Home تراجم اے جی نورانی:ایک قاموسی شخصیت کی رحلت-ٹی کے راج لکشمی

اے جی نورانی:ایک قاموسی شخصیت کی رحلت-ٹی کے راج لکشمی

by قندیل

(سینئر ڈپٹی ایڈیٹر فرنٹ لائن میگزین)

ترجمہ:نایاب حسن

اسکالر، قانون داں، سوانح نگار، مؤرخ اور سیاسی مبصر عبدالغفور عبدالمجید نورانی کا  29 اگست کو 93 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔غفور بھائی کے نام سے مشہور مسٹر نورانی ایک قاموسی شخصیت تھے ۔دستوری  قانون پر ان کی گہری نظر تھی،وہ وسیع الاطراف موضوعات پر لکھنے والے قلم کار تھے، ان کا شعورِ انصاف بہت  گہرا تھا ،وہ سیکولرزم، مساوات اور ترقی پسندانہ نظریات کے تئیں پابندعہد تھے اور  ان کا تحریری  ذخیرہ ملکی سیاست اور قانون  کے ساتھ ساتھ  معاصر و تاریخی بین الاقوامی تعلقات  کو بھی محیط تھا۔

وہ سپریم کورٹ کے سابق وکیل تھے، بمبئی ہائی کورٹ میں بھی پریکٹس کر چکےتھے۔ انھوں نے ہندوستان ٹائمز، دی ہندو، فرنٹ لائن، اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی اور دینک بھاسکر سمیت کئی سرکردہ اخبارات میں لکھا۔ فرنٹ لائن میں مسلسل شائع ہونے والے ان کے  تحقیقی  کالم نہایت معلومات افزا  اور بصیرت افروز ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے تازہ معلومات کے ساتھ قدیم تاریخی  مواد سے استدلال  کرتے ہوئے مسئلۂ کشمیر پر خوب  لکھا۔ انھوں نے تقسیم ہند کے اسباب پر بھی  جم کر لکھا،وہ تقسیمِ ہند کو ’’انسانی تاریخ کے دس سب سے بڑے سانحات میں سے ایک‘‘ قرار دیتے تھے۔

دی ہندو گروپ آف پبلیکیشنز کے ڈائریکٹر این رام  نورانی کے ساتھ اپنی طویل رفاقت کو یاد کرتے ہیں۔ وہ مرحوم اسکالر کو پرجوش خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’غفور نورانی صحافیوں کے صحافی تھے، باصلاحیت، ہمہ جہت، شجاع، مردِ حر اور اہم مسائل پر قطعیت کے ساتھ لکھنے والے صاحبِ قلم تھے۔ شہریوں کے حقوق اور خاص کر اظہار رائے کی آزادی پر ان کا  یقین چٹان جیسا مضبوط تھا۔ ایک معزز وکیل کے طورپر اپنے علم و تجربے کی بدولت وہ اپنی اس آزادی کو بغیر کسی اشاعتی پریشانی کے ان حدود تک لے جانے میں کامیاب رہے ، جو ہندوستان کے غیر لبرل قانون نے مقرر کی ہیں‘‘ ۔

رام نے مزید کہا ’’ نورانی نے اوریجنل تحقیقیں کیں اور بہت سارے موضوعات پر معلومات سے بھرپور   کالم اور کتابیں لکھیں، جن میں کشمیر کا تنازعہ (1947-2012)، آرٹیکل 370، بھارت چین سرحدی مسئلہ، آر ایس ایس اور بی جے پی، ساورکر اور ہندوتوا، بابری مسجد، وزارتی بدانتظامی اور شہریوں کے حقوق جیسے موضوعات شامل ہیں۔ وہ ’فرنٹ لائن‘ کے  ایک دیرینہ اور انتہائی قابل قدر مضمون نگار تھے ،وہ میگزین میں جگہ پانے  کے لیے لڑتے، اپنی تحریر  کی پہلے سے منصوبہ بندی کرتے اور ہمیشہ مقررہ وقت پر اپنا مضمون ارسال کردیتے۔ میرا خیال ہے  کہ اگر کسی شمارے میں وہ چھپنے سے رہ جاتے تھے، تو اسے ذاتی شکست باور کرتے تھے۔ غفور بہت اچھے دوست تھے۔ انھوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری اور ظاہر ہے کہ ان کے انتقال سے ہندوستانی صحافت مزید نادار ہوگئی ہے‘‘۔

