Home نقدوتبصرہ قرآنِ کریم کا ایک پسندیدہ اور معیاری ترجمہ – مفتی کفیل احمد قاسمی

قرآنِ کریم کا ایک پسندیدہ اور معیاری ترجمہ – مفتی کفیل احمد قاسمی

by قندیل

ترقی یافتہ زبان کا ارتقائی سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے، وقت کے ساتھ زبان ترقی کرتی رہتی ہے، اس کے قدیم محاورات کی جگہ جدید محاورات لے لیتے ہیں، الفاظ اور ان کے محلِ استعمال تبدیل ہوجاتے ہیں، بہت سے الفاظ متروک ہو جاتے ہیں، تراکیب اور جملوں کی ساخت بدل جاتی ہے۔

زبان کا معاملہ خود بھی بڑا حساس ہے، لیکن جب ایک زبان کا ترجمہ دوسری زبان میں کیا جائے تو یہ حساسیت مزید بڑھ جاتی ہے؛ اس لیے کہ کامیاب ترجمانی کے لیے ترجمہ نگار کو دونوں زبانوں پر کامل دست رس ہونا اور دونوں زبانوں کے محاوروں سے واقف ہونا ضروری ہے، خصوصًامترجم الیہ زبان پر پورا قابو ہونا لازم ہے، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ مترجم اپنے عہد کے ذوق واستعمالات سے واقف ہو اور اس فن پر بھی پوری گرفت رکھتا ہو جس کا ترجمہ کیا جارہا ہے، اس کے بغیر ترجمانی کا عمل پوری طرح کامیاب نہیں ہو پاتا۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ اور ان کے باکمال صاحب زادوں نے ہندوستان میں قرآن فہمی کا راستہ بتایا، حضرت شاہ صاحب ؒ نے فتح الرحمن کے نام سے قرآنِ کریم کا ترجمہ کیا، ان کے بعد ان کے بیٹوں نے اس مشن کو آگے بڑھایا، حضرت شاہ رفیع الدین نے لفظی ترجمہ کیا اور شاہ عبد القادرؒ نے بامحاورہ ترجمہ کیا اور شاہ عبد العزیزؒ نے تفسیرِ عزیزی لکھ کر ہم عصروں کو حیرت میں ڈال دیا۔

آسان اورمعیاری زبان میں ترجمہ نگاری کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنے مقدمے میں لکھا ہےکہ:

’’ان کے زمانے میں مسلمانوں کی خیر خواہی اس میں تھی کہ قرآنِ کریم کا فارسی زبان میں ایسا ترجمہ کیا جائے جو سلیس ہو، جس میں روز مرہ کی متداول زبان استعمال کی جائے، قابلیت اور کمال کا اظہار مقصود نہ ہو، نیز عبارت آرائی اور تصنع سے احتراز ہو، اسی طرح دیگر امور بھی پیشِ نظر رہیں؛ تاکہ ترجمہ عوام وخواص دونوں کے لیے یکساں مفید ثابت ہو اور ترجمے سے چھوٹے، بڑے سبھی استفادہ کرسکیں۔ ‘‘

شاہ عبد القادرؒ نے اس زمانے میں شاندار ٹکسالی اردو زبان میں قرآن کا ترجمہ کیا، یہ ترجمہ سب سے اہم مرجع کی حیثیت رکھتا ہے، بعد کے سارے اردو مترجمین نے اس سے اخذ واستفادہ کیا ہے۔

وقت گذرنے کے ساتھ جب زبان میں کچھ تبدیلی ہوئی اور محاورات اور الفاظ پرانے ہو گئے تو حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے خود آسان زبان میں قرآنِ کریم کا شاہکار ترجمہ کیا، اس کے بعد شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ دیوبندی نے موضحِ قرآن کے نام سے حضرت شاہ عبد القادر دہلویؒ کے ترجمے کی تسہیل کی۔ قرآنِ مجید کے مفاہیم کی تسہیل اور آسان زبان میں ترجمے کا یہ عمل اس کے بعد لگاتار چلتا رہا اور ایک صدی کے اندر اردو زبان میں کم وبیش ایک ہزار لوگوں نے قرآنِ مجید کا ترجمہ کرنے اور تفسیر لکھنے کی سعی کی۔

