ممتازاسلامی مفکر، مفسر قرآن،ادیب و شاعر پروفیسر الطاف احمداعظمی آج یہاں مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 81برس تھی۔پسماندگان میں ایک بیٹا اور دوبیٹیاں ہیں۔تین درجن سے زائد اہم کتابوں کے مصنف پروفیسر الطاف احمد اعظمی2جولائی 1942کو اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے اسلامی علوم اور عربی زبان کی تعلیم مدرستہ الاصلاح سرائے میر سے حاصل کی تھی۔بعد ازاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے طب یونانی کی تعلیم حاصل کی۔دوران تعلیم انھوں نے طلباء یونین کی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور پروفسیر مشیرالحسن کو ہراکر یونین کے سکریٹری منتخب ہوئے۔علی گڑھ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے جونپور میں اپنا مطب قایم کیا، لیکن جب حکیم عبدالحمید نے دہلی میں جامعہ ہمدرد کی بنیاد ڈالی تو پروفیسر الطاف احمد اعظمی کی صلاحیتوں سے متاثر ہوکر انھیں دہلی بلالیااور جامعہ ہمدرد میں شعبہ ہسٹری آف یونانی میڈیسن کی ذمہ داریاں ان کے سپرد کردیں۔ وہ اس ادارے کے سربراہ بھی رہے۔وہ دہلی اردو اکاڈمی کے وائس چیئرمین بھی رہے۔انھوں نے یونانی ادویات اور اسلامی مطالعات کے میدان میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔جامعہ ہمدرد میں وہ شعبہ اسلامک اسٹڈیز اور سوشل سائنس کے ڈین بھی رہے۔وہ جامعہ ہمدرد سے شائع ہونے والے جرنل کے بھی ایڈیٹر رہے۔وہ انڈین نیشنل سائنس اکیڈمی، نئی دہلی کے ایڈوائزری بورڈ کے رکن بھی رہے۔
پروفیسر الطاف اعظمی کو عربی، فارسی، انگریزی اور اردو پر یکساں عبور حاصل تھا۔وہ تحریروتقریر دونوں پر ملکہ رکھتے تھے۔انھوں نے بیسویں صدی کے ربع آخر میں فکر اسلامی کے اردو لٹریچر میں اہم اضافے کئے۔ان کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن حکیم کی تفسیر’میزان القرآن‘ہے جو تین ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔اسلامیات پر ان کی دیگر قابل مطالعہ کتابوں میں ’ایمان وعمل کا قرآنی تصور‘،’توحید کا قرآنی تصور‘،’وحدۃ الوجود:ایک غیراسلامی نظریہ‘قابل ذکر ہیں۔ان کے بعض مباحث سے اتفاق کرنا مشکل ہے،تاہم ان سے نقدونظر کا دوسرا پہلو سامنے آتا ہے۔انھیں شعر و شاعری سے بھی شغف تھا۔ ان کے تین شعری مجموعے ’فغان نیم شب‘ ’زنجیرغزل‘ اور ’چراغ شب گزیدہ‘کے عنوان سے شائع ہوئے۔ انھوں نے ’تفہیم سرسید‘ اور’تصانیف سرسید‘بھی تصنیف کیں۔ اس کے علاوہ ’تصانیف شبلی پر ایک نظر‘، ’شبلی بحیثیت ادیب ونقاد‘بھی بھی ان کی تصانیف میں شامل ہیں ۔’طب یونانی اور اردوزبان‘ کے موضوع پر بھی ان کی کتاب شائع ہوچکی ہے۔انھوں نے تمام عمر تصنیف وتالیف کے کاموں میں بسر کی۔ وہ انتہائی نستعلیق اور کم گو طبیعت کے انسان تھے۔علامہ اقبال پر ان کی کتابوں میں ’اقبال کے بنیادی افکار‘، ’اقبال اور وحدت والوجود‘،’خطبات اقبال:ایک مطالعہ‘قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ قرآنی علوم پر ان کی کتابوں میں ’تفسیرقرآن کے اصول ومسائل‘،’نظم قرآن: ایک تجزیاتی مطالعہ‘’قرآن کی بصیرت افروزتعلیمات اور مسلمانوں کا طرزعمل‘ شامل ہیں۔ان کی دیگر تصنیفات میں ’مولانا آزاد بحیثیت مفسر قرآن‘، ’ہندوستانی مسلمانوں کا زوال‘اورادبی مقالات میں ’نقوش آگہی‘،’سخن ہائے گفتنی‘’جادہ ومنزل‘قابل ذکر ہیں۔
آہ ! پروفیسر الطاف احمد اعظمی -معصوم مرادآبادی
previous post