Home تجزیہ آج ووٹ ضرور دیں ! – شکیل رشید

آج ووٹ ضرور دیں ! – شکیل رشید

by قندیل

(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)

آج لوک سبھا کے کے پانچویں مرحلے کی ووٹنگ ہے ۔ مہاراشٹر میں یہ لوک سبھا الیکشن کا آخری مرحلہ ہے، یہاں ١٣ سیٹوں پر ووٹنگ ہوگی جن میں ممبئی کی چھ سیٹیں بھی شامل ہیں ۔ ممبئی کی چھ سیٹوں کے علاوہ مضافات میں تھانے ، کلیان ، پالگھر اور بھیونڈی میں بھی لوگ آج حق رائے دہی کا استعمال کریں گے ۔ مزید جن لوک سبھا حلقوں میں آج یہاں ووٹنگ ہے وہ ہیں دھولیہ ، دندوری اور ناسک ۔ مہاراشٹر کے یہ الیکشن دو وجوہ سے اہم ہیں ، ایک تو اس لیے کہ یہاں جس سیاسی پارٹی کو زیادہ سیٹیں حاصل ہوتی ہیں وہ یا تو مرکز میں حکومت سازی کرتی ہے یا حکومت سازی میں مدد ، کیونکہ اتر پردیش کی ٨٠ لوک سبھا سیٹوں کے بعد مہاراشٹر لوک سبھا کی سیٹوں کے معاملے میں دوسرے نمبر پر ہے ، یہاں ٤٨ سیٹیں ہیں ۔ موجودہ لوک سبھا میں ، جس کی مدت اس الیکشن کے بعد ختم ہو جائے گی ، بی جے پی کو یہاں سے ٤٢ سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی اور اسے حکومت سازی میں بہت آسانی ہو گئی تھی ۔ لیکن تب اور اب میں بڑا فرق آگیا ہے ، حالات اور حلیف بدل گئے ہیں ۔ تب بی جے پی کے ساتھ ادھو ٹھاکرے اور ان کی شیوسینا تھی ، آج ادھو ٹھاکرے اور ان کی شیوسینا سیدھے بی جے پی سے مقابلے پر ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ شیوسینا دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے ، ایکناتھ شندے بغاوت کرکے بی جے پی کا دامن تھام چکے ہیں اور اس کی وجہ سے ادھو کی شیوسینا کمزور ہوئی ہے ، لیکن بی جے پی ٹھاکرے پریوار کی سرپرستی سے محروم ہو چکی ہے ، یہ محرومی بی جے پی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے ۔ راج ٹھاکرے ضرور بی جے پی کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں ، لیکن مہاراشٹر میں اب وہ بے طاقت ہیں ، عوام انہیں رد کر چکی ہے ۔ مہاراشٹر کے الیکشن کی اہمیت کی دوسری وجہ ریاست کی مستقبل کی سیاست یا سیاسی صف بندی ہے ۔ یہ الیکشن بی جے پی کے لیے ، شیوسینا ، این سی پی اور کانگریس ان چاروں پارٹیوں کے لیے تو اہم ہے ہی ، ادھو ، فڈنویس ، شندے ، اجیت پوار اور شرد پوار کے لیے بھی ذاتی طور پر اہم ہے ۔ اگر ادھو کی شیوسینا اپنے انڈیا الائنس کے حلیفوں کے ساتھ مل کر ٣٥ سیٹیں جیت لیتی ہے تو فڈنویس کی ساکھ بی جے پی میں گھٹ جائے گی اور شندے بی جے پی کے لیے بے معنی بن جائیں گے ۔ شاید پھر کوئی شندے کو نہ پوچھے ! کچھ یہی حال اجیت پوار کا ہوگا ۔ لیکن اگر بی جے پی پھر بازی مار لیتی ہے تو ادھو اور شردپوار کے لیے مشکلات کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے ۔ دونوں ہی حالات میں مہاراشٹر میں نئی سیاسی صف بندی کا امکان ہے ، اس لیے بھی کہ اکتوبر میں مہاراشٹر اسمبلی کے الیکشن ہو سکتے ہیں ۔ ان حالات میں عوام کو بہت سوچ سمجھ کر اپنے ووٹوں کا استعمال کرنا ہے ۔ عوام کے سامنے کئی باتیں ہیں جو انہیں ، کسے ووٹ دیا جائے اور کسے ووٹ نہ دیا جائے ، اس سوال کے جواب تک پہنچا سکتی ہیں ۔ عوام سوچیں کہ کیا مہاراشٹر کی ترقی رکی ہے؟ اگر رکی ہے تو کیوں اور کس کے سبب؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ مہاراشٹر کی علاقائی سیاسی پارٹیوں کو توڑ کر بی جے پی کو کیا فائدہ حاصل ہوا ، اور ریاست کو کیا نقصان پہنچا؟ لوگوں کے ذہنوں میں یقیناً یہ سوال بھی ہوگا کہ یہاں کی صنعتوں کو گجرات کیوں لے جایا گیا؟ مذکورہ سوالوں پر غور کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ مہاراشٹر اور ممبئی کا بھلا کون سی پارٹی یا پارٹیاں چاہتی ہیں ۔ جو پارٹی مہاراشٹر کے بھلے کے لیے بہتر ہو عوام اسی کو ووٹ دیں ۔ اپنا ووٹ ضرور دیں کہ یہ آپ کا جمہوری اور آئینی حق بھی ہے اور یہ آپ کو آپنی پسند کے نمائندے کو پارلیمنٹ میں بھیجنے کا موقع بھی دیتا ہے ۔ آپ ووٹ ملک اور مہاراشٹر کے بہتر مستقبل کے لیے دیں ، اپنے ووٹ کو ضائع بالکل نہ کریں ۔ ووٹ کو ضائع کرنے کا مطلب ووٹ بغیر سوچے سمجھے دینا ہے ۔ اور ووٹ نہ دینا بھی ووٹ کو ضائع کرنا ہے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like