ڈاکٹر مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی استاد دار العلوم دیوبند اسی سلسلۃ الذہب میں شامل ہیں، انہوں نے قرآنِ مجید کا نہایت آسان ترجمہ کیا ہے، ترجمہ کرنے کی وجوہات کو انہوں نے خود مقدمے میں ’’ترجمے کی تقریب ‘‘کے عنوان کے تحت اس طرح بیان کیا ہے:

’’جب حضرت استادِ محترم مفتی سعید احمد پالن پوریؒ شیخ الحدیث وصدر المدرسین دار العلوم دیوبند سے بارہا اہلِ علم وفضل نے خواہش ظاہر کی کہ آپ ایک آسان ترین ترجمہ تیار کردیجیے؛ اس لیے کہ

اکابر کے قابلِ اعتماد تراجم پر ایک، دو صدی گزر چکی ہے، ان میں عربی اور فارسی کے الفاظ بہت ہیں۔

ترکیبیں قدیم ہیں۔

متروک اور غریب مفردات کی تعداد بھی بہت ہے۔

محاورات میں آج کا قاری اجنبیت محسوس کرتا ہے، اگر چہ اُس زمانے کی یہ فصیح زبان ہے، جب فارسی کا چلن تھا، عربی، فارسی مفردات سے عوام واقف تھے ؛ اب زبان بدل چکی ہے، مفردات نئے آگئے ہیں، ترکیبیں نیا روپ دھار چکی ہیں۔

اس لیے ایسا ترجمہ کیجیے

جو اکابر کے نہج سے نہ ہٹنے پائے۔

اس میں عربی اور فارسی کے مشکل الفاظ نہ ہوں۔

ترکیبیں آج کی ہوں۔

ایسے الفاظ بھی نہ ہوں جن سے ایک علاقہ مانوس اور دوسرا غیر مانوس ہو۔‘‘

حضرت مفتی سعید احمد ؒ جوابًا فرماتے تھے کہ ’’ہدایت القرآن‘‘ کے بعد کروںگا، لیکن اس کی تکمیل کے بعد حضرتؒ ’’آسان بیان القرآن‘‘ کی تصحیح ونظرِ ثانی میں مصروف ہوگئے، جب اس کی بھی تکمیل ہو گئی تو حضرتؒ کو مفتی اشتیاق احمد نے اردو ترجمے کی درخواست کا اعادہ کیا۔ اس بات کو اپنے مقدمے میں انہوں نے اس طرح لکھا ہے:

’’حضرتؒ نے قدرے جذب کی کیفیت میں فرمایا: کیا سارے کام میں ہی کروں؟ تو نہیں کر سکتا؟ میں نے تعجب سے کہا: کیا میں بھی کر سکتا ہوں؟ فرمایا: ہاں! کرسکتے ہو! میں نے عرض کیا: پھر ایک نمونہ لاتا ہوں، آپ دیکھ لیں کہ کیا وہ میرے بس کا ہے؟ ‘‘

حضرت مفتی اشتیاق احمد بہ طورِ نمونہ سورۂ فاتحہ کا ترجمہ اور مختصر تفسیر لکھ کر لے گئے، حضرت مفتی سعید احمدؒ نے فرمایا: اطمینان سے دیکھ کر بتاؤں گا۔ اس کے بعد فون آیا: ’’ماشاء اللہ! بہت اچھا ہے، میں ایسا ہی چاہ رہا ہوں، اسی نہج پر چل پڑو، کمی، بیشی بعد میں ٹھیک ہو جائےگی۔ ‘‘

مفتی اشتیاق احمد کو تفسیر وترجمہ قرآن کریم سے پہلے سے مناسبت رہی ہے، کئی سال انہوں نے جلالین پڑھائی ہےاور ترجمۂ قرآن بھی پڑھایا ہے؛ اس لیے وہ ترجمۂ قرآن کے لیے موزوں شخصیت ہیں، حضرت الاستاد مفتی سعید احمدؒ کی تصویب کے بعد انہوں نے اس کا فیصلہ کیا اور چند سال کی محنت سے یہ ترجمہ مکمل ہوا ہے، ابھی انہوں نے صرف ترجمہ شائع کیا ہے، تا ہم ان کا ارادہ ہے کہ وہ اس ترجمے کے بعد تفسیری حواشی اور الفاظِ قرآن کی نحوی، صرفی ترکیب بھی اس میں شامل کر کے شائع کریں گے، انہوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