ہندوستان کے سابق نائب صدر حامد انصاری نے نورانی کو ’’اپنے عہد کی ممتاز ترین شخصیات میں سے ایک‘‘ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ’’ نورانی پیشے کے لحاظ سے ایک وکیل تھے؛ لیکن ان کے کاموں کا دائرہ بہت وسیع تھا‘‘۔ نورانی کے علمی و تحقیقی کاموں کی ضخامت ووقعت کا ذکر کرتے ہوئے انصاری نے کہا کہ ’’وہ بین الاقوامی تعلقات کے موضوع پر مہارت رکھتے تھے، خاص طور پر ہندوستان اور پاکستان کے موضوع پر، جس پرانھوں نے بہترین تحریریں لکھیں‘‘۔ نورانی مرحوم کے  گہرے دوست مسٹر انصاری نے ان کی ذاتی زندگی کے کچھ دلچسپ پہلووں پر بھی روشنی ڈالی ۔ انھوں نے کہا کہ ’’تمام سیاسی حلقوں میں نورانی  کی ہمہ جہت شخصیت کی وجہ سے ان  کا احترام تو کیا جاتا تھا،مگران کی خوے حق بیانی کی وجہ سے کوئی ضروری نہیں کہ سیاسی قیادتیں اور دانش وران انھیں پسند بھی کرتے ہوں‘‘۔

وہ کہتے ہیں’’ انھوں نے جو کام کیا اور جس موضوع پر بھی کتابیں لکھیں، وہ منفرد رہیں گی۔ تنازعۂ کشمیر پر ان کے مضامین کا مجموعہ دو جلدوں میں شائع ہوا؛ لیکن اس کے علاوہ بھی اس موضوع پر نہایت محنت و مستعدی سے لکھی گئی ان کی  تحقیقی تحریریں  ہمیشہ ممتاز رہیں  گی۔ ان کے انتقال سے ہم ایک عظیم شخصیت سے محروم ہو گئے، ان کے آخری تحریری کاموں میں سے ایک بابری مسجد پر شائع ہونے والی  کتاب تھی، جس پر وہ پہلے بھی  کافی لکھ چکے تھے‘‘۔

انھوں نے کچھ ذاتی یادیں بھی تازہ کیں۔ انھوں نے کہا  ’’نورانی کو دہلی آنا بہت پسند تھا اور انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں ان کا کمرہ جانا پہچانا تھا۔ وہ اچھے کھانےکے شوقین تھے اور ہماری دوستی کئی دہائیوں پہلےاسی حوالے سے  شروع ہوئی تھی،جب وہ مجھے پرانی دہلی کے ایک ریستوراں میں کھانے کے لیے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ وہ بہت اچھے دوست تھے۔ہندوپاکستان کے علاوہ دوسرے  تاریخی حقائق کے بارے میں بھی ان کی معلومات نہایت زبردست تھی،یہی وجہ ہے کہ سرحد کے دونوں طرف کے سیاسی مدبرین انھیں  پسند بھلے نہ  کرتے ہوں؛ لیکن ان کا احترام  ضرور کرتے تھے‘‘ ۔

نورانی کو گہرے شعورِ انصاف کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات، بالخصوص ہند پاک معاملات، کشمیر سے متعلق تنازعات وغیرہ پر اتھارٹی سمجھا جاتا تھا۔ نورانی نے کئی کتابیں تصنیف کیں جن میںThe Kashmir Dispute—1947-2012, Article 370: A Constitutional History of Jammu and Kashmir,Constitutional Questions in India, Ministers’ Misconduct, The Presidential System,Brezhnev’ Plan for Asian Security,The Trial of Bhagat Singh,The Destruction of Hyderabad, اور The Babri Masjid Question شامل ہیں۔  انھوں نے بدرالدین طیب جی اور ڈاکٹر ذاکر حسین کی سوانح  بھی لکھی۔ آخر عمر میں  وہ  لیفٹ ورڈ پبلی کیشنز سے وابستہ رہے  اور ان کی مزید کئی کتابیں منظر عام پر آئیں، جن میں The RSS and the BJP: A Division of Labour, Islam and Jihad, Savarkar and Hindutva: The Godse Connection, اور The RSS: A Menace  to India شامل ہیں۔

