Home تجزیہ مکاتیب سرسید کے حواشی و تعلیقات

مکاتیب سرسید کے حواشی و تعلیقات

by قندیل

مکاتیب سرسید کے حواشی و تعلیقات 
اہمیت ،ضرورت اور معنویت 
                                                                                                    محمد شاداب شمیم 
                                                                 ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی دہلی 
                                                                      [email protected] 
اردو ایک قدیم زبان ہے ،مورخین اس کی جڑیں امیر خسرو کے کلام میں تلاش کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کو نقش اول کے طور پر دیکھاجاسکتا ہے بس ،اس کے بعد ایک طویل زمانہ تک شعرا اور صوفیا کی زبان رہی اس کے بعد نثری سلسلہ شروع ہوا، اس کانثری سرمایہ تقریبا چار صدیوں پر محیط ہے ، اور باضابطہ نثری شکل و صورت میں سترہویں صدی کی ابتدا میں وجود میں آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت ہی کم وقت میں یہ عام وخاص ،بول چال اور لکھنے پڑھنے کی زبان بن گئی ،شعرا اور ادبا اسی زبان میں اپنی خوابیدہ وپوشیدہ صلاحیتوں کے جوہر دکھانے لگے ،زبان نے اپنی ارتقائی منازل طے کیے اور آج جس شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے وہ ابتدائی زمانہ سے کافی مختلف ہے ؛کیوں کہ اس وقت اردو زبان پر عربی و فارسی الفاظ و تراکیب اور محاورات کا غلبہ تھا ؛لیکن رفتہ رفتہ اس قابل ہوگئی کہ سادہ اور سلیس انداز میں اپنے مافی الضمیر کو اس زبان میں ادا کیا جا سکے ۔
ابتدا میں جو کتابیں اور داستانیں تحریر کی گئیں وہ اس وقت کے ماحول اور حالات کے زیر اثر تھیں ،اس زمانہ کا سماج ،ماحول،محاورات و لفظیات وغیرہ ان سب کی تفہیم آج کے قاری کے لیے بہت مشکل ہے ،بہت سی چیزیں مرور زمانہ کی نذر ہوگئیں،الفاظ و محاورات متروک ٹھہرے ،جبکہ زمانہ وسماج نے کئی ایک کروٹیں بدل ڈالیں نیز اس وقت کی زبان کافی مشکل اور گنجلک تھی،پھر کیوں کر آج کے قاری پر سابقہ کتب و داستان کے بھید کھلنے لگے اور اگر کھلیں گے بھی تو چند ایک پر ،اسی لیے استفاد�ۂ عام کے لیے ہمیں از سر نو تعبیرو تفہیم کی ضرورت پڑی اور باضابطہ حواشی و تعلیقات جیسی اصطلاحات ایجاد کرنا پڑیں ،جس کے ذیل میں محاورات ،الفاظ ، اشخاص،مقامات اور تحریکات ورجحانات کی مکمل تفصیل لکھی گئیں تاکہ آج کے قاری کے لیے اس وقت کی کتابوں سے استفادہ آسان ہو سکے ۔
سرسید احمد خاں کا دور انیسویں صدی کاہے ان کی تحریروں اور خاص طورپر مکاتیب میں بڑی تعداد میں ایسے الفاظ،محاورات،اشخاص و مقامات ،قرآنی آیات ،عربی و فارسی کے الفاظ و محاورات ، فقہی اصطلاحات اور عقلی و منطقی دلائل و براہین کا استعمال ہو ا ہے جن کو بہ آسانی اردو کا ہر طالب علم نہیں سمجھ سکتا ،اس لیے ضروری ہے کہ مکاتیب سر سید کے حواشی اور تعلیقات تحریر کیے جائیں ورنہ خدشہ ہے کہ یہ مکاتیب کہیں اردو ہی والوں کے لیے قصۂ پارینہ نہ بن جائے۔
حواشی و تعلیقات 