’’حاشیہ پر مختصر تفسیر، لغات اور نحوی، صرفی تحقیق لکھنے کا ارادہ ہے، سرِ دست خالص ترجمہ شائع کیا جا رہا ہے،تا کہ شائقین کی تسکین کا سامان ہو جائے۔ وباللہ التوفیق ! ‘‘

ترجمے کی خصوصیات

پیشِ نظر ترجمے میں مصنف نے جن امور کا لحاظ کیا ہے، ان کے بارے میں مقدمے میں وہ یوں رقم طراز ہیں:

’’اس ترجمے میں اکابر کے تراجم کے تابع رہنے کا التزام کیا گیا ہے۔

عربی اور فارسی مفردات سے بچنے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔

متروک اور اجنبی الفاظ استعمال نہیں کیے ہیں۔

اسلوبِ بیان کافی آسان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اب یہ ترجمہ علماء حق کے تراجم کا آسان ترین انتخاب ہے۔ اس میں ممکن حد تک ہر لفظ کے متبادل مفردات لانے کا التزام کیا گیا ہے۔ ‘‘

’’سب سے آسان ترجمۂ قرآن حافظی‘‘ میں دورانِ مطالعہ قاری کو درجِ ذیل امتیازات بھی نظر آئیں گے:

بین القوسین جو اضافے ہیں، ان سے کہیں ترجمے کی وضاحت کرنا، یا عبارت میں سلاست پیدا کرنا مقصود ہے، کہیں معانی ومفاہیم کی توضیح پیشِ نظر ہے؛ جیسے ’’صور‘‘ کی وضاحت ’’نرسینگے‘‘ سے ’’ٹھکانا‘‘ کی وضاحت ’’لوٹ کر جانے کی جگہ‘‘ سے، ’’مدتوں‘‘ کی وضاحت ’’ہمیشہ‘‘ سے اور ’’سچا‘‘ کی وضاحت ’’یقینی‘‘ سے کی ہے۔

کبھی ہلالین کی درمیانی عبارت تفسیری وضاحت کے لیےہوتی ہے؛ جیسے: سورۂ نبأ میں ’’وَبَنَیْنَا فَوْقَکُمْ سَبْعًا شِدَادًا‘‘ میں ’’سَبْعًا ‘‘کی مراد کو ’’آسمان‘‘ سےکی، اگلی آیت میں ’’سِرَاجًا وَہَّاجًا‘‘ کی مراد کو ’’سورج‘‘ سے واضح کیا ہے؛ اسی طرح ’’کَأْسًا دِہَاقًا‘‘ کا ترجمہ کیا ہے: ’’لبالب بھرے ہوئے (شراب کے) پیالے ‘‘بین القوسین جنسِ مظروف کی وضاحت ہے، ’’وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا‘‘ کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے: (جسم میں) گھس کر (جان) نکالنے والے(فرشتوں) کی قسم! یہاں بھی قوسین کی عبارت سے تفسیری مراد ظاہر کی ہے۔

ترجمے کی خوبی یہ بھی ہے کہ قوسین کی عبارت پڑھیں یا نہ پڑھیں، عبارت دونوں طرح مسلسل اور درست نظر آتی ہے، نمونے کے طور پر ذیل کی آیات کا ترجمہ دیکھیے، اسے قوسین کی عبارت کے ساتھ اور اس کے بغیر دونوں طرح پڑھنا درست ہے، کسر اور رکاوٹ نہیں ہوتی:

اور ہم نے رات کو (ایک طرح کا) پہناوا پہنایا۔ (سورۂ نبأ: ۱۰)

اور ہم نے نہایت چمک دار چراغ (سورج) بنایا۔ (سورۂ نبأ:۱۳)

یقینًا فیصلے (انصاف) کا دن ایک متعین وقت ہے۔ (سورۂ نبأ:۱۷)

جس دن (تمام)جانیں اور فرشتے لائن لگا کر کھڑے ہوں گے ۔ (سورۂ نبأ: ۳۸)

