Home تجزیہ آج ایک عائشہ نے خودکشی کی، کل کو؟ ـ شکیل رشید

آج ایک عائشہ نے خودکشی کی، کل کو؟ ـ شکیل رشید

by قندیل

عائشہ کی خودکشی پر شاید ہی کسی کی آنکھ سے آنسو ٹپکے!
احمد آباد کی رہنے والی عائشہ نے یوں تو خودکشی کی نہ کوئی وجہ بتائی ہے اور نہ ہی کسی پر الزام لگایا ہے، اس نے بس یہ کہا ہے کہ وہ خدا سے ملنا چاہتی ہے۔ لیکن عائشہ کے والد لیاقت علی کے بیان سے خودکشی کی جو وجہ سامنے آئی ہے وہ جہیز کی مانگ ہے۔ عائشہ کی کہانی ان بہت ساری عورتوں کی کہانیوں ہی جیسی ہے جو جہیز کے لالچی خاوند اور ساس سسر کے ہاتھوں ستائی جاتی ہیں۔ عائشہ کا شوہر راجستھان کا ہے وہ جہیز کی بار بار فریاد کرتا اور کچھ نہ پانے پر عائشہ کو اس کے والدین کے پاس احمد آباد چھوڑ جاتاتھا۔ اس بار عائشہ نے خودکشی کی دھمکی بھی دی جس پر اس کے شوہر نے کہا تھا کہ مرنا ہے تو جاکر مرجا اور مرنے کا ویڈیو بھیج دے۔ اور عائشہ سابرمتی ندی میں کود گئی۔ عائشہ کا جو ویڈیو وائرل ہواہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ محبت کی ماری ہوئی تھی۔ شوہر کو تو وہ چاہتی تھی مگر شوہر جہیز کا لالچی تھا۔یہ تو ایک عائشہ کی کہانی ہے جو ہمارے سامنے آگئی ہے ورنہ اس ملک میں روزانہ نہ جانے کتنی ہی عائشائیں ہیں جو جہیز کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں، ان کی خبر تک کسی اخبار کی سرخی نہیں بن پاتی اور ان کے والدین رودھو کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ خاموشی کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارا نہیں ہوتا، وہ نہ کرپٹ افسران کی جیب بھرسکتے ہیں اور نہ ہی وکلاء کو فیس دے سکتے ہیں۔۔۔نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ عائشائیں جہیز کی بھینٹ چڑھتی رہتی ہیں اور جہیز کے لالچی آزاد گھومتے رہتے ہیں۔ صرف یہی نہیں اس کا ایک پہلو مزید ہے: لگی ہوئی شادیاں ٹوٹ جاتی ہیں، یا لڑکیاں کنواری بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ ایک واقعہ اور سن لیں؛ ہمارے ایک واقف کار نے ایک گھرانے میں اپنی بچی کی شادی لگائی ، بڑی دھوم دھام کی، ہونے والے داماد اور اس کے گھر والوں پر خوب خرچ کیا، لیکن لگی لگائی شادی اس لیے ٹوٹ گئی کہ ہونے والے دامادکودس لاکھ کی کار چاہئے تھی! اس طرح کے واقعات ہمارے سماج اور ہم مسلمانوں میں عام ہوگئے ہیں۔ کیا کوئی تنظیم، جماعت یا بورڈ ان واقعات پر غور کررہا ہے؟ کیا ان کے پاس اعدادوشمار ہیں کہ کتنی عائشائوں نے خودکشی کی ہے؟ کتنی ہیں جو کنواری بیٹھی ہوئی ہیں، کیوں کہ ان کے والدین جہیز نہیں دے سکتے؟ مجھے نہیں لگتا کہ ان سوالوں کے جواب کسی کے پاس ہوں گے۔ بلکہ مجھے پورا یقین ہے کہ ہماری تنظیمیں، جماعتیں اور بورڈ ان سوالوں پر غور تک نہیں کرتے ہوں گے۔ لہذا وہ ’حل‘ کی کیوں فکر کریں! مسلم پرسنل لا بورڈ خواتین کو طلاق ثلاثہ کی حمایت میں سڑکوں پر اتارسکتا ہے لیکن جہیز کے لالچیوں کو سزا دلوانے کےلیے اس کے پاس کوئی لا ئحہ عمل نہیں ہے۔ اصلاح معاشرہ کے نام پر ہماری جماعتیں لاکھوں روپئے خرچ کرکے پروگرام کرواتی ہیں مگر یہ پروگرام بے کار جاتے ہیں کیو ںکہ مولوی صاحب آکر تقریر کرکے، کھاپی کر اور پیسے لے کر چلے جاتے ہیں عملی طور پر کوئی کام نہیں ہوتا۔ جمعیۃ علما ہند کے دونوں گروپوں ، مسلم پرسنل لا بورڈ، امارت شریعہ اور دیگر مسلم جماعتوں کو اب تو جاگ جاناچاہئے۔ نہ جاگے تو آج ایک عائشہ نے خودکشی کی کل کوئی اور خودکشی کرے گی۔

You may also like

Leave a Comment