حاشیہ و تعلیق عالمانہ معلومات کا خزینہ ہوتے ہیں ،حاشیہ ایسی شرح کا نام ہے جس میں متن کے بیان کی وضاحت، متن کے اغلاط کی تصحیح ،متن سے متعلق مزید و اضافی معلومات پیش کی جاتی ہے ،جن کتابوں سے محقق و مصنف نے استفادہ کیا ہے ،حواشی وتعلیقات اس کے ماخذ و حوالہ کا پتہ دیتے ہیں اور اس طرح تحریر و مقالہ کو استناد کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے اور متن سے متعلق قاری کی معلومات میں اضافہ کے ساتھ اسے اطمینان بھی نصیب ہوتا ہے ،حواشی اور تعلیقات میں متن میں ذکر کیے گئے اشخاص،مقامات اورکتب و رسائل کی وضاحت بھی پیش کی جاتی ہے،آج کل تحقیقی اداروں میں اہم شخصیات، ادبا وشعرا کی کتب پر اس طرح کے اہم کام انجام دیے جا رہے ہیں ،جو یقیناًان ادبا و شعرا کے حوالے سے اہم معلومات اور قیمتی حقائق پر مشتمل ہیں اسی طرح تحقیقی مقالات میں دوسرے مصنفین و مؤلفین کی کتابوں ،مضامین ،مقالات اور تحریروں و دستاویزوں سے استفادہ ناگزیر ہے محقق کا اخلاقی فرض ہے کہ حواشی میں وہ اس کو درج کرے اور بغیر اعتراف و اقرار اور حوالہ کے دوسرے کی محنت کو اپنا لینا علمی و تحقیقی خیانت ہے ۔
حواشی معنی ومفہوم
حواشی حاشیہ کی جمع ہے جس کا مادہ ح،و،ش ہے ، اس کے کئی معنی اصحاب لغت نے لکھے ہیں جیسے شرح، نوکر،چاکر،حوالہ،توضیح ووضاحت جو متن کے سواخالی مقامات پر لکھے جائیں ،نوٹ،اردگرد،مضافات،اطراف وغیرہ،اس کے علاوہ حاشیہ کتاب اورورق کے چاروں طرف کے خالی حصوں کو بھی کہتے ہیں ،متن سے باہر لیکن متن کے بارے میں لکھی جانے والی عبارت کو بھی حاشیہ کہا جاتا ہے ،اگر ہم حاشیہ کا ادبی اصطلاح کے لحاظ سے جائزہ لیں توحاشیہ مختصرا بیان یا وضاحت کو کہا جائے گا اور اس کے ذیل میں شعر،آیات قرآنی،حدیث،فقہ،اقتباس ،علاقہ ،شہر اور اشخاص تمام طرح کی چیزوں کو شامل کر سکتے ہیں۔ 

مختلف لغات میں حاشیہ کی تعریف 
فیروزاللغات میں حاشیہ چڑھانے کو شرح یا تفسیرلکھنے سے تعبیر کیا ہے، پروفیسر عبدالحق نے عصری لغت میں حاشیہ کے معنی کے متعلق لکھا ہے کہ ’’حاشیہ کنارہ،گوٹ،کتاب یا ورق کے چاروں طرف خالی حصہ ،کسی کی شرح اور یادداشت وغیرہ کو کہتے ہیں ‘‘بحوالہ عصری لغت ص:۱۲۸)،ڈاکٹر گیان چند جین نے اپنی مشہور تصنیف تحقیق کا فن میں حاشیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’پہلے زمانہ میں کتاب و طباعت میں کچھ نثری عبارت یا اشعار درمیانی صفحہ میں لکھتے تھے اور کچھ اطراف کے حاشیہ پر ترچھا کرکے اس نواحی جگہ کو حاشیہ کہتے ہیں‘‘( ،تحقیق کا فن ص:۴۸۶)عربی لغات میں اگر ہم حاشیہ کے معنی کا جائزہ لیں تو اسے حاشیۃ الثوب سے ماخوذ قرار دیا گیا ہے جس کے معنی کپڑے کے کنارے کے آتے ہیں، لسان العرب کے مصنف نے ا س کی تعریف اس طرح کی ہے ’’کل شئی اجانبہ وطرفہ‘‘،فارسی زبان کی مشہور لغت لغت نامہ دہخدا میں علی اکبر دہخدا لکھتے ہیں ’’مقابل متن ،آنچہ درکنارہ صفحہ کتاب نویسندہ ازملحقات وزیادات ،شرحی کہ بر متن نویسندہ ‘‘۔
حاشیہ نگاری کی اہمیت 
حاشیہ کی تعریف سے ہی اس کی اہمیت و افادیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ،اس کی اہمیت و افادیت صرف موجودہ زمانہ میں نہیں ہے بلکہ قدیم زمانہ سے اس کا رواج رہا ہے ۔اہل علم حضرات نے مختلف علوم وفنون اور اصطلات کو سمجھانے اور بیان کرنے کے لیے اس کا استعمال کیا ہے البتہ اس دور میں چوں کہ زبان و بیان میں کافی تبدیلی آئی ہے اور وہ الفاظ و اصطلاحات جو کبھی زبان زد عام و خاص ہوتے تھے آج کتابوں تک ہی سمٹ کر رہ گئے ہیں اس لیے اس دور میں اس کی اہمیت مزید دوبالا ہوگئی ہے ،حاشیہ نگاری کا عمل ایک سنجیدہ کام ہے جسے نہ صرف یہ کہ ترتیب متن اور ماخذ کی نشاندہی میں استعمال کیا جاتا ہے ؛بلکہ اس کے ذریعہ نکات کی توضیح و تشریح بھی کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اسے ترتیب متن کا لازمی حصہ سمجھاجاتا ہے اور بہت سے ایسے اہم اور نادر معلومات حاشیے میں بیان کر دیے جاتے ہیں جنہیں متن کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا ،اس کے علاوہ حاشیہ میں قرائتوں کی بھی نشاندہی کی جاتی ہے ورنہ بہت سے حضرات متن پڑھ کر اس کے مفہوم تک نہیں پہنچ سکتے ،اس لیے کوئی بھی تحقیقی کام تحقیقی و تنقیدی حواشی کے بغیر مستند نہیں سمجھا جاتا ۔
