ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی
مشکی پور،کھگڑیا۔
گزشتہ 6 جنوری2020 کو بیدار ہوتے ہی کال آئی اوریہ افسوسناک خبر ملی کہ فخر عالم مرحوم (فخرو بھائی) کے چھوٹے صاحبزادے افتخار عالم اللہ کو پیارے ہوگئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مرحوم کی عمر محض48 سال ہوئی،اپنے پیچھے انھوں نے ایک بھائی،والدہ اور بیوہ سمیت ایک لڑکا چھوڑا۔
پڑھنے لکھنے میں شروع سے اچھے تھے یہی وجہ ہے کہ گھر سے بہت زیادہ مضبوط نہ ہونے کے باوجود اعلٰی تعلیم کی ڈگری حاصل کی۔
1985میں مقامی بھگوان ہائی اسکول سے دسویں کا امتحان پاس کیا۔اس کے بعد مرحوم بلیا بیگوسرائے میں رہ کر1987میں انٹر، 1990 میں بی کام اور 1992 میں ایم کام کیا۔علاوہ ازیں 1999میں طب کا ایک سالہ ڈپلوما اور 2011 میں امینی کا کورس بھی کیا۔اس دوران میں وہ پرائیویٹ ملازمت بھی کرتے رہے۔
2001میں ماسٹر منصور عالم مرحوم کی بڑی صاحبزادی سے ان کی شادی ہوئی۔شادی سے قبل وہ بلیا چھوڑ کر اپنے گھر مشکی پور آگئے تھے اور جمال پور بازار میں پی سی او کھول لیا تھا،اس زمانے میں ٹیلی فون بوتھ کا بڑا چلن تھا،ان کی دکان بھی اچھی چل رہی تھی بعد میں اسی دکان میں انھوں نے پلاسٹک فرنیچر کے کچھ آئٹم کا بھی اضافہ کر لیا تھا۔لیکن کچھ دنوں بعد ان کی دکان بازار سے مشکی پور چوک پر آگئی،ٹیلی فون صارفین بہت کم آنے لگے پھر چند ہی مہینوں میں دکان بند ہوگئی۔میرے خیال میں اس کے پیچھے موبائل کی ایجاد اور کثرت سے اس کے عمومی استعمال کا بڑا ہاتھ ہے۔
پھر انھوں نے "کیرئرپوئنٹ”کے ذریعے پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن اس میدان میں انھیں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔اسی بیچ افتخار مرحوم نے سیاست سے بھی اپنا رشتہ استوار کر لیا تھا۔
سیاست میں انھوں نے نتیش کمار کی جنتا دل یونائیٹڈ سے وابستگی اختیار کی اور آخری دم تک اسی سے جڑے رہے۔انھوں نے پارٹی کے کارکن کی حیثیت سے زمینی سطح پر بڑی جدوجہد کی اور قربانیاں دیں،انھوں نے اس وقت بھی اپنے اور اپنے خاندان کے ووٹ کو دوسری پارٹیوں کے حق میں جانے نہیں دیا جب پورا گاؤں ان کی پارٹی کے خلاف تھا۔وہ کئی سال تک جدیو کے کھگڑیا ضلع صدر بھی رہے۔ ان کی سیاسی زندگی کی عمر پندرہ سے بیس سال رہی ہوگی،اس دورانیے میں رفاہ عام کے لیے جتنا اور جیسا کام وہ چاہتے تھے اتنا اور ویسا تو نہیں کر پائے تاہم کچھ کچھ کام وہ کرتے رہتے تھے،کبھی وہ نظر بھی آجاتا تھا اور کبھی نہیں بھی۔سیاست کے ذریعے انھوں نے قوم و سماج کا کتنا بھلا کیا اور کتنا نہیں اس پر بات کی جاسکتی ہے لیکن میرے خیال میں سیاست نے ذاتی طور پر افتخار مرحوم کا بڑا نقصان کیا۔وہ پڑھے لکھے اور سلجھے ذہن کے مالک تھے اور کومرس سے ماسٹر کی ڈگری ان کے پاس تھی،وہ سرکاری و غیر سرکاری اچھی ملازمت کر سکتے تھے لیکن شاید سیاسی مصروفیات نے انھیں اس طرف سوچنے کا موقع نہیں دیا اور جب سوچنے کا موقع ملا تو وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔
مشکی پور وقف اسٹیٹ کے متولی جمال الدین عرف جمال بابو جب تک حیات رہے وقف کی جائیداد کسی حد تک محفوظ رہی لیکن ان کی وفات کے بعد ان کے اخلاف وقف کی اراضی پر گیدڑوں کی طرح جھپٹ پڑے اور خوب جی بھر کے اونے پونے داموں میں زمینیں بیچیں۔دوسرے علاقوں کی بیشتر زمینیں بک بکا کر اب مشکی پور کا نمبر آیا تو تمام اہل بستی کے کان کھڑے ہو گئے اور ابتدامیں سب پورے جوش و جذبے کے ساتھ اس خوردبرد کے خلاف اڑے رہے لیکن دھیرے دھیرے پورا قافلہ منتشر ہو گیا۔اب تک اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے پاس وقف اراضی کی کوئی ٹھوس دستاویز نہیں تھی۔لیکن اللہ بھلا کرے افتخار مرحوم کا کہ یہ بندہ اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود ڈٹا رہا اور وقف کا اصل قبالہ اوپر کرکے ہی دم لیا۔
افتخار مرحوم میرے منجھلے بھائی مستقیم احمد صاحب کے کلاس فیلو اور رشتے کے ہمارے بھتیجے ہوا کرتےتھے حالانکہ عمر میں مجھ سے دس بارہ سال بڑے تھے۔میری ان سے علیک سلیک کے علاوہ بہت زیادہ قربت نہیں تھی،لیکن وقف اراضی کی بازیابی کے سلسلے میں ان سے بار بار گفت و شنید ہوتی رہی اور قریب سے انھیں جاننے، سمجھنے اور پرکھنے کا موقع بھی ملا۔ وہ انتہائی گم گو اور سنجیدہ شخص تھے،وہ بمشکل ہی کسی کی شکایت زبان پر لاتے،میں نے انھیں کبھی کسی سے لڑتے نہیں دیکھا۔مرحوم بہت زیادہ مجلسی نہیں بلکہ تنہائی پسند تھے لیکن گزشتہ ایک دو سال سے وہ سب سے خندہ پیشانی سے ملنے جلنے لگے تھے۔ وہ کئی برسوں سے شوگر جیسے موذی مرض میں مبتلا تھے اور بےروزگاری نے مزید اس میں شدت پیدا کردی تھی تاہم وسعت بھروہ کچھ نہ کچھ کرتے رہتے تھے۔مشکی پور وقف اسٹیٹ کی مقبوضہ اراضی کی بازیابی کے لیے ان کے خلوص، لگن اور جدو جہد کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ قبل سابق ایم ایل اے جناب نعیم اختر صاحب کے صاحبزادے کی شادی کے موقعے پر باضابطہ ان سے آخری ملاقات ہوئی۔اللہ ان کی کمی کوتاہی کو معاف فرما کر انھیں کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)