ایک زمانے تک روزنامہ انقلاب کے ہیڈ ماسٹ کے اوپر اس کے بانی مرحوم عبدالحمید انصاری کا نام شائع ہوا کرتا تھا ، میرے لئے یہ نام بڑے تجسس کا باعث تھا،میں ان کی زندگی کے بارے میں جاننا چاہتا تھا ۔رواں برس کے اوائل میں ہی مجھے معلوم ہوا کہ مرحوم عبدالحمید انصاری کی سوانح جاوید جمال الدین صاحب نے لکھی ہے۔میں نے ان سے فیس بک میسنجر کے ذریعہ معلوم کیا کہ کیا یہ کتاب آسانی سے دستیاب ہو سکتی ہے ؟انہوں نے کہاکہ میں دیکھ کر بتا تا ہوں ،مجھے بڑی حیر ت ہوئی کہ ایک ماہ پہلے انہوں نے مجھ سے میرا پتہ دریافت کیا اور یوں مجھے ایک نایاب کتا ب مل گئی ،یہ ان کا بے پایاں خلوص ہے کہ انہوں نے اپنی شدید مصڑوفیت کے باوجود میری معمولی سی درخواست کو نہ صرف یاد رکھا بلکہ انہوں نے حتی المقدور کوشش کرتے ہوئے مجھ تک کتاب پہنچائی ،میں ان کا مشکور و ممنون ہوں ۔کتا ب کیا ہے بس ایک قوم پرست صحافی کی جدو جہد کی ایک دستاویز ہےجسے بڑے دل نشین انداز میں لکھا گیا ہے ۔عبدالحمید انصاری کی شخصیت مسلسل جدوجہد سے عبارت تھی ،بچپن یتیمی میں گزرا،جوانی میں ملک کی آزادی کے لیے قید و بند صعوبتیں برداشت کی ،نظریاتی طورپرقوم پرست تھے،صحافی کے طور پر بے باک اور غیر جانب داری کا مظاہرہ کرتے رہے، جب انہوں نے انقلاب کا اجراءکیا تو اسے صف اول کا خبار بنانے کارادہ کرلیا، جس کے لیے انہوں نے ہر جدید تکنالوجی کو اپنایا اور اس طرح وہ ایک اردو اخبار کو انگریزی اخبارات کے مد مقابل رکھنے میں کامیاب ہو سکے ۔آزادی کے ۵۷ برس ہونے پر ایسی شخصیت کی یاددہانی بہت ضروری معلوم ہوتی ہے ۔ یہ کتاب انقلاب کے سابق کارکن جناب جاوید جمال الدین کی تحقیق ،جستجو اور عرق ریزی کا نتیجہ ہے جو کہ 256 صفحات پر مشتمل ہے ،نہایت عمدہ کاغذ ، دیدہ زیب سرورق اور نایاب تصاویر کے ساتھ2002ءمیں انقلاب پبلی کیشنز،ممبئی کے ذریعہ شائع ہوئی تھی۔ اس اہم کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر رفیق زکریا مرحوم نے تحریر کیا ہے ۔یہ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے ،پہلا باب "پس منظر اور خاندان ۔شخصی خوبیاں ” ہے جس میں مرحوم عبدالحمید انصاری کے خاندانی پس منظر ،تعلیم و تربیت پر تفصیلات شامل ہیں ،دوسرا باب "سیاسی اور سماجی سرگرمیاں ” کے عنوان سے ہے ،اس باب میں ان کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں جیسے خلافت تحریک،کانگریس اور بعد ازاں مسلم لیگ میں شمولیت کے حوالے سے کافی معلومات فراہم کی گئی ہیں ،تیسرے باب "ممبئی میں اردو صحافت اور عبدالحمید انصاری ” میں ان کی معاصر صحافت جس میں اردو صحافت بھی شامل ہے کے بارے میں اہم تفصیلات پیش کی گئی ہیں ،یہ باب اردو صحافت کے محقق طلبہ کے لیے بہت کارآمد ہے ۔چوتھا باب”انقلاب کا اجراء۔ارتقاء او ر استحکام” روزنامہ انقلاب کے جاری ہونے اور اس کو مستحکم کرنے کے اقدامات کی روداد ہے۔پانچویں باب "جنگ آزادی میں انقلاب کا کردار” میں روزنامہ انقلاب کے تحریک آزادی میں لاثانی کردار کی توضیحات ہیں، "مظلوموں اور کمزور طبقوں کی حمایت ” چھٹا باب ہے،آزادی کے بعد ملک کی بدلی فضا میں جب مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جانے لگا تھا اس وقت عبدالحمید انصاری صاحب نے انقلاب کے ذریعہ بے خوف ہو کر مظلموں کی حمایت کی تھی ،جس کی تفصیلات اس میں درج ہیں ۔