کام کی نوعیت اور انتخابِ الفاظ کا طریقۂ کار

انتخابِ الفاظ اس ترجمے کی سب سے نمایاں خوبی ہے، ہر لفظ کے لیے موزوں ترین ترجمہ لکھا گیا ہے، حضرت مفتی صاحب نے فارسی اور اردو کے تقریبًا ۱۹؍ تراجم اور متعدد تفاسیر سے استفادہ کیا ہے، انہوں نے پانچ تراجم کو ام التراجم قرار دیا ہے، حضرت مفتی صاحب مقدمے میں اپنے کام کی نوعیت اور طریقۂ انتخاب کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’علامہ جرجانی اور شاہ ولی اللہ کے فارسی ترجمے؛ شاہ رفیع الدین اور شاہ عبد القادر کے اردو ترجمے کتب خانۂ دار العلوم دیو بند سے حاصل کیے، ان کے ساتھ اکابر کے پندرہ تراجم تک رسائی ہوگئی، یعنی ترجمۂ شیخ الہند ، حقانی، تھانوی، دریا بادی، فتح محمد جالندھری، احمد لاہوری ، احمد سعید دہلوی، سرفراز خان صفدر، اکرم اعوان، عبد القیوم مہاجر مدنی ، عاشق الہی بلند شہری ، صوفی عبد الحمید سواتی رحمہم اللہ تعالیٰ، محمد تقی عثمانی، خالد سیف اللہ رحمانی مد ظلہما اور مفتی صاحب کی ہدایت القرآن کے لفظی ومحاوری ترجمے؛ اس طرح انیس قابلِ اعتماد تراجم کے لفظ، لفظ اور حرف، حرف پر غور و فکر کرنے کا حوصلہ لے کر بیٹھا، ان میں پانچ تراجم کو ناچیز اُمّ التراجم تصور کرتا ہے، یعنی حضرت شاہ ولی اللہ، شاہ رفیع الدین، شاہ عبد القادر دہلوی، حضرت تھانوی اور فتح محمد جالندھری کے ترجمے؛ اس لیے کہ بعد کے سارے ترجمے انھیں کو سامنے رکھ کر تیار کیے گئے ہیں۔

کام کی نوعیت یہ رہی کہ پہلے قرآن پاک کے ایک لفظ کے سارے ترجمے دیکھتا اور انھیں ایک کاغذ پر جمع کر لیتا، پھر ان میں سے آسان ترجمے کا انتخاب کرتے ہوئے درج ذیل عربی تفاسیر میں سے متعدد، یا سب کو دیکھتا؛ تفسیر جلالین ، کبیر، ابن کثیر، ابن عاشور، قرطبی، طبری، بغوی، مدارک، سعدی اور زمخشری؛ ساتھ ہی عربی لغات سے مدد لیتا، ان میں لغات القرآن، المعانی (انٹرنیٹ)، المعجم الوسيط، القاموس الوحيد، مصباح اللغات قابل ذکر ہیں؛ جب مفردات کے انتخاب پر مطمئن ہو جاتا تو اُسے اردو لغات میں دیکھتا؛ اس کے لیے فيرز اللغات ، جامع اللغات ، فرہنگ آصفیہ اور انٹرنیٹ پر موجودہ چند لغات سے مدد لیتا اور جو لفظ کئی بار آیا ہے اس کو سارے مقامات پر دیکھتا اور سارے معانی کو جمع کرتا اور ہر جگہ کے مناسب معانی پر غور کرتا ؛ پھر محاورات کو دیکھتا اور ایسی آسان تعبیر اختیار کرتا جس سے آسان پر میں قادر نہیں ، جسے ہر وہ اردو پڑھنے والا سمجھ سکے، جو اخبار پڑھ لیتا ہے اور جو تعبیر اردو حلقے میں ہر جگہ سمجھی جاسکے اور صرف و نحو سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا، اس مرحلے میں بہت سی جگہوں میں غور وفکر میں پورا پورا دن لگ گیا؛ بلکہ کئی کئی دن صرف ہو گئے۔

تکمیل کے بعد تاملات کے مقامات پر از سر نوغور کیا، اور یکسانیت پیدا کرنے کے لیے حضرت مفتی سعیداحمدؒ کی حیات میں کیےہوئے چھ پاروں میں از سر نو تبدیلیاں کیں اور پورے قرآن میں جہاں کہیں حضرت رحمہ اللہ نے ہدایت القرآن میں آسان ترین الفاظ استعمال فرمائے ہیں اُن کو باقی رکھا اور جہاں اُن سے زیادہ آسان ملے، بدل دیا، پھر مسودے کو مبیضہ کیا، پھر کمپوزنگ کے بعد تدبر کے ساتھ تصحیح کی، پھر متعدد اہلِ علم کو پارے، چند پارے دکھائے، اکثر نے عدیم الفرصتی کا عذر ظاہر کیا؛البتہ ایک فاضل دیوبند نے پورا دیکھا۔ فجز اہم اللہ خیرًا !‘‘