حاشیہ کے اقسام 
اگر ہم حاشیہ کے اقسام کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ محققین اور اہل علم حضرات نے اس کی بے شمار قسمیں بیان کی ہیں جن کا احاطہ اس مختصر مقالہ میں ممکن نہیں اس لیے چند اقسام اور اس کی ذیلی قسمیں بیان کرنے پراکتفا کیا جارہا ہے ۔
۱۔متنی حواشی تسویدی حواشی ،تبییضی حواشی ،تصنیفی حواشی،تصریحی حواشی،توسیعی حواشی،استنادی حواشی ۔
۲۔ غیر متنی حواشی تشریحی حواشی ،تنقیحی حواشی۔
۳۔ترتیبی حواشی توضیحی حواشی،تقابلی حواشی،تنقیدی حواشی،تحقیقی حواشی اور توثیقی حواشی۔
ان تینوں اقسام کا اگر ہم تفصیلی جائزہ لیتے ہیں تو تین طرح کی باتیں سامنے آتی ہیں (۱) پہلی بات یہ کہ محقق اور مدون ان مراجع اور مصادر کی نشاندہی اور اندراج کرتا ہے جن سے اس نے استفادہ کیا ہے ،اس سے قاری کو اندازہ لگانے اور سمجھنے میں سہولت ہوتی ہے کہ محقق نے اس سلسلہ میں بنیادی مراجع اور مصادر کو سمجھا ہے یا نہیں اور اسے نقل کرنے میں کسی قسم کی غلطی تو نہیں ہوئی ہے۔(۲) دوسری بات یہ کہ بسا اوقات متن میں کچھ ایسی عبارتیں شامل ہوجاتی ہیں جن کی وضاحت ضروری ہوتی ہے مگر اسی جگہ متن میں اس کی وضاحت سے متن بے ربط ہو جاتا ہے تو محقق یا مصنف ایسی عبارتوں کی توضیح وتشریح حاشیہ میں کر دیتا ہے ۔(]۳)تیسری بات یہ کہ ایک ہی موضوع یا مضمون کا تذکرہ دو یا زیادہ مرتبہ آتا ہے اور ایک جگہ وہ تفصیلی بحث کر چکا ہوتا ہے ایسے میں تکرارسے بچنے کیلیے مصنف یا مدون اس کی طرف اشارہ حاشیہ میں کردیتا ہے ۔
تعلیق معنی و مفہوم 
تعلیق جمع ہے تعلیقات کی جس کا مادہ ع ،ل،ق ہے اس لفظ کا بھی استعمال مختلف معنوں کے لیے ہوتا ہے مثلا مال و اسباب کی ضبطی،مکان کی قرقی،کتاب کا ضمیمہ ،حاشیہ ،تعلیق،حاشیہ پر تنبیہ ،کسی تحریر کا خلاصہ ،وغیرہ ۔بعض حضرات تعلیق کو تعریفی اور معلوماتی نوٹ سے بھی تعبیر کرتے ہیں ،اس کے ذیل میں تلمیح،تحریک،کتاب ،مصنف اور ادبی اصطلاح وغیرہ آتے ہیں ۔
اصطلاح میں تعلیق متن سے متعلق ایسی تفصیلات کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ متن کے متعلق اضافی معلومات حاصل ہوں البتہ وہ ناگزیر نہ ہوں ۔
تعلیق کی تعریف مختلف لغات میں
حاشیہ کی طرح تعلیق کا متعلق بھی اصحاب لغت نے مختلف تعریفیں بیان کی ہیں ،مولانا عبدالحفیظ بلیاوی نے مصبا ح اللغات میں لکھتے ہیں’’تعلیقہ کتاب کے حاشیہ کو کہتے ہیں‘‘ (مصباح اللغات ص:۱۵۷)
پروفیسر عبدالحق نے عصری لغت میں اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے’’کہ تعلیق کسی چیز کا تعلق پیدا کرنا ،لٹکانا، آویزاں کرنا ،کتابوں میں طویل نوٹ لکھنا ،حاشیہ سے بڑھ کر نوٹ لکھنا وغیرہ‘‘ (عصری لغت ص: ۱۰۲ )۔
تعلیق نگاری کی اہمیت 
