Home خاص کالم آج ایک واقعہ ہوا۔ ایم ودود ساجد

آج ایک واقعہ ہوا۔ ایم ودود ساجد

by قندیل

آج ایک واقعہ ہوا۔یوٹیوب نے میڈیا اسٹار ورلڈ پر ہفتہ واری پروگرام ”آپ کے روبرو“ کے تحت نشر ہونے والے تازہ ایپی سوڈ کو چلنے سے پہلے ہی ریموو کردیا۔اس پروگرام میں ہر اتوار کو چینل کے ایڈیٹر محمد احمد کاظمی مجھ سے تازہ سیاسی معاملات اور خاص طورپر قانونی معاملات پر گفتگو کرتے ہیں۔ اس پروگرام کےلیے مجھے خاصی محنت کرنی پڑتی ہے۔وقت نکال کر پڑھنا پڑتا ہے۔ایسی خبروں کی تلاش میں وقت لگانا پڑتا ہے۔پھر ان کے قانونی پس منظر اور آئینی پوزیشن کا مطالعہ کرکے کوئی موقف اختیار کرنا پڑتا ہے۔اس کے بعد جمعہ کے روز ان کے اسٹوڈیو جاکر اسے ریکارڈ کرانا پڑتا ہے۔ میں نے جب سے یہ پروگرام شروع کیا ہے ایک ہفتہ بھی ناغہ نہیں ہوا ہے۔اس کے لئے مجھ سے زیادہ چینل کے ایڈیٹر کو کریڈٹ جاتا ہے۔وہ مجھے بتاتے رہتے ہیں (بلکہ اکساتے رہتے ہیں) کہ ان کے 5 لاکھ 96 ہزار سبسکرائبرس میں سے بیشتر ناظرین میرا پروگرام بطورخاص اور بڑے ذوق کے ساتھ دیکھتے ہیں اور بہت ستائش کرتے ہیں۔ بعض ناظرین تو بے تابی سے انتظار کرتے ہیں۔ کچھ تو 9 بجے ہونے والے پریمئر کے انتظار میں 8 بجے ہی لنک کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ تو میں نے خود بھی دیکھا ہے، اسی لئے انہوں نے اس پروگرام کا نام ’اسپیشل سنڈے پروگرام‘ رکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران بھی‘ جبکہ میں دہلی میں نہیں تھا اسکائپ کے ذریعہ میں یہ پروگرام ریکارڈ کراتا رہا۔
اب یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس پروگرام میں ایسا کیا تھا کہ یوٹیوب نے اسے پریمئر کے مقررہ وقت صبح 9 بجے سے پہلے ہی چیک کرکے ہٹادیا۔میں نے اس پروگرام میں اترپردیش میں لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال کے تناظر میں ایسے چند واقعات شمار کرائے تھے جن میں حکومت نے اُن صحافیوں پر ملک سے غداری اور دوسری سخت دفعات کے تحت مقدمات عاید کردئے ہیں کہ جو مختلف میدانوں میں حکومت کی کمی کی نشاندہی کرتے رہے ہیں۔اس میں ایک ایسے واقعہ کا بھی ذکر آیا کہ جس میں ایک مسلم صحافی کو بغیر کسی جرم اور خطا کے ہی انتہائی سخت قانون Sedition میں گرفتار کرلیا گیا۔ اس ملک کا آئین‘ آرٹیکل 19(1) (A)- (B) کے تحت تمام شہریوں کو اظہار رائے کی کھلی آزادی دیتا ہے۔یہی وہ دفعہ ہے کہ جس کا سب سے زیادہ ناجائز استعمال مسلمانوں کے خلاف اس ملک کے میڈیا اور خاص طورپر چینلوں نے کیا ہے۔جمعیت علماء کے ذریعہ دائر ایک پٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے یہ کہا بھی ہے کہ حالیہ دنوں میں اس قانون کا سب سے زیادہ ناجائز استعمال ہوا ہے۔ جمعیت علماء نے اپریل 2020 میں لاک ڈاؤن کے دوران سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کرکے ان زہریلے چینلوں اور اخبارات کو لگام دینے کی اپیل کی تھی جنہوں نے تبلیغی جماعت کے قضیہ کی آڑ میں اس ملک کے مسلمانوں کے خلاف شرپسندی کی تمام حدیں پارکر دی تھیں۔لیکن حکومت نے اسے دوسرا رخ دیا اور عدالت میں شرپسند ٹی وی چینلوں کی حمایت میں کھڑی نظر آئی۔جمعیت علماء کی پٹیشن کا پُر فریب جواب دیا جس پر چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڈے نے سخت ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے اس جواب کو واپس کردیا اور دوسرا جواب تیار کرکے لانے کو کہا۔۔