نورانی کا شعورِ انصاف نہایت  گہرا تھا اور وہ یہ مانتے تھے  کہ مرکز میں آنے والی حکومتوں نے مسئلۂ کشمیر کے ساتھ  منصفانہ تعامل  نہیں کیا۔ ایک وکیل کی حیثیت سے نورانی نے شیخ عبداللہ کا قانونی دفاع کیا تھا، جنھیں اس وقت کی کانگریس سرکار نے 11 سال کے لیے جیل بھیج دیا تھا۔ عبداللہ جموں و کشمیر کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انھیں 1953 میں عہدے سےبرخاست کر دیا گیا تھا۔ Kashmir Connected نامی ویب سائٹ پر 2016 میں شائع ہونے والے ایک مضمون The Sheikh versus the Pandit: The roots of the Kashmir Dispute(شیخ بمقابلہ پنڈت: کشمیر تنازعہ کی جڑیں) میں نورانی نے عبداللہ کے ساتھ جواہر لال نہرو کے سلوک پر سخت تنقیدیں  کی تھیں ۔ جب آرٹیکل 370 کو  2019 میں مودی سرکار نے منسوخ کیا، تو نورانی نے اسے کشمیریوں کے ساتھ ’’دھوکہ دہی‘‘ اور ’’غیر آئینی‘‘عمل قرار دیا۔ وہ  اپنے خیالات اور نتیجۂ تحقیق کا اظہار بہت صاف اور واضح لفظوں میں کرتے تھے ۔ انھوں نے اس موضوع پر متعدد مضامین لکھے، جن میں اس ایکٹ کی منسوخی، حقیقت ، قانونی حیثیت اور  ریاست کی خود مختاری کو تباہ کیے جانے  کی  سخت مذمت کی ۔

اکسفورڈ سے شائع شدہ نورانی کی کتاب Article 370: A Constitutional History of Jammu and Kashmir  میں کئی  ایسے حصے ہیں، جہاں نورانی نے عبداللہ اور وزیر اعظم اندرا گاندھی کے درمیان مکاتبت کو دوبارہ پیش کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کی مرکزی حکومت نے کشمیری عوام کی خواہش اور مرضی کو مکمل طور پر نظر انداز کیا تھا۔ یہ کتاب اس دور کے اہم سیاسی کرداروں کے درمیان نایاب اور اب تک غیر رپورٹ شدہ مکاتبت  سے بھری پڑی ہے۔اس کتاب میں محولہ بعض خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ  آرٹیکل 370 میں کتر بیونت کا عمل  بہت پہلے شروع ہو گیا تھا۔ جس طرح نورانی کے ذریعے شیخ عبداللہ کے دفاع نے قانونی تاریخ رقم کی، اسی طرح بمبئی ہائی کورٹ میں ان کے ذریعے ایم کروناندھی کا دفاع  بھی ایک ایسا واقعہ تھا،جو خوب زیرِ بحث رہا۔

بہت سے سیاسی رہنماؤں نے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کے انتقال پر  اظہارِ غم کیا ہے۔ راجیہ سبھا کی سابق رکن اور سی پی آئی (ایم) کے پولیٹکل بیورو کی رکن برندا کرات نے کہا کہ ’’نورانی  ایک ایسے بلند پایہ دانش ور اور مصنف تھے، جس نے باریک بینی سے کی گئی تحقیق پر مبنی اپنی متعدد کتابوں کے ذریعے آر ایس ایس کی زہریلی سرگرمیوں، اس کے نظریے اور  بی جے پی سے اس کے گٹھ جوڑ کو واشگاف کیا۔ انھوں نے اپنے ایک ایک  لفظ کے ذریعے   سیکولرزم اور سچائی کی خدمت کی، ان کے کارنامے ہمیشہ زندہ رہیں گے‘‘۔ انھیں  نیشنل کانفرنس لیڈر عمر عبداللہ، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے بھی خراج عقیدت پیش کیا۔

ہندوستان کی نئی سمت بندی ، مثلاً دائیں بازو کی قدامت پرستی اور ہندوتوا  سیاست کے عروج اور لبرل خیالات و آزادی اظہار  پر حملے کے عمومی ماحول پر ان کی  گہری نظر تھی۔لیفٹ ورڈ بکس کے مینیجنگ ایڈیٹر سدھانوا دیش پانڈے نورانی کے ساتھ کام کرنے کا اپنا تجربہ یوں بیان کرتے ہیں’’اے جی نورانی کو پڑھنا نہایت ٹھوس،مخاطب کو  قائل کرنے والے اور واضح ترین دلائل سے لیس ہونے کا ہنر اور انھیں شائع کرنا  ٹھوس اور خشک حقائق کو خوبصورت نثر  میں پیش کرنے کا طریقہ سیکھنا تھا ۔ لیفٹ ورڈ میں ہم نے مسٹر نورانی کی چار کتابیں شائع کیں اور مجھے ان کا ایڈیٹر ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔ ذاتی طور پر میں غفور بھائی کو نہایت شایستہ اور پرانی دنیا کے ایک دلکش انسان کے طور پر یاد کروں گا،ایک  ایسا شخص، جس نے مجھ سے رفاقت کے دوران اپنی بزرگی اور علمی و دانشورانہ قدو قامت کو ایک طرف رکھا۔  دہلی کے اسفار کے دوران ان کے ساتھ سڑک کنارے چاٹ کھانے کی یادیں میرے ذہن میں نقش  رہیں گی ۔ غفور بھائی چاٹ کے بہت شوقین تھے‘‘ ۔

