کتے کی موت مرنے والی مثال سے تو سبھی واقف ہونگے جو دراصل خوفناک اور دردناک موت کا استعارہ ہے۔ خیر یہ تو پرانے وقتوں کی بات ہے اب وقت بدل چکا ہے۔ اب انسانوں کو اس قدر خوفناک موت دی جانے لگی ہے کہ اگر کوئی ظالم کسی کو دھمکی دینے کیلیے بھیانک اور سستی موت کی مثال پیش کرے تو وہ "کتے کی موت مارا جائےگا” کی بجائے "آدمی کی موت مارا جائےگا” کہنے کو ترجیح دےگا۔ یہ صرف کہنے کی بات نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ "خون اس دور گرانی میں بہت سستا ہے”۔ کتنا سستا ہے؟ اس کی مثال گزرتے سال کے آخری ماہ میں پورے ملک اور آخری ایک ہفتے میں یوپی میں کثرت سے دیکھنے کو ملی۔
حال یہ ہے کہ ایجوکیشن کی بات کرنے والے ملک کی تعلیم گاہوں پر حملہ آور ہوئے۔ یوتھ کے نام پر بے وقوف بنانے والوں نے لاتعداد باصلاحیت اور قابل نوجوانوں کی زندگی اندھیر کر دی۔ بیٹی بچاؤ کے نعرے لگانے والے بیٹیوں پہ لاٹھیاں برساتے نظر آئے۔ وکاس کے دعویداروں نے پوری پوری بستیاں اجاڑ کر رکھ دی ہیں۔ غریب مزدور کے نام پر روٹیاں توڑنے والے آج ان کے آشیانے گرا آئے ہیں۔ دیش پریم کا سرٹیفکٹ مانگنے والوں نے ایسے ایسے سینے داغ ڈالے ہیں جن میں دیش کا حقیقی پریم پروان چڑھتا تھا جن کی آنکھوں میں واقعتا دیش کی سیوا کے خواب پلتے تھے جو دیش پریم کے جذبے سے سرشار UPSC کی تیاریوں میں مگن تھے۔ قانون کی وردی میں ملبوس بزدلوں نے ایسے نہتے باپ کو مار ڈالا جو اپنے شیرخوار کیلیے دودھ لینے باہر نکلا تھا، ایسے بیٹے کو شہید کر ڈالا جو اپنے بوڑھے باپ کا واحد اور آخری سہارا تھا، ایسے مزدور کو قتل کر دیا جو برتن دھو کر گزر اوقات کیا کرتا تھا۔ "سب کا ساتھ سب کا وکاس” کی بنیاد پر اپنی سیاست کی عمارت کھڑی کرنے والوں نے کتنی ماؤں کی گود سونی کردی، کتنی بیویوں کو بیوا کر دیا، کتنی بہنوں کے سر سے ردا نوچ لی، کتنے بچوں کو یتیم بنا دیا اور کتنے ہی باپ ہیں جن کے آخری سہارے چھین کر ان کی کمر توڑ ڈالی، کتنی ہی آنکھیں ہیں جن سے خواب نوچ کر انہیں ویران کر ڈالا۔ مگر آہ قانون!! اس کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگتی۔ قانون کے لمبے ہاتھوں کی بڑی افواہیں سنی تھیں آخر قانون کے لمبے ہاتھ اتنے چھوٹے کیسے ہو گئے کہ خود اپنے گریبان تک بھی نہیں پہنچ پا رہے؟
قانون کی سب سے بڑی طاقت ہی دراصل اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے کہ وہ اندھا ہے۔ کاش! قانون اندھا نہ ہوتا تو وہ سیلف ڈیفینس کے نام پر ہونے والی غنڈہ گردی کو دیکھ پاتا۔ اگر قانون اندھا نہ ہوتا وہ مرتی کٹتی عوام کو دیکھ پاتا جو Fundamental Rigths جیسی پاور رکھنے کے باوجود سرکار اور پولس کی سیلف ڈیفنس جیسی سیاست کے آگے کس قدر بے بس ہیں۔ اگر قانون اندھا نہ ہوتا تو وہ اس آتنک واد کو دیکھ پاتا جو یوپی پولس اور سرکار نے سیلف ڈیفنس کے نام پر مچا رکھا ہے۔ عوام کو حاصل شدہ Fundamental Rigths اور پولس کے Self Defence کے درمیان وہی قانونی پہیلی پوشیدہ ہے جو تمام پاور تو صدرِ ملک کو عطا کرتی ہے لیکن اس کی کمان وزیر اعظم کے ہاتھ میں تھما دیتی ہے گویا ترکش کے سارے تیر تو عوام کے ہوئے لیکن اس کی کمان پولس اور سرکار کے ہاتھ میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مجرم جرم کرنے کے نئے نئے انداز فلموں اور قصے کہانیوں سے سیکھتا ہے لیکن آج کے ویلن یوپی پولس اور سرکار سے باآسانی سیکھ سکتے ہیں کہ قانون کا سہارا لے کر سیلف ڈیفینس کی آڑ میں غنڈہ گردی کس طرح کی جاتی ہے۔ یہ قانون کا اندھا پن ہی تو ہے کہ ظالم و مجرم، حاکم بنے بیٹھے ہیں اور مظلوم و مجبور رعایا ان کے عتاب کا شکار ہے۔
خیر قانون بھلے ہی اندھا ہو لیکن ہند کی سر زمین پر وقتا فوقتا کھیلی جانے والی انسانی خون کی ہولی ہر دور میں دنیا کی آنکھ نے دیکھی اور تاریخ کی آنکھ نے محفوظ کی۔ سیاست نے ہر دور میں عوام کے خون کا خراج مانگا اور بہادر و غیور رعایا نے انقلاب کے عوض بخوشی اپنی جان و مال کے نذرانے پیش کیے۔ ہمارے بزرگوں کی آنکھوں نے ایمرجنسی کا دور دیکھا اور ہم نے اسے یاد رکھا ہماری آنکھوں نے این آر سی کا دور دیکھا اور ہماری آنے والی جینیریشن یقیناً دونوں کو یاد رکھیں گی۔
دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ درحقیقت فسادی کون ہے اور فساد کا حمایتی کون ہے۔ حمایت کا سب بڑا اہم رول تو یقیناً بکاؤ میڈیا نے ہی ادا کیا ہے۔ اب تک موجودہ سرکار کا ڈھانچہ ہی دراصل میڈیا پر کھڑا رہا لیکن آخر کب تک؟ یہ Super Fast Internet And Communication Technology کا عہد ہے۔ یہاں جھوٹ زیادہ دیر ٹک نہیں پاتا۔ اس عہد کی عوام مکمل طور پر صرف میڈیا پر منحصر نہیں ہے وہ خود دیکھ کر اور سوچ سمجھ کر فیصلہ لینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ جھوٹے پروپیگنڈے کا وجود تو آج بھی ہے لیکن اس کی عمر بہت مختصر ہے۔ جس سے بوکھلا کر بھلے ہی سرکار بار بار نیٹ بند کرتی رہے آرٹیکل ۱۴۴ کا سہارا لے، لیکن کب تک؟ حق کی آواز دبائے نہیں دبتی اور سچائی کی روشنی اپنی راہ خود تلاش کر لیتی ہے۔ لہذا جو ظلم و ستم جنتا پہ ڈھائے گئے اور جس شدت سے ڈھائے گئے ہم نے بھی دیکھے آپ نے بھی۔ انہی ظلم و ستم اور کو دیکھتے دیکھتے ایک ایسی ویڈیو بھی نظر سے گزری جس میں مرتے کٹتے انسانوں کی بھیڑ میں چند کتے بھی افراتفری کے عالم میں ادھر ادھر بھاگتے نظر آئے تو بےاختیار کسی دور اندیش کا یہ شعر ( جو خدا کرے کہ ہم تک اپنی اصل اور ٹھیک حالت میں پہنچا ہو ) ذہن میں گردش کر گیا۔
کہہ رہا تھا ایک کتا دوسرے کتے سے یہ
بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائےگا
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)