جس طرح حاشیہ نگاری کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے اسی طرح تعلیق نگاری کی بھی اپنی اہمیت ہے ۔ بہت سے حضرات دونوں کو ایک ہی مفہوم میں بھی استعمال کرتے ہیں ،تعلیق نگاری ایک مشکل اور اہم فن ہے اسلیے تعلیق نگار کا ذوالفنون ہونا نہایت ضروری ہے،چوں کہ تعلیقات تنوع اور کثرت معلومات کی وجہ سے بسا اوقات اصل کتاب اور متن سے بھی زیادہ اہم ہو جاتے ہیں اسی سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اس کی مثال زیادہ تر ہمیں درسی کتب میں دیکھنے کو ملتی ہے اس کے علاوہ تعلیق نویسی کے ذریعہ مصنف،مدون یا تخلیق کار کی کوتاہیوں کی بھی گرفت اور نشاندہی کی جاتی ہے ،اگر تعلیق نگاری کا فن نہیں ہوتاتو بہت سی غلطیاں علم بن کر لوگوں کے ذہنوں میں قدیم زمانہ تک رچی بسی رہتی ۔ 
تعلیق کے اقسام 
حواشی کی طرح تعلیق کے بھی متعدداقسام ہیں تمام کو تو تفصیلی نہیں بیان کیا جا سکتا البتہ اس کی ترتیب کو اگر ہم شقوں میں تقسیم کریں تو اس کی سات قسمیں ہوتی ہیں ۔
(۱) استشہادی تعلیقے (۲) ارتباطی تعلیقے(۳)اضافیاتی تعلیقے (۴) افادیاتی تعلیقے (۵) اشاریاتی تعلیقے (۶) استدراکی تعلیقے (۷) استنادی تعلیقے ۔
حواشی اور تعلیقات میں فرق 
حواشی اور تعلیقات ایک ہی ہیں یا ان میں فرق ہے ؟ ا س تعلق سے بھی علما ء ادب نے مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے بعض حضرات نے باعتبار معنی و مفہوم دونوں کو ایک دوسرے کا مترادف قرار دیا ہے تو بعض نے جزوی طورپر فرق بیان کیا ہے، ڈاکٹر نذیر احمد نے حاشیہ اور تعلیق کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا ہے ،’’حاشیہ اور تعلیق یا تعلیقہ باعتبار معنی و مفہوم یکساں ہیں ،لیکن استعمال کے لحاظ سے کچھ فرق ہے تعلیقہ معقولات اورفلسفہ کی کتابوں کے حواشی کو کہتے ہیں اوردوسرے فنون کے تعلیقے حواشی یا حاشیہ کہلاتے ہیں ‘‘(تصحیح و تحقیق متن ص: ۵۳)ڈاکٹر نذیر احمد نے اپنی کتاب مکاتیب سنائی میں تعلیقات و حواشی کے ذیل میں اپنی جملہ تشریحات کا ذکر کیا ہے جبکہ دیوان سراج میں صرف تعلیقات کے تحت ،اور مالک رام نے غبار خاطر کی تشریحات کے لیے صرف حواشی کا استعمال کیا ہے اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں اور دونوں مترادف ہیں ،اس کے علاوہ مولانا ابوالکلام آزاد کی عادت تھی کہ جو کتاب بھی پڑھتے ا س کے حاشیہ پر اپنی رائے درج کردیتے ،مولانا نے تاریخی ومذہبی واقعات و افراد، لغوی مسائل اور زبان و محاورہ پر اپنی رائے کتابوں کے حاشیوں پر لکھی ہے اسی کو سید مسیح الزماں نے حواشی ابوالکلام آزاد کے نام سے مرتب کیا ہے اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں مترادف ہیں۔
حواشی و تعلیقات کی ضرورت و اہمیت 
حواشی وتعلیقات کی اہمیت و ضرورت اور افادیت کے متعلق ڈاکٹر گیان چند جین نے لکھا ہے کہ’’ اردو بشمول عربی کی تدوین میں تحشیہ و تعلیقات متن کی بڑی اہمیت ہے نظم کی تدوین ہو یا نثر کی تدوین ہو تذکرہ کی قواعد یا کسی علمی موضوع کی ،حواشی کے بغیر نامکمل رہتی ہے،متن کو پڑھتے وقت قاری کے ذہن میں بعض امور کے متعلق جو مزید جاننے کی خواہش ابھرتی ہے مدون اپنے حواشی میں وہ جانکاری فراہم کردیتا ہے ‘‘ (تحقیق کا فن ص:۴۸۷)، ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش اس حوالہ سے لکھتی ہیں کہ ’’یہ عمل یعنی (تحشی و تعلیقات)ترتیب متن کا ایک نہایت اہم اور لازمی جزو ہوتا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ متن کے مختلف ماخذ اور اختلافی قرائتوں کی نشاندہی ہوتی ہے ،بلکہ متن کے مقتضیات اور معلوم حقائق کی روشنی میں توضیحی روایتوں اور تصدیقی براہین کو بھی تقابلی مطالعہ کے ساتھ حسب ضرورت اس میں شامل کیا جاتا ہے ایسے حوالہ جات یا تحقیقی و تنقیدی حواشی کے بغیر متن کی تصحیح و ترتیب کا کام درجۂ استناد سے محروم رہتاہے ‘‘ (اصول تحقیق ص: ۹۰) ۔ ڈاکٹر محمد طفیل نے لکھا ہے کہ ’’حاشیہ نگاری کا عمل سنجیدہ اور فنی تحریروں نیز ترتیب متن کا ایک اہم اور لازمی جزو ہے جس کے ذریعہ نہ صرف ماخذ کی نشاندہی کی جاتی ہے ،بلکہ بہت سی توضیحی وضاحتیں بھی کر دی جاتی ہیں ،ایسے بہت سے امور حاشیہ میں لکھے جاتے ہیں جو متن کا حصہ نہیں بن سکتے ان کے علاوہ قدیم متن کی تدوین کے حوالہ سے اختلافی قرائتوں کی نشاندہی کی جاتی ہے اور متن کے مقتضیات اور معروف حقائق کی روشنی میں توضیحی روایتوں اور تصدیقی دلائل کو حسب ضرورت شامل کیا جاتا ہے ،تحقیقی اور تنقیدی حواشی نیز حوالہ جات کے بغیر تحقیقی کام درجۂ استناد سے محروم رہتے ہیں ا س لیے حاشیہ نگاری تصنیف و تالیف کا ایک لازمی جزو ہے جسے مکمل کیے بغیر علمی و تحقیقی مواد بطریق احسن قارئین کو پیش نہیں کیا جا سکتا ‘‘( اردو میں فنی تدوین ص:۲۰۳)۔ 
مکاتیب سر سید 
مکتوب نگاری اردو ادب میں ایک اہم صنف کی حیثیت رکھتی ہے ،خطوط و مکاتیب نثری ادب کا وہ حصہ ہیں جن کے ذریعہ ہم کسی کی شخصیت کے پورے خدو خال سے واقف ہوسکتے ہیں ،ذاتی خطوط ہمیں مصنف کی روز مرہ کی زندگی ،ا س کے جذبات واحساسات ،اس کے اعمال و اشغال ،متعلقین اور دوست و احباب کا پتہ دیتے ہیں ۔اچھے مکتوبات کی پہچان یہ ہے کہ اس میں زندہ شخصیت یا فردیت پورے طور پر جلوہ گر ہوتی ہے ہمیں مکاتیب سے جہاں تاریخی معلومات حاصل ہوتی ہیں وہیں اس زمانہ کی تہذیب و تمدن ،رہن سہن اور عادات و اطوار کا بھی بخوبی علم ہوتا ہے ،بقول خواجہ احمد فاروقی ’’خطوں کے ذریعہ ہم چہرے کی رنگت دیکھ سکتے ہیں ،نگاہوں کو پہچان سکتے ہیں ،نبض کی رفتار معلوم کر سکتے ہیں ،دل کی دھڑکن سن سکتے ہیں اسی لیے وہ روسو کے اعترافات سے زیادہ اہم ہیں اور سوانحی مواد اخذ کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ ہیں‘‘ (مکتوبات اردو کا ادبی و تاریخی جائزہ ص:۳) مکتوب نگاری نہایت قدیم صنف ہے ،عربی و فارسی زبانوں میں وقت کی ضرورت کے مطابق مکتوب نگاری کا سلسلہ جاری رہا ،اردو میں مکتوب نگاری ابتدائی دور میں فارسی زبان کے زیر اثر رہی اور مکتوب نگاروں نے اسی طرز کو اپنایا ،بھاری بھرکم القاب ،استعاروں و کنایوں کا استعمال ،مقفی نگاری اور رنگینی بیان کا اہتمام اسی کا نتیجہ تھا ، رجب علی بیگ سرور کے خطوط اس کی عمدہ مثال ہیں ،فارسی کے اثرات و تکلفات سے اردو مکتوب نگاری کو نکالنے کا سہرا مرزا غالبؔ کے سر جاتا ہے،اگر خطوط کے علاوہ غالب کے اور کارنامہ نہ بھی ہوتے تب بھی یہ خطوط غالب کے شہرت دوام کو کافی تھے ،وہ نثر جس کے بانی سرسید سمجھے جاتے ہیں اس کی خشت اول غالب کے ہی ہاتھوں رکھی گئی بقول خواجہ احمد فاروقی ’’اگر دیوانِ غالبؔ نہ ہوتا اور صرف خطوطِ غالب ؔ ہوتے تب بھی غالبؔ غالب ہی رہتے ‘‘ ( ) سرسید اسلامی و ادبی تاریخ کا وہ سنگ میل ہیں جہاں سے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے اردو زبان وادب کے محسن ،مصلح قوم، رہنما و قائد اور جدید اردو نثر کے موجد کو ہم سرسید کے نام سے جانتے ہیں ،کون سی ایسی خدمت ہے جو سرسید نے انجام نہ دی ہو اور کون سا علم و ادب کا میدان ہے جس میں سرسید نے کوئی تحریر نہ لکھی ہو ،چوں کہ سرسید علمی،دینی ،تاریخی ،ادبی،اخلاقی، اصلاحی،تعلیمی ،سماجی اور تہذیبی جیسے تمام میدانوں سے وابستہ تھے ا س لیے آپ کی خط و کتابت ہر طبقہ کے لوگوں سے ہوتی تھی اس وقت افہام و تفہیم ،سوالات و جوابات ،اعتراضات و جوابات ،مسائل اوران کے حل ،ضروریات اور اپنے منصوبوں کا خاکہ ، خیالات و آرا کے اظہار اور دو سروں کو اس سے واقف کرانے کے لیے خطوط و مکاتیب کا سہارا لیا جاتا تھا۔