نورانی نے جن موضوعات پر لکھا،وہ ملک کے اندر اور باہر کی بڑی تبدیلیوں  کے حوالے سے ان کی فکر مندی  کی عکاسی کرتے ہیں۔   خصوصاً  ہندوستان میں دائیں بازو کی قدامت پرستی اور ہندوتوا  سیاست کے عروج،  لبرل خیالات اوراظہار رائے پر حملوں کے بڑھتے رجحان سے وہ تشویش میں تھے۔ وہ، جیسا کہ ایک صحافی نے محبت میں کہا تھا، ایک عجیب الاطوار قسم کے جینئس انسان تھے۔ فرنٹ لائن کے ساتھیوں کو یاد ہے کہ انھوں نے شروع میں ہی پہلے ٹائپ رائٹر اور پھر کمپیوٹر کے استعمال کے تئیں اپنی نفرت سے مطلع کردیا تھا۔ وہ ہاتھ سے ہی اپنی لمبی لمبی تحریریں لکھتے تھے،جس کی وجہ سے  ان کے آس پاس مسودات کا  ڈھیر جمع رہتا تھا؛یہ تھے اے جی نورانی ۔

لیلیٰ بوادم، جو پہلے فرنٹ لائن میں تھیں، ممبئی میں برسوں ان کے  رابطے میں رہیں۔ وہ کہتی ہیں  کہ نورانی کہا کرتے تھے  کہ  قلم  کاغذ کے ساتھ ان کا ذہن اچھی طرح کام کرتا ہے۔ ’’ان کا لکھا ہوا پہلا مسودہ ایک ’خوفناک‘ منظر پیش کرتا تھا؛ لیکن  ان کے  ذہن کے مطابق شاندار  بھی ہوتاتھا۔ اس میں ان کے خیال سے ہم آہنگ   درست الفاظ، افکارو جذبات ہوتے تھے۔درحقیقت مضامین کے حسنِ اسلوب پر بھی وہ اتنی ہی محنت کرتے تھے،جتنی کہ  حقائق کی تلاش میں کیا کرتے تھے۔  چھوٹی سے چھوٹی معلومات کی جستجو کے تئیں ان کا عزم و لگن  آپ کو حیرت زدہ کردیتا۔ ان کی ساری زندگی قرطاس و قلم  سے عبارت تھی، آخر عمر میں تو بس  لکھنا ہی ان کی زندگی تھی۔  ان کے اسسٹنٹ عبدالقیوم کہا کرتے تھے  کہ ’’صاحب لکھےبغیر کھانا نہیں کھاسکتے ‘‘ ۔ دانش اور شایستگی سے آراستہ ہر صحبت  سے وہ لطف اندوز ہوتے تھے، خود ان کے اپنے آداب میں ایک الگ ہی  دور کی خوب صورتی پائی جاتی تھی اور وہ جسے ناپسند کرتے،اس سے بے جھجھک  کنارہ کش ہوجاتے تھے، ان کے ہاں مخلوط رنگوں  کی کوئی گنجایش نہیں تھی،ان کے نزدیک رنگ یا توسیاہ تھا یا سفید ‘‘۔

ممتاز ماہر اقتصادیات و تعلیم پربھات پٹنائک نے بھی نورانی کے بارے میں اپنی یادیں شیئر کی ہیں۔’’مجھے غفور نورانی کی تحریریں سب سے پہلے اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی میں پڑھنے کو ملیں اور بعد میں ان سے ذاتی طور پر اس وقت ملاقات ہوئی، جب انھو نے لیفٹ ورڈ سے اپنی کتابیں  شائع کیں، میں تب اس ادارے سے وابستہ تھا۔اس اعتبار سے وہ باقی سارے مصنفین اور تجزیہ کاروں سے مختلف تھے کہ انھیں ہمیشہ اپنی تحریروں میں موجود معلومات کی صداقت کا کامل یقین ہوتا تھا۔ یہ خاصیت ان کے اندر  دقتِ تحقیق ، عالمانہ و دانشورانہ  دیانتداری ، غیر جانب داری اور اس بے پناہ محنت کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی، جو وہ اپنی  ہر تحریر میں کیا کرتے تھے۔ غفور نورانی کی رحلت معاصر ہندوستان پر دانش ورانہ مکالمے  کے لیے ایک شدید دھچکا ہے‘‘۔

گوکہ  نورانی کی زندگی عمومی اوسط سے  دراز  اور بھرپور  رہی؛ لیکن علم و تحقیق و تصنیف کی جن مختلف جہات  میں وہ سرگرم تھے اور جیسے عظیم کارنامے انھوں نے انجام دیے،ان کے پیشِ نظر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی وفات کا سانحہ ناوقت رونما ہوگیا، لگتا نہیں  کہ کوئی اور نورانی جنم لے گا۔

You may also like