاری رہیں جس کے نتیجے میں شوگر مل کر منتقلی میرٹھ شہر میں ہو گئی، شب کے ان سرپرستوں نے چاہا تھا کہ سپیدۂ سحری کو سیاہ کر دیں لیکن خود سیاہ ہو گئے، و مکرو مکراللہ واللہ خیرالماکرین-
اس پورے فساد میں علاقے کے ہندو زمیندار نیو ٹرل رہے، شہرت گڑھ اسمبلی حقلہ کے ممبر پپو چودھری کے دادا برجیشوری پرساد اور ان کے والد بال جی گوپال جی، پتھردیئا کے من بہال سنگھ، ڈھبروا کے مہیپال سنگھ اور رہرا کے بھون سنگھ فسطائی طاقتوں کے آلۂ کار نہیں بنے، یہ سارا فساد موہن پانڈے کی قیادت میں ہوا اور بڑھنی کے کچھ برہمن جو مڑلا کے رہنے والے تھے جیسے بڑھنی کے سابق چیئرمین نریش بابا کے دادا گوری شنکر اپادھیائے وغیرہ، موہن پانڈے جم دھرا کے تھے، من بڑھ تھے، نگینہ پانڈے کے والد تھے، بڑھنی چوراہے پر آج بھی ان کا گھر ہے اور یہ گندہ کھیل انہیں لوگوں کا رچایا ہوا تھا-
نیزہ بازی و شمشیرزنی میں بھی مولانا طاق تھے، ساٹھ کی دہائی میں ستنی گاؤں کے مسلمانوں کو مولانا نے ایک برہمن زمیندار گارڈ صاحب سے ظلم سے بچایا تھا اور اس کیلئے مولانا کو باقاعدہ لوہا لینا پڑا تھا، دوبدو کی لڑائی میں انہوں نے زمیندار کو پست کیا تھا، اس لڑائی کی روداد بہت دلچسپ ہے، اس لڑائی کی تفصیلات کا جب مجھے علم ہوا تو میں مسکرا پڑا اس لئے کہ مولانا کے پیش نظر وہ منصوبہ بندی تھی جس کے سہارے سیدنا خالد ابن ولید نے یرموک میں جنگ جیت لیا تھا، سیدنا خالد نے اس جنگ میں اپنے عقب کو اس طرح سے محفوظ کیا تھا کہ انہوں نے اپنے عقب میں عرب کے صحرا کو رکھا تھا تاکہ پسپائی کی صورت میں ہم صحرا میں گم ہو جایئں، یمین و یسار میں محفوظہ کے کچھ دستوں کر دیا تھا کہ وقفے وقفے سے تم لوگ دھول اڑاتے ہوئے میدان جنگ میں شامل ہوتے رہو، مولانا نے اپنے عقب میں گنے کا کھیت رکھا تھا اور اس میں بھی اپنے لوگوں کو چھپا دیا تھا، مولانا کے یمین و یسار میں ارہر کے کھیت تھے، اس میں مولانا کے سورما چھپے ہوئے تھے جو وقفے وقفے سے نکل کر میدان جنگ میں شامل ہو رہے تھے، مولانا کا حکم تھا کہ تلوار سے حملہ نہ کرنا، اسے بس دکھانا، حملہ لاٹھی سے کرنا لیکن سر پر نہ مارنا اور اتنی طاقت سے کرنا کہ پھر اٹھ نہ سکے، للکارنا اور دہاڑنا زیادہ اور طعنہ دینا کہ کیوں اپنی بیویوں کو بیوہ کرانا چاہتے ہو اور کیا تم لوگ چوڑیاں تڑوا کر آئے ہو، بہرحال دو بدو کی اس لڑائی میں بھی مسلمان مولانا کی قیادت میں کامیاب رہے، اس واقعے کے راوی حشم اللہ ہیں جو ہراول دستہ کے کماندار تھے، ان کا انتقال ابھی حال ہی میں ہوا ہے، جھڑپ کے دوران مولانا نے جو احکامات دیئے وہ اسلام کے جنگی احکامات ہیں-