ذیل میں کچھ مفردات اور جملوں کے ترجمے میں یہ خوبی ملاحظہ کیجیے:

٭ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ: تم مستی نکالنے والے (زانی) نہ ہو۔

٭ اِسْتَمْتَعْتُمْ: (ان عورتوں میں سے) جسے تم کام میں لائے ہو۔

٭ عَلِیْمًا: خوب جاننے والے۔

٭ حَکِیْمًا: بڑی سوجھ بوجھ والے۔

محاورات کے استعمال سے زبان کی لطافت اور دل کشی میں اضافہ ہوتا ہے اور بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے، حضرت مفتی صاحب نے اپنے ترجمے میں محاورات کو خوب استعمال کیا ہے، جیسے سورۂ نبأ میں ’’أَفْوَاجًا‘‘ کا ترجمہ ’’ٹھٹ کے ٹھٹ‘‘ سے؛ اسی طرح ’’نُخْرِجُ‘‘ کا ترجمہ بہ جائے ’’نکالیں‘‘ کے ’’اُگائیں‘‘ سے کیا ہے؛ ’’لِبَاسًا‘‘ کا ترجمہ ’’پہناوا‘‘ کیا ہے؛ اس سے ترجمے کا حسن ظاہر ہے۔

ترجمے میں اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ ہر آیت کا ترجمہ دوسری آیت سے جدا رہے، چاہے اس کے لیے کچھ الفاظ کو بریکٹ میں مکرر لکھنا پڑ جائے، جیسے سورۂ نبأ میں ’’وَالجِبَالَ أَوْتَادًا‘‘ کے ترجمے میں ’’بنائیں‘‘ کو مکرر لکھا ہے؛ اسی طرح ’’وَجَنَّاتٍ أَلْفَافًا‘‘ کے ترجمے کے بعد لفظِ ’’بھی‘‘ کا اضافہ کیا ہے۔

اکابر کے خطوط پر قائم رہنے کا التزام

اکابر کے ذوق و فکر کا التزام اس ترجمے کی روح ہے،حضرت مفتی صاحب نے اس کی ترتیب میں کافی حزم واحتیاط سے کام لیا ہے، جیسا کہ ابھی ان کی تحریر سے طریقۂ کار ذکر کیا جاچکا ہے، حضرت مفتی صاحب دورانِ ترتیب اپنے بڑوں سے مسلسل مشورہ اور استفادہ کرتے رہے، جن شخصیات سے استفادہ وتعاون حاصل رہا، ان میں تین شخصیات بہت اہم ہیں، ابتدائی مراحل میں حضرت مفتی سعید احمد پالن پوریؒ سے استفادہ رہا، حضرتؒ کی وفات کے بعد حضرت اقدس مفتی ابوالقاسم نعمانی دامت برکاتہم العالیہ کی عظیم شخصیت سے استفادہ کیا، ان سے حوصلہ ملتا رہا، اسی طرح حضرت مفتی محمد امین پالن پوری دامت برکاتہم العالیہ سے بھی اخذ واستفادے کا سلسلہ رہا۔ ادبی پہلو سے ادیبِ اریب حضرت مولانا عارف جمیل مبارک پوری استادِ ادب عربی، ایڈیٹر ماہ نامہ الداعی (عربی) دامت برکاتہم سے ربطِ مسلسل رہا، مذکور الصدر اکابر کے علاوہ دیگر متعدد اہلِ علم کا تعاون بھی شامل رہا۔ اس ترجمے پر اکابر نے جو تقاریظ لکھی ہیں، ان سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مترجم موصوف نے اکابر کے خطوط پر قائم رہنے کا التزام کیا ہے۔

ترجمے کی زبان وبیان کے کچھ نمونے

حضرت مفتی اشتیاق احمد اردو زبان کے مزاج داں ہیں اور اس ترجمے مین تو انہوں نے زبردست محنت بھی کی ہے؛ اس لیے اس ترجمے کی زبان بہت آسان ہے اور ادبی تقاضوں کے مطابق ہے، ان کا قلم ششتہ ہے، وہ آسان اور معیاری زبان لکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں ترجمہ نگاری کی خصوصی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں، بہ طورِ نمونہ ان کے ترجمے سے پانچویں پارے کا دوسرا رکوع پیشِ خدمت ہے:

