Home تجزیہ سات اکتوبر سے سات اکتوبر تک فلسطینی مزاحمت میں کیا کچھ بدلا ؟ – کاشف حسن

سات اکتوبر سے سات اکتوبر تک فلسطینی مزاحمت میں کیا کچھ بدلا ؟ – کاشف حسن

by قندیل

(لیکچرر جامعہ اسلامیہ شانتاپورم کیرالا )

آج ہی کے دن سات اکتوبر 2023 کو دنیا نے ایک غیر معمولی منظر دیکھا – ایک ایسا منظر جس نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ایمان کی طاقت نے مادی طاقت کو للکارا اور فتح و نصرت کا پرچم بلند ہوا۔

دہائیوں سے اپنی ناقابل شکست سیکورٹی پر ناز کرنے والا اسرائیل، جو جدید ترین ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کے غرور میں چور تھا، اچانک ہی اپنے گھر میں غافل پایا گیا۔ موساد کی تمام تر صلاحیتیں، امریکی سی آئی اے کی تمام خفیہ کاوشیں، اور دیگر عالمی ایجنسیوں کی تمام کوششیں ایک لمحے میں دھول میں مل گئیں۔

قبضے کی وہ دیوار، جو ظلم و استبداد کی علامت تھی، ٹوٹ کر بکھر گئی۔ حماس کے مجاہدین نے دکھا دیا کہ ایمان کی طاقت، جدوجہد کا جذبہ، اور حق کی راہ میں ثابت قدمی کیا کر سکتی ہے۔ یہ محض ایک دیوار کا گرنا نہیں تھا – یہ ظلم کے قلعے میں ایک دراڑ تھی، استبداد کے محل میں ایک شگاف تھا۔

اسرائیل، جو اپنے آپ کو مہذب دنیا کا حصہ ظاہر کرتا تھا، اس کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بےنقاب ہوگیا۔ فلسطین کی سرزمین، جسے مذبح بنا دیا گیا تھا، اب ایک نئی داستان رقم کر رہی تھی۔ حماس نے ثابت کر دیا کہ وہ صرف ایک تنظیم نہیں، بلکہ ایک عقیدہ ہے، ایک ایسا عقیدہ جو کسی بھی ظلم کے سامنے نہیں جھکتا۔

یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایمان کی طاقت کے سامنے دنیا کی کوئی طاقت، کوئی دیوار، کوئی حصار نہیں ٹھہر سکتا۔ خوف کی جنگ میں ایمان ہی ہے جو انسان کو آزاد کرتا ہے۔ حماس نے اپنی بقاء کی جنگ میں ثابت کر دیا کہ جب عزم و ارادہ مضبوط ہو، تو کوئی بھی چیز ناممکن نہیں رہتی۔

سات اکتوبر 2023 – ایک ایسا دن جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔ یہ وہ دن ہے جب ایمان والوں نے دنیا کو دکھا دیا کہ حق کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا، اور جب حق کی طاقت باطل کے سامنے کھڑی ہوتی ہے، تو فتح و نصرت اسی کا مقدر بنتی ہے۔
سات اکتوبر 2023 کی تاریخ فلسطینی کاز کے لیے ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس روز جو کچھ ہوا، اس نے فلسطینیوں کے لیے نئی امیدیں بیدار کیں اور عالمی سطح پر ایک انقلاب برپا کیا۔ اس واقعے نے فلسطینی عوام کی جدوجہد کو عالمی رائے عامہ کے سامنے پیش کرنے کا موقع فراہم کیا، جس کے نتیجے میں کئی اہم تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔
اس واقعے نے مغربی دنیا میں فلسطینی کاز کے حوالے سے ایک نیا شعور بیدار کیا۔ جہاں پہلے یہ مسئلہ اکثر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے،اور ایک خاص عینک سے دیکھا جاتا رہا ہے ۔وہاں اب اس پر سنجیدہ بحث و مباحثہ جاری ہے۔ اکیڈمیک حلقوں میں فلسطینیوں کے حقوق کے حوالے سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔عالمی میڈیا نے بھی پہلی بار فلسطینی نقطہ نظر کو اپنی سکرینوں پر جگہ دی۔ بڑے میڈیا اداروں نے غزہ کی حالت زار کی حقیقت کو رپورٹ کیا، اور صدیوں اے دنیا میں اسرائیلی کاز کو سپورٹ کرنے والے میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے ۔
یہاں تک کہ انسانی حقوق کا مسئلہ بھی فلسطینی کاز کے ساتھ جڑتا ہوا دکھائی دینے لگا۔

سات اکتوبر کے نتیجے میں کئی دہائیوں کے بعد اہل ایمان کے لیے سجدہ شکر کا مقام ہے کہ فلسطینیوں کی جدوجہد اب محض ایک علاقائی تنازعہ نہیں رہی، بلکہ یہ انسانی حقوق کا عالمی مسئلہ بن چکی ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر فلسطینیوں کے حقوق کی وکالت زیادہ مؤثر انداز میں کی جا رہی ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف مقدمات کا آغاز اور جنگی جرائم کی تحقیقات کا آغاز، اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ فلسطینی کاز کے ساتھ انصاف کی کوششیں جاری ہیں۔ جو لوگ جیو پالیٹکس کی سمجھ رکھتے ہیں. ان کے لیے سات اکتوبر کے بعد کا منظر نامہ بڑی تبدیلی کا باعث ہے۔
فلسطینی کاز کی سیاسی اور سفارتی کامیابیاں بھی قابل ذکر ہیں۔ عرب ممالک کے موقف میں تبدیلی نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو کم کردیا ۔ مغربی ممالک میں پارلیمانی بحثوں میں فلسطین کے حق میں آوازیں اٹھنے لگی ہیں، عوامی رائے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، اور حکومتی پالیسیوں پر نظرثانی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
بائیکاٹ تحریک بھی ایک اہم پہلو ہے۔ اسرائیلی مصنوعات کے خلاف عالمی بائیکاٹ نے فلسطینیوں کے حقوق کے لیے ایک نئی راہ ہموار کی ہے۔، جس نے اسرائیلی معیشت پر دباؤ ڈالا ہے۔ اس طرح کے اقدامات نے عالمی برادری کے اندر فلسطینی کاز کے حق میں ایک نئی لہر پیدا کی ہے۔اسرائیل اس وقت کئی صدی کے بعد سب سے زیادہ بے چین ہے ۔وہ 40 ہزار سے زیادہ قتل عام کے بعد بھی اس کے دل و دماغ میں شکست سوار ہے ۔سات اکتوبر کے بعد ہزاروں اسرائیلی ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں. آئرن ڈوم اور اس جیسی دوسری جدید ہتھیار لاکھوں میلین ڈالر کے خرچ نے اسرائیلی معیشت کو سخت نقصان پہونچایا ہے ۔
ان تمام کامیابیوں کے باوجود،اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فلسطینی عوام کو چیلنجز کا سامنا ہے۔ جنگ، تباہی اور انسانی جانوں کا نقصان ایک حقیقت ہے۔ لیکن سات اکتوبر کے بعد کی صورت حال نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ فلسطینی جدوجہد اب ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے، جہاں انصاف اور آزادی کی جدوجہد کو پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ عالمی برادری کی بڑھتی ہوئی حمایت اور فکری شعور کی بیداری نے فلسطینیوں کی امید کی کرن کو روشن کر دیا ہے۔ کہ ظلم اور جبر کے خلاف لڑائی جاری رہے گی، اور بالآخر حق کی فتح ہو گی۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like