سرسیدنے اپنے تعلیمی مشن اور منصوبوں کا اظہار لندن سے اپنے دوستوں کو خطوط لکھ کر کیا ہے ،تفسیر قرآن اور دیگر دینی مسائل میں علماء نے ان سے اختلافات کیے اور خطو ط کے ذریعہ سوالات و جوابا ت کا طویل سلسلہ جاری رہا تحریک علی گڑھ کے حامیین اور مخالفین سے بھی خط وکتابت ہوئی ان کے خطو ط تاریخی معلومات کا گنجینہ ہیں ،خواجہ احمد فاروقی نے اس سلسلہ میں اس طرح اظہار خیال کیا ہے’’ اگر ہمیں آدم نثر جدید بانئ مدرسۃ العلوم اور حام�ئ ملک و ملت یعنی سرسید اعظم کو اگر برافگند نقاب دیکھنا ہے توخطوطِ سرسید کا مطالعہ کرنا چاہیے ،وہاں انہوں نے اپنا دل ودماغ کھول کر رکھ دیا ہے ،یہ خطوط ان کے اخلاق و عادات، اعتقادات و نظریات اور عصری معلومات کا خزانہ اور گنجینہ ہیں ‘‘(مکتوبات اردو کا ادبی و تاریخی جائزہ ص:۲۵۴) خطوط سرسید کے ذریعہ مسلمانوں کی مذہبی ،معاشرتی حالت تحریک علی گڑھ مدرسۃ العلوم مسلمانان ہند ،تہذیب الاخلاق ،کالج کے حالات ،معاصرین سرسید اردو و ہندی نزاع ،جدید اردو شاعری،مسلمانوں کی سیاست اور تعلیم کی حالت ،قوم مسلم کی زبوں حالی و پستی اور ان کے تدارک کے ذرائع وغیرہ پر خاطرخوا ہ روشنی پڑتی ہے اور قیمتی تاریخی مواد حاصل ہوتا ہے ۔
سرسید کو پیرائے سے زیادہ مطلب کی فکر تھی اور اسلوب سے زیادہ مضمون کی جستجو تھی سرسید کے خطوط مرحوم کی تمام زندگی اور ان کی علمی وعملی جدو جہد کی آئینہ دار ہیں ،سرسید کے خطوط بڑی حد تک سپاٹ ہیں ؛لیکن خلوص اور سچائی نے بے جان لفظوں میں جان ڈال دی ہے ۔ان کے خطوط میں تاثیر و دل نشینی، سادگی اور بے ساختگی ہے ۔
مکاتیب سرسید میں حواشی و تعلیقات کی ضرورت 
سرسید احمد خاں اردو زبان وادب کی قد آور شخصیت ہیں ان کی شہرت و عظمت کئی وجوہ سے ہے ،وہ صرف عظیم مصلح اور مفکر ہی نہیں ،بلکہ علی گڑھ تحریک کے بانی اور جدید اردو نثر کے موجد بھی ہیں اور ساتھ ساتھ انہوں نے سادہ اور سلیس نثر کو اپنی تحریرکے ذریعہ فروغ بھی دیا ہے ان کے نثری ذخیرے میں خطبات،مقالات و مضامین تقاریر و بیانات اور مکاتیب ہیں مؤخر الذکریعنی سرسید کے مکاتیب بے توجہی کے سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں ۔
ان کی نثری تحریروں کے مختلف مجموعے متعدد بار شائع ہوچکے ہیں اور اب ان کا شاید ہی کوئی مضمون ،مقالہ یا بیان ایسا ہو جو کسی نہ کسی مجموعے میں شامل ہونے سے رہ گیا ہو،البتہ ان کے مضامین ،مقالات اور دیگر اصناف کو جس طرح لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کی تحقیق و تدقیق پر گہرائی سے توجہ دی اس طر ح کا معاملہ ان کے مکاتیب اور خطوط کے ساتھ نہیں ہوسکا ۔
سرسید کے مکاتیب کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مشرقی اور مغربی ادب کے غائر مطالعہ اور بین الاقومی سطح پر رونما ہونے والی علمی وادبی اور سیاسی تحریکوں پر گہری نظر رکھنے کی بناپران کے مکاتیب میں گہرائی کے ساتھ ساتھ رمز و ایما کی شان بھی پیدا ہوگئی ہے ،اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے اردو ادب کے دامن میں وسعت پیدا ہوگئی ۔لیکن عام قاری کے لیے اس سے استفادہ مشکل ہو گیا ہے ۔اس لیے موجودہ حالات کے تقاضے اور ضرورت کے پیش نظر مکاتیب سرسید کے حواشی و تعلیقات پر کام کرنے کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے ۔