روزنامہ انقلاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے بانی نے اسے جدید ٹکنالوجی سے مربوط کرنے کی ہمیشہ کو شش کی ،اوائل دنوں میں ہی انقلاب اخبار میں آفسیٹ مشین لگائی ،جس کو لگانے میں مختلف نشیب و فراز آئے ،اسی کا مکمل احوال اس کتاب کے ساتویں باب "آفسیٹ مشین۔دور جدید کا آغاز” میں درج ہے۔اور آٹھویں باب "جناب عبدالحمید انصاری کی مجموعی خدمات "میں بانی انقلاب کی مجموعی خدمات کا ایک معروضی جائزہ لیا گیا ہے ۔
عبدالحمید انصاری کے آبا و اجداد کا تعلق اتر پردیش کے معروف ضلع بارہ بنکی سے تھا۔یروڈہ جیل پونے میں قید کے دوران جب جیل سپرنٹنڈنٹ بھنڈاری نے کسی بات پر ان سے دریافت کیا کہ آپ تو یوپی کے باشندے معلوم ہوتے ہیں ،انصاری صاحب نے جواب دیا کہ” آباءو اجداد تو بارہ بنکی نواب گنج کے رہنے والے تھے مگر میں بمبیّا ہوں“۔ ان کے والد حافظ نظام الدین بارہ بنکی سے ہجرت کرکے ممبئی کے شمال مغربی علاقے مرول گاؤں اندھیری میں اہلحدیث جامع مسجد میں امامت کے فرائض انجام دینے لگے۔وہیں ان کی شادی بنی بیگم سے ہوئی ۔عبدالحمید انصاری کی پیدائش 13دسمبر1906ءمیں ہوئی ،وہ اپنی دوبڑی بہنوں اور دو بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے،جن میں سے ایک بھائی اور بہن کا انتقال ہو گیا تھا ۔ابھی وہ محض10سال کے ہوئے تھے کہ والدین کے سایہ سے محروم ہوگئے۔ والد صاحب کی موت سے والدہ بنی بیگم کو شدید صدمہ لاحق ہوگیا ، اسی دوران ان کے بڑے بیٹے عبدالرحمٰن کسی کو اطلاع دئے بغیر فوج میں بھرتی ہوگئے اور انہیں برطانوی مقبوضات کی حفاظت کے لیے ہندوستانی فوج کے ایک دستے کے ساتھ بغداد روانہ کردیا گیا ۔بیٹے کی جدائی کے غم میں والدہ فوت ہوگئیں ۔اس طرح دس سالہ عبدالحمید کی ذمہ داری ہمشیرہ اور ان کے خاوند پر آگئی ۔تقریباً پانچ سال کے بعد ان کے بڑے بھائی عبدالرحمٰن وطن واپس لوٹ آئے ، انہوں نے ان کو اپنی سرپرستی میں لے لیا اور اسکول میں داخل کروادیا ،مگر وہ اس درمیان اپنے لیے کوئی مستقل آمدنی کا ذریعہ پیدا کرنے میں ناکام رہے ،مجبوراً انہوں نے سر محمد یوسف کے قائم کردہ یتیم خانہ میں داخل کرا دیا۔کچھ دنوں کے بعد وہ یتیم خانہ چھوڑ کر واپس آگئے ،اور ایک بار پھر ان کے بڑے بھائی کے کاندھوں پر ان کی تربیت اور تعلیم کی ذمہ داری عائد ہوگئی ،اور انہیں انجمن ہائی اسکول میں داخلہ کروادیا ۔ پھر انجمن خیر الاسلام میں بھی زیر تعلیم رہے ،اسی دوران انہوں نے اپنے بھائی عبدالرحمن صاحب کی مالی حالت کو دیکھتے ہوئے اپناتعلیمی سلسلہ منقطع کردیا، اس وقت وہ انٹر کرچکے تھے۔ بے روزگاری نے حالات مشکل بنا دیے تھا، انہوں نے اس کا حل عارضی ملازمت اور ٹیوشن کی شکل میں تلاش کرلیا، ملازمت اور ٹیوشن کے بعد اپنا زیادہ تروقت نیشلسٹ مسلمانوں کی انجمن محفل افضال پیمبری حسینی باغ مدنپورہ میں گزارنے لگے اور یہیں سے انہوں نے سماجی، سیاسی میدان اور جدوجہد آزادی میں قدم رکھا ،بعد میں وہ صدر کے عہدے پر فائز ہوئے اور عمر کے اخیر تک اس سے وابستہ رہے۔