اس اشو پر میں پھر کبھی لکھوں گا۔ آئیے یوپی واپس چلتے ہیں: میں نے میڈیا اسٹار ورلڈ کے پروگرام میں بتایا تھا کہ ہاتھرس میں دلت لڑکی کی اجتماعی عصمت دری اور پولیس کے ذریعہ راتوں رات اس کی لاش کو نذر آتش کئے جانے کے بعد جب اپوزیشن پارٹیوں نے آواز اٹھائی تو ان کو بزور طاقت کچلنے کی کوشش کی گئی۔راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کے ساتھ دھکا مکی گئی۔ٹی ایم سی کے لیڈر ڈیرک او برائن کو زمین پر لٹاکر لاٹھیوں سے پیٹا گیا۔جاٹ لیڈر جینت چودھری کو بھی لاٹھیوں سے پیٹا گیا۔میں نے بتایا تھا کہ جن لڑکوں پر اجتماعی عصمت دری کا الزام ہے وہ اعلی ذات کے ہندو ہیں جبکہ جس لڑکی کی اجتماعی عصمت دری ہوئی وہ نچلی ذات کی دلت تھی۔یہ بھی عجیب بات ہے کہ جب ووٹ لینے ہوتے ہیں تو ہندؤں کے اعلی طبقات دلتوں کو بھی ہندو کہہ کر پکارتے ہیں اور وہ بی جے پی کو ہی ووٹ دیتے بھی ہیں۔اور جب دلتوں کو اعلی ذات سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ہندو نہیں ہیں۔ لہذا ملزم اور متاثرہ دونوں ہندو ہی ہوئے۔لیکن وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اس واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کرتے رہے۔۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کے جتنے لیڈر ہاتھرس پہنچے وہ سب ہندو تھے۔جتنے صحافی پہنچے وہ بھی تقریباً سبھی ہندو تھے۔حکومت کو ایسا کوئی سرا نہیں مل رہا تھا کہ جس کو پکڑ کر دکھایا جاسکے کہ مسلمان ان کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ اچانک یہ ہوا کہ دہلی سے چار مسلم نوجوان ہاتھرس کیلئے نکل پڑے۔ان میں تین اسٹوڈینٹس تھے اور ایک صحافی۔۔ صحافی صدیق کپن کیرالہ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن عرصہ سے دہلی میں رہتے ہیں۔وہ کیرالہ ورکنگ جرنلسٹ فیڈریشن کے سیکریٹری بھی ہیں۔ان چارو ں کو ہاتھرس سے 106 کلو میٹر پہلے یعنی دوگھنٹہ 10منٹ کی دوری پر متھرا ٹول پر روک کر گرفتار کرلیا گیا۔چاروں پر ملک سے غداری جیسے سنگین الزامات کے تحت معاملات درج کرلئے گئے۔صدیق کپن کے خلاف ماضی میں کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ملتا۔اس کے باوجود انہیں اس الزام کے تحت گرفتار کر لیا گیا کہ وہ یوپی میں فسادکی سازش کرنے جارہے تھے۔
میں نے اپنے مذکورہ پروگرام میں بتایا تھا کہ ایک طرف تو حکومت ان چینلوں کے خلاف عاید پٹیشن کی مخالفت کرتی ہے جو اس کی کمیوں کو چھپاتے ہیں اور مسلمانوں کو بدنام کرتے ہیں لیکن دوسری طرف ان صحافیوں کو ستاتی ہے جو اس کی کمیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ خاتون صحافی روہنی سنگھ نے مرکزی وزیر اطلاعات ونشریات کو ایک ٹویٹ کرکے انہیں بتایا تھا کہ آپ صحافیوں کی آزادی کی بات کرتے ہیں لیکن یوپی میں صحافیوں کا برا حال ہے۔مثال کے طورپر
: 1۔ Today 24 News سے وابستہ روندر سکسینہ نے لاک ڈاؤن کے دوران رپورٹ دی تھی کہ یوپی کے کورنٹائن سینٹروں میں کورونا پازیٹیو مریضوں کو سڑے ہوئے چاول دئے جارہے ہیں۔اس رپورٹ پر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی۔