مکاتیب سرسید میں انگریزی اوردیگر زبانوں کے ادیبوں اور ان کی تخلیقات کا باربار ذکر آیا ہے مشرقی زبانوں کے قدیم اور جدید ادب پر بھی ان کو دسترس حاصل ہے اس کے ساتھ ساتھ مذہب،تصوف ،فلسفہ اور دیگر علوم کی اصطلاحات بھی ان کے مکاتیب میں بکثرت استعمال ہوئی ہیں ایک ایسی ہمہ جہت ادبی شخصیت کے مکاتیب سے کماحقہ استفادہ کے لیے ضروری ہے کہ ان میں موجود شخصیات ،مقامات ،تاریخی ،سیاسی ،ادبی اور مذہبی کتب ،تاریخی اور سیاسی واقعات ،تنقیدی اشارے ،تلمیحات ،اساطیر اور اصطلاحات وغیرہ کی اس طرح تفہیم کی جائے کہ عام قاری اس سے مستفید ہو سکے ،اس علمی تشنگی کو محسوس کرتے ہوئے ضروری ہے کہ مکاتیب سرسید کے حواشی اور تعلیقات لکھے جائیں تاکہ اس ہمہ جہت شخصیت کی مکاتیب کے حوالے سے صحیح تصویرسامنے آسکے ۔ 
اگر ہم سرسید احمد خاں کے مکاتیب کے مجموعوں کا جائزہ لیتے ہیں تو مندرجہ ذیل مجموعے سامنے آتے ہیں (۱) رسالہ تحریر فی اصول التفسیر ، ۱۸۹۲ ء مطبع مفید عام آگرہ ،(۲) مکاتیب الخلان فی اصول التفسیر و علوم القرآن مرتب محمد عثمان مطبع محمدی علی گڑھ ۱۹۲۵ ء (۳) خطوط سرسید مرتب سر راس مسعود نظامی پریس بدایوں ،۱۹۲۴ء (۴)انتخاب خطوط سرسید ، شیخ عطاء اللہ قومی کتب خانہ لاہور ۱۹۵۸ء (۵) مکتوبات سرسید شیخ اسماعیل پانی پتی مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۵۸ء (۶) مکاتیب سرسید احمد خاں مرتب مشتاق حسین یونین پرنٹنگ پریس دہلی ۔
ان مجموعوں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان پر حواشی و تعلیقات کا اضافہ انتہائی ناگزیر ہے ،اس لیے کہ سرسید احمد خاں کے مکاتیب جو ان مجموعوں میں شامل ہیں ان کی تعداد تقریبا ایک ہزار ہے اور کوئی خط ایسا نہیں جن میں چند اصطلاحات ،مشکل الفاظ،تاریخی مقامات اور متعدد شخصیات کا ذکر نہ ہوں ان کو سمجھنے کے لیے حواشی و تعلیقات ضروری ہیں۔جس زمانہ میں سرسید احمد خاں نے یہ مکاتیب لکھے اس وقت زبان وبیان اور محاورات و اصطلاحات کچھ اور رائج تھے اور آج کچھ اور ہے نیز بہت سارے الفاظ و محاورات آج متروک ہو چکے ہیں اس کے سواسرسید احمد خاں مذہبی اصطلاحات جیسے زندقہ،الحاد،وہابیت ،تقلید ،قرآنی آیات،عربی وفارسی عبارات کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں اور چند خطوط اسماعیل پانی پتی کے مرتب کردہ نسخہ میں خالص فارسی زبان میں ہیں اردو کے طالب علم کے لیے حواشی اور ترجمہ کے بغیر ان خطوط سے خاطر خواہ استفادہ آسان نہیں ہے ۔
اردو کے بہت سے ایسے الفاظ جن کا چلن اس زمانہ میں عام تھا مگر آج ان کا استعمال یا تو متروک ہو چکا ہے یا خواص کے طبقہ میں سے چند لوگوں میں سمٹ کر رہ گیا ہے جیسے معاودت،استرکار،مشاہرہ ،شصت سالہ ،قیصر ہندوغیرہ ،حاشا اور کلاکا لفظ شبلی کولکھے گئے ایک خط میں استعمال کیاہے یہ عربی زبان کے اصطلاحی الفاظ ہیں جو قسم کے لیے استعمال ہوتے ہیں جب تک اس کی وضاحت نہ کی جائے اردو کا طالب علم سمجھنے سے قاصر رہے گا ،اس کو مزید ایک اقتباس سے سمجھا جا سکتا جو انہوں نے محسن الملک کو لکھے گئے ایک خط میں تحریر کیا ہے’’اگرچہ میں نے چاہا تھا کہ جو کچھ اس باب میں میری تحریر کی نسبت لوگوں نے لکھا ہے ،اور جوغلط فہمیاں میری تحریر کی نسبت کی ہیں یا جو مسامحہ کسی تحریرمیں خود مجھ سے ہواہے اور جو غلط استدلال توریت مقدس سے اس معاملہ میں لوگوں نے کیا ہے