ایک مقامی کھیل ہے بلوٹ، بلوٹ میں ہوتا یہ ہے کہ چارپائی کے نیچے مرغی داخل کر دی جاتی تھی اور لٹھیت کو چارپائی کے ارد گرد اتنی تیز رفتاری سے لاٹھی چلانی رہتی تھی کہ مرغی چارپائی کے نیچے سے نکل نہ سکے اگر مرغی نکل گئی تو وہ لاٹھی کی زد میں آ کر مر جاتی تھی لیکن یہ عیب تھا، ہنرمند تب مانا جاتا تھا جب لٹھیت مرغی کو چارپائی سے نکلنے کا موقعہ ہی نہ دے، مولانا بلوٹ میں بھی طاق تھے، مولانا کا عصا زندگی بھر مولانا کے ساتھ رہا اور یہ عصا ایسا تھا کہ وقت پڑنے پر مولانا اسے ہتھیار بھی بنا لیتے تھے، کندھے پر ان کے ہمیشہ چادر پڑی رہتی تھی اور سر پر رومال عمامے کی شکل میں بندھا ہوتا تھا اور یہ رومال بھی ان کا بہت بڑا ہتھیار تھا، لٹھ باز اگر خالی ہاتھ بھی ہے تو ایک رومال سے حملہ آور کو پست کر سکتا ہے-
مفسر قرآن مولانا عبدالقیوم رحمانی کے بارے میں یہ جزئیات ہم نے اس لئے نہیں لکھی ہیں کہ محفوظ ہو جائیں اس لئے لکھی ہیں کہ ہماری آج کی نسل یہ جان لے کہ جماعت مجاہدین کے افراد کیسے ہوتے تھے اور ان کی تربیت کیسے کی جاتی تھی اور ہم یہ بھی جان لیں کہ ہمارے درمیان جماعت مجاہدین ہی کا ایک اہم فرد تھا اور اس کے بارے میں جان بھی نہ سکے، مولانا کو جماعت مجاہدین میں شامل کرنے کی ہمارے پاس ایک نہیں کئی وجوہات ہیں، جماعت مجاہدین کے کام کرنے کے طریقے پر جن لوگوں کی نظر ہے وہ ہم سے اتفاق کریں گے، ڈبلیو ہنٹر کی رپورٹ The Indian Musulmans غلام رسول مہر کی سرگزشت مجاہدین اور ڈاکٹر قیام الدین کی وہابی تحریک میں مجاہدین کا حلیہ جس طرح سے بیان کیا گیا ہے اس حلیے کو سامنے رکھ کر جب آپ مولانا کو دیکھیں گے اور جن لوگوں نے مولانا کو دیکھا ہے وہ تصدیق کریں گے کہ وہ ایک مجذوب نظر آتے تھے، ایسا لگتا تھا کہ وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہیں لیکن اتنے چوکنے رہتے تھے کہ کوئی بھی حملہ ان کے اوپر کامیاب نہیں ہو سکتا تھا، وہ جس راستے پر نکلے تھے اس کا انجام انہیں معلوم تھا اسی لئے انہوں نے اپنے والد سے خود کو عاق کروا لیا تھا اگر نہ کرواتے تو ان کا بھی گھر جل جاتا ایسے ہی جیسے برگدوا کے ایک مجاہد آزادی سبھدر ناتھ کا گھر انگریزوں نے جلا دیا تھا، علاقے کے لوگ طعنہ دیتے تھے کہ عبدالقیوم سوراج حاصل کرنے نکلے ہیں، یہ بے غرض لوگ تھے، اپنا ہی نشیمن پھونک کر تماشا دیکھتے تھے، جماعت مجاہدین کے افراد زندگی کے ہر طبقے سے لئے جاتے تھے، ان میں تاجر بھی ہوتے تھے اور ہنڈی والے بھی، انگریزوں کے مخالف بھی تھے اور انگریزوں کے دوست بھی، انگریزوں کے دوست اس لئے ہوتے تھے کہ یہی لوگ خطرے کی نشاندہی کر کے مجاہدین کو چوکنا کر دیتے تھے، ان کی خفیہ پیغام رسانی کا نظام اس غضب کا تھا کہ آج کی ایجنسیاں بھی اسے جان کر انگشت بدنداں رہ جائیں، ان پیغامات میں جو لفظیات استعمال کی جاتی تھیں اسے ڈی کوڈ کرتے ہوئے انگریز سی آئی ڈی کو پسینہ آ جاتا تھا، یاد کریں میاں صاحب نے مقدمے کی سماعت کے دوران انگریز جج کے سامنے سی آئی ڈی کے اہلکار کو کس طرح سے ڈانٹا تھا کہ نخبۃ الفکر کیا توپ، نخبۃ الفکر کیا بندوق تو یہ میاں صاحب کا تجاہل عارفانہ تھا، فتح الباری کے چھ جلدوں کے موصول ہونے کی خبر جو دی جاتی تھی تو اس کا مطلب یہی ہوتا تھا کہ فتح اللہ کے ذریعے چھ روپیہ مل چکا ہے، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کرنے کا کام ہم کرتے نہیں، جماعت مجاہدین کی خفیہ پیغام رسانی کے موضوع پر تو پی ایچ ڈی کی جا سکتی ہے لیکن اتنی محنت کا کام کون کرے-
مجاہدین کا نظام اتنا چست اور اتنا مضبوط تھا کہ انگریز یہ حسرت لئے ہوئے برصغیر سے چلے گئے کہ اس نظام کو ہم ختم کر دیں، یہ بوریا نشین لوگ اپنے زمانے کی بہترین ٹیکنالوجی رکھنے والی فوج سے ٹکر لیتے تھے اور کامیاب اس لئے ہوتے تھے کہ پورے ہندوستان میں ان کا جال پھیلا ہوا تھا، بہت کم ایسا ہوا کہ ان کا کوئی راز فاش ہو جائے، عبیداللہ سندھی امام انقلاب کے منصب پر فائز ہیں لیکن وہ ایک ذمے داری تک نہیں ادا کر سکے اور راز فاش ہو گیا اور آج لوگوں نے ریشمی رومال تحریک کا انہیں ہیرو بنا دیا ہے، وہ ہیرو ہیں لیکن ان کی ایک غفلت کی وجہ سے شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی جان خطرے میں پڑ گئی تھی اور وہ گرفتار ہو گئے تھے، مجاہدین کو رسد انگریزوں کی ناک کے نیچے سے پہنچتا تھا، ہتھیار گولہ بارود کیلئے پیسہ ہندو برادران وطن کے ذریعے ہنڈی سے بھجوایا جاتا تھا اسی لئے آپ دیکھیں گے کہ جماعت مجاہدین کے افراد کے برادران وطن کیلئے کوئی وحشت نہیں پائی جاتی، یہ تو سیاست داں تھے جو ہندو مسلم دونوں کو قابل بھروسہ نہیں سمجھتے تھے، اب آپ مفسر قرآن کو دیکھیں، ان کے یہاں بھی برادران وطن کیلئے کوئی وحشت اور اجنبیت نہیں ہے، گورکھپور کی جیل میں آٹھ بائی بارہ کے کمرے میں دس لوگوں کو قید کر دیا گیا اسی میں باتھ روم بھی ہے، مولانا کے ایک دوست پنڈت جی تھے وہ بھی مولانا کے ساتھ قید تھے، پنڈت جی کو کمرے کی تنگی کا شکوہ نہیں تھا انہیں شکوہ اس بات کا تھا کہ قید کے دوران ہمارے دوست کو نماز پڑھنے میں بہت تکلیف ہوئی تھی، مدرسہ رحمانیہ کے وہ فارغ تھے، اسی رحمانیہ کے مہتمم جماعت مجاہدین کے مددگار تھے، خلیفہ عبدالقادر سے مولانا نے فن سپہ گری سیکھی تھی، یہ خلیفہ صاحب بھی جماعت مجاہدین کی یادگار تھے، مولانا شیخ الحدیث احمداللہ پرتاپ گڑھی کے عزیز شاگرد تھے، یہ شیخ الحدیث بھی جماعت مجاہدین کے ہمدرد، ایسے میں یہ کیوں نہ مان لیا جائے کہ مولانا بھی جماعت مجاہدین کی آخری یادگار تھے، خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را-
(جاری)