2 صحافی امیتابھ راوت نے تصویر کے ساتھ رپورٹ دی تھی کہ دیوریا کے ہسپتال میں ایک کم سن لڑکی جھاڑو پونچھا کر رہی ہے تو ان کے خلاف حکومت کو بدنام کرنے کے ’جرم‘میں ایف آئی آر درج کرلی گئی۔
3۔ پون جیسوال نے رپورٹ دی کہ کانپور کے ایک اسکول میں مڈ ڈے میل اسکیم کے تحت غریب بچوں کو روٹی کے ساتھ سالن کی جگہ نمک دیا جارہا ہے۔ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے انہیں گرفتار کرلیا گیا۔
4 وزیر اعظم کے پارلیمانی حلقہ وارانسی میں لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کا کیا حال ہوا اس پر Scroll.in کی رپورٹر سپریا شرما نے رپورٹ دی تو ان کے خلاف وزیراعظم کو بدنام کرنے کے ’جرم‘ میں ایف آئی آر درج کرلی گئی۔
5۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے خلاف کچھ لکھنے کے الزام میں صحافی پرشانت کنوجیا کو گرفتار لیا گیا۔اس کی ضمانت سپریم کورٹ سے ہوئی۔
6۔ جون 2020 میں فتح پور کے دو صحافی اجے بھدوریا (57سال) اور وویک مشرا (35سال) کو انتظامیہ کے نقائص شمار کرانے کے ’جرم‘ میں گرفتا رکرلیا گیا۔اس کے خلاف فتح پور کے صحافیوں نے گنگا میں برہنہ کھڑے ہوکر احتجاج کیا۔
7۔ اپریل2020 میں غازی آباد کے ڈی ایم کو ایک اسٹنگ میں رشوت لیتے ہوئے دکھا دیا گیا تو صحافی کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی۔
8۔ دی وائر کے ایڈیٹر اور مشہور انگریزی صحافی سدھارتھ وردا راجن کے خلاف حکومت کو بدنام کرنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کرلی گئی۔
9۔ 25 اگست 2020 کو بلیا میں صحافی رتن سنگھ اور چندولی میں صحافی ہیمنت یادو کو گولی ماردی گئی۔
10۔ جون 2020 میں کانپور کے صحافی شبھم ترپاٹھی نے ’سینڈ مافیا‘ کے خلاف رپورٹ لکھی تو انہیں گولی ماردی گئی۔
11 – جون میں ہی غازی آباد کے صحافی وکرم جوشی کو گولی ماردی گئی۔ میں نے بتایا تھا کہ ایک طرف جہاں وزیر اعلی’ یوپی میں رونما ہونے والے ان تمام واقعات کو اپنی حکومت کے خلاف سازش کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں وہیں اس طرح کے واقعات پر پوری دنیا میں ہماری بدنامی ہورہی ہے۔امریکہ‘برطانیہ اور یوروپ کے انسانی حقوق کے گروپ پہلے ہی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔تازہ بیان دہلی میں مقیم اقوام متحدہ کے ریزیڈینٹ کمشنر نے دیا ہے جس کے خلاف حکومت ہند ہی حرکت میں آگئی ہے۔بنگلور میں واقع حقوق انسانی پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم’ایمنسٹی انٹر نیشنل‘ نے اپنے تمام دفاتر بند کردئے ہیں کیونکہ حکومت نے اس کے تمام اکاؤنٹ منجمد کردئے ہیں۔تنظیم کو اپنے ملازمین کو تنخواہ دینا مشکل ہوگیاتھا۔میں نے وزیر اعلی کومخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نے ممکن ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کو اناج وغیرہ پہنچاکر اچھا کام کیا ہو لیکن آپکی حکومت میں جو ادارے یا افسران بد عنوانی کر رہے ہیں ان کی نشاندہی پر آپ کو خطا کاروں کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے اور نشاندہی کرنے والے صحافیوں کا ممنون ہونا چاہئے۔لیکن آپ آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان صحافیوں کے خلاف ہی کارروائی کررہے ہیں۔ بتائیے کہ اس میں ایسا کیا تھا کہ جس کی وجہ سے یوٹیوب نے اس پروگرام کو چلنے سے پہلے ہی ہٹالیا؟

You may also like

Leave a Comment