1920ءمیں شروع ہونے والی خلافت تحریک نے لاکھوں مسلمان کومذہبی جذبات وقومی بیداری عطا کی ،گاندھی جی بھی اس میں شامل ہوگئے ،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندو مسلم کے درمیان نفرت کی فضا کم ہوئی اور مسلمانوں کی بڑی تعد اد کانگریس کے ساتھ جدوجہدآزادی میں شریک ہوگئی۔ جس سے ملک بھر میں تحریک خلافت سے جڑے ہوئے رہنماؤں کی گرفتاریاں ہوئیں۔ محفل افضال پیمبری کے صدر کی حیثیت سے انصاری صاحب بھی اسی احتجاج میں شریک ہوئے اور گرفتار کرلئے گئے۔ گرفتاری کے بعد انہیں یروڈہ جیل بھیج دیا گیا۔ جہاں انہیں عابد علی ، جعفری بھائی، حافظ علی، بہادر خاں، گاندھی جی کے سکریٹری پنڈت پیارے لال ودیگر رہنمالیڈروں اور اہل قلم حضرات کی صحبت میں استفادہ کا پورا موقع ملا۔ان شخصیات کی صحبت میں انہوں نے مراٹھی ،گجراتی اور انگریزی زبان میں مہارت حاصل کی حالاں کہ انہیں اردو ،فارسی اور عربی پر پہلے بھی عبور حاصل تھا۔ اس زمانے میں جیل میں بے گناہ قیدیوں پر بڑا ظلم ہوا کرتا تھا ،انصاری صاحب جسے دیکھ کر بے چین ہو اٹھے اور انہوں نے ان مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔جاوید جمال الدین لکھتے ہیں کہ اخلاقی جرائم میں سزایافتہ قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی اور نارو اسلوک کیا جاتا تھا۔ انہوں نے قیدیوں کی ایذاءرسانی پر جیل کے سپاہیوں اور وارڈن سے لڑنا جھگڑنا شروع کردیا۔ انصاری صاحب کو علیحدہ کوٹھری Separte Cell میں بند کردیا گیا۔ جیل حکام نے انہیں ناقابل اصلاح قیدی قراردے دیا تھا۔لارڈ ارون سمجھوتہ کے باوجود ستیہ گرہ کے قیدیوں کے ساتھ ا نہیں نہیں چھوڑا گیا،اس کے باوجود عبدالحمید انصاری نے اپنا احتجاج جاری رکھا اور بھوک ہڑتال شروع کردی ،انہیں علیحدہ کوٹھری سے متصل کال کوٹھری میں منتقل کردیا گیا،لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے پھر جیل انتظامیہ نے ایک انتہائی سنگ دل اور بے رحم شخص جمعہ دار ولایت خان کو متعین کردیا جو کہ باتوں باتوں میں خوف زدہ کرتااور معافی کے لیے دباؤ ڈالتا تھا۔ اس تعلق سے عبدالحمید انصاری رقمطراز ہیں۔ ” کیا تم یہ چاہتے ہوکہ میں معافی مانگ کر اپنے خدا کے حکم کی خلاف ورزی کروں۔ ایک ایسے رسول کا امتی ہونے کا مجھے فخر حاصل ہے جس نے ہمیشہ مظلوموں کا ساتھ دیا۔ میں ذلت اور غداری کا طوق پہن لوں، یہ میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا ہے۔“
اپنی جدو جہد کے نتائج اس وقت انہیں دیکھنے کو ملے جب انہوں نے حافظ علی بہادر خان کے ساتھ روزنامہ”ہلال“جاری کیا۔ایک دن اس میں ایک ناقابل اعتراض مضمون شائع ہو گیا ،جس کے جرم میں ان دونوں کو یروڈہ جیل بھیج دیا گیا،اس بار وہاں کی فضا بدلی بدلی سی تھی اور انہیں سیاسی قیدی طرح ہی بیرک میں رہنے کی اجازت دے دی گئی ۔یوں توعبدالحمید انصاری مالی دشواریوں کے سبب تعلیم مکمل نہیں کرسکے ،لیکن خلافت تحریک کے دوران روزنامہ خلافت سے کچھ عرصہ وابستگی اور پھر روزنامہ”ہلال“میں باقاعدہ ملازمت نے ان میں صحافتی شعور پیدا کردیا تھا، بلکہ اس میدان کے نشیب وفراز سے انہیں واقفیت حاصل ہوگئی تھی۔ انہوں نے عابد علی اور اسحٰق بھائی کے اخلاقی تعاون سے تاج محل پریس قائم کیا ،1936ءمیں انصاری صاحب نے دونوں حضرات کے مشورے سے احسن مرادآبادی کے ساتھ روزنامہ ’الہلال‘ جاری کیا ،الہلال کے اجراءکے وقت پرانے اور مقبول اخبارات خلافت، اجمل اور اقبال موجود تھے اور حافظ علی کا ہلال ان پر چھا یا ہوا تھا ،مگر الہلال اپنی بے باک اور حقیقی رپورٹنگ کی وجہ سے تمام اخبارات پر بازی لے گیا۔ لیکن بعد میں انہوں نے آپسی اختلاف کے سبب علیحدگی اختیا رکرلی اور اپنی ملکیت کے تاج محل پریس کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کی ۔دسمبر1938 ءمیں عابد علی جعفر بھائی اور صالح بھائی عبدالقادرکے ساتھ مل کر روزنامہ انقلاب کا اجراءکیا،جسے انہوں نے چند سالوںمیں ترقی کی منزل تک پہنچادیا،انقلاب ا ردو داں طبقہ کا ترجمان بن گیا۔ انہوں نے بدلتی ہوئی صورت حال میں سب سے پہلے سرگرم سیاست سے کنارہ کشی کرتے ہوئے کانگریس سے استعفیٰ دے دیا۔ انصاری صاحب ماقبل اوربعد آزادی کانگریس کے جھنڈے تلے جدوجہد آزادی میں حصہ لینے کے باوجود صحافتی اصول پر کاربند رہے اور انقلاب کو ایک جانب دار اخبار بنائے رکھا۔روزنامہ انقلاب کی غیر جانبداری کے تعلق سے6جولائی 1965 ءکو عبدالحمید انصاری اپنے ایک اداریے میں لکھتے ہیں۔”اس حقیقت سے نہ صرف انقلاب کے تمام قارئین بلکہ مجموعی طور پر اردو داں طبقہ واقف ہے کہ تقریباً 27 سال سے یعنی اپنے یوم اجراءہی سے روزنامہ انقلاب اپنے طریقہ کار کے لحاظ سے ایک خاص پالیسی پر کاربند رہا۔ وہ یہ ہے کہ اس نے جب کبھی کسی مسئلے کو اٹھایا ہے تو اسے اپنے عقل ودانست اور علم بصیرت کے مطابق ایمانداری اور پورے خلوص سے پیش کیا ہے۔ اس نے کہیں کسی معاملے یا مسئلے میں نہ مصلحتوں کی پروا کی ہے اور نہ اپنے ذاتی اغراض ومقاصد کی۔ انقلاب کا ہمیشہ یہ وطیرہ اور طریقہ رہا کہ جس شخص کو لائق مدح سمجھا اس کی ستائش اور دل کھول کر تعریف کی لیکن ایسی شخصیتوں کی جانب سے بھی اگر کوئی قابل اعتراض حرکت سرزد ہوئی تو بلا روورعایت اور بے خوف وخطر اس کی مذمت کی”۔1940-47ءکے درمیان محمد علی جناح کی سیاست کا مسلمانوں پر کافی اثر ہو رہا تھا ایسے حالات میں کچھ اخبار کی مجبوری اور وقت کا تقاضا اور مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کا خیال کرتے ہوئے وہ مسلم لیگ کے قریب ہوئے ،لیکن اس کے بعد بھی مسلم لیگ کی غلطیوں اور خامیوں کی کھل کر مخالفت کرتے رہے،مسلم لیگ سے قربت کی غلطی کا احساس انہیں ہمیشہ رہا۔ آزادی سے قبل اور آزاد ی کے بعد اردو صحافت میں اتنے مشہور ہونے کے باوجود انہوں نے ہجرت نہیں کی۔روزنامہ انقلاب کے 23 دسمبر 1947ءمیں دو پاکستانی قاریوں کے اس اسرار پر کہ وہ پاکستان آجائیں اور یہاں سے اپنا اخبار نکالیں ،لکھتے ہیں ”ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہندوستان کی سرزمین پر جب تک ایک مسلمان بھی نظر آئے گا ہم ہندوستان سے کہیں نہیں جائیں گے “۔7مارچ1972 ءکو اس عظیم صحافی اور مجاہد آزادی جس نے ساڑھے پانچ سال جیل میں گزارے اس دار فانی کو لبیک کہہ دیا ۔