تازہ ترین سلسلہ(27)
فضیل احمد ناصری
تھکتے ہیں، مگر پھر بھی اٹھاتے ہیں قدم اور
کہتے ہیں کہ اس راہ میں ہے لـذتِ رم اور
مت یاد دلا مشرقِ وسطی کے فسانے
اے دوست! فزوں ہوتا ہے احساسِ الم اور
یہ راز کھلا مجھ پہ سدیسی کے بیاں سے
اپنا ہے حرم اور، سعودی کا حرم اور
افعیٰ سے تصوف کی توقع ہے حماقت
طاغوت سے یاری ہو تو برساے ہے بم اور
ہم دولت و منصب، زن و شہرت کے گرفتار
کفــــــــــار بدلتے ہیں مگر رنگِ ستم اور
اســــــــــــــلام ہے، بازیچۂ اطفال نہیں ہے
اس کوچۂ محبوب میں سر ہوں گے قلم اور
دیکھوں ہوں جو شاہین کو کرگس کی صفوں میں
آنکھیں مری ہو جاتی ہیں اے دوستو! نم اور
وہ بت کے پرستار، تو ہم نفس کے بیمار
ان کے ہیں صنم اور، ہمارے ہیں صنم اور
اس عہد میں ہر چیز کا مفہوم ہے الٹا
اس دور میں ہے ترجمۂ چشمِ کرم اور