اس سب کو بالتفصیل لکھتا مگر جیسا کہ ابھی میں نے التماس کیا ،صرف اسی بات کے بیان کرنے پراکتفا کرتا ہوں کہ آیت مذکورہ حرمت طیور منخنقہ کو شامل نہیں ہے پس اس کو منصوص کہنا صحیح نہیں البتہ قیاسی غیر منصوص العلۃ ہونا ممکن ہے فمن یشاء یسلمہ و من یشاء لا یسلمہ عیسائی مذہب کے بموجب جیسا کے ان کے رہبان اور قسیس قبل نزول قرآن مجید سے سمجھتے آتے تھے طیور منخنقۃ حرام نہیں ہیں اور اس کے دلائل عیسائی مذہب کی کتب دینیہ میں مندرج ہیں پس جبکہ عیسائی وہ فعل مطابق اپنے مذہب کے کرتے ہیں تو بہ استدلال و طعام الذین او تو الکتاب حل لکم ہمارے لیے حلال ہے ‘‘ (مکاتیب سرسید احمد خاں ص: ۲۹۸ مرتب مشتاق حسین ) ۔اس اقتباس کو پڑھ کر ہی مکاتیب سرسیدپر حواشی و تعلیقات کی اہمیت اور ضرورت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ اس خط میں متعدد مشکل الفاظ کے علاوہ چند قرآنی آیات ،احادیث کے الفاظ اور فقہی اصطلاحات شامل ہیں جن کو ہر اردو کا طالب علم نہیں سمجھ سکتااس لیے مکاتیب سرسید میں حواشی و تعلیقات کااضافہ ناگزیر ہے ۔
اسی طرح مولوی سید ممتاز علی کے نام لکھے گئے ایک خط میں سرسید نے تہذیب الاخلاق کے بند ہونے کا ذکر کیا ہے حالاں کہ تہذیب الاخلاق سرسید کے مقصد و مشن کا سب سے مؤثر اور اہم ہتھیارتھا اسی کے ذریعہ سرسید نے اپنا پیغام عام لوگوں تک پہنچایا اور مسلمانوں کو تعلیمی ،ادبی ،سماجی اور تہذیبی سطح پر بیدار کیا آخر کیا اسباب و علل تھے کہ جس کی بنا پر سرسید کو تہذیب الاخلاق بند کرنا پڑا،اس خط میں تہذیب الاخلاق کے صرف بند ہونے کا ذکر ہے جب تک محشی اسباب و علل اور وجوہات نہیں لکھے گا کیوں بند ہوا تب تک قاری کی تشنگی باقی رہے گی۔’’حقیقت میں تہذیب الاخلاق بند ہونا نامناسب تھا گویا تحریر ،مضامین اور خیالات سب بند ہو گئے تھے ،اس کے سبب برا یا بھلا تحریر کا لگا ہے لگارہے گا،بعض بعض مضمون قابل پڑھنے کے تحریر ہوئے ہیں ،بعض صرف معمولی ہیں ،بہر حال ایک امر جاری رہنے سے امید ہے کہ کوئی عمدہ مضمون بھی آجائے گا ‘‘(مکاتیب سرسید احمد خاں ص:۱۳۹ مرتب مشتاق حسین )۔
خلاصہ 
موجودہ وقت میں حواشی و تعلیقات کی اہمیت کہیں زیادہ ہو گئی ہے ،کیوں کہ ہم کسی مصنف اور ادیب کی کتابوں کا 
مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس میں مصنف کے معاصرین کا ذکرملتا ہے ،نیز اس زمانہ میں مستعمل اشیا ،مقامات،املاک کے نام ملتے ہیں جو بعد میں حوادث زمانہ کا شکار ہو کر نامعلوم ہو جاتی ہیں اسی طرح اس زمانہ کے الفاظ و محاورات بھی آج کے لیے ناقابل فہم ہیں تاریخی نقط�ۂ نظر سے ان کی تفصیل و معلومات کو حاصل کرکے حواشی و تعلیقات میں جمع کرنے سے ہم تاریخی ،فنی اور معروضی اعتبار سے مضبوط و مالامال ہو جاتے ہیں ،آج جب ہم مکاتیب سرسید کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں موجود اسماء ،اماکن ،کتب و حوادث کی از سر نو تفہیم کی ضرورت پڑتی ہے ؛کیوں کہ فی زمانہ وہ تمام چیزیں قصۂ پارینہ ہیں جس کی عدم تفہیم ہمیں سرسید کی مطالب و احداف کی شناخت سے دور رکھ سکتی ہے ،ا س لیے اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہم مذکورہ چیزوں کو حواشی اور تعلیقات کے ذیل لاکر استفادۂ عام کا فریضہ انجام دے سکیں۔ 

You may also like

1 comment

محمد عمرفاروق 30 نومبر, 2020 - 17:19

السلام علیکم محترم ۔۔۔مزاج گرامی۔۔محترم حواشی پر مقالات مل سکتے ہین ۔۔محمد عمرفاروق

Leave a Comment