’’مرد عورتوں کے نگراں (ذمہ دار ) ہیں؛ اس لیے کہ اللہ تعالی نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر بڑھوتری دی ہے اور اس لیے (بھی) کہ مروں نے اپنے مال ( ان پر ) خرچ کیے ہیں؛ چناں چہ نیک عورتیں فرماں بردار ہوتی ہیں، (شوہر کے ) پیٹھ پیچھے اللہ کی حفاظت سے ( اس کے مال اور اپنی عزت کی) نگرانی رکھتی ہیں، اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمھیں ڈر ہو تو ( پہلے ) انھیں سمجھاؤ، اور (پھر) ان کو سونے کی جگہوں میں (اکیلے ) چھوڑ دو اور (پھر) ان کو مارو پھر اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان کے خلاف کوئی راستہ تلاش نہ کرو، اللہ تعالی یقیناً بہت اونچے، بہت بڑے ہیں (۳۴)

اور اگر تمھیں دونوں (میاں بیوی) کےدرمیان پھوٹ پڑنے کا ڈر ہو تو اس (مرد) کے (قریبی) لوگوں میں سے ایک فیصلہ کرنے والا اور عورت کے (قریبی) لوگوں میں سے ایک فیصلہ کرنے والا بھیجو، اگر دونوں جھگڑا ختم کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان ملاپ پیدا کر دیں گے، اللہ تعالی یقیناً خوب جاننے والے، خوب واقفیت رکھنے والے ہیں (۳۵) اور اللہ تعالی کی بندگی کرو اور کسی کو اس کے ساتھ نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھی طرح سے پیش آؤ اور رشتہ داروں، یتیموں، محتاجوں، رشتہ دار پڑوسی، دور والے پڑوسی، پاس کے ساتھی اور مسافر کے ساتھ (بھی) اور ( ان غلاموں اور باندیوں کے ساتھ بھی) جن کے مالک تمہارے داہنے ہاتھ ہیں، اللہ اس آدمی کو یقینا نہیں چاہتے جو اترانے والا، بہت غرور کرنے والا ہو(۳۶)

جو لوگ کنجوسی کرتےہیں اور لوگوں کو کنجوسی کا حکم دیتے ہیں اور ان باتوں کو چھپاتے ہیں جوان کو اللہ تعالی نے اپنی عنایت سے دی ہیں اور ہم نے (اسلام کا ) انکار کرنے والوں کے لیے ذلت والی سزا تیار کر رکھی ہے (۳۷) اور جو لوگ اپنے مال لوگوں کے دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور اللہ کو اور پچھلے دن (آخرت) کو نہیں مانتے، اور شیطان جس کا ساتھی بن جائے تو وہ بہت برا ساتھی ہے (۳۸) اور ان کا کیا نقصان ہو جاتا؟ اگر وہ اللہ اور پچھلے دن کو مان لیتے اور اس میں سے کچھ خرچ کرتے جو اللہ نے ان کو دیا ہے اور اللہ خوب جانتے ہیں، اللہ یقینا ذرہ برا بر حق نہیں مارتے اور اگر نیکی ہوتی ہے تو اس کو کئی گنا کر دیتے ہیں اور اپنے پاس سے بہت بڑا ثواب دیتے ہیں، پھر کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان سب پر گواہ( بنا کر ) لائیں گےاس دن وہ لوگ دل سے چاہیں گے جنھوں نے (اسلام کا) انکار کیا اور پیغمبر کی نافرمانی کی کہ کاش! ان کے ساتھ زمین برابر کرد ی جاتی اور وہ اللہ تعالی سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے۔(۳۹)‘‘

بچوں کو ترجمہ یاد کرانے کی اپیل

حضرت مفتی صاحب نے باشعور طالب علموں کو دورانِ ناظرہ خوانی، یا دورانِ تحفیظ ترجمہ یاد کرانے کا راستہ بھی دکھایا ہے، خود مفتی صاحب کو ہم نے دیکھا ہے، وہ بچیوں اور بھانجے کا حفظ پورا ہونے کے بعد ترجمہ یاد کرا دیتے ہیں، ان کی ایک بچی نے تیرہ چودہ سال کی عمر میں ۹۰؍ دن میں پورے قرآن مجید کا ترجمہ یاد کر کے سنادیا، موصوف کے پاس بچہ ترجمے پر اتنا قادر ہوجاتا ہے کہ ایک، ایک آدھے، آدھے پارے کا ترجمہ بلاتکلف ایک نشست میں سنانے لگتا ہے۔یہ طرز تعلیم نیا نہیں ہے، سید الطائفہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی اپنی تفسیر ’’فتح الرحمن‘‘ کے مقدمے میں اس کی ترغیب دی ہے، چناں چہ وہ لکھتے ہیں:

’’ومرتبۂ ایں کتاب بعد خواندنِ متنِ قرآن، ورسائل مختصر فارسی است، تافہمِ لسانِ فارسی بے تکلف دست دہد، وبتخصیص صبیانِ اہل صرف وسپاہیان کہ توقع استیفائے علوم عربیہ ندارند، در اولِ سنِ تمیز ایں کتاب بہ ایشاں تعلیم باید کرد، تا اول چیزے کہ در جوفِ ایشاں افتد، معانئ کتاب اللہ باشد، وسلامتِ فطرت از دست نرود، وسخن ملاحدہ کہ بمرقعِ صوفیۂ صافیہ مستتر شدہ، عالم را گمراہ می سازند، فریفتہ نہ کند۔۔۔‘‘

خلاصہ یہ کہ ناظرہ قرآن خواں بچہ جب زبان خوانی پر قادر ہو جائے تو باشعور بچوں کو قرآنِ کریم کا ترجمہ پڑھادینا چاہیے اور ان طلبہ کو بہ خاص طور پڑھادینا چاہیے جن کا پورا عالم بننے کا ارادہ نہ ہو؛ تاکہ ان کے شفاف دل میں جانے والی پہلی چیز کتابِ ہدایت کا ابدی پیغام ہو اور وہ زبان وادب کے نام پر گمراہ کرنے والے ملاحدہ اور بےدین لوگوں کی باتوں سے بھی محفوظ رہیں۔

ترجمے کو حافظی قرآن پر شائع کرنے کی وجہ

ترجمہ کو حافظی قرآن مجید پر اب تک کم ہی شائع کیا گیا ہے، اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آیات اور ان کا ترجمہ تلاشنا کافی آسان ہو جاتا ہے، نیز تحفیظِ قرآن کے طلبہ بھی دورانِ حفظ اسی مصحف کی مدد سے آسانی سے ترجمہ یاد کر سکتے ہیں۔ ترجمہ کو حافظی قرآن مجید پر شائع کرنے کی وجہ ذکر کرتے ہوئے حضرت مفتی صاحب لکھتے ہیں:

’’ترجمہ کو حافظی قرآن مجید کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے یہ میری دیرینہ تمنا تھی جو پوری ہوئی؛ تا کہ آیت تلاشنا آسان رہے؛ اس لیے کہ عام طور سےحافظ کو تراجم قرآنی میں آیت تلاشنے میں پریشانی ہوتی ہے۔

دوسرا مقصد یہ ہے کہ باشعور افراد جو قرآن مجید حفظ کرتے ہوئے مراد الہی کو سمجھنا چاہتے ہیں، انھیںترجمہ سے مدد ملے، گویا حفظ کے طلبہ کے لیے نادر تحفہ ہے، وہ اس کی مدد سے آہستہ آہستہ قرآن سمجھنے لگیں گے؛ مگر کوشش کے باوجود ترجمہ سطر کے نیچے نہ آ سکا۔ اللہ کرے کہ اس کی کوئی شکل نکل آئے، وماذلک علی اللہ بعزیز!‘‘

غرض یہ کہ ’’سب سے آسان ترجمۂ قرآن مجید حافظی‘‘ ایک شاہ کار ہے، ہر اردو پڑھنے والے کے لیے اب ترجمہ سمجھنا آسان ہو گیا ہے، اس کی کتابت، طباعت، سرورق اور تزیین کاری جاذبِ نظر ہے، اللہ تعالیٰ ترجمے کو شرفِ قبولیت سے نوازیں! اور مترجم اور مستفاد اکابرِ امت کو بیش از بیش بدلہ عطا فرمائیں! آمین۔

You may also like